Benazir-Musharraf’s negotiations and Rehman Malik’s conviction – by Khalid Wasti

بے نظیر ، مشرف مذاکرات اور رحمان ملک کی معافی

معذرت خواہانہ رویہ کیوں ؟
===============

پرویز مشرف کے اقتدار پر قابض ہوجانے کے بعد ملک کے نوے فیصد عوام کی حمایت یافتہ سیاسی قوت کی علامت پیلز پارٹی اور مسلم لیگ نوازہی اس کی حکمرانی کے لیئے خطرہ ثابت ہو سکتی تھیں لہذا پرویز مشرف نے ہر قیمت پران دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں کو سیاست کے اکھاڑے (رنگ) سے اٹھا کر باہر پھینکنا تھا

دوسری طرف بے نظیر اور نواز شریف کا بنیادی مقصد کسی طرح سے اس رنگ (سیاسی اکھاڑے) میں واپس آنا تھا جس سے اٹھا کر انہیں باہر پھینک دیا گیا – دونوں شخصیات اپنی اپنی سیاسی بصیرت کے مطابق اس میدان میں واپس آنے کےمنصوبے تیار کر رہی تھیں ، اپنے طور پر انفرادی کوشش بھی کی اور مشترکہ جد وجہد کے لیئے ان دونوں حریف رہنماؤں نے باہمی رابطوں کا سلسلہ بھی شروع کیا

بے نظیر بھٹو اور پرویز مشرف کے درمیان مذاکرات پر پیپلز پارٹی کا مدافعانہ رویہ سمجھ سے باہر ہے – نواز شریف نے واچپائی کے ساتھ مذکرات کیئے – ان مذکرات پر تو کوئی شخص ندامت محسوس نہیں کرتا – اس لیئے کہ نواز شریف شالامار باغ واچپائی کے حوالے نہیں کر رہا تھا اور نہ ہی آزاد کشمیر کا کنٹرول انڈیا کو دے رہا تھا نواز شریف نے مذاکرات کیئے اپنے ملک کا موئقف پیش کرنے اور اسے منوانے کے لیئے –

جب ہم “دشمن ملک“ سے مذکرات کرتے ہوئے شرمندگی محسوس نہیں کرتے تو آخر پرویز مشرف سے مذکرات کیسے باعث ندامت ہو گئے کہ ان پر پردہ ڈالا جائے یا کوئی مدافعانہ رویہ اختیار کیا جائے ؟

بے نظیر فوجی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیئے مذاکرات نہیں کر رہی تھی ، بے نظیر یہ منصوبہ نہیں بنا رہی تھی کہ دو صوبے فوج لے لے اور دو صوبوں پر پیپلز پارٹی کی حکومت بن جائے – وہ مذاکرات کر ریی تھی ملٹری رول کے خاتمے کے لیئے ، منصفانہ انتخابات کے لیئے ، سول ، آئینی اور جمہوری اداروں کی بحالی کے لیئے ، اپنے اور نواز شریف کے وطن واپس آکر اپنی جماعتوں کی قیادت کرنے کے لیئے

سوال یہ تھا کہ کیا ایک فوجی حکومت کے خلاف یہ مقاصد توپ و تفنگ سے حاصل ہو سکتے تھے یا سیاسی حکمت عملی سے ؟ ضیاءالحق کی کوئٹہ میں کی گئی اس کے آخری دنوں کی تقریر کے الفاظ یاد آرہے ہیں جو اس نے ایم آر ڈی کے رہنماؤں کو متنبہ کرتے ہوئے ادا کیئے تھے کہ تم سول حکومتوں کو الٹاتے رہے ہو ، کسی فوجی حکومت کو الٹانا تمہارے بس کا روگ نہیں – بالکل یہی صورت حال مشرف کی فوجی حکومت کے وقت بھی موجود تھی

ان تمام زمینی حقائق کو بے نظیر بھٹو اپنی اعلی تعلیم ، بصیرت ، مطالعہ اور کیلیبر کی بدولت نواز شریف کی نسبت کہیں زیادہ بہتر طور پرسمجھتی تھیں – انہوں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیئے ہر محاذ پر شبانہ روز تگ و دو کی – اندرون ملک احتجاج ، بیرونی دباؤ ڈلوانے کی کوششیں ، سیاسی قوقتوں کو ساتھ ملا کر عوامی طاقت کے اضافہ کا اظہار اور عملی حقائق کے پیش نظر فوج کے سربراہ پرویز مشرف سے مذاکرات ، غرض بے نظیر بھٹو فوج کی بالا دستی کے خاتمے اور جمہوریت کے قیام کے لیئے ایک چومکھی لڑائی لڑنے میں مصروف تھی – ایک ایسی لڑائی جو دستیاب قیادت میں سے کسی اور لیڈر کے بس کا روگ نہیں تھا

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض اوقات کسی ذاتی مسئلہ کی وجہ سے مذکرات کی تمام تر افادیت کے باوجود انسان کی عزت نفس گوارا نہیں کرتی کہ وہ کسی شخص کی شکل بھی دیکھے کجا یہ کہ اس سے مذاکرات کرے – بے نظیر بھٹو اور پرویز مشرف کے درمیان ایسا کوئی ذاتی مسئلہ نہیں تھا – ہاں نواز شریف اور مشرف کے درمیان یقینا ذاتی مسئلہ موجود تھا جس کی بنیاد پر نواز شریف کا مشرف سے نہ ملنا قابل فہم ہے – یہ ذاتی مسئلہ بے نظیر اور ضیاءالحق کے درمیان یقینا موجود تھا جسے ملک کا بچہ بچہ سمجھتا ہے – اسی لیئے بے نظیر نے اس دور کے بدترین آمر اور فاسق اعظم کے ساتھ ایک میز پر بیٹھنا پسند نہ کیا لیکن نواز شریف اس وقت اس فاسق و فاجر آمر کے دست و بازو بنے ہوئے تھے

بے نظیر کی بصیرت جن حقائق کا ادراک کر رہی تھی اس کی اہلیت نہ رکھنے والوں نے فوجی طاقت کی دیوار سے اپنا سر ٹکرا کے دیکھ لیا – نتیجہ کیا نکلا ؟ “ مرد آہن “ نے چوں چراں کیئے بغیر ، اسی جہاز کے اندر بیٹھے بیٹھے ، چپ چاپ سعودی عرب کے محل میں واپس چلے جانے میں عافیت محسوس کی – اور ادھر پاکستان کے کسی کونے میں تو کیا اسلام آباد ایئرپورٹ پر بھی کسی چڑیا نے پرنہیں مارا

ادھر بے بظیر کراچی آتی ہے تو تیس لاکھ کا بے مثال عوامی ہجوم اس کے استقبال کے لیئے موجود ہوتا ہے – یقینا یہ ممکن نہ ہوتا اگر بے نظیر افہام و تفہیم کے ذریعے امریکہ ، برطانیہ اور سعودی عرب کو درمیان میں ڈالے بغیر تن تنہا ملک میں آنے کی کوشش کرتیں

بے نظیر نے پاکستان میں آنے کے بعد ذاتی مفاد کے حصول کے لیئے کوئی کوشش نہیں کی – این آر او کے تحت کوئی رعایت حاصل نہیں کی – اس لیئے کہ کیسز اور مقدمات بے نظیر کا مسئلہ ہی نہیں تھے – زمانہ جانتا تھا کہ کیس کب بنے ، کیسے بنے اور کس نے بنائے – بے نظیر کا مسئلہ پاکستان میں آنا تھا – تا کہ وہ مشرف کو ایک سیاسی جدوجہد کے ذریعے مسند اقتدار سے الگ کرنے کی تحریک کی قیادت کرسکے جیسی تحریک اس نے اس دور کے غاصب و فاسق جنرل ضیاء کے خلاف شروع کی تھی

بے نظیر ایک عالمی سطح کی مدبر اور سیاستدان تھی – وہ زمینی حقائق کو کسی بھی دوسرے سیاستدان سے بہتر جانتی تھی ، اسے معلوم تھا کہ اس نے ایک جرنیل سے قوم کو کس طرح چھٹکارا دلانا ہے اور ملک کو واپس جمہوریت کے راستے پر کس طرح ڈالنا ہے – وہ جرنیل جس کی وردی ہماری قابل فخر عدالت عظمی بھی نہ اتروا سکی بلکہ اسے وردی کے اندر ہی الیکشن لڑنے کی اجازت دینے پر مجبور ہو گئی

شاید دنیا کی کسی بھی سپریم کورٹ کے لیئے یہ فیصلہ کرنا شرمناک ہو کہ وہ ایک حاظر سروس جرنیل کو عام انتخابات میں حصہ لینے کا سرٹیفکیٹ عنایت کر دے

بے نظیر نے اپنی حکمت و دانائی کے ساتھ محض مذاکرات کے ذریعے اس کی وردی اتروا دی اور اس لڑائی میں پہلی فتح مد مقابل کو اس کے اصل ہتھیار سے محروم کرکے حاصل کر لی – دوسری بڑی کامیابی نواز شریف کے لیئے پاکستان واپسی کے لیئے راستہ ہموار کرنا تھا – کہنے والے کا منہ کون بند کر سکتا ہے ؟ لیکن یہ حقیققت اپنی جگہ واضح ہے کہ بے نظیر نے انتہائی سمجھداری کے ساتھ اپنی اور نواز شریف کی وطن واپسی کو ممکن بنایا – وطن واپس آجانے کے بعد اگر اس نے پرویز مشرف کے ہاتھ ہی مضبوط کرنے ہوتے تو وہ اپنی جان کا نذرانہ کیوں پیش کرتی؟

خلاصہ یہ ہے کہ این آر او کے ذریعے پرویز مشرف سے مراعات حصل کرنا بے نظیر کا مسئلہ نہیں تھا ، یہ ایک سیاسی حربہ تھا جسے بے نظیر نے اپنی پاکستان واپسی کے لیئے استعمال کیا – اسی کے نتیجہ میں نواز شریف کی واپسی ممکن ہوئی ( پہلے وہ تجربہ کر چکے تھے ) – پرویز مشرف کی چھٹی ہوئی ، عدلیہ کی بحالی ہوئی اور جمہوری عمل کی پیش رفت ممکن ہوئی – یہ ایک سیدھا اور سچا موئقف ہے جو پیپلز پارٹی کو کسی معذرت خواہانہ روئیے کے بغیر صاف صاف بیان کرنا چاہیئے

حکومت کے خلاف “گرینڈ پلان“ پر عمل پیرا احباب حسب معمول گمراہ کن توجیہات پیش کر رہے ہیں کہ زرداری نے یہ حق استعمال کرکے عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کا پیغام بھیجا ہے ، ثابت کیا ہے کہ قانون صرف چھوٹے لوگوں کے لیئے ہے، واضح کر دیا ہے کہ حکومت عدلیہ کے فیصلوں کا احترام نہیں کرتی ، رحمان ملک کو چاہیئے تھا کہ صدر سے سزا معاف کرانے کی بجائے سپریم کورٹ میں اپیل کرتے

رحمان ملک سے پرخاش رکھنے والوں کی شدید خواہش ہے کہ کسی طرح رحمان ملک کو ہتھکڑی لگ سکے – یہ بات محض ہوا میں نہیں کر رہا ، جو احباب اس مذموم خواہش کا ادراک کرنا چاہیں وہ یوٹیوب پر اور دوسری پولیٹیکل ویب سائیٹس پر موجود ڈاکتڑ شاہد مسعود کے وہ متعدد پروگرام دیکھ سکتے ہیں جن میں وہ اکرم شیخ سے ایک نیم دیوانگی کی سی کیفیت میں سوال کرتا ہے کہ اگر عدالت یہ فیصلہ کر دے تو رحمان ملک کو گرفتار کیا جاسکتا ہے ؟ “نہیں تو یعنی “ نہیں تو میرا مطلب ہے ہتھکڑی لگ سکتی ہے ؟“

یہ سوال ایک آدھ مرتبہ نہیں بلکہ متعدد بار ایک عجیب و غریب بچپنے یا پاگل پن کی کیفیت میں “ نہیں تو یعنی ، میرا مطلب ہے ، یعنی کیا ہو رہا ہے “ کے بے معنی الفاظ کی تکرار کے ساتھ اتنی مرتبہ ڈاکٹر صاحب کی زبان سے نکلے ہیں کہ جیسے کسی اہم شخصیت نے انہیں یقین دلا دیا ہو کہ دیکھنا میں رحمان ملک کو ہتھکڑی لگوا کر دکھاؤں گا – شاہد مسعود نے دل و دماغ پر چھائی ہوئی اپنی اس خواہش کا اظہار اتنی کثرت سے کیا کہ ایک صحافی نے وزیر اعظم سے سوال کر دیاکہ کیا رحمان ملک کو گرفتار کیا جا سکتا ہے ؟ جس پر انہوں نے کہا کہ وہ تو دوسروں کو گرفتار کرتے ہیں ، انہیں کون گرفتار کر سکتا ہے – سزا کی معافی کے اس ایشوع کی گہرائی میں جانے کے لیئے اس پس منظر کا جاننا انتہائی ضروری ہے

ہتھکڑی لگانے کا فیصلہ پہلے سے ہو چکا تھا – اس مقصد کے لیئے مجرم بنانا ضروری تھا – مجرم بنانے کے لیئے کیس چلانا ضروری تھا – کیس چلانے کے لیئے رائے عامہ بنانا ضروری تھا – رائے عامہ بنانے کے لیئے میڈیا کا استعمال ضروری تھا – چنانچہ میڈیا کے استعمال سے پروگرام کا آغاز کرتے ہوئے اس ساری واردات کے پہیے کو الٹا گھمایا گیا – یعنی عدالت میں کیس چلا کر ، مجرم ثابت کرکے میڈیا پر نہیں لایا گیا بلکہ “گرینڈ پلان“ کے مطابق سب کچھ اس کے برعکس ہوا – اس کھیل کا آغاز میڈیا ٹرائل سے کیا گیا اور اس کا انجام ہتھکڑی اور جیل تھا – اب اگر رحمان ملک فیصلہ سننے کے لیئے لاہور ہائی کورٹ چلے جاتے تو ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب کی مراد پوری ہو چکی ہوتی اور رحمان ملک کو یقینی طور پر پنجاب حکومت نے ‘‘ہائی کورٹ کے احاطہ سے گرفتار ‘‘ کر لیا ہوتا

اس صورت حال سے بچنے اور کسی مجاز عدالت تک “ بخیر و عافیت“ پہنچنے کی ایک ہی صورت تھی ، جسے صدر پاکستان کو اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے مجبورا ممکن بنانا پڑا – اور یوں رحمان ملک سندھ ہائی کورٹ پہنچنے میں اور ضمانت قبل از گرفتاری کرانے میں کامیاب ہوئے – قانون سے دلچسپی رکھنے والا ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ سزا معاف ہونے پر جرم معاف نہیں ہو جاتا صرف اس جرم کی سزا بھگتنے سے استثناء ملتا ہے جبکہ کسی عوامی عہدے پر فائز رہنے کے لیئے صرف سزا سے بچ جانا ہی کافی نہیں بلکہ جرم سے بری قرار پانا بھی ضروری ہے جو کہ صرف عدالتی کاروائی سے ہی ممکن ہے- چنانچہ رحمان ملک نے اگر سینیٹ اور کابینہ میں رہنا ہے تو انہیں لازما سپریم کورٹ میں جاکر لاہور کورٹ کے فیصلے کو کالعدم کروانا ہوگا

سزا معاف کرنے کے پیچھے اصل مقصد اس سازش کا توڑ کرنا تھا جس کا اظہار ڈاکٹر شاہد مسعود متعدد بار کر چکا ہے – یقینا اب یہ کیس ہماری عدالت عظمے میں جائے گا اور پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ہماری عدالت عظمے نے ہمیشہ عدل و انصاف کا بول بالا کیا ہے ، چنانچہ یقین رکھنا چاہیئے کہ اس دفعہ بھی ایسا ہی ہو گا –
آخر میں خلاصے کے طور پر عرض کروں کہ  بے نظیر مشرف مذاکرات ، بے نظیر کی ایک فوجی آمر سے نجات پانے کی حکمت عملی تھی اور رحمان ملک کی معافی اسے حتمی طور پر مجرم ثانت ہونے سے پہلے ہی ہتھکڑی لگوانے کی سازش کا توڑ ہے

Comments

comments

Latest Comments
  1. sheryaar
    -