طالبان لیڈرملا برادرکی رہائی کا بدلہ: دیوبندی دہشت گردوں نے پشاور چرچ پر حملہ کر کے 70 مسیحی شہید کر دیے
Related post: Dialogue with Taliban? Deobandi militants of TTP-ASWJ massacre at least 70 Christians in Peshawar
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں کوہاٹی گیٹ کے قریب ایک چرچ پر دیوبندی دہشت گردوں کے خودکش حملے میں ستر افراد شہید اور ایک سو سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔
اس سے پہلے طالبان اور لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والے دیوبندی دہشت گرد مردان، اسلام آباد اور دوسرے شہروں میں مسیحی چرچوں پر حملے کر چکے ہیں
یاد رہے کہ نواز شریف حکومت نے حال ہی ہمیں طالبان کے چیف دہشت گرد ملا برادر کو رہا کیا ہے – عمران خان، نواز شریف اور منور حسن جیسے لوگوں نے پاکستانی ریاست کو طالبان اور لشکر جھنگوی کے ہاتھوں بیچ دیا ہے
پشاور کے ایس پی آپریشن نے بی بی سی کو بتایا کہ دو دیوبندی خودکش حملہ آوروں نے چرچ کے اندر مختلف مقامات پر اپنے آپ کو دھماکے سے اْڑایا۔ انھوں نے کہا کہ پولیس کو دو خودکش جیکٹ ملے ہیں اور مزید تحقیقات کے لیے خود کش حملہ آوروں کے اعضا جمع کیے گئے ہیں۔
ہمارے نامہ نگار عزیزاللہ خان کے مطابق بم دھماکا اتوار کی صبح پشاور کے اندرونِ شہر کوہاٹی گیٹ کے قریب واقع عیسائیوں کے چرچ میں ہوا۔ مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے چرچ کی انتظامی کمیٹی کے رکن ڈینئیل سمیول نے بتایا کہ فائرنگ کرتا ہوا پہلا دیوبندی حملہ آور چرچ میں داخل ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے دھماکے کے بعد ابھی سنبھل ہی پائے تھے کہ دوسرا دھماکہ ہو گیا۔ڈینئیل کے مطابق دیوبندی خودکش حملہ آوروں کی عمر سترہ، اٹھارہ سال تھی
جس علاقے میں یہ چرچ ہے وہاں پر شیعہ برادری بھی رہتی ہے جن کے ساتھ مسیحی براردی کے نہایت خوشگوار تعلقات ہیں لیکن دیوبندی تکفیری دہشت گرد تمام مذھب اور فرقوں کے دشمن ہیں
http://www.bbc.co.uk/urdu/multimedia/2013/09/130922_peshawar_church_attack_admin_iv_zz.shtml
عینی شاہدین کے مطابق چرچ میں عیسائی برادری کی کثیر تعداد جو چار سو پانچ کے درمیان بتائی جاتی ہے عبادت کے لیے چرچ میں موجود تھی کہ یہ دھماکا ہوا۔
ایس پی سٹی نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے میں ایک پولیس اہلکار بھی ہلاک ہوا ہے جو چرچ کے گیٹ پر ڈیوٹی دے رہا تھا جبکہ ایک دوسرا پولیس اہلکار شدید زخمی ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جائے وقوعہ پر لوگوں کے جمع ہونے سے تحقیقات میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق چرچ میں عیسائی برادری کی کثیر تعداد جو چار سو پانچ کے درمیان بتائی جاتی ہے عبادت کے لیے چرچ میں موجود تھی کہ یہ دھماکا ہوا۔
اتوار عیسائی براداری کے لیے عبات کا خصوصی دن ہوتا ہے اور اس مسیحی برادری کے افراد اپنے خاندان والوں کے ساتھا عبادت کے لیے چرچ جاتے ہیں۔
زخمیوں کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور منتقل کیا گیا ہے۔
پاکستان چرچ پشاور کے قدیم ترین گرجا گھروں میں سے ایک ہے اور اتوار کے روز بڑی تعداد میں مسیحی برادری عبادت کیلئے گرجا گھرآتی ہے
،کونسل برائے عالمی مذاہب کے مطابق تمام مشنری اسکول اورکالج 3 دن بند رہیں گے۔کمشنر پشاور صاحب زادہ انیس نے ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہو ئے کہا ہے کہ جاں بحق افراد میں 4 بچے اور 4 خواتین بھی شامل ہی
لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت امدادی کارروائیاں میں حصہ لیا جو کہ اب بھی جاری ہے۔
یاد رہے کہ طالبان اور لشکر جھنگوی المعروف سپاہ صحابہ سو فیصد دیوبندی جماعتیں ہیں جن میں ایک بھی سنی بریلوی، شیعہ یا احمدی شامل نہیں – پاکستانی فوج کا خفیہ ادارہ دیوبندی دہشت گردوں کو کشمیر اور افغانستان میں جہادی کاروائیوں کے لئے استعمال کرتا ہے اس لیے ان کے جرائم کی پردہ پوشی کی جاتی ہے
پاکستانی میڈیا اور بلاگز میں طالبان اور سپاہ صحابہ کی دیوبندی شناخت کو چھپایا جاتا ہے
اس پردہ پوشی میں فوجی ہمدرد اسلام پسند جیسا کہ انصار عباسی اور فوجی ہمدرد سیکولر پسند جیسا کہ نجم سیٹھی شامل ہیں
Comments
Tags: Christians, Church Attack, Peshawar
Latest Comments
اہل اقتدار کی خاموشی ہی اصل طالبانیت ہے
عامر احمد خان
دیوبندی جنونی ایک عرصے سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ ہماری اقلیتی برادریوں پر حملہ آور ہیں۔ کبھی ہمارے شیعہ کبھی احمدی اور کبھی مسیحی ان کا نشانہ بنتے ہیں۔ ان کے جنون، بیدردی اور دیدہ دلیری میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔
اور ہم ہیں کہ اس بحث میں پڑے ہیں کہ ان میں سے اچھے کون ہیں اور برے کون۔ نہ صرف یہ بلکہ ہم انھیں خوش کرنے کے لیے کبھی تو بچوں کو سکولوں میں جہاد پڑھانا شروع کر دیتے ہیں اور کبھی نصاب میں سے علم خارج کرنے میں لگ جاتے ہیں۔
اس دوران ہم ان جنونیوں کی بربریت پر بالکل خاموش رہتے ہیں۔ اگر ان کی کارروائیوں کی مذمت بھی کرتے ہیں تو ان کا نام لیے بغیر۔
ہمارے اہل اقتدار کی یہ خاموشی ہی اصل طالبانیت ہے۔ جنونی تو صرف بےگناہ لوگوں کو مارتے ہیں۔ لیکن یہ خاموشی اور اس میں گونجتا ہمارا ذہنی انتشار پاکستانی معاشرے کی روح کا دشمن ہے۔
کل کے تاریخ دان پاکستان کی تباہی کا ذمہ دار طالبان کو نہیں بلکہ ہماری قیادت کے دل و دماغ پر چڑھی اس پٹی کو ٹھہرائیں گے جس نے ان کے ساتھ ساتھ پورے معاشرے کو صُمٌّ بُكْمٌ کر دیا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/09/130922_peshawar_church_aamer_zz.shtml
اب کہ صبر شاید 5 برس کا انتظار نہ کرے
ہارون رشید
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
آخری وقت اشاعت: پير 23 ستمبر 2013 ,
پاکستان کی تاریخ میں مسیحیوں پر سب سے بڑے جان لیوا حملے نے تقریباً ہر کسی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
پشاور کے انتہائی غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ تو ویسے ہی روزانہ کی بنیاد پر مرتے جیتے تھے۔ اب مارنے والوں نے ان کا آدھا کام آسان کر دیا کہ انہیں دوبارہ جینا نہیں پڑے گا۔
شدت پسندوں نے جس آل سینٹس چرچ کے سفید درودیوار کو لہولہان کیا وہ ایک سو تینتیس سال سے اس شہر کے قدیمی حصے میں کھڑا ہے۔
یہ چرچ ایک معتدل سوچ، کھلے دل و دماغ والے شہریوں اور ایک پرامن شہر کی مثال تھا۔ وہ شہر جہاں ہندو، سکھ، عیسائی بغیر کسی خوف کے صدیوں سے مسلمانوں کے ساتھ بسے ہوئے تھے۔
اس چرچ کے بغل میں ایڈورڈز ہائی سکول وہ مشنری مکتب ہے جہاں میں نے بچپن اور سکول کے دس سال بِیتائے۔ روزانہ اس چرچ کے آگے میدان میں صبح سکول لگنے سے قبل کھیلا کرتے تھے مگر نہ کبھی اس گرجا گھر میں جانے کا موقع ملا نہ کبھی ضرورت محسوس کی۔
اس ایک دہائی کے دوران کبھی یاد نہیں آتا کہ اس چرچ کی جانب کسی نے میلی آنکھ اٹھا کر دیکھا ہو۔ انیس سو بانوے میں اس علاقے میں مذہبی بنیاد پر ایک مرتبہ کشیدگی کرفیو کا سبب بنی لیکن وہ شیعہ سنی جھگڑا تھا عیسائی مسلم لڑائی نہیں۔ لیکن اب اس عبادت گاہ کو ہی خون سے میلا کر دیا گیا۔
عسکریت پسندی کا شکار صوبہ خیبر پختونخوا میں یہ اس نوعیت کا دوسرا حملہ ہے۔ ایک برس قبل مردان میں ایک چرچ نذر آتش کیا گیا تھا
عمران خان شدت پسندوں کی جانب قدرے مبہم سا یا ان کی جانب جھکتا ہوا موقف اختیار کرکے شاید اپنی جماعت کو تو طالبان کے قہر سے بچا لیں لیکن کیا وہ اس صوبے کے عوام کو بچا پائیں گے۔ یہی ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اس کا احساس انہیں ہے یا نہیں اس بارے میں اکثر لوگ ابہام کا شکار ہیں۔
ان کا موقف کہ یہ حملہ ان لوگوں کا کام ہے جو مذاکرات نہیں چاہتے، زیادہ وزن نہیں رکھتا۔ یہ اسی طرح کا گھسا پٹا روایتی بیان ہے جس میں ’بیرونی ہاتھ‘ کو ہر کارروائی کی وجہ قرار دیا جاتا رہا ہے۔ وہ ہاتھ آج تک کسی نہیں دیکھا لہذا مذاکرات مخالف قوتیں بھی شاید کبھی سامنے نہ آسکیں۔
عمران خان نے ایک بیان میں اس حملے کو شرمناک قرار دیا ہے۔ انہیں امید ہے کہ اگر سپریم کورٹ انہیں اس لفظ کے استعمال پر چھوڑ سکتی ہے تو شاید شدت پسند بھی اس کا زیادہ برا نہیں منائیں گے۔
پاکستان میں جاری شدت پسندی کے گزشتہ بارہ سالوں میں نہ تو امن مذاکرات سے کچھ افاقہ ہوا اور نہ ہی فوجی کارروائیوں سے اور کسی دائمی حل تک اپنی بیٹی کھو دینے والے ریاض مسیح کو شک ہی رہے گا کہ وہ اس مملکت خداداد کے برابر کے شہری ہیں یا نہیں
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/09/130923_peshawar_attack_haroon_zs.shtml
ہسپتال کے اندر خون تھا تو باہر صرف اشتعال
رفعت اللہ اورکزئی
زخمیوں کو جس وقت لایا جارہا تھا اس وقت تک ایمرجنسی گیٹ کے سامنے عیسائی براداری سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں نوجوان ہجوم کی شکل میں جمع ہوگئے تھے۔
یہ افراد انتہائی غصے کی حالت میں تھے اور پھر جب پشاور پولیس کے سربراہ محمد علی بابا خیل پولیس اہلکاروں سمیت ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوئے تو وہاں موجود افراد اچانک مشتعل ہوگئے اور انہوں پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کر دیا۔
پولیس سربراہ اور دیگر اہلکار اس پتھراؤ سے تو محفوظ رہے لیکن لوگوں کے تیور دیکھ کر وہ وہاں سے فوری طور پر نکل گئے۔
اس دوران مشتعل ہجوم نے ایمرجنسی وارڈ میں توڑپھوڑ بھی کی اور دروازوں اور کھڑکیوں کے شیشوں کو توڑ ڈالا۔ اس ساری کارروائی کے دوران وہاں پولیس اہلکار اور ہسپتال کا عملہ بھی موجود تھا لیکن لوگوں کے غصے کو دیکھ کر کوئی ہجوم کو روکنے کے لیے سامنے نہیں آیا۔
مشتعل افراد مسلسل عمران خان ، وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے خلاف زبردست نعرہ بازی کرتے رہے۔ انہوں نے سخت غصے کی حالت میں عمران خان، نواز شریف اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کےلیے نازیبا الفاظ کا استعمال بھی کیا ۔
خاتون رکن صوبائی اسمبلی نگہت اورکزئی بھی اس احتجاج میں پیش پیش رہیں اور ایمرجنسی وارڈ کی سیڑھیوں پر بیٹھے عیسائی نوجوانوں کے ساتھ ’عمران خان مردہ باد‘ کے نعرے لگاتی رہیں۔
وارڈ کے اندر داخل ہونے کا موقع ملا تو ہر طرف زخمی بیڈ اور سٹریچروں پر پڑے ہوئے تھے اور وارڈ کے فرش پر بھی ہر طرف خون ہی خون بکھرا ہوا تھا۔
تقریباً تین گھنٹے تک ہسپتال میں میری موجودگی کے دوران عوامی نیشنل پارٹی ، پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنما تو وہاں آئے تاہم اس دوران پاکستان تحریک انصاف کا کوئی وزیر یا پارٹی عہدیدار دیکھنے میں نہیں آیا۔
موقع پر موجود عیسائی نوجوان اس بات پر بھی غصے میں تھے کہ نہ تو گرجا گھر کو حکومت کی طرف سے کوئی خاص سکیورٹی فراہم کی گئی تھی اور نہ اب حکومتی اہلکار ان سے ہمدردی کے لیے ہسپتال آ رہے ہیں۔
تاہم جب حالات کچھ بہتر ہوئے تب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان دیگر وزراء اور رہنماؤں کے ہمراہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال آئے اور زخمیوں کی عیادت کی۔
عمران خان کی آمد بھی مشتعل عیسائیوں کے دکھ میں کمی نہ لا سکی اور کچھ رہنما یہ بات بھی کرتے سنائے دیے کہ عمران خان دہشتگردوں سے مذاکرات کی بجائے ان کے خلاف کارروائی کی حمایت کرتے تو شاید انہیں آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/09/130922_peshawar_hospital_scene_zs.shtml
عمران خان شدت پسندوں کی جانب قدرے مبہم سا یا ان کی جانب جھکتا ہوا موقف اختیار کرکے شاید اپنی جماعت کو تو طالبان کے قہر سے بچا لیں لیکن کیا وہ اس صوبے کے عوام کو بچا پائیں گے۔ یہی ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اس کا احساس انہیں ہے یا نہیں اس بارے میں اکثر لوگ ابہام کا شکار ہیں۔
ان کا موقف کہ یہ حملہ ان لوگوں کا کام ہے جو مذاکرات نہیں چاہتے، زیادہ وزن نہیں رکھتا۔ یہ اسی طرح کا گھسا پٹا روایتی بیان ہے جس میں ’بیرونی ہاتھ‘ کو ہر کارروائی کی وجہ قرار دیا جاتا رہا ہے۔ وہ ہاتھ آج تک کسی نہیں دیکھا لہذا مذاکرات مخالف قوتیں بھی شاید کبھی سامنے نہ آسکیں۔
عمران خان نے ایک بیان میں اس حملے کو شرمناک قرار دیا ہے۔ انہیں امید ہے کہ اگر سپریم کورٹ انہیں اس لفظ کے استعمال پر چھوڑ سکتی ہے تو شاید شدت پسند بھی اس کا زیادہ برا نہیں منائیں گے۔
پاکستان میں جاری شدت پسندی کے گزشتہ بارہ سالوں میں نہ تو امن مذاکرات سے کچھ افاقہ ہوا اور نہ ہی فوجی کارروائیوں سے اور کسی دائمی حل تک اپنی بیٹی کھو دینے والے ریاض مسیح کو شک ہی رہے گا کہ وہ اس مملکت خداداد کے برابر کے شہری ہیں یا نہیں
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/09/130923_peshawar_att
. تین دن میں دشتگردوں نے شیعہ، سنی اور آج مسیحی برادری پر دھماکہ کردیا. اور ہم دشتگردوں سے جنگ کے بجاۓ ان کے پیر پکڑ کر مذاکرات کی بات کررہے ہیں – See more at: https://lubp.net/archives/283999#sthash.fNdG7X3Z.dpuf
ہم نواز شریف، عمران خان، منور حسن، فضل الرحمان سمیت ہر اس یزیدی کی مذمت کرتے ہیں جو طالبان اور لشکر جھنگوی کے وحشی درندوں سے مذاکرات کی آڑ میں سنی بریلویوں، شیعوں، احمدیوں اور مسیحیوں کے قتل عام میں تکفیری دہشت گردوں کی مدد کر رہا ہے – آج غمزدہ مسیحی نو جوانوں نے عمران خان کی ہسپتال آمد پر عمران کتا کہ کر اس طالبان پرست سیاستدان کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کیا
https://audioboo.fm/boos/1615109-angry-reception-for-imran-khan-after-church-bombing
ایسے ہی جذبات پاکستان کے تمام مظلوم عوام میں نواز شریف، حمید گل، نجم سیٹھی، انصار عباسی، حامد میر اور آستین کے دیگر سانپوں کے خلاف پاے جاتے ہیں آج پورا پاکستان دیوبندی دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف سراپا احتجاج ہے https://lubp.net/archives/283999
چلو، چلو کرسچین قبرستان چلو
محمود جان بابر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
آخری وقت اشاعت: پير 23 ستمبر 2013 ,
پشاور میں اندرون شہرکا ایک علاقہ آسیہ (ایشیا سے منسوب) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہے تو یہ معمول کی ایک عام سی شہری آبادی اور شاید اس کے اپنے رہنے والوں کو بھی اندازہ نہ ہوکہ یہاں غیر معمولی بات کیا ہے لیکن اتوار کی صبح جب یہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر آل سینٹس چرچ میں خودکش حملے میں درجنوں افراد لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے تو اس وقت آسیہ کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔
وہ بھی یوں کہ یہاں قائم عیسائی بستی میں یہ خبر پہنچی کہ اتوار کی سروس کے لیے متاثرہ چرچ میں جانے والوں میں سے بہت سے یا تو ہلاک ہوگئے ہیں یا زخمی ہیں۔ بس پھر کیا تھا ہر طرف کہرام مچ گیا اور عیسائی تھے یا مسلمان سب اس چرچ کی جانب دوڑ پڑے جو یہاں سے کچھ فاصلے پر کوہاٹی گیٹ میں واقع ہے۔
اس علاقے کے لوگ کوہاٹی گیٹ معمول میں آتے جاتے ہیں کیونکہ یہ وہ علاقہ ہے جہاں پر پوری دنیا سے استعمال شدہ جوتے، کپڑے،گھروں کے پردے اور پتا نہیں کیا کیا سستے داموں مل جاتا ہے۔
آسیہ گیٹ بھی پشاور کے فصیل بند شہر کے ان آٹھ دروازوں میں سے ایک تھا جنہیں جب ہماری پیدائش سے بہت پہلے سرشام بند کر دیا جاتا تو شہر ان دروازوں کے بیچ محفوظ ہو جاتا تھا۔ اس علاقے کی غیر معمولی بات یہاں پر قائم مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھوں کی آبادیاں ہیں جن میں کہیں کہیں ہندو بھی ملتے ہیں۔
کالو محلہ کے نام سے مشہور عیسائیوں کا محلہ، محلہ جوگن شاہ کے نام سے جانا جانے والا سکھ گڑھ جہاں سکھوں کے مقدس ترین گوردواروں میں سے ایک بھائی جوگا سنگھ کا گوردوارہ واقع ہے اور ارد گرد کے محلوں میں صدیوں سے ان کے ساتھ رہنے والے مسلمان اس علاقے کی وہ حقیقت ہے جو آج بھی تقسیم ہند سے پہلے کی یاد دلاتی ہے۔
اتوار کو کالو محلے کے دو گھروں میں متاثرہ چرچ سے آٹھ لاشیں لائی گئیں۔ ان میں سے ایک مکان میرے ہم جماعت پپو کا ہے جس کے گھر کے چھ لوگ مرنے والوں میں شامل تھے۔
پپو دھاڑیں مار کر رو رہا تھا اور جب پاکستانی میڈیا کے ایک بڑا چینل یہ ’خودکش حملہ‘ کر رہا تھا کہ ’شہرکی صفائی کرنے والوں کا دہشت گردوں نے صفایا کر دیا‘ اس وقت کالو محلے کے پپو کے گرد مسلمان دوستوں کی ایک بڑی تعداد اکٹھی ہو چکی تھی جو چپکے چپکے اپنی جیبوں میں موجود رقوم میں سے کچھ گن کر جمع کر رہے تھے۔
شدت پسندوں کے اقدامات کا جواب
جس نے بھی دہشتگردی کا یہ منصوبہ بنایا تھا وہ ان لاشوں کو دیکھ کر خوش ہونے کی بجائے کرسچین قبرستان میں گرنے والے مسلمان جوانوں کا پسینہ دیکھے اور شاید یہی ان شدت پسندوں کے اقدامات کا جواب بھی ہے۔
اور پھر منٹوں میں جمع ہونے والے یہ ہزاروں روپے انہوں نے لواحقین کو تھمائے اور خود بیلچے اٹھا کر وزیر باغ کے قریب واقع کرسچین قبرستان میں پہنچ گئے۔
ان افراد میں سے شامل عبدالروف سے بات ہوئی تو کہنے لگے سب لوگ ایسے افسردہ ہیں جیسے ان کے اپنے گھروں میں لوگ مرے ہوں اور مساجد میں اعلانات ہو رہے ہیں کہ کالو محلے میں مدد کرنے پہنچو اور جو جوان ہیں وہ پہنچیں قبرستان تاکہ قبریں کھودی جا سکیں۔
یہ سارے مقامی لوگ اور جوان دھماکہ ہونے سے لے کر رات گئے تدفین تک لواحقین کے ہمراہ موجود رہے اور میتیں دفنا کر ہی اپنے گھروں کو واپس ہوئے۔
یقیناً یہ سانحہ بڑا تھا جس نے اس قسم کے حادثوں کے عادی پاکستان کو ایک بار پھر ہلا کر رکھ دیا لیکن اس ساری تصویرکے ایک کونے میں ایک رنگ اور بھی تھا جو یہ ظاہر کر رہا تھا کہ دہشت کا منصوبہ بنانا اور اس کو عملی جامہ پہنانا توشاید آسان ہے لیکن اس عمل کے بدنما رنگوں پر حاوی ایک رنگ اور بھی ہے جو انسانیت کا رنگ ہے اور جو اب معدوم سہی لیکن پایا ضرور جاتا ہے۔
اس رنگ کو برقرار رکھنے والے آسیہ گیٹ کا پپو، عبدالرؤف، صاحب سنگھ اور ہارون سرب دیال ہیں۔ اور شاید یہی وہ لوگ ہیں جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ ابھی دلوں میں نفرتوں نے جڑ نہیں پکڑی اور اس قسم کے حملے مقامی سطح پر تو مزید قربتوں کا باعث بنتے ہیں۔
جس نے بھی دہشتگردی کا یہ منصوبہ بنایا تھا وہ ان لاشوں کو دیکھ کر خوش ہونے کی بجائے کرسچین قبرستان میں گرنے والے مسلمان جوانوں کا پسینہ دیکھے جو شاید ان شدت پسندوں کے سوالوں کا جواب بھی ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/09/130922_muslim_christian_unity_zs.shtml
بی بی سی اردو کے نامہ نگار کے مطابق پشاور پولیس کا کہنا ہے کہ ان دھماکوں میں 80 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جب کہ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ موقع پر ہی دم توڑ دینے والے مزید آٹھ سے دس افراد کی لاشوں کو ہسپتال لایا ہی نہیں گیا۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے حکام کا کہنا ہے کہ ہسپتال میں کل 206 افراد لائے گئے جن میں سے 78 چل بسے جب کہ 56 کو ابتدائی طبی امداد کے بعد فارغ کر دیا گیا اور باقی زخمی ابھی ہسپتال میں ہیں جن میں سے دس کی حالت نازک ہے۔
بس ایک طوفان سا آیا اور دھماکہ ہوا
“گیارہ بجے جب چرچ ختم ہوا تو سارے لوگ معمول کے مطابق ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔ میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ چلتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ تھوڑا ٹھہرو۔۔۔اسی وقت بس ایک طوفان سا آیا، دھماکہ ہوا اور میں ادھر ہی گر گئی۔ اس کے بعد میرے شوہر نے آ کر مجھے اٹھایا۔”
سوشیلا مراد، عینی شاہد
حکام کے مطابق مرنے ولوں میں 34 خواتین اور سات بچے بھی شامل ہیں۔ نامہ نگار عزیز اللہ خان کے مطابق خود کش حملہ آوروں نے چرچ کے داخلی دروازے کے قریب جس مقام پر دھماکے کیے وہاں دیوار کے ساتھ بڑی تعداد میں خواتین اور بچے کھڑے تھے کیونکہ اس وقت وہاں کھانا تقسیم ہو رہا تھا۔
ان دھماکوں کے عینی شاہدین نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ دو خودکش حملہ آور چرچ کے بڑے دروازے سے داخل ہوئے تھے اور انہوں نے تقریباً دو منٹ کے وقفے سے اپنے آپ کو اڑایا۔ دونوں حملہ آوروں کے درمیان فاصلہ پانچ سے چھ فٹ تک تھا اور چرچ کے صحن میں اس کے واضح نشانات دیکھے جا سکتے ہیں۔
ادھر ہلاک شدگان کی تدفین کا عمل اتوار کی رات بھر جاری رہا اور شہر کے تین قبرستانوں وزیر باغ، گورا قبرستان اور شریف آباد قبرستان میں 80 افراد کو سپردِ خاک کر دیا گیا۔
یہ حملہ پاکستان کی تاریخ میں عیسائی برادری پر ہونے والے بدترین حملوں میں سے ایک ہے اور دھماکوں میں ہلاکتوں کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں مسیحیوں نے مظاہرے کیے ہیں
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/09/130923_peshawar_blast_toll_rise_zs.shtml