The Punjabi Taliban and the Ostrich of Punjab: Shahbaz Sharif
ریت میں سر چھپانا مسئلے کا حل نہیں
لاہور اور اس کے گرد و نواح میں ہونے والی دہشتگردانہ کارروائیوں میں درجنوں ہلاک ہو چکے ہیں
لاہور میں چند ہی گھنٹوں کے دوران تین مختلف حملوں کا ہونا شدت پسندوں کی طاقت اور ان کی منظم انداز میں کی جانے والی کارروائیوں کی بھرپور صلاحیت رکھنے کا پتہ تو دیتا ہی ہے مگر صوبہ پنجاب پر روز بروز بڑھتی ہوئی دہشتگردانہ کارروائیوں پر مسلم لیگ( ن) کی صوبائی حکومت کے بظاہر ’انکاری‘ رویے سے مستقبل میں حالات کے خطرناک موڑ پر پہنچنے کے خطرے کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔
جنوبی پنجاب میں شدت پسندوں کی نیٹ ورک پر ذرائع ابلاغ کے علاوہ خفیہ اداروں کی سرکاری رپورٹوں پر صوبائی حکومت کی پُر اسرار خاموشی کے ساتھ یہ خوف بھی جڑا ہوا ہے کہ کہیں مسلم لیگ( ن) پنجاب کی ایم ایم اے ثابت نہ ہوجائے۔
جو انکاری رویہ آج مسلم لیگ کی صوبائی حکومت کا ہے بالکل اسی طرح کا رویہ صوبہ سرحد پر دو ہزار دو سے دو ہزار سات تک حکومت کرنے والی مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحد مجلس عمل کا بھی تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آگے چل کر صوبہ سرحد شدت پسندی کی ایک دھکتی ہوئی بھٹی بن گیا۔
صوبہ پنجاب بالخصوص جنوبی علاقوں میں فرقہ ورانہ فسادات اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سرگرم شدت پسندوں کا ایک منظم نیٹ ورک موجود ہے اور طالبان ذرائع کے مطابق ان تنظیموں سے تعلق رکھنے والے چھ ہزار سے زائد نظریاتی اور جسمانی طور پر تربیت یافتہ جنگجو پنجابی طالبان کے نام سے جنوبی اور شمالی وزیرستان میں موجود ہیں۔
لاہور شہر میں پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے دفاتر پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے
ان میں دو قسم کے جنگجوشامل ہیں: ایک وہ گروپ ہے جو سرحد پار افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج کے خلاف لڑنے کو زیادہ ترجیح دیتا ہے جبکہ دوسرا جو قدرے بڑا گروپ بھی ہے ان جنگجووں پر مشتمل ہے جو ملک کے اندر ایک خاص ایجنڈے کو پر تشدد انداز میں آگے بڑھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
سرکاری رپورٹوں اور اعلی اہلکاروں کے مطابق ایسا بھی نہیں ہے کہ صوبہ پنجاب کے وزیراعلی شہباز شریف پنجاب میں شدت سپندوں کے پھیلتے ہوئے نیٹ ورک سے انجان ہیں۔ ایک قابل اعتماد اعلیٰ سرکاری اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ جب پہلی بار امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں جنوبی پنجاب میں شدت پسندوں کی موجودگی کی رپورٹ شائع ہوئی تھی تو اس وقت شہباز شریف نے قبائلی علاقوں کے لیے ایڈیشنل چیف سیکریٹری حبیب اللہ کو بریفنگ دینے کے لیے بلایا۔
حبیب اللہ سے کہا گیا کہ وزیراعلی کی کئی اور ملاقاتیں بھی ہیں لہذا وہ تھوڑی ہی دیر میں اپنی بریفنگ ختم کرد یں لیکن بقول اعلی اہلکار کے کہ جب ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے بات شروع کی تو چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی اور جنرل ریٹائرڈ مشرف کے مواخذے کو اپنی سیاست کا محور بنانے والے شہباز شریف چونکا دینے والی معلومات سن کر ششدر رہ گئے اور یوں یہ بریفنگ منٹوں سے گھنٹوں پر محیط ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد ہی شہباز شریف کو شدت پسندی کی سنگینی کا انداز ہوا اور انہوں نے کچھ عرصے بعد ایڈیشنل چیف سکیریٹری فاٹاحبیب اللہ کو ایک بار پھر بریفنگ کے لیے بلایا۔
حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ جس دن لاہور میں تین متواتر حملے ہوئے اسی روز مسلم لیگ( ن) کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس کے بعد نواز شریف نے میڈیا کو جو بریفنگ دی اس میں انہوں نے اس حوالے سے کچھ نہیں کہا البتہ سوال اور جواب کے مرحلے میں اپوزیشن لیڈ ر چودھری نثار علی خان کو مجبوراً اس موضوع پر کچھ کہنا ہی پڑا۔
مسلم لیگ( ن) نے بظاہر پنجاب کی حکمران اور ملک کی بڑی اپوزیشن جماعت کے طور پر اپنی سیاسی ترجیحات کچھ اس طرح متعین کی ہیں جس میں بظاہر شدت پسندی پہلی ترجیح کے طور پر نظر نہیں آرہی ہے۔ مسلم لیگ ( ن) جنرل ریٹائرڈ مشرف کی باقیات پر پارلیمنٹ میں اور باہر واویلا بھی کرتی ہے اور اس حوالے سے لانگ مارچ تک کا انتہائی اقدام اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتی مگر اسی جنرل ریٹائرڈ مشرف کی باقیات میں شامل شدت پسندی کی عفریت سے ملک کی جان چھڑانے میں بظاہر نیم دلی دکھا رہی ہے۔
اگر پنجاب کی صوبائی حکومت اور مسلم لیگ ( ن) کا خیال یہ ہے کہ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپانے سے شدت پسندی ختم ہوجائے گی تو شدت پسندی کی دھکتی ہوئی آگ میں جلنے والے قبائلی علاقے اور صوبہ سرحد اس سوچ کا نفی میں جواب دیتے ہیں
……
’القاعدہ، سپاہِ صحابہ تعلق حملوں کی وجہ‘
’شدت پسند جان بوجھ کر پنجاب میں سکیورٹی فورسز کے اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں‘
راولپنڈی میں فوج کے ہیڈکوارٹر کی طرح لاہور میں جمعرات کو ہونے والے بیک وقت تین حملے ظاہر کرتے ہیں کہ حملہ آور نہ صرف یہ کہ پرعزم اور اعلٰی تربیت یافتہ ہیں بلکہ وہ اہداف کے انتخاب سے لے کر اپنے عزائم کی تکمیل تک مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کارروائی کر رہے ہیں۔
جی ایچ کیو کی طرح لاہور میں پولیس کے دو تربیتی مراکز اور وفاقی تحقیقاتی ادارے پر حملے میں ملوث افراد ان انتہائی حد تک زیر حفاظت عمارتوں کے بیرونی حفاظتی حصار کو توڑ کر اندر داخل ہونے میں کامیاب رہے۔
ان میں سے دو عمارتیں مناواں پولیس ٹریننگ سینٹر اور ایف آئی اے کا دفتر پہلے بھی دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں جبکہ بیدیاں روڈ پر واقع ایلیٹ پولیس کے صدر دفتر پر حملے کے بارے میں پولیس اور انٹیلی جنس ذرائع کئی روز قبل ہی متنبہ کر چکے تھے کہ یہ ادارہ دہشتگردوں کی ہٹ لسٹ پر ہے۔
حملہ آوروں نے ان اہدف کے محل وقوع اور حفاظتی اقدامات کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے
چوہدری احمد نسیم
صوبہ پنجاب کے سابق پولیس سربراہ جہانگیر مرزا کا کہنا ہے کہ شدت پسند جان بوجھ کر پنجاب میں سکیورٹی فورسز کے اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔’ان لوگوں کا ہدف سکیورٹی اداروں میں بددلی اور خوف اور عوام میں بےچینی پیدا کرنا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس مقصد کے حصول کے لیے صوبہ پنجاب سے زیادہ مناسب ہدف کوئی نہیں ہو سکتا۔‘
سابق انسپکٹر جنرل نے کہا کہ وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں زیرعتاب آنے کے بعد شدت پسند ملک کے سب سے بڑے صوبے میں موجود اپنے اثاثے استعمال کر رہے ہیں۔’صوبہ پنجاب میں ہونے والی ان کارروائیوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ کالعدم سنی انتہا پسند تنظیم سپاہ صحابہ کے سابق ارکان ملوث ہیں۔ ہمیں انٹیلی جنس ذرائع اور گرفتار ملزمان سے تفتیش کے ذریعے کئی برس قبل معلوم ہو گیا تھا کہ سپاہ صحابہ کے مفرور لوگوں نے القاعدہ کے ساتھ مراسم بنا لیے تھے اور اب ان دو دہشت گرد گروپوں کے درمیان تعلقات کار ہی صوبہ پنجاب پر آفت بن کر ٹوٹ رہے ہیں۔‘
ہمیں انٹیلی جنس ذرائع اور گرفتار ملزمان سے تفتیش کے ذریعے کئی برس قبل معلوم ہو گیا تھا کہ سپاہ صحابہ کے مفرور لوگوں نے القاعدہ کے ساتھ مراسم بنا لیے تھے اور اب ان دو دہشت گرد گروپوں کے درمیان تعلقات کار ہی صوبہ پنجاب پر آفت بن کر ٹوٹ رہے ہیں‘۔
جہانگیر مرزا
جہانگیر مرزا نے کہا کہ صوبہ سرحد میں ان شدت پسندوں کے مراکز کے تباہ ہو جانے کے بعد پنجاب میں یہ اپنے پرانے ’سلیپر سیلز‘ کو دوبارہ فعال بنا رہے ہیں۔ ’لیکن ان سلیپر سیلز کے دوبارہ فعال ہونے کے بعد ان تک پہنچ کے دروازے بھی کھل گئے ہیں اور میرا خیال ہے کہ بہت جلد صوبہ پنجاب میں بھی ان لوگوں کے نیٹ ورک توڑ دیے جائیں گے۔‘
پنجاب پولیس کے ایک اور سابق سربراہ چودھری احمد نسیم نے، جو کہ صوبے میں دہشت گردی کے متعدد واقعات کی تحقیقات کر چکے ہیں، بی بی سی کو بتایا کہ یہ تینوں اہداف بہت سوچ سمجھ کی منتخب کیےگئے تھے اور لگتا یہی ہے کہ حملہ آور کئی روز تک ان اہداف کا پیشگی جائزہ لیتے رہے ہیں۔ ’جس طرح حملہ آوروں نے ان اہداف کے محل وقوع اور حفاظتی اقدامات کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حملہ آوروں کے پاس اپنے ہدف کے بارے میں بہت معلومات تھیں۔‘
ان مربوط اور منظم حملوں نے حکومت کے ان دعوؤں پر سوالیہ نشان ثبت کر دیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد شدت پسندوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور وہ راہِ فرار پر مجبور ہیں
Talking to media on the visit of Elite Police Training Academy, Rana Sanaullah said arrests have been made throughout Punjab but exact number will be revealed later due to some reasons. He said there is no writ of any outlawed outfit in southern Punjab therefore; there is no need of launch of operation.
Rana Sanaullah said key evidences have been found about terrorists involved in Lahore attacks and sensitive agencies are working on these evidences. He said new security plan has been chalked out for Punjab including Lahore. He refused the reports about establishment of Taliban writ in any village, town and area in southern Punjab.
….
Friday, 16 Oct, 2009
There were some in the government who referred to the incident as Pakistan’s 9/11. While that particular date in American history can be interpreted in several ways, its greatest significance lies in the fact that it brought the state and society in the US on the same page as far as fighting the war against terror was concerned. Did we manage to achieve this consensus on Sept 20 last year? Perhaps not.
But this is where the catch lies. The enemy is far more intelligent than what some of our television commentators would like us to believe. In the GHQ case, the terrorists not only understood the strategic value of attacking at the heart of the army’s power base, they also appeared to understand the chasm between the state and society and within the state at several levels. The attackers understand the civilian-military divide better than a lot of people who talk about a new era of civilian-military relations in the country and boast about the two sides being on the same page.
They probably understand that the civilian government might pretend to be powerful but that it depends on externally borrowed power and that in the case of friction between the two centres of power, it is the civilians who would back off. This was most obvious from the fact that instead of raising some critical questions after the attack on GHQ, all that the president and prime minister could do was congratulate Gen Ashfaq Kayani on the excellent handling of the crisis.
There is no doubt that the nation is saddened by the death of unarmed officers and soldiers, and supports any action to punish those who carried out the attack. But the entire event ought to be discussed threadbare without any mudslinging. Why was it that 10 men penetrated a highly guarded area and remained ensconced in GHQ for about 19 hours, especially when the army’s high command was in the premises?
There are two important issues here. First, the Pakistan Army, which is trained mainly in conventional warfare and fighting state forces, is not well trained in counter-insurgency operations. This explains why despite being armed with G3s and other types of infantry equipment the force guarding GHQ could not respond properly. Hence, this capacity must be beefed up at the earliest.
Second, the connection of the key planner Aqeel, alias Dr Usman, with the army medical stores is a reminder of the problem that could perhaps prevail in pockets inside the rest of the military. This pertains to the religio-political inclinations of individual civil and military officials and officers that directly or indirectly support the jihadis.
Aqeel’s is not a unique case. Earlier there was Major Haroon Ashiq alleged to be involved in the murder of Gen Faisal Alavi. He was linked with one of the Punjab-based militant outfits. His capture led the police and agencies to other retired officers who had split from the Lashkar-i-Taiba and were waging ‘jihad’ on their own. We must also not forget the air force officials and officers involved in the first attack on the former president Gen Pervez Musharraf. Reportedly, the agencies were forced to go deep within the PAF in search of people connected to different militant outfits or the tableeghi jamaat.
At this point, how sure are we that all older links between the jihadis and individuals
in the police or military have been snapped? Instead of eulogising the army, parliament should be carefully looking at and questioning the old linkages from the perspective of having a handle on the problem of ‘jihadism’ and what it means for the state.
ISPR director general Maj-Gen Athar Abbas stated that the attackers had planned to use the hostages to negotiate the release of about 100 terrorists. Reportedly, there are about 400 terrorists in different jails. Some of the more high-profile detainees are believed to include Malik Ishaq, head of the Lashkar-i-Jhangvi (LJ) and Qari Saifullah Akhtar, head of the Hizb-ul-Jihad Islami. The government must now look at its preparedness and the capacity to protect its high-value detainees.
Although the military and government now seem inclined to consider other reasons for the attack, such as the Tehrik-i-Taliban Pakistan trying to avenge Baitullah Mehsud’s death, the rescue of high-value terrorists seems to be the primary reason, which must not be ignored at any cost. It must not be forgotten that the attack on the Sri Lankan team in Lahore was also meant to take hostages who could then be exchanged for top jihadis. Sources even claim that the LJ’s Malik Ishaq was involved in the earlier case and had decided to use the attack to get himself freed after the elected Punjab government failed to deliver on a mutual agreement between LJ and the PML-N leadership.
What’s equally interesting is the fact that there is an effort by those in power to ignore or divert attention from areas which are as infested with extremist militants as Fata and the tribal areas. The sudden effort to get policemen from most districts of south Punjab to deny the existence of the jihadi problem in their areas is a reaction similar to when the government denied the Pakistani connections of the Mumbai attackers even before investigating the matter. The denial is strange since most of the attacks in Punjab or the federal capital are believed to be provoked or carried out by Punjabis or Punjab-based militant outfits.
Perhaps the fear is that this might divert international attention towards Punjab or make ordinary Pakistanis think about the reasons why jihadis have spread terror across Pakistan and not confined themselves to the tribal areas as the authorities would like us to believe. Interestingly, even the ISPR’s emphasis is that the attack might have involved Punjabis but that it was carried out at the behest of the Pakhtun Taliban.
It is indeed important to fight militants in Waziristan who are influenced by Al Qaeda, but why does it have to be at the cost of ignoring the Punjab-based outfits who are proving to be good hosts for the terrorist network? Sources believe that Al Qaeda has trickled into areas bordering Punjab. These outfits operate beyond the Pakhtun-inhabited tribal areas and their threat is evident from the sectarian killings in Dera Ismail Khan and other places.
There is a possibility that the civilian government might lose the initiative in an urge to appease the military and the latter might just lose the initiative to act against those that were part of the GHQ attack for unexplained strategic reasons. This raises the question of how much bloodshed would there be before strategic re-evaluation.
The writer is an independent strategic and political analyst.
ayesha.ibd@gmail.com (Dawn)
Saturday, 17 Oct, 2009
The province’s security agencies admitted the presence of “individual” militants branded as Punjabi Taliban in southern Punjab as well as elsewhere. “The government and its security agencies are fully alive to the threat and are taking requisite action. But it would be wrong to say that militants have consolidated their position to a level where they can operate under the banner of Punjabi Taliban,” argued a senior Punjab police official who has worked with different intelligence agencies.
This was consistent with a provincial intelligence report prepared some time ago on activities of militant groups operating out of southern Punjab. Although the report dismissed what it termed the much-hyped theory that the Taliban have “set in” in the districts (of Bahawalpur, Multan and D.G. Khan divisions), it acknowledged the potential threat of Talibanisation in some areas if “timely action by law enforcement agencies, coupled with concrete development activity, was not taken”.
The report concluded: “Poverty-stricken, feudalistic, extremely religious and illiterate south Punjab could possibly provide shelter to the Taliban and other jihadi outfits. It has potential to become a nursery or a major centre of recruitment for sectarian organisations. Talibanisation appears to be in its infancy stage. Timely action by law enforcement agencies, coupled with concrete development activity, could avert this danger.”
In a talk with Dawn on Friday, a senior police official listed a number of arrests made in different parts of the province, including southern Punjab, and recovery of arms cache in the recent past and claimed that in doing so, police had averted a number of possible suicide raids and sectarian attacks.
He maintained that militant organisations like Lashkar-i-Jhangvi, Harkat-ul-Jihad-i-Islami and Jaish-i-Mohammad operating out of southern Punjab had a long history of linkages with the Taliban in Afghanistan and tribal areas of the NWFP who provide them sanctuary and support.“Nobody denies that the militants belonging to these organisations have strong links with the Tehrik-i-Taliban Pakistan and facilitate their operations in Punjab. But this is also true for the militants operating from many other parts of Punjab and the rest of the country,” he added.
Another senior police official surmised the term Punjabi Taliban was just a myth coined and being propagated to destabilise Punjab by the so-called friends and foes (read America and India) of Pakistan. “It’s a stable Punjab which is blocking their designs to harm Pakistan,” he said.
A senior police officer from Bahawalpur wondered: “If the so-called Punjabi Taliban from south Punjab are so big in number why none of the thousands of those arrested or killed during the recent military operation in Swat was found to be from this area.”
The Punjab police say that only one militant, Abid alias Hanzala, out of 11 who had blown themselves up or were killed in as many acts of terrorism during 2007 and 2008 was from a southern Punjab district, Rahimyar Khan.
The rest of them were Mehsuds from South Waziristan. Similarly, all the eight suspected suicide attackers who were either arrested or those who were able to escape arrest during 2007 and 2008 came from South and North Waziristan, Mansehra and DI Khan. Five of them belonged to the Mehsud tribe, according to police.
But there have surely been some signs of change this year. Analysts argue that the active involvement of militants operating out of southern districts of Punjab in a series of terror attacks during this year has brought the ‘Punjabi Taliban’ into sharp focus.
“Earlier, the Punjab-based sectarian and jihadi groups, which were either involved in Kashmir or in sectarian killings within the country, used to only facilitate militants coming from tribal areas of the NWFP by providing them logistical support for carrying out terrorist operations. Now they have become entwined with militants operating under the banner of Tehrik-i-Taliban Pakistan and changed their strategy.
“They are pursuing a different agenda, which is to challenge the state (of Pakistan) and pull it down, and are actively involved in the terrorist acts as indicated by their involvement in terror raids on Sri Lanka team and Manawan police training centre earlier this year (and multiple attacks on security installations this week),” Lahore-based defence and political analyst Dr Hasan Askari Rizvi said.
The official from Bahawalpur acknowledged that southern Punjab had proportionately produced greater number of militants because of the presence there of groups fighting in occupied Kashmir in the past. Also, he conceded, a number of top jihadi and sectarian leaders belonged to southern Punjab. But he insisted that there were no sanctuaries or training camps anywhere in the region.
On the basis of how much the official concede, shall we then say that the militants have an operational network in place in southern Punjab to build on?“That network is intact in spite of the arrests and killings of a number of militants in recent years. The area was never cleared and militant organisations and groups continue to recruit in southern districts of the province, which are also used as sanctuaries by militants after carrying out their operations elsewhere in the country,” an analyst said.
“How can you get rid of militancy without demolishing the ideological infrastructure that helps to create this mindset?” he wondered. But he acknowledged that it was a difficult task and required political consensus.
Amir Rana, an Islamabad-based analyst, said the term Punjabi Taliban was coined by Afghan Taliban groups to distinguish militants from Punjab and it became popular after the militant attack on the Danish embassy in Islamabad last year.
He said the Punjabi Taliban was not a homogenous group and also included Kashmiri and Urdu-speaking people. “You would also find some Burmese and Bengali immigrants living in Karachi in the ranks of the so-called Punjabi Taliban,” he elaborated.
Dr Hasan Rizvi said that linkages between the militants from Punjab and the Taliban in the NWFP had deepened (in recent years) as the militants shifted their training camps in the tribal areas to avoid action by the government.
He said religious extremism was not confined to southern Punjab alone. “You will find a similar situation in central Punjab as well. Religious extremism is very sharply visible in Gujranwala, Faisalabad, etc. But the problem with southern Punjab is that some of its areas are not under effective state control. There are areas in DG Khan where the government’s authority is weak, which helps the militants to find sanctuary there. Further, the close proximity of these areas to Balochistan and tribal areas of the NWFP also provides the militants an easy escape route.”
Dr Rizvi, however, dismissed calls for a military operation in the region. “It (operation) is not needed because these areas, in spite of weak government authority, are not out of the state’s control. The better option would be to gather credible intelligence on the activities of militants in these areas and then take action.” (Dawn)
Another storm is brewing against Pakistani Establishment and it is from a Iran not USA:
Pak soil used, Tehran tells envoy 49 killed in Zahedan suicide attack Monday, October 19, 2009 – Deputy chief of Revolutionary Guards slain; Pakistan condemns
http://thenews.jang.com.pk/top_story_detail.asp?Id=25081
TEHRAN: A suicide bomber killed seven commanders of Iran’s elite Revolutionary Guards and up to 42 other people on Sunday in an attack that President Mahmoud Ahmadinejad charged had been plotted from neighbouring Pakistan.
BACKGROUND OF IRANIAN PROTEST:
The Coming Wars by Seymour M. Hersh
What the Pentagon can now do in secret.
http://chagataikhan.blogspot.com/2009/06/coming-wars-by-seymour-m-hersh.html
The Iran Plans by Seymour M. Hersh
http://chagataikhan.blogspot.com/2009/06/iran-plans-by-seymour-m-hersh.html
The above was a gift of Pakistan Army to Iran for USA.