Sindhi Topi, Indus Valley Civilisation and Our Fast Track Intellectuals – by Qais Anwar

Related articles: LUBP Sindhi Topi Archive

سندھی ٹوپی؛ وادی سندھ اور فاسٹ ٹریک دانش ور

میں جکارتہ جانے کے لیے سماٹرا (انڈو نیشیا)کے شہر پاڈانگ کے اءیر پورٹ پر جہاز کا انتظار کر رہا ہوں ۔ میرے پاس سندھی ٹوپی نہیں لیکن ایک اجرک ہے جو میں نے اپنے شانوں پر ڈال رکھی ہے۔ ہاں میں بھی آج سندھی ٹوپی کا دن منا رہا ہوں ۔

اس چھوٹے سے شہر کے چھوٹے سے اءیر پورٹ پر کسی کو پراوہ نہیں کہ میں کیا پہنے ہوءے ہوں۔ یہ یہاں کا مزاج ہے۔ ہزاروں جزیروں اور سینکڑوں زبانوں والے اس ملک میں یگ یکارتہ جیسا شہر بھی ہے جہاں دنیا بھر سے سیاح ٹھپے سے ڈیزاءین کیے ہوءے باتیک کی تلاش میں آتے ہیں ۔وہیں جایا پورہ جیسا شہر بھی جہاں وہ لوگ بھی رہتے ہیں جو لباس کے نام پر صرف اپنے عضو تناسل پر ایک نلکی چڑھا لیتے ہیں ۔ اس تنوع کو یہ لوگ اپنی طاقت قرار دیتے ہیں۔

انڈونیشیا میں سال کا ایک دن باتیک کے قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے جب لوگ اپنے اپنے علاقے کا باتیک پہنتے ہیں ۔ میں جو بیرون ملک اکثر کرتا پاءیجامہ پہنتا ہوں مجھے ان لوگوں نے کبھی حیرانگی سے نہیں دیکھا ۔

اسی سال ایک تقریب میں صدر کا خطاب تھا ۔ دعوت نامے میں لکھا تھا کہ انڈونیشیا کا رسمی لبا س پہن کر آءیں ۔ اجلاس گاہ کے استقبالیہ پر بیٹھی خاتون نے میرے کرتے پاءیجامے کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تو میں نے کہا کہ یہ میرا رسمی لباس ہے اس نے فورآ رجسٹریشن فارم میری طرف بڑھا دیا اور مجھے میری نشست دکھا دی۔

۔ میں کرتا پاءیجامہ کیوں پہنتا ہوں یہ اپنی جگہ ایک سوال ہے۔ میں بہت ہی خالص پنجابی ہوں ۔ میرے اس خالص ہونے کے میرے پاس بہت سے ثبوت ہیں جس میں سب سے اہم وہ ثبوت ہے جوبہت پہلے ایک ادارے میں میری ایک اعلی طبقے کی ساتھی کارکن نے میرے ایک ماتحت کو یہ کہہ کر دیا تھا کہ تمہارا باس اتنا پنجابی ہےکہ انگریزی بھی پنجابی میں بولتا ہے۔اس تمام پنجابیت کے باوجود نجانے کیوں مجھ میں ہمت نہیں کہ میں اپنا پنجابی لباس تہمند پہن سکوں یا سر پر پگ رکھ سکوں ۔

بہت پہلے رنجیت سنگھ کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب پنجاب ایجوکیشن بورڈ بنا تھا تو لوگوں کو بتا یا گیا تھا کہ پشاور سے لے کر کرنال تک پھیلے ہوءے اس وقت کے پنجاب میں گاءوں گاءوں میں جو مدرسے اور دھرم شالاءیں ہیں وہ سکول نہیں ہیں یہ آغاز تھا اور پھر رفتہ رفتہ اس پورے پنجاب میں لکھی جانے والی زبانیں بولیوں میں تبدیل ہو گءی۔ وہ پگ جو میرے آبا و اجداد کا فخر تھی وہ انگریز نے اپنے دربان اور ہوٹل کے بیرے کو پہنا دی۔ میں اپنی قوم پرستی کے اظہار کے لیے عرصے تک شلوار قمیض پہنتا رہا اور اب کرتا پاءیجامہ پہنتا ہوں لیکن کرتا؛ دھوتی اور پگ۔۔۔۔ابھی بھی شاید پہننے کی ہمت نہیں ؟؟؟؟

ہاں وہ سارے لوگ مجھے بڑے بہادر لگتے ہیں جو اپنے روایتی لباس پر شرمندہ نہیں ہوتے ۔اپنے روایتی لباس اور اپنی زبان پر شرمندہ شاید میں اکیلا نہیں ہوں ۔ مجھے بہا و الدین زکریا یونیورسٹی میں اپنےسیشن کی وہ لڑکی ابھی تک یاد ہے جو ایک دن اپنے ایک ٹیچر کی براءی کرتے ہوءے کہہ رہی تھی کہ ملانہ صاحب اتنے بد تمیز ہیں کہ لڑکیوں کے ساتھ بھی پنجابی میں بات کرتے ہیں

۔پنجابی زبان کے ذکر پر مجھے وہ واقعہ بھی یاد آتا ہے جب ملایشیا کے شہر پنانگ میں مجھے ایک بوڑھے سکھ کے ساتھ پنجابی میں بات کرتے دیکھ کر میرے بیٹے نے مجھ سے پوچھا تھا یہ آدمی میرے دادا کی زبان کیسے جانتا ہے؟ مجھے اندازہ ہے کہ ہم میں بہت سے وہ ہیں جن کی شناخت چھننے کے بعد ان کا یہ احساس بھی کھو چکا ہے کہ ثقافت کی کوءی اہمیت ہوتی ہے۔

اسی احساس کے تحت ہی ہم نے کبھی بنگالیوں کو اپنی مرضی سے رہنے کا حق نہیں دیا تھا۔ مجھے یاد ہے کءی سال پہلے بنگلہ دیش کے علاقے کری گرام سے واپسی پر جب میں نے دوسری نسل کے ماوسٹ لال سے پوچھاتھا کہ اگر میں ڈھاکہ واپسی پر سنتوش جاءوں تو کتنا وقت لگے گا؟ سنتوش کیوں ؟ لال نے پوچھا بھاشانی صاحب کا جھونپڑا اور اس میں ٹنگی ہوءی ان کی دھوتی اور لنگی کو دیکھنے ۔ لال نے حیران سی نظروں سے میری طرف دیکھا پاکستان میں کہاں سے ہو؟ میں نے کہا پنجا ب سے۔ لال کو یقین نہیں آیا تھا کہ پنجابی اور بھاشانی کا جھونپڑا دیکھنے کے لیے اتنا سفر کرے گا ۔

ایسی ہی بے یقینی میرے دوست سراج داہر خان کے چہرے پر بھی آءی تھی جب میں نے اپنے ڈھاکہ کے پہلے قیام میں اس سے کہا تھا مجھے دھان منڈی میں شیخ مجیب کا گھر دیکھنا ہے۔ داہر جانتا تھا کہ میں پنجابی ہوں ۔ جب ہم شنکر سے دھان منڈی گءے تو اس نے اپنی بیوی اور بچوں کو بھی ساتھ لے لیا ۔ جب میں عجاءب گھر میں تبدیل کر دءے گءے شیخ مجیب کے گھر میں پھر رہا تھا تو داہر اور اس کے بیوی بچے میرے چہرے کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔اور پھر آخر میں داہر مجھے تاثرات کی کتاب کی طرف لے گیا ۔ مجھے اپنے دل کی بات قلم تک لانے میں صرف چند لمحے ہی لگے۔ داہر کو یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ تحریر ایک پاکستانی پنجابی کی ہے ’ میں ایک عام پاکستانی اپنے ہم وطن بنگالی بھاءیوں پر ہوءے مظالم پر شرمندہ ہوں اور ان سے معافی چاہتا ہوں’ مجھے یاد ہے داہر کی بیوی نے مجھ سے پوچھاتھا کتنے ہیں جو تمہاری طرح سوچتے ہیں ۔ میں اسے نہیں بتا پایا کہ بہت کم ۔ ابھی تو ہم بلوچوں اور سندھیوں کے ساتھ وہ کر رہے ہیں جو تمہارے ساتھ کیا کرتے تھے ۔

جب میری واپسی والے دن داہر نے مجھے بنگالی کرتا اور لنگی دی تو حیران ہونے کی باری میری تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس کرتے کو پنجابی کہتے ہیں ۔ تمہارے روایتی کرتے کا نام پنجابی ؟ ہاں شاید یہ نام تاریخ کے اس حصے میں آیا ہو جب تم ہم پر اپنی چیزیں ٹھونستے نہیں تھے اور ہمارا تمہارا برابر کا رشتہ تھا ۔ کچھ ایسی ہی حیرانگی مجھے اس وقت بھی ہوءی تھی جب کھٹمنڈو میں مجھے نیپالی ٹوپی دیتے ہوءے بمل کمار نے بتایا تھا کہ اس کا نام ڈھاکہ ٹوپی ہے۔

پچھلے دنوں ٹی وی کے جن دانشوروں نے آصف زرداری کی سندھی ٹوپی پر بات کی تھی ان کے شاید گمان میں بھی نہ ہو کہ عوامی ثقافت اور ٹوپیوں کی طرح کے عوامی ثقافت کے مظہر محبت اور بھاءی چارے کا بیج بوتے ہیں نفرتوں کے کانٹے نہیں پھیلاتے۔۔ بے چارے صا لح ظافر کو روایتی ٹوپی کا صرف اتنا ستعمال یاد ہوگا کہ جب ووٹ مانگنے ہوں تو کہتے ہیں ’ تیری پگ نوں لگ گیا داغ ۔ جاگ پنجابی جاگ’ ۔

شاہد مسعود صاحب جس دور میں صحافی بنے تب دستارصرف اتاری جاتی ہے یہ حرمت کی علامت نہیں ہوتی۔ کمال یہ ہوا کہ ٹی وی کے ایک فاسٹ ٹریک دانش ور نے (یہ دانش وروں کی وہ نسل ہے جو مباحثوں میں بلاءے گءے مہمانوں اور تحقیقی معاونین کی مدد سے حا لیہ دنوں میں وجود میں آءی ہے)آصف زرداری کے ’سندھو پاکستان’ کے لفظ پر بھی تنقید کر دی۔ ان کی بات سن کر مجھے سناتن دھرمی (یہ ہندو طالبان ہیں ) یاد آگءے جو اپنے مذہب کو ہندو مت ماننے اور اپنے ملک کو ہندوستان ماننے سے انکار کرتے ہیں ۔ سناتن دھرمی اس بات کو نہیں مانے جو پچھلے کءی ہزار سالوں میں ایک حقیقت بن چکی ہے۔

ہمارے سناتن دھرمی اس بات کو نہیں مانتے جو ہمیشہ سے ایک حقیقت تھی۔ ہند؛ انڈس یہ سب وادی سندھ کے ہی نام ہیں ۔ درہ خیبر سے آنے کے بعد شمال کے مسافروں کو دریا (سندھ کے معانی دریا ہیں) پار کرکے اس دریا کی وادی میں داخل ہونا ہوتا تھا ۔ عرب اور آریانہ والے اس کو ہند کہتے تھے اور یورپ والے انڈس اور اسی وادی میں رہنے والے ہندو کہلاءے ۔ آج بھی پشاور سے اٹک تک جی ٹی روڈ کے گرد پشتونوں کے گاءوں میں رہنے والے ’ہندکے’ اس لیے ہندکے نہیں ہیں کہ وہ مزہبآ ہندو تھے ان کو یہ نام اس لیے دیا گیا کہ وہ اس وادی کے اصل باسی تھے۔ اسی طرح اس سارے علاقے کی زبان ’ہندکو’اس لیے ہے کہ یہ اس وادی کی زبان ہے۔میرے فاسٹ ٹریک دانش ور شاید کبھی نہ سمجھ پاءیں کہ جب آصف زرداری سندھو پاکستان کی بات کرتا ہے تو وہ سندھ کو وادی سندھ تک پھیلا دیتا ہے یہ وہ حقیقت ہے جو پاکستان کو جوڑتی ہے توڑتی نہیں۔

جہاز کی روانگی کا وقت ہو رہا ہے مجھے اپنا لیپ ٹاپ بند کرنا ہے ۔ سوچ رہا ہوں کہ کیا ہمارے میڈیا طالبان اور فاسٹ ٹریک دانش ور آج کے یوم سندھی ٹوپی کے بعد بھی سمجھ پاءیں گے کہ پگ ؛ چترالی ٹوپی؛ سندھی ٹوپی یہ سب پا کستانی ٹوپیاں ہیں اگر ڈھاکہ ٹوپی آہستہ آہستہ نیپال کی قومی ٹوپی اور پنجابی کرتا بنگلہ دیش کا روایتی کرتا بن گیا تو ساٹھ سے زیادہ سالوں میں سندھی ٹوپی پاکستان کی بہت سی ٹوپیوں کی طرح ایک پاکستانی ٹوپی کیوں نہیں بن سکتی ۔ ۔ شاید سندھ میں ہونے والی آج کی تقریبات ان کا ذہن بدل پاءیں۔ ہاں مجھے یاد آیا کہ جب پنانگ ملا ءیشیا میں میں نے اپنے بیٹے کو بتایا تھا کہ اس کے دادا کی زبان ہی ہماری زبان ہے تو اب وہ ہر نءے ملنے والے کو(انگریزی میں ) بتاتا ہے کہ ہم پنجابی ہیں اور مجھے پنجابی آتی ہے ’آہو’

Comments

comments

Latest Comments
  1. Nadeem Ahmed
    -
  2. Aamir Mughal
    -
  3. Aliarqam
    -
  4. Abdul Nishapuri
    -
  5. Sarah Khan
    -