sab maya hai – ‘سب مایا ہے’

حضرت ابن انشا نے تو عرصہ پہلے فرمایا تھا کہ ‘سب مایا ہے ‘، ہم عموما بات سمجھنے میں وقت لگا دیتے ہیں لہٰذا بڑے عرصے دبدبا میں رہے کہ پتا نہیں کس کی بات کر رہے تھے. اترپر دیش میں اگر کوئی کہے کہ سب مایا ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ مراد مایا وتی سے ہے. مگر جیسا کہ ہوا کرتا ہے بہت سی باتیں تجربے سے سمجھ آتی ہیں، کچھ آپ بیتی سے کچھ جگ بیتی سے، ویسے تو ‘آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پے آ سکتا نہیں’ مگر لب پر آئے نہ آئے سمجھ ضرور آ گیا ہے کہ سب مایا کیوں ہے. ابن انشا تو پریشان رہے کہ:

جس گوری پر ہم ایک غزل ہر شام لکھیں
تم جانتے ہو ہم کیونکر اس کا نام لکھیں

آج کے عاشق کو تو غم سے نجات ملی، لوگ باگ صرف نام ہی نہیں پوری ثابت سالم گوری کو ٹی وی پر دیکھ لیتے ہیں  اور آج کے ناصح ایسا انتظام بھی کر دیتے ہیں  کہ عاشق صرف گوری ہی سے نہیں بلکہ عاشقی سے بھی کھنچے کھنچے پھریں بلکہ گوری کے خاندان والوں کے ڈر سے سچ مچ شہر سے دور کٹیا بنا کر رہیں  اور پھر کہیں  :

جب دیکھ لیا ہر شخص یہاں ہرجائی ہے
اس شہر سے دور اک کٹیا ہم نے بنائی ہے
اور اس کٹیا کے ماتھے پر لکھوایا ہے
سب مایا ہے

ویسے تو سبھی کچھ مایا کا پھیر ہے بلکہ ہیر پھیر ہے، پیٹ کی دوزخ ہو یا روئے زمیں پر فردوس بریں سب مایا کے کارن ہے، یہ مایا جال نہ ہوتا تو انسان کچھ اور ہوتا.  یہ مایا جال بھی عجب شے ہے، انسان کیا کیا نہیں کرتا اس مایا کے لئے، اپنے جیسے انسانوں کو پیس ڈالتا ہے، رگڑ دیتا ہے، مار ڈالتا ہے، ذلت کے گڑھوں میں پھینک دیتا ہے، انسان ہو کر انسانیت کی تذلیل کرتا ہے مگر سوچتا ہے تو بس مایا، چاہتا ہے تو بس مایا.  اور مایا کے ساتھ مایا ہو تو پھر کیا کہنے، جیسا کہ کہتے ہیں ‘مایا سے مایا ملے کر کر لمبے ہاتھ’، بس جناب مایا ہو یعنی سرمایہ ہو اور کسی مایا سے مایا ملانے والے کا سایہ ہو  یعنی کہ کیمرہ ہو اور دوسروں کی بے عزتی خراب کرنے کا لائسینس یعنی بزعم خود دوسروں کی اصلاح کا حق اور اپنے حق پر ہونے کا یقین  تو کچھ بھی ممکن ہے، جن کو چاہو ٹھیکیدار بنا کر اوروں پر چڑھ دوڑو, بس چپڑی اور دو دو  مثلا کسی ہوٹل میں پنہنچ جائیں اور پکڑ لیں کسی بیچارے کھانا کھاتے شخص کو اور شروع ہو جائیں کہ یہ کوئی کھانا کھانے کا طریقہ ہے، پہلے بسم اللہ پڑھی تھی؟ یہ چپڑ چپڑ کر کے کیوں کھا رہے ہو؟ اور یہ لقمہ لیتے وقت ناک نکوس کر،  ہونٹ بھینچ کر اور دانت باہر نکل کر منہ کیوں کھولتے ہو؟ بلکہ منہ کھولتے ہی کیوں ہو؟ کوئی صاحبہ اس کہ بعد چپڑ چپڑ کھانے کے معاشرتی نقصانات اور آنے والی نسلوں پر ہونے والے بڑے اثرات پر لیکچر دیں ؟ اور کوئی اور بیچ بیچ میں ان کی بات کاٹ کر اس بیچارے کو کوستی رہیں, پھر برابر بیٹھے سخص پر پل پڑیں اور اس کے کھانے کو عذاب کر دیں، یونہی کرتے رہیں تاوقتیکہ ہوٹل کے تمام گاہگ کھانا پینا چھوڑ گول نہ ہو جائیں، بیرے باورچی کھانے میں گھس کر اندر سے تالا ڈال دیں اور ہوٹل کا مالک گله چھوڑ کر جائے نماز پر بیٹھ جائے اور خدا سے اس عذاب سے نجات کے لئے براہ راست رجوع کرے، کام ہو گیا؟  اب اس کو اخبار میں چھپوا دیں، ٹی وی پر چلوا دیں، انٹرنیٹ پر پوسٹ کر دیں، مزے کریں، مایا ہی مایا ، واہ واہ ہی  واہ واہ .

ہمارے معاشرے میں خرابیاں تو ضرور ہیں مگر ان سے بھی زیادہ ان خرابیوں پر رونے والے ہیں، راستی کے وہ ٹھیکیدار جو رائی کا پربت بناتے ہیں پھر چیختے چللاتے ہیں. کہتے یہ بھی ہیں کہ جو چلتا ہے وہ بکتا ہے یعنی جس کی ضرورت ہوتی ہے وہ شے مارکٹ میں کامیاب ہوتی ہے. ہمارے ذرائع ابلاغ پر جو کچھ دکھایا جا رہا ہے اگر اس کو ڈیمانڈ اور سپلائی کی نظر سے دیکھیں تو  سامعین و قارئین کی ضروریات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے.  یقینی طور پر ایسے لوگ بھی ہونگے جو یہ سب ہوتا دیکھ کر یہی سوچتے ہونگے کہ  ‘حیران ہوں دل کو روؤں یا پیٹوں جگر کو میں’ مگر ان کا نوحہ گر یعنی ذرائع ابلاغ تو لمبے لمبے ہاتھ مارنے میں لگا ہے کہ مایا سے مایا ملتی رہے اور جیون گاڑی چلتی رہے،  حقیقت تو یہی ہے کہ ‘سب مایا ہے’ .

Comments

comments

Latest Comments
  1. Bashir Ahmed
    -
  2. imran
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.