Ansar Abbasi in support of Imran Khan – by Zalaan
انصار عباسی کا عمران افروز کالم
ایک بار پھر سوات میں لڑکی پر کوڑے مارنے کو جائز کہنے والے ،طالبان کے حمایتی ،ملک میں طالبانوں کی غیر قانونی عدالتوں کو آسمانی حکم کہنے والے صحافی انصار عباسی عمران خان کی سپورٹ میں نکل ہے ہیں کیوں کے جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے صحافی انصار عباسی اور ان جیسے طالبان پرستوں کی آخری امید اب عمران خان ہی ہے ،اپنے کالم میں قرآن اور حدیثوں کی بھرمار کر کے سیاست میں مذہب کا خوب استمعال کرتے ہیں ،پر اس کے جواب میں اگر انہیں ان کے تصورات کا آئین دکھایا جاتا ہے تو یہ بلبلا کر
.کہتے ہیں کہ اسلام کو بیچ میں نہ لاؤ .
خیر یہ مولانا صاحب فرماتے ہیں کہ اصغر خان نے بڑے بڑے جلسے کئے پر ووٹ حاصل نہیں کر سکے کیوں کہ ان کے پاس ایمان کی طاقت نہیں تھی اور عمران کے پاس ایمان کی طاقت ہے …واہ بھائی …. تو کیا قاضی حسین کے پاس ایمان کی طاقت نہیں تھی ،کیا مذہبی جماعتوں نے پاکستان میں بڑے بڑے جلوس جلسے کئے اور ووٹ حاصل نہ کر سکے تو کیا ان کے ایمان میں بھی کمی تھی جو عمران میں نہیں ہے ؟
انصار عباسی کہتے ہیں کہ سیکولر جماعتوں کے پاس شرابی اور زانی لوگ ہیں ……. تو بھائی عمران خان کے بارے میں کیا خیال ہے ؟؟ وہ ہاں وہ تو توبہ کر چکے … اچھا پھر بتائیں کے شریعت میں کیا توبہ کی گنجائش ہے ؟ اگر آپ کی پسندیدہ شریت نافذ ہو تو کیا ماضی میں کسی مسلمان کے کئے ہوے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ؟ کیا شریعت کسی کے ذاتی معاملات میں دخل نہیں دیتی ؟ کیا شرعی کورٹ میں ستا وائٹ کیس کرنے پر عمران خان با عزت بری ہو سکے گیں یا سنگسار ؟
اب بیچارے ان طالبان پسندوں کی مایوسی کی انتہا ہے کے اب عمران خان میں انہیں اپنے خوابوں کی تعبیر نظر آرہی ہے ،بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی
خان کے ایمان کا امتحان…کس سے منصفی چاہیں…انصار عباسی
20 اکتوبر کو جیو کے مقبول پروگرام کیپٹل ٹاک کے شروع ہونے سے قبل حامد میر صاحب نے عمران خان صاحب کی موجودگی میں مجھ سے ذکر کیا کہ اسی روز عمران خان کی کتاب (Pakistan: A Personel History) کی اسلام آباد میں تقریب رونمائی کے موقع پر ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان صاحب کا کہنا تھا کہ عمران خان سیاست میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ لوگ ایماندار شخص کو ووٹ نہیں دیتے۔
اصغر خان صاحب کا اشارہ یقیناً اپنی طرف تھا کہ صاف ستھری زندگی گزارنے کے باوجود ان کو اور ان کی تحریک استقلال کو لوگوں نے کبھی اہمیت نہ دی۔ اس پر عمران خان نے کہا کہ اصغر خان صاحب ایک سیکولر سوچ رکھنے والے آدمی ہیں، انہیں کیا خبر کہ ایمان کی کیا طاقت ہوتی ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ ان کا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ضرور سرخرو کرے گا۔
اس واقعہ کے ٹھیک دس دن کے بعد لاہور میں مینار پاکستان کے وسیع میدان میں عمران خان کے جلسے نے سب کو حیران کر دیا۔ تحریک انصاف کے لاہور شو نے اگر عوام کی ایک بڑی تعداد میں ایک نئی امید کی کرن پیدا کی تو اس پر عمران خان کے سیاسی مخالفین خصوصاً ن لیگ پریشان دکھائی دی اور سب سے دلچسپ ردعمل پرویزرشید صاحب کی طرف آیا جن کو جلسے میں موجود کرسیوں کا فُٹوں اور گزوں میں حساب کرتے ہوئے وہاں موجود افراد کی تعداد کا اندازہ لگاتے سنا گیا۔ بعد ازاں عمران خان کو یہودیوں کے ساتھ نتھی بھی کیا گیا۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے کچھ رہنما جو پہلی دفعہ ٹی وی ٹاک شو میں نظر آئے وہ بھی بے کار کی بحث میں مبتلا پائے گئے اور کچھ توجوش خطابت میں اس قدر آگے نکل گئے کہ نواز شریف کا ذکر کرتے ہوے اُن کے ابا جان تک پہنچ گئے ۔
ایک صاحب تو شریف خاندان کی لندن میں موجود مبینہ جائیداد کی فہرست لے آئے اورمیاں صاحب کی بیٹی، بیوی اور دوسرے افراد کے گھروں کی تفصیلات پڑھنی شروع کر دیں۔ اس پر میاں صاحب کی بیٹی مریم نواز صاحبہ نے ٹی وی شو کے دوران فون کر کے بتایا کی لندن میں کیا پاکستان میں بھی اُن کے پاس کوئی جائیداد نہیں ۔ تحریک انصاف کے لیے مناسب ہو گا کہ وہ سیاست میں شائستگی کا خیال رکھ کر اپنے آپ کو دوسروں سے نمایاں کرے اور الزامات لگاتے وقت سچائی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے اور خصوصاً خواتین کے معاملہ میں احتیاط برتے۔ مجھے ذاتی طور پر چوہدری نثار صاحب کی طرف سے عمران خان کی ذات پر حملے کرنا اور جواباً عمران خان صاحب کی طرف سے چوہدری
نثار کو بھی اسی انداز میں جواب دینا اچھا نہ لگا۔
عمران خان کے بچے جہاں مرضی ہوں اور چوہدری نثار کے بیوی بچوں کا پاسپورٹ چاہے کسی بھی ملک کا ہو، یہ دونوں سیاستدان اسلامی ذہن رکھنے والے محب وطن اور کرپشن سے پاک ہیں۔ سیاسی حلقوں کے علاوہ تحریک انصاف کی لاہور ریلی نے پاکستان میں موجود لبرل فاشسٹوں کو بھی کافی پریشان کر دیا۔
عمران خان نے ریلی کے دوران اسٹیج پر ہی نماز مغرب ادا کی، تقریر کے دوران اذان سنتے ہی دو مرتبہ خاموشی اختیار کی، بارہا اللہ کا نام لیا اور رب العزت کا شکریہ ادا کیا اور” ایاک نعبد و ایاک نستعین“ اور اس کا ترجمہ اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد کے طلب گار ہیں پڑھا جس پر لبرل فاشسٹوں اور اسلام سے شرمانے والے سیکولر طبقے کو پریشانی لاحق ہوئی۔ کچھ تو غصہ میں تلملا اٹھے اور عمران خان کو discreditکرنے کی بھی کوشش کی ۔
عمران خان نے اپنے خطاب میں تبدیلی کی بات کی مگر جن مسائل کا ذکر کیا وہ تمام تر ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ عمران خان یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ماضی میں ان کی سوچ غیر مذہبی تھی اور وہ اسلام سے بہت دور تھے مگر قرآن نے ان کی زندگی کو یکسر بدل دیا اور ان میں ایمان کی وہ طاقت پیدا کی جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ پولیس، محکمہ مال اور دوسرے سرکاری اداروں کو کرپشن سے پاک کرنا اور ان میں ایسی اصلاحات لانا کہ عوام کو انصاف مل سکے اور رشوت اور بدعنوانی کا خاتمہ کیا جا سکے ایک اہم تبدیلی ہو سکتی ہے مگر اصل تبدیلی اس نظام کا پاکستان میں نفاد کرنا ہے جس کا ہمیں اللہ اور اللہ کے رسولﷺ نے حکم دیا ہے اور جس کی بنیاد پر پاکستان کو حاصل کیا گیا اور جس کا وعدہ آئین پاکستان کرتا ہے۔ پاکستان کی اکثریت کو اس انقلاب کا انتظار ہے جس کا مقصد اسلامی نظام کا نفاذ ہو۔
امریکا و یورپ کے علاوہ پاکستان میں لبرل فاشسٹوں کو اس سے بڑی تکلیف ہو گی مگر عمران خان کو اپنے اللہ کی رضا کے لیے اپنی سیاست کو وہ رخ دینا ہو گا جس کیلئے آئین پاکستان ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کا آئین ہر حکومتی ادارے اور ہر فرد پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اسلامی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے لیے اور انہیں اچھی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کرے جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت رسولﷺ کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔ اسی آئین میں لکھا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بن سکتا اور یہ کہ یہاں عربی زبان پڑھانے کا خصوصی انتظام کیا جائے گا۔ یہی آئین ان شرائط کا تعین کرتا کہ پاکستان کے حکمران اور قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے اراکین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھے کردار کے حامل ہوں ،عام طور پر اسلامی احکام سے انحراف نہ کرتے ہوں ،اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتے ہوں، اسلام کے مقرر کردہ فرائض کے پابند ہوں، کبیرہ گناہوں سے بچتے ہوں اور اس کے علاوہ وہ پارسا، ایماندار اور امین ہوں۔ افسوس کہ ان واضح آئینی تقاضوں کے باوجود شرابی، زانی، لٹیرے، ڈاکو، کرپٹ اور بدکردار افراد کی ایک بڑی تعداد ہی ہماری نمائندگی کرتی رہی اورایوان اقتدار میں بیٹھے رہے۔
دوسری طرف اسلامی ماحول فراہم کرنے کی بجائے فحاشی و عریانیت کو عام پھیلایا جا رہا ہے اور پورے معاشرے کو تباہ و برباد کیا جا رہا ہے۔ کاش عمران خان کا انقلاب ان تمام برائیوں کے خلاف ہو اور اس کا مقصد قرآن و سنت کی اصل روح کے مطابق پاکستان کو ایک جدید اسلامی ریاست بنانا ہو جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور جس کا وعدہ آئین پاکستان کرتا ہے۔ اس سلسلے میں عمران خان کو اپنی پارٹی کے اندر سے بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیوں کہ تحریک انصاف کے بڑوں میں بھی کچھ کنفیوژڈ مسلمان موجود ہیں۔ اس حقیقت کا شاید عمران خان کوبھی ادراک ہو۔ اللہ تعالٰی ہمیں سیدھے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔ آخر میں میری طرف سے تمام
قارئین کو عید مبارک
اس کے ساتھ ساتھ انصار عباسی عمران خان کے جلسے میں ہونے والی شیطانی دجالی اعمال کو بلکل نظر انداز کر دیا ،کیا مخلوط اور بےپردہ لڑکے لڑکیوں کے جلسوں میں آنا اور موسیقی اور گانوں کا ہونا غیر اسلامی ہے یا اسے نرم اسلامی انقلاب سے تعبیر کیا جائے گا
As usual, LUBP is busy in propaganda against Imran Khan, the only liberal, progressive voice in Pakistani politics.
It’s not only right wingers such as Ansar Abbasi, famous liberal activists such as Yasir Hamdani (Pak Tea House editor) too are supporting Imran Khan.
Entire Pakistan, right and left, agrees on Imran Khan.
——-
Why progressives should support Khan —Yasser Latif Hamdani
The reason I support him however is not because of his great moment of personal triumph, which even on its own is inspirational enough, but because, in my view, Imran Khan represents by far the most progressive option in Pakistan, all things considered. Consider.
The established definition of modernity rests on the following pillars: social justice, political democracy, secularism, responsible government and most importantly the rule of law. Imran Khan openly espouses four out of five of these conditions. He stands for social justice between economic groups and for the uplift of marginalised sections of society. He is committed to the electoral process and believes in a responsible and accountable government. Finally, he speaks of a society where the rule of law reigns supreme and therefore everyone — without exception — is equal in the eyes of the law.
As for secularism, I am not of the opinion that one should refrain from using terms that aptly describe an idea or a person just because that person refrains from using these terms. As Marx said so aptly that the politics of politicians of the day ought to be analysed not per the draperies that adorn it but that the veil should be pierced to get to the substance of such politics. Khan may denounce secularism and pledge allegiance to the Islamic faith, but his politics, centring on commonsense temporal issues like the creation of a social welfare state, is by definition secular politics and a secular agenda. Distinguishing Islamic ideology from secularism, Imran Khan says in no uncertain terms that an Islamic state would provide all the freedoms of a secular state but would preserve the family system, which is the essence of Islam in his view. This view by no means is unique. Great Britain, which in theory is a protestant monarchy, is in fact a secular democracy without a complete separation of church and state. It seems then that Imran Khan is pleading for a cultural ethos rooted in Islam and not necessarily a state policy that seeks to implement one interpretation of Islam over the other. By espousing a pluralistic, democratic and egalitarian state, albeit Islamic, Imran Khan is following in the footsteps of established Islam-based democrats like the great Reccip Erdogan of Turkey and more precisely Ennahda Party of Tunisia. This trend has been described by many scholars as post-Islamism, which loosely defines politics that might deploy Islamic symbols and be culturally at home with this rhetoric but which follows an agenda of reform and pluralism. Imran Khan is Pakistan’s and possibly, with the exception of the Turkish prime minister, the Islamic world’s most credible post-Islamist leader. He has the potential to be Pakistan’s Erdogan.
The socialist left should in particular recognise the potential Khan’s politics present to it. At the very least it is certain that the urban middle class — or to use Hamza Alavi’s innovative term, the ‘salariat’ — who supports Imran Khan represents the strengthening of capitalism and the rapid breakdown of traditional feudalism that has its hold over Pakistan. His challenge to the patwari (land record officer) system for example is significant for it promises to break down existing feudal structures and thereby disrupt in a significant way the control over the means of production in the agricultural rural areas. Another plank of his political design is to levy agricultural income tax, which will serve to strengthen the aforesaid salariat, which today bears the burden of heavy taxation because of the perpetual tax holiday unfairly and unjustly given to the landed class by the forces of the status quo. All these are steps in the right direction. Indeed it is the responsibility of every progressive patriot to lend a hand to Khan in doing away with these last vestiges of a medieval feudal society that have long held back our country.
The massive mobilisation of the de-politicised sections in Pakistan makes Imran Khan’s movement unique. There is a tendency to dismiss it as an urban middle class ghairat (honour) phenomenon but that flies in the face of reality. It is therefore for Pakistan’s marginalised left in disarray to seize this moment or remain forever irrelevant. Only through engagement with this new national movement can the ideas espoused by the dozen odd communist and socialist parties be mainstreamed. Time is of the essence.
The writer is a lawyer based in Lahore. He is also a regular contributor to the Indian law website http://mylaw.net and blogs on http//globallegalforum.blogspot.com and http://pakteahouse.net. He can be reached at [email protected]
http://www.dailytimes.com.pk/default.asp?page=2011%5C11%5C07%5Cstory_7-11-2011_pg3_5
عمران خان کے بچے جہاں مرضی ہوں اور چوہدری نثار کے بیوی بچوں کا پاسپورٹ چاہے کسی بھی ملک کا ہو، یہ دونوں سیاستدان اسلامی ذہن رکھنے والے محب وطن اور کرپشن سے پاک ہیں
hahhahahahh…..saley chut bhi teri oor pat bhi teri…..too hur taraf sey theek hey kioon keh too Islami zehin rakhta hey….but infact too JAMAT ISLAMI zehin rakhta hey….but kuttey tery din poorey horahey hein…
Baghal mei Jamaima, mun pe Taliban Taliban
“دوسری طرف اسلامی ماحول فراہم کرنے کی بجائے فحاشی و عریانیت کو عام پھیلایا جا رہا ہے اور پورے معاشرے کو تباہ و برباد کیا جا رہا ہے۔ ”
Most fahashi is being spread by his own Geo/Jang group. He has no problem taking this haram salary from his organisation.
میری ایک بات سمجھ نہیں آتی کے آخر یہ کون سا اسلامی نظام چاہتے ہیں ،ضیاء الحق نے پوری کوشش سے جماعت اسلامی اور علما دیوبند کی نگرانی میں اسلام نافذ کیا اب یہ لوگ اسے بھی اسلامی نظام نہیں کہتے ہیں ، پھر طالبان کا اسلام یا پھر سعودی عرب کا اسلام ؟
یہ اسلامی نظام صرف کاغذوں اور خیالوں میں بنایا گیا ہے جس کا اب تک زمین پر وجود نہیں ہو سکا
ہمیں تو یہ پتا ہے کہ گناہ کے بعد توبہ کرنے سے الله معاف کر دیتا ہے
پر مولوی کی شریعت میں توبہ کی تو گنجیسزہ نہیں ،اگر کوئی زنا کرے تو سنگساری اور شراب پئے تو کوڑے ،
پر کیا شریعت میں یہ گنجائش ہے کے جو گناہ شریعت کے نفاز سے پہلے کے گئے اس کا اطلاق نہیں ہوگا ؟؟
پر عمران خان کے زمانے میں تو ضیاء الحق کے شریعت کورٹ موجود تھے پھر عمران خان شرعی سازوں سے بری از ذمہ کیسے ہو سکیں گے ؟
کیا عمران خان کی شریعت کے بعد طالبان یہ نعرے لگائیں گے؟
شریعت کا نفاذ کرو
عمران کو سنگسار کرو
عمران مقبوليت نه زمونږ ډير رونړه شايد په ديی ډريګی چی هغه د خلقو (public sentiments) خبره کي هغه وايی چی د پردو ده پاره خپل خلق مه وجني ۱۰ کلن ناکامه حکومتی پاليسی پاکستان او پښتون قوم ته کومه ګټه کړی ده ؟؟ البته په زرګونو بيي ګناه انسانان وژل شو – هزار ها در په در شو د ملک اکانومی ۷۰ بلين زيان اومندو د روپی نرخ د ډالر په مقابل ۳۰ لاندی شو د تيجارت توازن دومره خراب شو چی عير ملکی سرمايه کار څه چی خپل خلق مو هم بنګله ديش او دوبی ته کاروبارونه منتقل کړل ده ديي هر څه باوجود زمونږ نادانه دوستان وايي چی خير که هر څه کيګی خو امريکه به نه خفه کؤ اوس که څوک د حق وينا نشی اوريدی نو خبل غوږونه دی بند کړ د عمران کاميابه جلسه ده يو بدلون اغاز ديی چی انصار نه علاوه بی بی سی سی اين اين سکايی نيوز واسشنګټن پوسټ او نورو بيشميره چينلو رپوټ کړي ده
عمران خان کا اسلامی انقلاب سے کوئی تعلق نہیں، انصار بھائی کو اسکا جلد اندازہ ہوجائے گا۔
Zalaan
جہاں تک قانون کا تعلق ہے تو کوئی بھی جرم صرف معافی مانگنے سے ختم نہیں ہوجاتا، ملزم کو دنیا کی ہر عدالت میں اسکے جرم کی سزا ضرور ملتی چاہے وہ معافی ہی کیوں نہ مانگ لے۔ شریعت کا حکم بھی بلکل یہی ہے۔
Zalaan
ہم اس انقلاب کی نشاۃ ثانیہ چاہتے ہیں جو آج سے چودہ سو سال قبل محمد رسول اللہ صلی اللہ و علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں برپا کیا تھا، جس میں حاکمیت اللہ صرف اور صرف اللہ کو حاصل کو حاصل تھی اور جس میں عوام فوری انصاف حاصل کرتے تھے۔ یقینی طور پر ایسا انقلاب عمران خان نہیں لاسکتے اور نہ ہی یہ ضیاء الحق کے بس کی بات تھی۔ نظام کی تبدیلی اور انقلاب کا خواب انتخابی ساست سے کبھی پورا ہو ہی نہیں سکتا۔ دنیا میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں جہاں انتخابات کے زریعے کوئی بھی نظام تبدیل ہوا۔ اسلامی انقلاب کا خواب بھی انقلاب نہیں تصادم سے شرمندہ تعبیر ہوگا اور چودہ سال بھی اسکی مہنج منہج انقلاب نبوی صلی اللہ و علیہ وسلم ہی ہوگی۔ یعنی دعوت، دعوت کی نتیجے میں ایک مخلص، مطیع اور بے لوث جماعت کا قیام اور پھر حجرت اور تصادم۔ انشاء اللہ میں بلکل پر امید ہوں انقلاب اسلامی اور نشاۃ ثانیہ کا خواب ہمیشہ خواب نہیں رہے گا۔ایک دن ضرور آئے گا جب سرمادارنہ نظام بھی کمیونزام کی طرح اپنے دن گن رہا ہو اور اسلامی خلافت کا سورج جمہوریت اور آمریت کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کردے گا۔
Ansar Abbasi Khud Mazhabi Janoni Ha ,aur Imran Khan tu Media Ke Farmayesh kuahish ha jab k Retired Gen Hamid gul , Retired Gen Mahmood, Hanrey Kasenger imran khan ko Paltay rahaen hain Ya Eastablishment Ka 95/96 say Mohra ha Eastablishment ko aisay in Matured Politician Ke zarorat rahtey ha Nawaz sharif Matured hogye hain is lye ab imran khan aisay tamam logo ka intekhab ha !
کاشف نصیر صاحب
میں بھی آپ کی طرح مودودی کی کتابیں پڑھ کر بڑا ہوا ہوں جس نشاط ثانیه کی آپ بات کرتے ہیں یہ پہلے کبھی بھی نہیں رہی جو آج ہوگی ، یہ ایک خیالی تصوہر ہے اور ایک خواہش پر عملی تو پر کبھی نہیں رہی ، جو قصے کہانیا سنی جاتی ہیں وہ تصویر کا ایک رخ ہیں دوسرے رخ میں خون خراب اور جنگ و جدال ہے .
https://docs.google.com/Doc?docid=0AVtq3-RjRr-hZGQ5ZDgzZDJfMjVka2IyYzhjOA&hl=en_US
Islami Nizaam Myth
https://docs.google.com/Doc?docid=0ATRNQzczBrmVZGR3bjR4ZzdfMmRiazUzdGZ4&hl=en_US
Tehzibi nergisiat
https://docs.google.com/viewer?a=v&pid=explorer&chrome=true&srcid=0B1tq3-RjRr-hYzZjYTJkMTctNGNjOC00MDMyLWIyYjAtNDRmYjllNTVmM2Mw&hl=en_US
Imran speed pakar rahah hai or fouj or establishment bhi lana chatay hain….
pakistan mein election jazbati platform par lara jata hai, tamam siyasatdanon ke bachay bhi imran ki side par hain or in ki tasad wali batain ignore kar di jayen gi!
jo qoom zardari ko la sakti hai jo insaani khoon ki sharab peta hoo , woh awam jazbaat mein imran ko bhi le aye gi……..
magar aik dafa anay to do! phir dekho hum kiya kartay hain!
Mulla!
جس طرح ترکی کی سب سے مذہبی پارٹی بھی پاکستان کی سیکولر پارٹی سے بھی سیکولر ہے اسی طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی مذہبی سیاسی جماتوں کے نظریات کمزور پڑتے جا رہے ہیں . اسلامی نظام کے جتنے خواب ہو سکتے تھے وہ سب آزماے جا چکے اور سب کے سب فیل ہو گئے
فوج کے ذریے ضیاء الحق کا اسلام
ملا عمر کا طالبانی اسلام
لال مسجد کا کمانڈو اسلام
سوات کی گلے کاٹنے والی شریعت
فوج میں کچھ لوگوں کا بغاوت کر کے اسلام لانا
اسامہ کا ایک کرشماتی کردار
سب کے سب فیل ہو گئے ، موددیانہ نظریار رکھنے والے لوگ انتہائی مایوسی سے ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں ، سواے حکومت اور امریکا کو برا بھلا کہنے کے اب ان کے پاس کوئی ایسی بات نہیں .
مودددیت کے اسلامیسٹ کے پاس اب عمران خان کی حمایت کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا
بھاگتے چھوڑ کی لنگوٹی ہی سہی
ذرا عمران کو وزیر اعظم تو بن لینے دو
ہر ببلو پکارے گا ،ہماری ہے پی پی