Ansar Abbasi in support of Imran Khan – by Zalaan

انصار عباسی کا عمران افروز کالم

ایک بار پھر سوات میں لڑکی پر کوڑے مارنے کو جائز کہنے والے ،طالبان کے حمایتی ،ملک میں طالبانوں کی غیر قانونی عدالتوں کو آسمانی حکم کہنے والے صحافی انصار عباسی عمران خان کی سپورٹ میں نکل ہے ہیں کیوں کے جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے صحافی انصار عباسی اور ان جیسے طالبان پرستوں کی آخری امید اب عمران خان ہی ہے ،اپنے کالم میں قرآن اور حدیثوں کی بھرمار کر کے سیاست میں مذہب کا خوب استمعال کرتے ہیں ،پر اس کے جواب میں اگر انہیں ان کے تصورات کا آئین دکھایا جاتا ہے تو یہ بلبلا کر

.کہتے ہیں کہ اسلام کو بیچ میں نہ لاؤ .

خیر یہ مولانا صاحب فرماتے ہیں کہ اصغر خان نے بڑے بڑے جلسے کئے پر ووٹ حاصل نہیں کر سکے کیوں کہ ان کے پاس ایمان کی طاقت نہیں تھی اور عمران کے پاس ایمان کی طاقت ہے …واہ بھائی …. تو کیا قاضی حسین کے پاس ایمان کی طاقت نہیں تھی ،کیا مذہبی جماعتوں نے پاکستان میں بڑے بڑے جلوس جلسے کئے اور ووٹ حاصل نہ کر سکے تو کیا ان کے ایمان میں بھی کمی تھی جو عمران میں نہیں ہے ؟

انصار عباسی کہتے ہیں کہ سیکولر جماعتوں کے پاس شرابی اور زانی لوگ ہیں ……. تو بھائی عمران خان کے بارے میں کیا خیال ہے ؟؟ وہ ہاں وہ تو توبہ کر چکے … اچھا پھر بتائیں کے شریعت میں کیا توبہ کی گنجائش ہے ؟ اگر آپ کی پسندیدہ شریت نافذ ہو تو کیا ماضی میں کسی مسلمان کے کئے ہوے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ؟ کیا شریعت کسی کے ذاتی معاملات میں دخل نہیں دیتی ؟ کیا شرعی کورٹ میں ستا وائٹ کیس کرنے پر عمران خان با عزت بری ہو سکے گیں یا سنگسار ؟
اب بیچارے ان طالبان پسندوں کی مایوسی کی انتہا ہے کے اب عمران خان میں انہیں اپنے خوابوں کی تعبیر نظر آرہی ہے ،بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی


خان کے ایمان کا امتحان…کس سے منصفی چاہیں…انصار عباسی

20 اکتوبر کو جیو کے مقبول پروگرام کیپٹل ٹاک کے شروع ہونے سے قبل حامد میر صاحب نے عمران خان صاحب کی موجودگی میں مجھ سے ذکر کیا کہ اسی روز عمران خان کی کتاب (Pakistan: A Personel History) کی اسلام آباد میں تقریب رونمائی کے موقع پر ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان صاحب کا کہنا تھا کہ عمران خان سیاست میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ لوگ ایماندار شخص کو ووٹ نہیں دیتے۔

اصغر خان صاحب کا اشارہ یقیناً اپنی طرف تھا کہ صاف ستھری زندگی گزارنے کے باوجود ان کو اور ان کی تحریک استقلال کو لوگوں نے کبھی اہمیت نہ دی۔ اس پر عمران خان نے کہا کہ اصغر خان صاحب ایک سیکولر سوچ رکھنے والے آدمی ہیں، انہیں کیا خبر کہ ایمان کی کیا طاقت ہوتی ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ ان کا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ضرور سرخرو کرے گا۔

اس واقعہ کے ٹھیک دس دن کے بعد لاہور میں مینار پاکستان کے وسیع میدان میں عمران خان کے جلسے نے سب کو حیران کر دیا۔ تحریک انصاف کے لاہور شو نے اگر عوام کی ایک بڑی تعداد میں ایک نئی امید کی کرن پیدا کی تو اس پر عمران خان کے سیاسی مخالفین خصوصاً ن لیگ پریشان دکھائی دی اور سب سے دلچسپ ردعمل پرویزرشید صاحب کی طرف آیا جن کو جلسے میں موجود کرسیوں کا فُٹوں اور گزوں میں حساب کرتے ہوئے وہاں موجود افراد کی تعداد کا اندازہ لگاتے سنا گیا۔ بعد ازاں عمران خان کو یہودیوں کے ساتھ نتھی بھی کیا گیا۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے کچھ رہنما جو پہلی دفعہ ٹی وی ٹاک شو میں نظر آئے وہ بھی بے کار کی بحث میں مبتلا پائے گئے اور کچھ توجوش خطابت میں اس قدر آگے نکل گئے کہ نواز شریف کا ذکر کرتے ہوے اُن کے ابا جان تک پہنچ گئے ۔

ایک صاحب تو شریف خاندان کی لندن میں موجود مبینہ جائیداد کی فہرست لے آئے اورمیاں صاحب کی بیٹی، بیوی اور دوسرے افراد کے گھروں کی تفصیلات پڑھنی شروع کر دیں۔ اس پر میاں صاحب کی بیٹی مریم نواز صاحبہ نے ٹی وی شو کے دوران فون کر کے بتایا کی لندن میں کیا پاکستان میں بھی اُن کے پاس کوئی جائیداد نہیں ۔ تحریک انصاف کے لیے مناسب ہو گا کہ وہ سیاست میں شائستگی کا خیال رکھ کر اپنے آپ کو دوسروں سے نمایاں کرے اور الزامات لگاتے وقت سچائی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے اور خصوصاً خواتین کے معاملہ میں احتیاط برتے۔ مجھے ذاتی طور پر چوہدری نثار صاحب کی طرف سے عمران خان کی ذات پر حملے کرنا اور جواباً عمران خان صاحب کی طرف سے چوہدری

نثار کو بھی اسی انداز میں جواب دینا اچھا نہ لگا۔

عمران خان کے بچے جہاں مرضی ہوں اور چوہدری نثار کے بیوی بچوں کا پاسپورٹ چاہے کسی بھی ملک کا ہو، یہ دونوں سیاستدان اسلامی ذہن رکھنے والے محب وطن اور کرپشن سے پاک ہیں۔ سیاسی حلقوں کے علاوہ تحریک انصاف کی لاہور ریلی نے پاکستان میں موجود لبرل فاشسٹوں کو بھی کافی پریشان کر دیا۔

عمران خان نے ریلی کے دوران اسٹیج پر ہی نماز مغرب ادا کی، تقریر کے دوران اذان سنتے ہی دو مرتبہ خاموشی اختیار کی، بارہا اللہ کا نام لیا اور رب العزت کا شکریہ ادا کیا اور” ایاک نعبد و ایاک نستعین“ اور اس کا ترجمہ اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد کے طلب گار ہیں پڑھا جس پر لبرل فاشسٹوں اور اسلام سے شرمانے والے سیکولر طبقے کو پریشانی لاحق ہوئی۔ کچھ تو غصہ میں تلملا اٹھے اور عمران خان کو discreditکرنے کی بھی کوشش کی ۔

عمران خان نے اپنے خطاب میں تبدیلی کی بات کی مگر جن مسائل کا ذکر کیا وہ تمام تر ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ عمران خان یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ماضی میں ان کی سوچ غیر مذہبی تھی اور وہ اسلام سے بہت دور تھے مگر قرآن نے ان کی زندگی کو یکسر بدل دیا اور ان میں ایمان کی وہ طاقت پیدا کی جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ پولیس، محکمہ مال اور دوسرے سرکاری اداروں کو کرپشن سے پاک کرنا اور ان میں ایسی اصلاحات لانا کہ عوام کو انصاف مل سکے اور رشوت اور بدعنوانی کا خاتمہ کیا جا سکے ایک اہم تبدیلی ہو سکتی ہے مگر اصل تبدیلی اس نظام کا پاکستان میں نفاد کرنا ہے جس کا ہمیں اللہ اور اللہ کے رسولﷺ نے حکم دیا ہے اور جس کی بنیاد پر پاکستان کو حاصل کیا گیا اور جس کا وعدہ آئین پاکستان کرتا ہے۔ پاکستان کی اکثریت کو اس انقلاب کا انتظار ہے جس کا مقصد اسلامی نظام کا نفاذ ہو۔

امریکا و یورپ کے علاوہ پاکستان میں لبرل فاشسٹوں کو اس سے بڑی تکلیف ہو گی مگر عمران خان کو اپنے اللہ کی رضا کے لیے اپنی سیاست کو وہ رخ دینا ہو گا جس کیلئے آئین پاکستان ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کا آئین ہر حکومتی ادارے اور ہر فرد پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اسلامی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے لیے اور انہیں اچھی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کرے جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت رسولﷺ کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔ اسی آئین میں لکھا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بن سکتا اور یہ کہ یہاں عربی زبان پڑھانے کا خصوصی انتظام کیا جائے گا۔ یہی آئین ان شرائط کا تعین کرتا کہ پاکستان کے حکمران اور قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے اراکین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھے کردار کے حامل ہوں ،عام طور پر اسلامی احکام سے انحراف نہ کرتے ہوں ،اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتے ہوں، اسلام کے مقرر کردہ فرائض کے پابند ہوں، کبیرہ گناہوں سے بچتے ہوں اور اس کے علاوہ وہ پارسا، ایماندار اور امین ہوں۔ افسوس کہ ان واضح آئینی تقاضوں کے باوجود شرابی، زانی، لٹیرے، ڈاکو، کرپٹ اور بدکردار افراد کی ایک بڑی تعداد ہی ہماری نمائندگی کرتی رہی اورایوان اقتدار میں بیٹھے رہے۔

دوسری طرف اسلامی ماحول فراہم کرنے کی بجائے فحاشی و عریانیت کو عام پھیلایا جا رہا ہے اور پورے معاشرے کو تباہ و برباد کیا جا رہا ہے۔ کاش عمران خان کا انقلاب ان تمام برائیوں کے خلاف ہو اور اس کا مقصد قرآن و سنت کی اصل روح کے مطابق پاکستان کو ایک جدید اسلامی ریاست بنانا ہو جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور جس کا وعدہ آئین پاکستان کرتا ہے۔ اس سلسلے میں عمران خان کو اپنی پارٹی کے اندر سے بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیوں کہ تحریک انصاف کے بڑوں میں بھی کچھ کنفیوژڈ مسلمان موجود ہیں۔ اس حقیقت کا شاید عمران خان کوبھی ادراک ہو۔ اللہ تعالٰی ہمیں سیدھے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔ آخر میں میری طرف سے تمام

قارئین کو عید مبارک

Comments

comments

Latest Comments
  1. Zalaan
    -
  2. Shahid
    -
  3. AHMED BALOCH
    -
  4. faraz
    -
  5. Malik
    -
  6. Zalaan
    -
  7. Zalaan
    -
  8. S.Ali Nangyal
    -
  9. Kashif Naseer
    -
  10. Kashif Naseer
    -
  11. Kashif Naseer
    -
  12. Irfan Urfi
    -
  13. Zalaan
    -
  14. MNZ
    -
  15. Zalaan
    -
  16. Zalaan
    -