A history of traitor certificates issued by Pakistan’s Teen Jeem

کیا ان کو قومی غدار قرار دینے کا فیصلہ ہوچکا ہے؟

غیر جمہوری ریاستوں میں جو لوگ آ فاقی انسا نی حقوق، جمہوری آزادیوں، عوام کو اختیارات اور انصاف منتقل کرنےکی تحریکیں چلاتے ہیں اور نۓ جدیر نظام کی بشارت دیتے ہیں، ان کے نام ریاست غداری کا سرٹیفکیٹ جاری کردیتی ہے اور پھر اس باغی کو زہر کا پیالہ پینا ہوتا ہے، یا پھر تختہ دار پر پھانسی کے پھندے کو چومنا ہوتا ہے۔

سقراط سے زوالفقار بھٹو تک اور بے نظیر پھٹو کو سیکیورٹی رسک قرار دینے تک عدالت ریاست کی سب سے بڑی معاون رہی ہے۔ اور آج بھی ریاستی ادارے عدالت سے ہی فیصلہ صادر کروانا چاہتے ہیں کہ کون اہل کون نااہل اور کون غدار ہے۔ گزشتہ روز جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ سُناتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے عدالتی احکامات پر عمل درآمد اور آئین کی پاسداری نہ کرکے اپنے حلف سے روگردانی کی ہے اور بادی النظر میں وہ ایماندار نہیں رہے اور اگر کوئی بھی شخص ایماندار اور امین نہ ہو تو وہ پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن سکتا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے آئین کی پاسداری پر اپنی سیاسی وابستگی کو ترجیح دی۔

عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ صدر پاکستان اور وزیر قانون بھی بظاہر اپنے حلف سے روگردانی کے مرتکب ہوئے ہیں اور اُنہیں بھی ایسے ہی نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ آئین کے ارٹیکل 189 کے تحت تمام ادارے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہیں۔

پاکستان کا شمار ایسی ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں اقتداراوراختیارات کا منبع فوج ہے۔ اور جو گزشتہ 64 سالوں سے دیگر ریاستی اداروں بیوکریسی، عدالت اور میڈیا کی معاونت سے نظام سلطنت چلارہی ہے۔

جب بھی میڈیا کی سول حکومت کی کرپشن مہم کے بعد فوج نے منتخب حکوت کوفارغ کیا تو قانونی جواز کا سرٹیفکیٹ عدالت نے ہی جاری کیا ہے۔

اس تناظر میں عدالت کے دو فرائص بن گۓ ہیں؛ شہری نما ئندوں کو ایمانداری یا غداری کا سر ٹیفکیٹ اور فوجی حکومتوں کو شب خون مارنے کے پعد قانونی جواز فراہم کرنا۔

کون اہل ہے یا نااہل اور کون ایماندار فیصلہ عوام نے کرنا ہے، کہ رہے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی کے نائب صدر ڈاکٹر بابر اعوان ، یہی جمہوری آفاقی اصول بھی ہے اورجدید ریاستوں کا دستور بھی۔

عاصمہ جہانگیر جو اپنے والد ملک جیلانی سے لے کر حسین حقانی تک انصاف کے لۓ عدالت کے دروازے پر کھڑی رہی ہیں؛ انہیں انصاف تو نہ مل سکا مگر آذاد عدلیہ کا بھرم ضرور کھل گیا۔ وہ واضع طور پر کہ رہی ہیں ’عدلیہ اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرگئی ہے اوریہ بہت ہی خطرناک بات ہوگی کہ سپریم کورٹ اراکین پارلیمان کی اخلاقیات پر فیصلے دے۔‘

میاں نواز شریف کی حکومت جب جنرل پرویز مشرف نے غیر آئینی طور پر پرطرف کی اور انہیں جلاوطن ہونا پڑا تو انہوں نے لندن میں سہیل وڑائچ سے کتاب لکھوائ غدار کون؟ تو ا`س میں اپنی بیگناہی ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے کارگل سے لے کر تمام اقدامات کا قصوروار عسکری اور انٹیلیجینس اداروں کو ٹھرایا، انہوں نے یہ تک لکہا کہ بی بی شہید اور آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات انٹیلی جینیس ایجنسیوں کے کہنے پر بناے مگر سیاسی آزادی ملنے پر وہ یہ سب بھول چکے ہیں؛ وہ بھول چکے ہیں جب انہں فوجی آمر کے دور میں ھتکڑیاں لگائ گئیں، پنجرے میں لاد کر شہروں کا چکر لگایا جاتا تھا۔ آج جب ہمیں مزید سیاسی جمہوری آزادیوں کی طرف بڑھنا تھا، پی ایم ایل (ن) کے قائد کاغذ کا ایک ٹکڑا لے کر عدالت میں پہنچے ہیں، ا`ن کی انگلیاں شہری نمائندوں کی طرف ہیں اور وہ چلا چلا کر کہ رہی ہیں یہی ہیں غدار۔

پاکستان میں فوجی بالادستی کے تابع جو ریاستی نظام رہا ہے، ا`س کی ایک اہم خاصیت اختیارات، اقتدار اور وسائل کی مرکزیت رہی ہے۔ اس میں جس کسی نے بھی انسانی جمہوری وفاقی اصولوں کی بنیاد پر آفاقی حقوق اورصوبائ وسائل پر اختیارمانگا ہے ا`س کا نام غداروں فہرست میں ڈال دیا گیا ہے، پہلے ا`سکا میڈیا ٹرائل ہوا ہے اور پھر کورٹ میں۔ زیر نظر مضمون جو حسن مجتبیٰ نے لکھا اور بی بی سی اردو میں شائع ہوا ہے، میں قوم پرست غداروں کی ایک لمبی فہرست ہے۔

آج سازش ہورہی ہے کہ اس فہرست میںوفاق کے سربراہ عوام کے منتخب صدرآصف علی زرداری’ حکومتی سربراہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور امریکہ میں سابق پاکستانی سفیرحسین حقانی کا نام شامل کیا جاۓ ؛ ان کا جرم عوامی سیاسی اداروں کی بالادستی کا مطالبہ اور جمہوری عوامی حقوق کو فوقیت دینا ہے’ اس جرم کی بنا پر ان کی نہ صرف سیاسی بقا خطرے میں ہے بلکہ ذندگی بھی۔

حسن مجتبیٰ کا مکمل مضمون ذیل میں پیش خدمت ہے۔

غداری کے سرٹیفیکیٹ، ایک تاریخ
حسن مجتبیٰ
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نیو یارک

’اوہ جیہڑا جالب سی نہ! اوہ غدار سی غدار! قید ہوئیا چنگا ہوئیا‘ یہ وہ الفاظ تھے پاکستان کے عوامی شاعر حبیب جالب کے محلے والوں کے جو یہ اس وقت کہتے جب جالب گرفتار ہو کر جیل چلے جاتے۔ وہ حبیب جالب، آج جن کے شعر اگر پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور پاکستان کے صدر آصف علی زداری سمیت پاکستانی حکمران اپنے جلسوں میں نہ پڑھیں تو ان کی سیاسی روٹی ہضم نہیں ہوتی۔

پاکستان میں غداری کے القاب و سرٹیفیکیٹس بانٹے جانے کی تاریخ شاید پاکستان کی اپنی تاریخ سے بھی کہیں زیادہ پرانی ہے اور غداری کے ٹھپے بنانے کی فیکٹری کا سفر آج بھی جاری و ساری ہے۔

مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ پاکستان میں ایسا بھی وقت آیا کہ جب تاج برطانیہ سے غداری کے الزامات تلے آنے والے اسی مٹی کی خمیر سے اٹھے ہوئے رہنما اور کارکن برصغیر میں انگریزوں سے نام نہاد آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی پاکستان میں حکومتوں کی جانب سے بھی غدار ٹھہرائے گئے۔

اس کی ایک بڑی مثال خدائي خدمت گار اور ’سرحدی‘ گاندھی خان عبدالغفار خان باچا خان ہیں جنہیں آخر عمر تک اپنے اہل خانہ اور ساتھیوں سمیت غدار کہا جاتا رہا۔ پھر وہ غفار خان کے ساتھ ان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب تھے کہ بیٹے خان عبدالولی خان کہ ان کے پوتے اسفند یار ولی، اجمل خٹک کے زمانوں سے پہلے حاجی ترنگ زئي جیسے درویش (جن کے مزار پر کچھ عرصہ قبل طالبان نے قبضہ کیا تھا) یہ سب کے سب ایک یا دوسرے دور میں غدار ٹھہرائے جاتے رہے تھے۔

سابقہ مشرقی پاکستان میں حسین شہید سہروردی، مولانا عبد الحمید بھاشانی اور بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کو غدار کہا گیا۔ اگرتلہ سازش کیس کے تحت ان پر غداری کا مقدمہ چلایا گیا اور دوسری بار انیس سو اکہتر میں ان پر خفیہ طور پر مقدمہ چلا کر انہیں سزائے موت دے دی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے برسرِ اقتدار آتے ہی شیخ مجیب الرحمان کی سزائے موت منسوخ کر دی تھی اور پھر اسی ’غدار‘ ٹھہرائے جانے والے شیخ مجیب الرحمان کے بنگلہ دیش کو نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے ان کی آمد کے موقع پر انہیں اکیس توپوں کی سلامی بھی دی گئی تھی۔

یہ بھی انسانی تاریخ میں شاذ و نادر ہی ہوا ہو کہ پوری کی پوری قوم اور فوج کا ایک بڑا حصہ بھی غدار کہلایا جائے۔انیس سو اکہتر میں پاکستان کی تاریخ میں اس روایت کی بھی داغ بیل ڈال دی گئی جب پورے کی پوری بنگالی قوم کو غدار کہا گیا اور پاکستانی فوج میں بنگالی فوجیوں کو بھی غدار۔
شاید لاہور کے پرانے لوگوں کو یاد ہو کہ اسی عاصمہ جہانگیر کے والد ملک جیلانی شیخ مجیب الرحمان کے پنجاب میں چند حامیوں اور دوستوں میں سے ایک تھے۔ وہ اکیلے ہی ان کی آزادی کے لیے بینر لیے مال روڈ پر کھڑے ہوا کرتے تھے۔
یہی عاصمہ جہانگير جو جوانی میں داخل ہوتے ہی اپنے ابا کو حبسِ بیجا میں رکھنے کے خلاف مقدمہ لڑتی رہی تھیں جسے پاکستان میں مشہور عاصمہ جیلانی کیس کہا جاتا ہے۔ اسی کیس میں ججوں نے جنرل یحییٰ کو فقط اس وقت غاصب کہا تھا جب وہ اقتدار میں نہیں رہے تھے۔
عبد الصمد خان اچکزئی پیر آف مانکی شریف، میاں افتخار الدین، فیض احمد فیض، مظہر علی خان، شيخ ایاز جیسے لوگ بھی مختلف دور میں حکومتوں اور ان کی کاسہ لیس میڈیا عرف قومی میڈیا کی طرف سےغدار قرار دیے جاتے رہے تھے۔

ایوب خان کے دور حکومت میں بلوچ رہنما نوروز خان اور اس کے بھائيوں اور بیٹوں کو پھانسی دے دی گئی تھی جبکہ عطاءاللہ خان مینگل ان کے بھائي نورالدین مینگل، غوث بخش بزنجو، خیر بخش مری، دود ا خان زرکزئي ، اور بلوچ قومی شاعر گل خان نصیر کو بھی غدار قرار دیا جاتا رہا جبکہ اکبر بگٹی کو سزائے موت سنائی گئی جو بعد میں معاف کردی گئی تھی۔

سندھی قوم پرست رہمنا جی ایم سید شاید غفار خان کے بعد اس ملک میں سب سے ’سینیئر غدار‘ تھے جنہیں اٹھائیس سال تک مختلف وقفوں سے تادم مرگ نظربند رکھا گیا اور ان کا انتقال بھی بینظیر بھٹو کی حکومت میں دوران نظر بندی میں ہوا تھا۔
بلکہ نظریہ ضرورت کی طرح غداری کے بھی سرٹیفیکیٹ حکومتیں، فوج اور میڈیا بانٹتے رہے۔

جنرل ضیاء کے آمرانہ دور حکومت میں غلام مصطفیٰ کھر اور جام صادق علی کو ’را کا ایجنٹ‘ بتایا گیا اور ان کے نام اٹک سازش کیس کے حوالے سے آئے۔ لیکن پھر اسی کھر اور جام صادق علی کی غداری کی سند پھاڑ کر انہیں بوقت ضرورت اعلیٰ عہدوں پر بھی بٹھایا گیا۔
غداروں کی فہرست میں ممتاز بھٹو، حفیظ پیرزادہ، الطاف حسین، مرتضیٰ بھٹو اور بینظیر بھٹو بھی بتائے جاتے رہے۔
تاریخ پلٹا کھاتی ہے اور پھر وہی حسین حقانی جو کہ اپنی اسی خالق اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں سخت زیر عتاب آئے ہوئے ہیں اور غداری کے مقدمے کی تلوار پاکستانی اسٹیبلشمنٹ حب الوطنی کے کچے دھاگے میں باندھے ان کے سر پر لٹکائے رکھی ہوئی ہے۔ یہ ملک غداروں اور وعدہ معاف گواہوں کی فیکٹری ہے اور منتخب وزرائے اعظم کا مقتل گاہ ہے۔ پھر وہی عاصمہ اسی طرح ان کا مقدمہ لڑتی رہی ہے جس طرح وہ ملک جیلانی کا مقدمہ لڑتی رہی تھی کہ کردار وہی رہتے ہیں صرف غدار بدلتے رہتے ہیں۔

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sajsrs
    -
  2. farazi laal
    -
  3. Dr. M. Ahmed Khan
    -
  4. mohammad zafar kahn
    -
  5. Osama
    -