Tehzibi Nargasiat – by Mobarak Haider


Mobarak Haider

Title: Tehzibi Nargasiat (Cultural Narcissism)
Category: Psychology
Publisher: Sanjh Publication
Year of Publication: 2009
Price: Rs150

سرورق

Here are some comments and reviews on an excellent, non-fiction book by Mobarak Haider.

Ever wondered why a certain kind of Musalman is always whining? This book has all the answers. If you have felt during this year that we as a nation suffer from some disease, this book provides the diagnosis. Tehzibi Nargasiat should be compulsory reading for high school students as well as our TV anchors….It’s brilliantly written with a very clear-headed analysis of the political situation, and it looks at the Muslim world’s relationship with the rest of the world from a historical perspective.

Mohammed Hanif, BBC Urdu

Source: 1, 2

If you have ever wondered why Muslims whine so much, this very well written polemic answers all the questions. A very well written analysis of our current troubles, Nargasiat charts our political history through the lens of pop psychology and comes up with the definitive diagnosis for our spiritual ailments.

Source: Dawn

مبارک حیدر کو مبارک ہو
سیلِ رواں کی مخالف سمت تیرنے کا حوصلہ کم ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔
جب زمانے بھر میں ایک نظریہ ایمان کا درجہ اختیار کر جائے تو کم لوگ ہی اس کی خامیوں پر قلم اٹھاتے ہیں۔ جب دانشوروں کے پاس اپنی قوم کو دینے کے لیے کوئی امید کی کرن نا ہو تو وہ بھی مایوس لوگوں کے ساتھ جانتے بوجھتے ہوئے سرابوں کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں۔ لیکن سچا انقلابی اپنے آدرش سستی شہرت کے عوض بیچا نہیں کرتا اور نہ ہی جزباتیت کے شکار معاشرے کی ہاں میں ہاں ملا کر تمغہ امتیاز کا تمنائی ہوتا ہے۔ اس کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ بصیرت و بصارت کو عام کرے سطحی سوچ کے بجائے حالات و اسباب کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے اور اگر زمانے کے سردو گرم جھیل طکا ہو تو یہ سہ آتشہ والی بات ہوگئی۔
مبارک حیدر بھی کچھ اسی قسم کے انقلابی ہیں “
Rizwan – Urdu Mehfil

….

تہذیبی نرگسیت: ایک خطرناک روگ

عارف وقار
بی بی سی اردو ڈاٹ کام

پاکستان کے علمی، ادبی، ثقافتی اور سیاسی حلقوں میں مبارک حیدر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔
پینتالیس برس قبل ایک نوجوان جوشیلے مزدور لیڈر کے رُوپ میں شروع ہونے والا اُن کا سفر ارتقاء کی فطری منزلیں طے کرتا ہوا اِس پختہ عمری میں انہیں ایک متحمل مزاج لیکن زِیرک اور تجربہ کار انقلابی دانشور کی منزل تک لے آیا ہے۔

مبارک حیدر نے امریکہ کو محض سامراجی عفریت کہہ کر پیچھا نہیں چُھڑا لیا بلکہ اُس کے نظام میں کارفرما پائیدار عناصر کا تجزیہ بھی کیا اور جس نے ماسکو سے اپنی عقیدت کو محض لینن کے فریم شدہ پورٹریٹ تک محدود رکھنے کی بجائے خود ماسکو جاکر وہاں کے نظامِ معیشت اور معاشرتی ڈھانچے کا تنقیدی نگاہ سے مطالعہ کیا۔۔۔ اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد اپنے عمر بھر کے تجربات کو آج کے نوجوانوں کے لئے تحریری شکل میں مرتب کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔

مبارک حیدر نے وقت کے اہم ترین مسئلے ۔۔۔ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے رجحان ۔۔۔ کی طرف خاص توجہ دی اور اس خطرناک سوچ کی طرف اہلِ وطن کی توجہ مبذول کرائی کہ شمالی علاقوں میں چلنے والی تحریک سے چونکہ بین الاقوامی سامراج یعنی امریکہ پر زد پڑ رہی ہے، اس لئے انقلابی اور عوام دوست قوتوں کو فوراً بنیاد پرست مذہبی عناصر کی حمایت میں باہر نکل آنا چاہیے۔

شاخسانہ
مبارک حیدر نے اپنی کتاب میں وقت کے اہم ترین مسئلے ۔۔۔ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے رجحان ۔۔۔ کی طرف خاص توجہ دی ہے اور اس خطرناک سوچ کی طرف اہلِ وطن کی توجہ مبذول کرائی ہے کہ شمالی علاقوں میں چلنے والی تحریک سے چونکہ بین الاقوامی سامراج یعنی امریکہ پر زد پڑ رہی ہے، اس لئے انقلابی اور عوام دوست قوتوں کو فوراً بنیاد پرست مذہبی عناصر کی حمایت میں باہر نکل آنا چاہیے۔
مبارک حیدر کے خیال میں اسطرح کی سوچ ہماری پوری قوم کی تہذیبی نرگسیت کا شاخسانہ ہے، اسی عنوان سے شائع ہونے والی اپنی حالیہ کتاب میں مبارک حیدر اس اصطلاح کا پس منظر بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ قدیم یونان کی دیومالا میں نارسس نام کا ایک خوبصورت ہیرو ہے جو اپنی تعریف سنتے سنتے اتنا خود پسند ہو گیا کہ ہر وقت اپنے آپ میں مست رہنے لگا اور ایک روز پانی میں اپنا عکس دیکھتے دیکھتے خود پر عاشق ہوگیا۔ وہ رات دِن اپنا عکس پانی میں دیکھتا رہتا۔ پیاس سے نڈھال ہونے کے باوجود بھی وہ پانی کو ہاتھ نہ لگاتا کہ پانی کی سطح میں ارتعاش سے کہیں اسکا عکس بکھر نہ جائے۔ چنانچہ وہ اپنے عکس میں گُم بھوکا پیاسا ایک روز جان سے گزر گیا۔۔۔ اور دیوتاؤں نے اسے نرگس کے پھول میں تبدیل کردیا جو آج تک پانی میں اپنا عکس دیکھتا ہے۔

یہ تو تھی دیو مالائی کہانی، لیکن علمِ نفسیات میں نرگسیت کی اصطلاح بیماری کی حد تک بڑھی ہوئی خود پسندی کےلئے استعمال ہوتی ہے۔ یعنی جب گرد و پیش کے حقائق سے آنکھیں چُرا کر کوئی شخص اپنے آپ کو دنیا کی اہم ترین حقیقت سمجھنا شروع کردے اور اپنی ذات کے نشے میں بدمست رہنا شروع کردے۔

مبارک حیدر نےایک جوشیلے مزدور لیڈر سے ایک متحمل مزاج تجزیہ کار تک کا سفر درجہ بہ درجہ طے کیا ہے مبارک حیدر نے اس اصطلاح کو ذاتی سطح سے اُٹھا کر اجتماعی سطح پر استعمال کیا ہے اور ہمیں باور کرایا ہے کہ کسی فرد کی طرح کبھی کبھی کوئی پوری قوم اور پوری تہذیب بھی اس بیماری میں مبتلا ہو سکتی ہے اور اسی اجتماعی کیفیت کو وہ تہذیبی نرگسیت کا نام دیتے ہیں۔ مبارک حیدر اپنی کتاب کی ابتداء ہی میں قارئین کے سامنے یہ سوال رکھتے ہیں کہ مسلم معاشروں میں تشدّد کی موجودہ لہر کے خلاف کوئی احتجاج کیوں نہیں کیا جا رہا؟ اور مسلم اُمّہ بالعموم اس تباہ کاری پر خاموش کیوں ہے؟ مبارک حیدر کا جواب یقیناً یہی ہے کہ اس وقت ہم سب قومی سطح پر ایک تہذیبی نرگسیت کا شکار ہیں۔ مصنف کی زیرِ نظر کتاب دراصل اسی اجمال کی تفصیل ہے اور اسی کلیدی اصطلاح کے مضمرات کا احاطہ کرتی ہے۔

کتاب کے آخری حصّے میں مبارک حیدر نے خود قرآن و حدیث کے متن سے وہ حوالے پیش کیے ہیں جنہیں بنیاد پرست عناصر اپنی کارروائیوں کے حق میں سامنےلاتے ہیں۔ لیکن بقول مصنف ان عبارتوں سے کہیں بھی شدت پسندی اور ساری دنیا پر زبردستی چھا جانے اور اپنے نظریات مسلط کردینے کا جواز نہیں ملتا۔

تہذیبی نرگسیت
کتاب: تہذیبی نرگسیت
مصنف: مبارک حیدر
اشاعت: جنوری 2009
ناشر: سانجھ پبلیکیشنز ٹیمپل روڈ لاہور
بیرونِ ملک قیمت: دس ڈالر
پاکستان میں قیمت: 150 روپے

آگے چل کر مصنف نے بنیاد پرستوں کے ایک ایک مفروضے پر تفصیلی بحث کی ہے اور اسے کج فہمی، ہٹ دھرمی اور کوتاہ نظری کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ مصنف لکھتے ہیں: ’تہذیبی نرگسیت کی اساس نفرت پہ ہے اور منفی جذبوں کے اس شجر کا پھل وہ جارحیت ہے جِسے اکسانے کےلئے ایک چھوٹا سا عیّار اور منظم گروہ کئی عشروں سے ہمارے معاشروں میں سر گرمِ عمل ہے۔۔۔ یہ اقلیت کا اکثریت کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔‘

کتاب کی اختتامی سطروں میں مصنف کی طرف سے درجِ ذیل انتباہ بھی جاری کیا گیا ہے۔ ’تہذیبی نرگسیت کا علاج ممکن ہے لیکن اگر ہم نے خود تنقیدی کا راستہ اختیار نہ کیا تو عالمی برادری کو شاید یہ حق حاصل ہوجائے کہ وہ ہمارے یہ ہاتھ باندھ دے جن سے ہم نہ صرف اپنے بدن کو زخمی کرتے ہیں بلکہ نوعِ انسانی پر بھی وار کرتے ہیں۔‘

ظاہر ہے کہ اس کتاب کے مندرجات پر مختلف طبقوں کا ردِعمل ایک جیسا نہیں ہوگا لیکن کتاب میں ایسے بنیادی مسائل چھیڑے گئے ہیں جن کا تعلق ہماری روزمرّہ زندگی، ہمارے مستقبل اور ہماری بقاء سے ہے۔ چنانچہ معاشرے میں ان مسائل پر کھل کر بحث ہونا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے

Source: BBC Urdu

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sarah Khan
    -
  2. Sarah Khan
    -
  3. Aliarqam
    -
  4. Imran Hashmi
    -
  5. Asad
    -
  6. naeem mahar
    -
  7. Air Jordan Slide Slippers
    -
  8. Nike Zoom LeBron V
    -
  9. Air Jordan 4
    -
  10. Air Jordan 13 Retro
    -
  11. Jordan 12
    -
  12. Louis Vuitton Wallets Small Leather Goods
    -
  13. Lebron 11 Womens
    -
  14. Air Jordan Melo
    -
  15. Hombres New Balance 420
    -
  16. Nike Air Jordan Spizike Men
    -
  17. Mens Nike Free Run 3.0
    -
  18. Lebron 10 Elite
    -
  19. Nike Air Max 90 Tape
    -
  20. Air Jordan True Flight
    -
  21. Nike Air Max 2003
    -
  22. Nike Free 5.0 V3 Homme
    -
  23. Nike Free 5.0
    -
  24. Nike Air Max 90
    -
  25. Air Max 90 Homme
    -
  26. Nike Free Run Femme
    -
  27. Nike Blazers bajo Hombres
    -
  28. New Balance 1300
    -
  29. Hot NBA Stars Shoes
    -
  30. Air Jordan 18
    -
  31. Sunglasses
    -
  32. Pumps
    -
  33. Hobo
    -
  34. > Supplement
    -
  35. MATELASSÉ
    -
  36. Papier Bag
    -
  37. Gucci New 2013
    -
  38. Prada gafas de sol Outlet
    -
  39. ED Hardy Bolsos
    -
  40. Cher-Survetement Lacoste Chaud Pas cher
    -
  41. Homme Shirts
    -
  42. Femme Monogram ldylle
    -
  43. Womens New Balance 7500
    -
  44. Men Nike Shox
    -
  45. jordan clothing online shopping
    -
  46. Handbags
    -
  47. Gafas De Sol Imitacion Online
    -
  48. Air Max Darwin 360 Men Shoes
    -
  49. Ray Ban 2140 Black Wayfarer 901 50 Mm
    -