کیا سیکولرازم غداری ہے؟

شاید ہمیشہ سے ہی انسانی معاشروں میں یہ ہوتا رہا ہے کہ نظریات و خیالات کی غلط تشریح، بگڑے یا بگاڑے گئے معنی اور تصورات عام ہو جاتے ہیں، اورعموماً ایسا معاشرے پر حاوی طبقات کی ایما پر ہوتا ہے. اب سیکولر کےغلط العام تصور کو ہی لے لیجئے، ہمارے ہاں اس کا مطلب کفر، عیاری، غداری اور ملک دشمنی لیا جاتا ہے، سمجھایا جاتا ہے، لکھا جاتا اور تسلیم کیا جاتا ہے. جیسے بھینس کے آگے بین بجانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ایسے ہی آپ ایسے کسی دیدہ بین دانشور کو یہ مشوره دینے کا بھی کوئی فائدہ نہیں کہ جناب ذرا لغت سے رجوع کریں، ذرا تاریخ تو پڑھ لیں، کیونکہ ایسا ان کے مفاد میں نہیں. تو اب حال یہ ہے کے اگر کوئی بھی فرد انسانی حقوق، مساوات، آزادی، یا اس قسم کے خیال کا اظہار کرے جو ہمارے حکمرانوں کو ذرا نہ بھاتے ہوں تو ان کے حالی موالی فوراً سیکولر کا فتوہ داغ کر ایسے ہر فرد کو دشمن دین، دشمن انسانیت اور ملک فروش قرار دے دیتے ہیں.

 ایک زمانہ گزرا دوستوں کے ساتھ ایک فلم دیکھ رہے تھے ایک ایکشن فلم جس کے ڈائلاگ کا ترجمہ اردو میں ایک ٹیپ پر ساتھ ساتھ چل رہا تھا، اس فلم کے کردار سارے کے سارے ہی اظہار خیال  کے جس پیرائے کے قائل تھے وہ ہمارے ہاں مختصراً قابل اعتراض  کہلاتا ہے، مترجم کو یقیناً سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہوگا، جس کا حل اس نے یہ نکالا تھا کے ہر نا قابل ترجمہ ڈائلاگ پر لکھا آتا ‘ذلیل بھینگے’ ، حال یہ تھا کے کبھی کبھی پانچ دس منٹ تک ہر کردار کے آپس کے تبادلۂ خیال کا ترجمہ یہی ہوتا ‘ذلیل بھینگے’ ، ‘ذلیل بھینگے’ ، ‘ذلیل بھینگے’ ، ……. ایک دوست جن کا انحصار ترجمہ پر تھا وہ بڑا پریشان تھے کے ایک ہی ڈائلاگ سے کہانی کیسے آگے بڑھ رہی ہے. سو ہمارے ہاں بھی یار لوگوں نے یہی وطیرہ نکالا ہے کہ ہر وہ خیال جو ان کی سمجھ نہ آئے یا عقائد و مفادات کو ذک پنہچائے اس کو سکہ بند مفروضات کی نظر کر دیتے ہیں. ملک دشمنی اور  دین دشمنی کے کوزے میں پورے پورے سمندر بند کر دیے جاتے ہیں. فلسفہ، سائنس، تاریخ، اور غرض یہ کہ انسانی عروج و ترقی کا ہر کارنامہ اور ہر راستہ جو عام انسان کی بھلائی کی طرف لے  جاے وہ غلط، اور ہر وہ خیال، ایسی ہر بحث اور ایسا ہر عمل جس کا کسی کو کوئی فائدہ نہ ہو وہ مروج. دنیا چاند، ستاروں سے آگے جہانوں کی تلاش میں ہے اور ہم کسی اور ہی مدار پر گھوم رہے ہیں. نتیجہ یہ کہ ہم میں اور باقی دنیا میں انتہائی بھیانک فاصلہ پیدا ہو گیا ہے.

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی تمام نعمتیں، وسائل اور ساتھ ہی ساتھ مسائل سیکولر ہیں، اور ہمارے تمام سکّہ بند دانشور ان نعمتوں سے مستفید ہوتے ہیں جو در اصل کسی اور مذهب سے تعلق رکھنے والے فرد کی کوشش کا نتیجہ ہوں، دوا کی مثال لیں؛ اگر کسی بیماری کی دوا کو عیسایوں یا مسلمانوں یا کسی اور فرقے تک محدود رکھا جاتا تو کیا ہوتا؟ کیا سیکولر ازم سے نفرت رکھنے والے کسی عالی جناب میں اتنی ہمّت ہے کہ غیر ملکی ادویات کے استمعال سے انکار کر دے، یا ایسے کسی بھی فارمولے کے استمعال سے جو اس کے مذہب سے تعلق رکھنے والے فرد نے نا بنایا ہو؟ اور اگر کوئی ایسا کر گزرے تو آپ اس کو کیا کہیں گے؟ بجلی جس کے بغیر ہمارا گزارا نہیں، اس کی ایجاد کہاں ہوئی تھی؟ اور کیا یہ صرف کسی خاص مذہب کے لوگوں پر مہربان رہتی ہے باقی کو کرنٹ مارتی ہے؟ چھاپہ خانہ کہاں بنا؟ جس نے تعلیم کی روشنی کو عام کرنے میں مدد دی, انٹرنیٹ سیکولر ہے کیونکہ بلا تفریق مذہب ہر انسان اسے استمعال کرتا ہے. لباس سیکولر ہے، غذا سیکولر ہے، مکان سیکولر ہے، دراصل انسان نے مادی ترقی کے حوالے سے جو بھی قدم اٹھایا ہے وہ سیکولر ہے. پھر ریاست کیوں سیکولر نا ہو؟ دراصل ایک سیکولر ریاست اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے جو کسی بھی قسم کی تھیوکریسی میں ممکن نہیں کیونکہ ایک تھیوکریسی میں اقلیتوں کو برابری کی بنیاد پر شہریت نہیں مل سکتی. کچھ نا کچھ قوانین ضرور ہونگے جو مذہبی امتیازی برتاؤ کا سبب بنیں گے.

اگر آپ اپنی نیاد اختلاف پر رکھیں گے تو اختلاف کی طرف بڑھیں گے اور اگر ہم آہنگی کا سوچیں گے تو ہم آہنگی کی طرف بڑھیں گے. ہم نے اختلاف کی رہ پر چل کر دیکھہ لیا ہے، شیعہ ،سنی ، ہندو، عیسائی, قادیانی، ان بنیادوں پر ہم نے اپنے شہریوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا ہے، نا جانے کتنے بیگناہ خاک میں مل کر خاک ہوئے اور یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں. وحشت و بربریت کا راستہ کھلتا ہی جا رہا ہے اور انسانیت کسی کال کوٹھری میں سسک رہی ہے اور ہمارے لوگ بے پرواہ اور بےنیاز ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ بیگناہ بیگناہ اور مظلوم مظلوم نہیں ہیں، وہ کبھی سنی ہیں، کبھی شیعہ ہیں، کبھی بریلوی ہیں، کبھی دیو بندی ہیں، کبھی عیسائی ہیں تو کبھی ہندو ہیں، پاکستانی شہری کہاں پائے جاتے ہیں؟ اس پر طرّہ یہ ہے کہ جو بھی پاکستانی شہریت کی بات کرے، مسساوات اور انصاف کی بات کرے اس کو ملک دشمنی اور دین دشمنی کا لیبل لگا کر قابل نفرین بنا دیا جاتا ہے.    

غربت اور جہالت بڑے مسائل ہیں، مگر ان سے بھی بڑا مسئلہ وہ ذہنی کیفیت ہے جو ان مسائل کو مقدر کا نام دے کر مجبور بنے رہنے پر قائل کر دیتی ہے. اگر آپ کے دانشور مساوات کی جگہ خیرات کو دینے لگیں تو خود سوچ لیں کہ وہ کس قسم کے معاشرہ کی وکالت کر رہے ہیں، جن معاشروں میں انسانوں کو آگے بڑھنے کے مواقعے نہ ملیں وہاں ان کا خیرات پر پلنا مقدر. اسی طرح جب افراد کو اس قابل ہی نا چھوڑا جائے کہ وہ اختلاف برداشت کر سکیں، جب ان کو یہ سکھا دیا جائے کہ جو ان کی طرح نہیں سوچتا وہ ان کا دشمن ہے، غیر ہے اور ایسے فرد کی بات ہرگز نا سنیں تو پھر معاشرے پر گھٹن تو طاری ہونا ہی ہے، تازہ ہوا انسانی صحت کے لئے بے حد ضروری ہے، اسی طرح تازہ خیالات انسانی معاشروں کو آگے بڑھانے کے لئے ضروری ہیں، ورنہ ہوس، درندگی، خود غرضی اور جہالت کے جراثیم پھل جاتے ہیں اور معاشرہ بیمار ہو جاتا ہے

.

Comments

comments

Latest Comments
  1. Muhammad Hassnain
    -
  2. Asjad
    -