اسلام آباد – فرزانہ مجید بلوچ کے سوالات، میڈیا بے نقاب، ایک اور زینب نے تاریخ رقم کردی

وائس فار بلوچ مسنگ پرسن کا قافلہ جب نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے دروازے پر پہنچا تو ان کے لیے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے دروازے نہیں کھولے گئے

پرس کلب کی انتظامیہ نے بتایا کہ ان کو پریس کلب کے اندر پریس کانفرنس کی اجازت نہیں ہے

اس پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے لانگ مارچ کے شرکاء پریس کلب کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھ گئے

اس موقعہ پر اسلام آباد میں پاکستانی میڈیا کی نمائندگی کرنے والے رپورٹرز ان شرکا ء کے سامنے پہنچے اور اکثر رپورٹرز نے مارچ کے شرکآء کا میڈیا ٹرائل کرنے کی کوشش کی

ان سے پوچھنے لگے کہ حیربیار مری جینیوا میں اقوام متحدہ کے سامنے بلوچستان کا کیس لیکر کیوں گیا؟

بی ایل اے سے ان کا رشتہ کیا ہ؟

گریٹر بلوچستان کے نقشے کے بارے میں سوال کئے گئے

کہا گیا کہ پارلیمنٹ کیوں نہیں جاتے یو این او کیوں جارہے ہو

اس پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جنرل سیکرٹری فرزانہ مجید کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا

فرزانہ مجید نے اس موقعہ پر جو گفتگو کی اس سے دربار شام،بازار شام،بازار کوفہ میں بے چادر  ام المصائب بی بی زینب سلام اللہ علیھا کے خطبات کی یاد پھر سے تازہ ہوگئی

لگتا تھا کہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد کی عمارت دربار یزید لعین میں بدل گئی ہے اور مائیک ہاتھ میں پکڑے یزید کے درباری ایک اور زینب جو فرزانہ بلوچ کے روپ میں ایک معصوم بچے کے ساتھ بیٹھی ہوئی طعن و تشنیع کے تیر چلتے دیکھ کر بے تاب ہوئی ہے اور کہنے لگی ہے کہ

میں فرزانہ مجید بلوچ ہوں(بی بی زینب نے بھی دربار والوں کو بتایا تھا کہ وہ کون ہیں زینب بنت علی ابن ابی طالب و فاطمۃ الزھرا بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)بلوچستان کے شہر مستونگ سے تعلق رکھتی ہوں

میرا بھائی زاکر مجید بلوچ 8 جون 2009ء کو مستونگ کے علاقے سے آئی ایس آئی والوں نے اٹھا لیا اور میں 9 جون 2014سے اپنے بھائی کی بازیابی کے لیے احتجاج کررہی ہوں

میں نے مستونگ پریس کلب،کوئٹہ پریس کلب،کراچی پریس کلب،اسلام آباد پریس کلب،پارلیمنٹ کے سامنے دھرنے دئے،احتجاج کئے،پریس کانفرنسز کیں

ہائی کورٹ،سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دی،اسلام تین مرتبہ سپریم کورٹ کی لاپتہ افراد کے کیس کی سماعت پر آئی،کوئٹہ رجسٹری کے سماعتوں پر حاضری دی

5-سال میں ہم نے پہلے آصف علی زرداری،یوسف رضا گیلانی ،راجہ پرویز اشرف،جنرل کیانی ڈی جی آئی ایس آئی شجاع پاشا،پھر میاں نواز شریف،وزیر دفاع خواجہ آصف سب کو کہا کہ میرے بھائی کو بآزیاب کرائیں

بلوچستان میں جو مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں ان کے زمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لیکر ائیں

لیکن کسی نے ہماری نہیں سنیں،ہم پر بندوقیں تانیں گئیں ،ہمیں غدار کہا گیا،ہمارا میڈیا میں ٹرائل ہوا

آج آپ ہم سے پوچھتے ہیں کہ یو این او کیوں جارہے ہیں؟

پانچ سال پہلے فرازانہ مجید کو کسی نے سنا تھا تھا یا سڑکوں پر ایسے نکلتے دیکھا تھا

اوہ سوال کرنے والی نوجوان صحافی خاتون

تیری عمر کی میری درجنوں بلوچ بہنیں بیوہ ہوگئیں ہیں ان کے معصوم بچے جنہوں نے اپنے باپ کو دیکھا بھی نہیں پہلے باپ کو دیکھنے کو ترسے اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں آئیں تو راتوں کو ڈرکر اٹھ جاتے ہیں

یہ بچہ (پاس بیٹھا ہوا بچہّ) آپ سے سوال کرتا ہے کہ اس کے باّپ کی کٹی پھٹی لاش کس جرم کا نتیجہ ہے؟

قدیر ماما اپنے بیٹے جلیل کی مسخ شدہ لاش کس لیے وصول کرے کوئ جرم بتاؤ ،کوئی عدالت لگی؟کوئی ثبوت عدالتوں میں پیش ہوئے

ہم کوئی پاگل لڑکیاں نہیں ہیں کہ سردیوں کی سرد راتوں میں یوں پیدل کوئٹہ سے چل کر یہاں آسلام آباد آگئی ہوں

یو این او اس لیے جارہی ہیں کہ پاکستان کی ریاست میں کسی نے ہمیں انصاف نہیں دیا تو اقوام متحدہ جاکر عالمی برادری سے کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی ریاست نے تو انصاف نہیں دیا اب تم دے ڈالو

حیربیار مری بارے سوال کرنے والو!کیا حیربیار مری کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ تم اس کے بلوچ بچوں کو مارو ،نسل کشی کرو اور وہ جنیوا جاکر یہ بھی نہ بتائے کہ

اے دنیا کے منصفو ! دیکھو پاکستان کی ریاست،اس کی فوج ،اس کی ایجنسیاں حقوق مانگنے والوں اور اپنی شناخت چاہنے والوں سے یہ سلوک کرتی ہیں

کوئی سپریم کورٹ ،کوئی حکومت وہاں غائب ہوجانے والوں کو برآمد نہیں کراسکتی اور وہاں سے مایوس ہوکر میں یہاں آیا ہوں

تم کہتے ہو یہ فوج محافظ ہے ؟میں پوچھتی ہوں کیا محافظ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی حفاظت پر مامور ہوں انھیں اٹھالیں ،قتل کردیں ،ٹارچر سیلوں میں اذیتیں دیں۔یہ محافظ نہیں قاتل ہیں

پانچ سال سے چیخ رہی ہوں،ہماری مائیں نفسیاتی مریض بن گئیں ہیں،نوجوان بہنوں کی بیوگی میں اضافہ ہورہا ہے کوئی سننے والا نہیں ہے

ہم سے سوال کرنے کی بجائے فوج،ایجنسیوں ،عدالتوں،پارلیمنٹ سے جو سوال ہم کرتے ہیں ان کے جواب مانگو نہ کہ ہم سے وہ سوال پوچھو جو ہم سے پوچھنے کا حق نہیں بنتا

فرزانہ بلوچ کے ان سوالات نے پاکستانی میڈیا کے اسٹبلشمنٹ کۓ دلالوں کو بیچ بازار میں ننگا کرڈالا ،ان کے پاس ان سوالات کے جواب نہیں تھے

آزادی صحافت کے نعرے مارنے والے نیشنل پری کلب کے صحافیوں کی آزادی اس وقت نہ جانے کہاں چلی گئی تھی جب 2400 کلومیٹر پیدل چل کر آنے والے قافلے کے لیے نیشنل پریس کلب کے دروازے بند کردئے گئے اور ان کو اپنی آواز اٹھاںے کی اجازت نہ ملی

فرزانہ بلوچ کی آواز نےمیڈیا مالکان،جعلی لبرلز کو بے نقاب کرڈالا

بلوچ قوم کے ساتھ جو سلوک پاکستان کی ریاست،عسکری اسٹبلشمنٹ،نام نہاد آزاد مین سٹریم میڈیا کررہا ہے وہ بہت شرمناک ہے اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے

تعمیر پاکستان ویب سائٹ بلوچ قوم کے حق میں آواز بلند کرتی رہے گی ،فرزانہ بلوچ جیسی بہنوں،بیٹیوں کی جدوجہد کو سرخ سلام

Comments

comments

Latest Comments
  1. Guddu
    -
  2. Iqbal
    -
    • dr.shabbeer rind
      -
  3. sultan Asani
    -
  4. Suleaman MenGal
    -
  5. Akmal Hussain
    -
    • adi
      -
  6. adi
    -
  7. farhan
    -
  8. zaibi Langove
    -