National media conference – by Arshad Mahmood
National Media Conference: The two-day of media conference entitled “Pakistan Media: Present and Future” arranged by Individualland(IL) in collaboration with Friedrich-Naumann-Stiftung für die Freiheit (FNF), drew a large number of journalists from all parts of the country including a strong representation from a frontline province in the war against terrorism, Khyber Pakhtunkhwa and from southwest province of Balochistan, one of the high rates in the world for journalists killings.
The conference revolved around the five major themes, including ‘Citizens’ Media Space Vs Commercial Space’, ‘Dissecting the Jihadi/Militant Media’, ‘Gender and Media’, ‘Challenges for Working Journalists’ and ‘Tools for Free, Independent and Responsible Media (FIRM).
Here, we are pleased to publish Mr. Arshad Mahmood’s article on National Media Conference, which were originally published in Daily Mashriq, Lahore.
صنفی امتیاز اور میڈیا کا کردار
اسلام آباد میں انڈی وږیول لینڈ ٟآپ اسے اردو میں ٴاقلیم فردٴ کا نام دے لیں۔ ٞ نامی غیر سرکاری ادارے نے اسلام آباد میں ذرائع ابلاغ کے حوالے سے دو روزہ کانفرنس منعقد کی جس میں ایک موضوع صحافت میں مرد وزن کے درمیان امتیاز کے حوالے سے بھی تھا۔ اس سلسلے میں ملٹی میڈیا پر ایک رپورٹ حاضرین کو دکھائی گئی، تعلیم و تحقیق سے وابستہ سحر گل صاحبہ کا کہنا تھا کہ گیارہ ٹی وی چینل عورت کی آزادی کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ قرآن پاک کو اس کے صحیح تناظر اور ترجمے کے ساتھ سمجھا جائے ، اور دین کے معاملے پر مولویوں کی پیش کردہ تاویلات کو بغیر سوچے سمجھے اور تحقیق کے قبول نہ کیا جائے۔ مولویوں نے بہت سی ایسی باتیں پھیلا رکھی ہیں، جو دراصل دین اسلام کی روح کے منافی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قرآن پاک کو اردو میں پڑھنے پر زور دیا جائے تاکہ لوگوں کا دین کی باتوں کے لئے مولوی پر انحصار کم ہو سکے اور عربی کی اجارہ داری ٹوٹ سکے۔ انہوں نے تجویز کیا کہ سیاسی اختلافات کو دینی مسئلے میں تبدیل نہیں کرنا چاہیے۔
اس بات پر بحث ہوئی کہ مذہب اور کلچر میں کیا فرق ہے۔ حاضرین کی طرف سے جب یہ بات کہی گئی کہ ظہور اسلام کے وقت وہاں کے کلچر میں موجود کچھ روایات کو ویسا کا ویسا ہی رہنے دیا گیا۔ داڑھی، ٹوپی اور عمامہ کا استعمال کافروں اور مسلمانوں میں یکساں تھا۔ آج اگر سعودی عرب میں عورت کے ڈرائیو کر نے پر پابندی ہے تو اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اس پر چیئرپرسن کی طرف سے کہا گیا کہ گویا ہم یہ تسلیم کر رہے ہیںکہ اسلام میں اپنی زمین اور ماحول کے حوالے سے مختلف کلچر ہو سکتے ہیں، اور ایک اچھا مسلمان ہونے کے لئے ہرگز ضروری نہیں کہ ہم سعودی عرب کے کلچر کی تقلید کریں، اور ہماری عورتیں اسی طرح کا پردہ اور لباس پہننا شروع کر دیں۔ ہمارے لئے شلوار قمیض اور دوپٹہ ہی کافی ہے۔ ہماری عورت کو صحرائے عرب کی عورتوں کی نقل اتارنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انڈونیشا میں مسلمان قرآن کے ساتھ رامائن بھی پڑھتے ہیں۔
حاضرین میں سے ایک شخص نے یہ بھی یاد دلایا کہ فتح مکہ کے وقت رسول اللہ ۖ نے ٴامہٴ کا لفظ استعمال کیا تو اس میں مکہ کے مشرک اور کفار کو بھی شامل کیا تھا۔ اس بات کا بھی ذکر آیا کہ پردہ کسی کی شرافت کی دلیل نہیں۔ اس امر پر اتفاق رائے پایا گیا کہ کوئی جو بھی لباس پہنے، کسی کو لباس کی بنا پر خود کو اعلی اور دوسرے کو کم تر سمجھنے کا حق نہیں ہونا چاہئے۔ سیمی کمال صاحبہ کا کہنا تھا کہ پاکستانی معاشرے میں عورت کی جگہ تیزی سے سکڑرہی ہے۔ اور انتہا پسند میڈیا عورت کے سماجی کردار کو کم سے کم کرنے پر تلا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستانی عورت کے لئے پیشہ
وارانہ کام کے مواقع کم ہوتے جارہے ہیں۔
ڈرامہ نگار عرفان احمد عرفی نے بتایا ، کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ ڈرامے میں عورت کے اداس اور روتے دھوتے کرداروں کو ابھارا جائے اس لئے کہ روتی دھوتی عورت کے کردار عورتوں کے لئے دلچسپی کا باعث بنتے ہیں۔ عورت کو خودمختار دکھانے والے کردار اور ڈائیلاگ سنسر کر دیئے جاتے ہیں۔ لہذا میڈیا کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اپنی سوچ میں تبدیلی پیدا کرے۔
سیمینار میں عورت کی گواہی کے مسئلے پر بھی بات ہوئی اور کہا گیا، مولوی نکاح نامے میں عورت کی گواہی کو قبول نہیں کرتے۔ مولوی کا مؤقف آج کے دور کی حقیقتوں کا سامنا نہیں کر سکتا۔ آج کل کمپنیوں میں چارٹرڈ اکاونٹنٹ عورتیں کام کر رہی ہیں، جو کمپنیوں کے مالیاتی اور اکاونٹس کے پچیدہ مسائل کی نگرانی کر رہی ہیں۔ اگر عورت کی گواہی پر مولویوں کی تشریح کو دیکھا جائے، تو کوئی چارٹرڈ اکاوٹنٹ خاتوں کمپنی کے کسی فنانس دستاویز پر اکیلے سائن نہیں کر سکتی۔ جب بحث عورت اور مذہب میں زیادہ الجھ گئی تو چیئر پرسن کی طرف سے کہا گیا، کہ ہمارا موضوع میڈیا اور صنفی امتیاز تھا جو مذہبی اسلام کی بحث میں بدل گیا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم ہر وقت ہر مسئلے اور ہر موضوع کو اسلام کی طرف لے جاتے ہیں۔ آخرایسا کیوں ہے کہ ہمارے ہر موضوع کی تان اسلام پر ٹوٹتی ہے۔ ہم نے مذہب کو اس قدر اپنے اوپر کیوں طاری کر رکھا ہے۔
ہم ایک ایسی جگہ پر پہنچ گئے ہیں، جہاں ہمارا کوئی جملہ مذہب کا حوالہ دیے بغیر پورا نہیں ہوتا۔ ہم اپنی زندگی اور جس دور میں زندہ ہیں، اس کے ساتھ اسی صورت انصاف کر سکتے ہیں، جب ہم اپنے مسائل کو سمجھنے کے لئے انسانی دانائی کو استعمال کریں جو انسانیت نے ہزاروں سال کے تہذیبی سفر میں سیکھی ہے۔ ہم عقل سلیم سے اپنے بہت سے مسائل حل کر سکتے ہیں۔ ہر بات اور ہر چیز کے لئے مقدس حوالوں کی طرف رجوع کرنا ضروری نہیں۔ اس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ تقسیم در تقسیم ہوتا جارہا ہے۔ ہم دوسروں کی بات کو سننا نہیں چاہتے۔ یہ کھلی حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں مرد اور عورت کے حقوق مساوی نہیں ہیں۔ جب ہم عورت کے حقوق کی بات کرتے ہیں، تو دراصل ہم انسانی حقوق کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔ بحث کے دوران اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا کہ صرف تعلیم سے تبدیلی نہیں آتی۔ ایک جاگیر دار تعلیم حاصل کر کے بھی اپنی جاگیردارنہ رویے پر قائم رہتا ہے بلکہ تعلیم اس کے لئے طاقت کا ایک نیا ہتھیار بن جاتی ہے۔
تقدیس کو بنیاد بنا کر ہم تاریخ کی سچائیوں سے واقف نہیں ہو سکتے۔ جو ہوتا رہا ہے، ہم اس سے واقف نہیں۔ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ہم تاریخ کے اس موڑ پر کہاں کھڑے ہیں۔ ہمارے ملک اور معاشرے کو کیا چیلنج درپیش ہیں۔ کیا ہم علم اور تہذیب کی طرف جانے میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں؟ ہم مسلمان کہیں نہ کہیں نفسیاتی سطح پر عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ دنیا سے پیچھے رہ جانے کے احساس،کے باعث ماضی پرست ہوگئے ہیں۔ غلبہ اسلام کے نام پر خود نمائی کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب منفی رویے ہیں۔ اس سے ہماری حالت مزید بگڑ سکتی ہے، حاصل کچھ نہ کر پائیں گے۔ ہمیں عصر حاضر کے تقاضوں کو سمجھنا ہوگا۔ اور آج کے دور میں زندہ رہنا ہوگا۔
Source: Daily Mashriq
آزاد، خودمختار اور ذمہ دار میڈیا
انڈی وږیول لینڈ نامی غیر سرکاری ادارے کے اسلام آباد میں منعقدہ سیمینار کے ایک سیشن کا موضوع ٴآزاد ، خود مختار اور ذمہ دار میڈیاٴ کے عنوان سے تھا۔ جس کی مشترکہ صدارت محترمہ گل مینہ اور ابصار عالم صاحب نے کی۔
پینل میں دیگر شرکار کے علاوہ سینئر صحافی وجاہت مسعود خاص طور پر لاہور سے تشریف لائے تھے۔ بحث کا آغاز ہوتے ہی یہ رائے سامنے آئی کہ جب پاکستان میں ایک سرکاری ٹی وی چینل ہوتا تھاتو اس کا سرکاراور ہیئت مقتدرہ کے زیر نگیں ہونا مجبوری تھی۔ تاہم جب پاکستان میں میڈیا کی آزادی کا غلغلہ ہوا اور 94 سے زیادہ پرائیویٹ چینل کھل گئے تو سب چینلوں کو ایک نظر دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا نجی میڈیا ہیئت مقتدرہ کے دست راست کے سوا کچھ نہیں۔
ہمارے چینلوں کے اکثر اینکر پرسن خفیہ ہاتھوں کی جنبش ابرو کے مطابق اپنے مواد اور موضوعات کو ترتیب دیتے ہیں۔ گویا اس اعتبار سے ہمارے میڈیا کی آزادی اور خودمختاری بے معنی ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ہمارے صحافیوں کی اکثریت مقتدر قوتوں اور پیوستہ مفادات کے دست حق پرست پر بیعت کر چکی ہے۔ پاکستان کے میڈیا کو بالغ نظر بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ہمارے آزاد میڈیا نے ایک سے زائد مواقع پر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔
سلمان تاثیر کے بارے میں میڈیا کے رویے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہب کے نام پر انتہا پسندی اور قدامت پرستی کو فروغ
دیا جا رہا ہے۔
اس اجلاس میں اس امر پر بھی اتفاق کیا گیا کہ میڈیا کی آزادی اور جمہوریت لازم و ملزوم ہیں۔ اگر جمہوری نظام کی موجودگی میں میڈیا کے خودمختار ہونے کے زیادہ امکانات ہو سکتے ہیں۔ یہ سوال اٹھایا گیا کہ روایات، ثقافت اور مذہبی لگاؤ کے ہوتے ہوئے ایک صحافی آزاد اور ذمہ دار صحافت کر سکتا ہے؟ ایک صحافی کے لئے ضروری ہے کہ وہ صحافتی فرائض کی ادائیگی کے لیے اپنی مذہبی، ثقافتی اور لسانی شاخت سے بالاتر ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو یعنی عقیدے کی بنیاد پر دوسروں کے ساتھ متعصب رویہ نہ اپنائے۔
اسے اظہار کی آزادی ہونی چاہئے۔ اسے زندگی کی بنیادی ضروریات سے آزادی ہونی چاہئے اور خوف سے آزادی ہونی چاہئے۔ صحافی بھی ایک تخلیق کار کی طرح اپنے کام کے عمدہ معیار سے تسکین اخذ کرتا ہے اور اس میں جذبہ کارفرما ہو کہ اس کا کام کمتر درجے کا کام نہ کہلائے۔ اس ضمن میں صحافی کے لئے مطالعہ اور عصری علم نہایت ضروری ہے۔ جناب وجاہت مسعود کا کہنا تھا کہ صحافیوں کا ایک گراف بنانا چاہئے کہ انہوں نے کب کس مقتدر شخص کی حمایت کی اور کب دستبردار ہو کر کسی دوسرے کے گرویدہ ہو گئے۔ تاکہ لوگوں کے سامنے مفادات کا کھیل سامنے آ سکے۔ اور پتہ چلے کہ کون اپنے ضمیر کی آواز بیان کرتا ہے اور کون ضمیر فروشی کر رہا ہے۔ اکثریتی گروہ یا ہیئت مقتدرہ کی حمایت کرنا صحافت کی خدمت نہیں۔ جرأت اور آزادی کی بات یہ ہے کہ اقلیتوں اور کمزور طبقوں کی حمایت کی جائے۔ صحافت کی قامت وہاں طے ہوتی ہے جب غیر
مقبول مؤقف کی حمایت میں کھڑا ہوا جائے۔
ہماری صحافت میں لیبل اور فتوی لگانا عام سی بات ہے۔ صحافت میں کسی ایک مکتب فکر ئا دوسرے گروہ کی اندھا دھند حمایت یا مخالفت کی ریت ٹھیک نہیں۔ بات حقائق اور معروضیت کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔
میڈیا کو احساس کرنا چاہئے کہ اگر ملک میں امن ہوگا تو معیشت ترقی کرے گی، کاروبار ی سرگرمیوں ہی سے میڈیا کو اشتہارات مل سکتے ہیں۔ چنانچہ میڈیا کو ایسے نقطہ نظر کی حمایت نہیں کرنی چاہئے جس کے نتیجے میں ملک میں انتشار اور فساد برپا ہو ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ میڈیا لوگوں کے جذبات ابھار کر غیر ذمہ داری کا مظاہر ہ کرتا ہے۔ وقتی طور پر شائد ریٹنگ تو بڑھ جاتی ہو، لیکن اس کے دور رس نتائج ملک اور میڈیا ہی کے خلاف جاتے ہیں۔
چنانچہ میڈیا کو جمہوری عمل اور امن کی ترویج کے لئے کام کرنا چاہئے جس سے خود میڈیا کی آزادی اور ترقی کی ضمانت وابستہ ہے۔ یہ بات بھی سامنے لائی گئی آج ایڈیٹر اور مالک ایک ہی ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے صحافت کا معیار گر کر ایک حریص کاروبار کی شکل اختیار کر چکاہے۔
سیمینار میں کچھ اس طرح کے واقعات سننے میں آئے۔ ایک خاتون کا کہنا تھا اس نے ایک ایسی ٹیکسی دیکھی جس پر پریس کی پلیٹ لگی تھی۔ جب ٹیکسی ڈرائیور سے استفسار کیا تو اس کا کہنا تھا کہ پریس کی پلیٹ دیکھ کر پولیس ان کو تنگ نہیں کرتی۔ سینئر صحافی ابصار عالم صاحب نے اپنا ذاتی واقعہ یوں سنایا کہ موٹر وے پولیس نے تیز رفتاری پر ان کو روک لیا، انہوں نے پولیس والوں کو کہا، کہ آپ کچھ لوگوں چھوڑ بھی تو دیتے ہیں۔ تب پولیس والے نے انہیں اپنا واقعہ سنایا کہ اس نے ایک دفعہ تیز رفتاری پر گاڑی کو روکا تو گاڑی میں بیٹھے شخص نے اس پر پستول تان کر کہا ، ٴٴتمہیں ایک جنرل کو روکنے کی کو جرات کیسے ہوئیà ٴٴ یہ واقعہ اس تناظر میں بیان کی گیا کہ پریس سے متعلقہ لوگ بھی اپنی حیثیت سے ناجائز فوائد اٹھاتے ہیں۔ بہرحال سیمینار میں اس بات پر زور دیا گیا ، کہ صحافت ایک تمدنی خدمت کا نام ہے۔
یہ کباب بیچنے کا پیشہ نہیں ہے۔ امیر بننے کے خبط نے پوری سوسائٹی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اور وہ پیشے جن میں انسانی و اخلاقی اقدار لازمی جز ہوا کرتی تھی۔ پیسے کی اس دوڑ میں وہ بھی تجارتی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔
کانفرنس میں میڈیا میں موجود کرپشن اور صحافیوں کے اپنے احتساب کی بھی بات کی گئی۔ میڈیا صرف سیاست دانوں کی کرپشن کو اچھال رہا ہے جب کہ تاجروں، جاگیرداروں، صنعت کاروں، عدلیہ ، فوج اور میڈیا میں ہونے والی کرپشن عوام سے چھپائی جا رہی ہے۔
Source: Daily Mashriq
……..
Jihadi Media (PDF of an article on Jihadi media by the same author)
Our media is free but not responsible.