Arshad Mahmood’s article on Dr Shakil Afridi

ڈاکٹر شکیل آفریدی اسامہ بن لادن کا خاتمہ کرنے کے لئے امریکہ کے ایبٹ آباد والے آپریشن کا ایک اہم کردار ہے۔ یہ شخص خیبر پختوخواہ صوبے میں ایک سرکاری ڈاکٹر تھا۔ نائن الیون والے واقعے کے وقت پاکستان میں آرمی چیف جنرل مشرف کی حکومت تھی۔

گویا اس ملک کے سیاسی ،ریاستی، داخلی اور خارجہ فیصلوں پر فوج براہ راست قادر تھی۔ہماری فوجی قیادت امریکہ کے ساتھ ٴٴدہشت گردی کے خلاف جنگٴٴ میں امریکہ اور مغرب کی اتحادی بن گئی۔ امریکہ کی محبت میں نیٹو کی سپلائی لائن شروع کی، پاکستان کی سٹرکوں کی اربوں روپے کی تباہی کی پرواہ کی، نہ کوئی معاوضہ لیا۔ ڈرون حملے شروع ہوئے، ہماری فوجی قیادت نے کوئی احتجاج نہیں کیا، بلکہ یہ ان کی درپردہ حمائت سے ہی ہو رہا تھا۔عالمی دہشت گردی کے سب سے بڑے مجرم اسامہ بن لادن کو ڈھونڈنے میں امریکہ کی مدد کرنا اس پیکیج کا ایک حصہ تھا۔بقول امریکہ جس نے دس سال میں دس ارب ڈالر سے زائد پاکستان کی فوجی حکومت کو ادا کئے، جن کے حساب کتاب کا آج تک کسی کو پتا نہیں۔ ہم نے چھوٹے موٹے چند دہشت گرد امریکہ کو پکڑ کر ضرور دئیے، لیکن اسامہ بن لادن کے بارے میں ہمارا سرکاری موقف یہی رہا، کہ ہمیں اس کا کوئی اتا پتا نہیں، جب کہ امریکہ ہمیشہ یہی کہتا رہا ، کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں یا اس کے کسی سرحدی علاقے میں موجود ہے۔ رفتہ رفتہ پاکستانی سلامتی اداروں اور امریکہ کے درمیان باہمی اعتماد کا رشتہ کمزور پڑتا رہا۔ امریکہ نے یہ کہنا شروع کر دیا پاکستان ہم سے ڈبل گیم کر رہا ہے۔ دنیا بھر کے دہشت گرد پاکستان میں پھرتے رہے، اور ان کا سب سے بڑا اڈا شمالی اور جنوبی وزیرستان میں قائم ہے۔

دوسری طرف امریکہ کے جاسوسی ادارے اپنی طرف سے اسامہ کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے رہے۔ اور حاصل کردہ معلومات کو پاکستان کے جاسوسی اور سلامتی کے اداروں سے خفیہ رکھتا رہا۔امریکہ کا خیال تھا، پاکستان کے سلامتی کے ادارے اسامہ کو پکڑنے میں مدد دینے کی بجائے اسے ادھر ادھر کر دیں گے۔ امریکہ کی انہی کوششوں کا ایک کردار ڈاکڑ شکیل آفریدی ہے۔اس نے ایک این جی او کے حوالے سے ایبٹ آباد کے اس مخصوص علاقے میں ہیپاٹائٹس اور پولیو کے قطرے پلانے کی مہم شروع کی۔ مقصد یہ تھا، کہ اس گھر میں جہاں اسامہ پاک فوج کی سب سے بڑی اکاڈیمی کے بالکل پاس رہ رہا تھا۔ وہاں سے اسامہ کے بچوں کے خون کا سیمپل لیا جائے، تاکہ ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے اس بات کی تصدیق کی جائے، کہ اسامہ کا ہی خاندان اس گھر میں رہتا ہے۔ جس کی بالآخر تصدیق ہونے پر امریکہ نے ایبٹ آباد کا خفیہ آپریشن کیا۔ اور اسامہ بن لادن رنگے ہاتھوں پکڑا گیا، پاکستان اور اس کے سلامتی کے اداروں کی دنیا بھر میں سبکی ہوئی، جب دباو بڑھا، ہم نے اپنی نالائقی تسلیم کی، اور کہا ہم نے جان بوجھ کر اسامہ کو نہیں چھپایا تھا۔۔ٝ دنیا کا ہم پر مزید اعتماد مجروح ہوا اور پاکستان اور امریکہ کے تعلقات خراب تر ہوگے۔ ہماری سلامتی کے اداروں نے کبھی غصہ ریمنڈ ڈیوس پر نکالا، کبھی حسین حقانی پر غصہ نکالنے کی کوشش کی۔ لیکن جو سب سے کمزور بندہ ملا، وہ بے چارہ ڈاکڑ شکیل آفریدی تھا۔ڈاکٹر شکیل آفریدی کو گرفتار کر لیا گیا۔ اور اس پر پاکستان سے غداری کا مقدمہ چلایا گیا۔ کہ اس نے امریکہ کی سی آئی اے کو اسامہ کے پکڑنے میں کیوں مدد کی۔ ویسے تو اس ملک میں ہر اس پر غداری کا الزام لگا ہے، جو سچ بولتا تھا، اور اصل میں ملک کا حقیقی خیر خواہ تھا۔ مجیب الرحمان پر غداری کا مقدمہ چلا، حالانکہ وہ جو کہتا تھا، سچ کہتا تھا، اور اگر اس کا کہا مان لیا جاتا، پاکستان کبھی نہ ٹوٹتا۔ ہمیں سمجھ نہیں آتی، ڈاکٹر شکیل آفریدی کا قصور کیا ہے۔ اور اس کی پاکستان سے غداری کیسے ہوگئی۔ یہ تو ہماری سلامتی کے اداروں کی ٴٴسرکاری ڈیوٹیٴٴ تھی کہ وہ اسامہ کا اتا پتہ لگاتے، جس میں وہ بری طرح فیل یوں ہوئے، کہ اسامہ ان کے آس پاس رہتا پکڑا گیا۔ اس کام کے بدلے میں دس ارب ڈالر لئے تھے۔۔جب ایک عام سا ڈاکٹر اسامہ کا پتا لگانے میں کامیاب ہو گیا۔ کیا اسامہ پاکستان کا شہری تھا۔۔کیا اسامہ پاکستان کا کوئی ٴخفیہ اثاثہٴ تھا ، کیا اسامہ پاکستان کی سلامتی کا اہم جز تھا۔۔ڈاکڑ شکیل کے عمل اور اسامہ کے پکڑے جانے پر پاکستان کی ریاست کو کیا ذک پہنچی ہے۔۔کہ ڈاکڑ شکیل پاکستان کا غدار قرار پایا ہے۔ ڈاکڑ شکیل کو تو قومی اعزاز بخشا جانا چاہئے تھا۔کہ اس نے وہ کام کر دکھایا، جو ہماری ریاستی اداروں سے نہ ہوسکا۔ اس میں جرم اور غدار ی کی کونسی بات ہے۔ اگر اس نے سی آئی اے سے ایک ایسے کام میں تعاون کیا ہے، جو بظاہر ہمارے ریاستی اداروں کا بھی منشا تھا۔ تو اس میں جرم کہاں سے آ گیا۔ ہماری سلامتی کے اداروں کی ساری تاریخ ہی سی آئی اے کے ساتھ کام کرتے گزر گئی ہے۔۔سی آئی اے کے ساتھ تعاون کب قومی مفاد ہو جاتا ہے، اور کب قومی مفاد کے خلاف۔قوم کو یہ کبھی پتا نہیں چلے گا۔

ہمارے خیال میں ڈاکٹر شکیل کو غدار قرار دینے کی کوئی منطقی وجہ نظر نہیں آتی، سوائے اس کے غصہ ایک کمزور پاکستانی شہری پر نکالا جارہاہے۔ بظاہر اس نے پاکستانی ریاست کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ بلکہ اگر اس کی عزت کی جاتی، تو دنیا میںہماری پاکستان کی عزت اور بڑھ جاتی۔ اور یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ، کہ اسامہ کو چھپانے میں ہمارا کوئی مقصد نہیں تھا۔ڈاکڑ شکیل کو سزا دے کر ہم دنیا میں خود کو مزید بدنام کررہے ہیں۔ اور دنیا کے سامنے اسامہ کو نہ ڈھونڈ سکنے پر اپنی ناکامی تسلیم کی تھی، اس پر پانی پھیر رہے ہیں۔ اگر ہماری سیاسی اور سلامتی کی قیادت میں کوئی فراست ہوتی، تو پاکستان کی آج جو برباد حالت ہے۔ وہ کبھی نہ ہوتی۔افسوس یہ ہے، ان میں فراست آنے کی کوئی امید بھی نہیں ہے۔ پاکستان کے عوام کو جذبات سے نکل کر اپنی ریاستی اور قومی قیادت کی فراست کا احتساب کرنا چاہئے۔ تاکہ ہم بحرانوں کی بند گلی سے نکل سکیں۔

Source: Daily Mashriq Lahore

Comments

comments

Latest Comments
  1. Tariq shafi
    -
  2. amir
    -
  3. Mohammad Abdullah
    -