Amar Sindhu’s article on Begum Nusrat bhutto


Appeared in Pakistan Post, NewYork امر سندھوجامشورو

نصرت ،ریاست ،جمہوریت اور قافلہ شہیدوں کا وہ مٹھی بھر خاک جسکا خمیر سرزمین اصفہاں نصف جہاں میں جڑا تھا، حبس و گھٹن کے اس صحرائی دیش میں باد نسیم بنکر چلی اور گڑھی خدا بخش کے گنج شہیداں میں ابدی نیند سو گئی ا۔ ۔ ،کون جانے کہ کہ اصفہانی خمیر کا اس دیش کے ہوائوں پر کتنا قرض رہ گیا ہےکس نے جانا ہے کہ جس وقت اسے لحد میں اتارا گیا تو مزاحمت کا آنچل بن کر امروں کے دلوں میں پیوستہ ہونے والا یہ کوہ ہمالیہ !سے بھی بھاری اس شخصیت کا لیرہ لیرہ وجود دل پر کتنے داغ لیے ہوئے تھاتاریخ عالم میں وہ وزیر اعظم کی اہلیہ، دو مرتبہ وزیر اعظم بننے
والی پہلی مسلم خاتون کی ماں، اور ملک کے منتخب صدر کی ساس تھی۔ کون جانے کہ تخت اقتدار کا یہ سلسلہ اسکی تیسری نسل تک بھی چلےاور یہ بھی حقیقت کہ گڑھی خدابخش میں بھٹوئوں کی پانچ قبریں جنریلوں کے سیاسی ڈیزائین کے ساتھ لڑائي کے حوالے سے یاد رکھی جائيں گي کہ وہ سب اس دیش میں عوامی سیاست کے شجر ممنوعہ کا پھل چکھنے کے جرم میں نکالے گۓ، اور تڑپا تڑپا کر مارے گۓ۔نصرت بھٹو بھی اس خانوادے کے خاتون تھی جس نے اپنا ہاتھ اس شجر ممنوعہ کی طرف بڑھانے کی جرئت کی اور خوب سزا کھائی۔ہاں، مگر نصرت وہ خاتون جس نے سیاست کے خدائوں سے ٹکر کھائي ، اقتدار
کے دائروں سے نکال باہر کیے جانے اور تحتہ دا پر کھینچے جانے کی عبرت ناک سزا کے باجود وہ مقتل کو جانایوالی اس راہ کی پر جل نکلنے کی جرئت کرتی تے۔” آج وہ مجھے قتل کرنے جار رہے ہیں ۔ تم دونوں نے بہت سی سختیاں سہی ہیں “جب تک آئین معطل ہے ، ملک میں مارشل لاء مارشل لا ہے ، اگر آپ نئی زندگی شروع کرنا چاہیں تو یورپ چلی جائيں میری طرف سے تو “تمہیں اجازت ہے ” ہم باہر نہیں جائيں گي ، ہم کبھی بھی جرنیلوں کو کو یہ تاثر نہیں دیں گي کہ ” وہ جیت چکے ہیں، یہ نصرت کا جواب تھا۔سیاسی خدا بنکر بیٹھھے جنریلوں کا یہ احساس کہ “وہ جیت چکے ہیں” صرف اس احساس کو
شکشت دینے کیلیے یہ خاتون جرئت مقتل سے بھری اس راہ پر جنریلوں کے سیاسی ڈیزائین کی ایسی تیسی کرنے کیلیے اسطرح میدان میں اتری کہ تھوڑے ہی عرصے میں گڑھی خدا بخش میں دو قبروں کا اضافہ ہوا- یہ دو قبریں کسی اور کی نہیں اس خاتون کے جگر گوشوں کی تھیاور محض نصرت ہی نہیں اس دیش کے سیاسی کلچر کی بحلی میں کتنا ہی خون خاک نشیناں رزق خاک ہوا۔نہ جانے کیوں جب انکی بیٹی اور دو مرتبہ ملک کی منتخب ہونے والی وزیراعظم بینظیر بھٹو نے جب اپنی خود لوشت سوانعمری کے آخری باب لکھے تھے تو اس نے اپنے لیے اسے ماضی میں ملا ہوا لقب “دختر مشرق” یا ڈاٹر آف دی ایسٹ ”
کہلانے کے بجآئے دیگر لفظ ا انتخاب کیا تھا ۔ اس نے ڈاٹر آف ایسٹ یا “دختر مشرق’ کہلانے کے بجائے خود کو ڈاٹر آف ڈیسٹنی یا “دختر تقدیر” کہلانا پسد کیا تھا۔ داراصل تقدیر نے بنیظیر نہیں بنائی تھی تقدیر اس کیلیے را چنی تھی ، یہ اس کی ماں ہی تھ جس نے اس پرخار راستہ چنا تھا راستہ چنا تھا ےاس نے دیش کے لوگوں کی تقدیرتحریر کرنا چاہی تھی۔ اس نے دراصل اس دیش کی تقدیر لکھنے والا قلم جرنیلوں کے ہاتھوں سے چھین کر لوگوں کے ہاتھوں میں دے دیا تھاوہ خالق تقدیر تھی۔ نصرت کو خوب پتہ تھا کہ محض انسانوں کے خدا نہیں پر اس دھرتی پر خدا بنکر کر بیٹھنے والے فوجی
وردی والے آمر بھی تقدیر بنانے والے اس جرئت انسانی پر سزائوں کے جہنم برپا کر کر زمیں تپتا تانبہ کر دیتے ہیں۔ اور اس جنہم میں کوئی اور نہیں سب سے پہلے اس ماں کا گھر جل کر خاکستر ہوا ،ں اس دیش کے جعلی سیاستدان مچھروں کے کاٹنے سے ملک چھوڑ کر فرار ہوجاتے ہیں۔ لکن یہ خاتون پنڈی سے اپنے کنبے کے سربراہ کی لاش کا بوجھ اٹھانے کے بعد بھی جب جواں سالہ بیٹی کے ساتھ تعزیتیں وصول کرتی ہے تو سب سے پہلا سبق بیٹی کو یہ سکھاتی ہے کہ کس طرح حوطہ برقرار رکھنا ہے۔ وہ اپنی بیٹی کو اردو کا فقط ایک جملہ سکھاتی ہے کہتی ہے کہ جو کوئی بھی تعزیت کییلیے اآئیں
اور نہیں ں ڈھارس بندھائے اور کہہے “حوصلہ رکھو۔ حوصلہ رکھو” یہ سولہ دسمبر انیس سو ستہتر کا دن تھا، دو عورتیں، یقینا غیر معمولی عورتیں ، باجود اسکے کہ انکے خاندان کا مرد سربراہ فوجی حراست میں، ، ملک مرشل لاء کے عذاب میں”سیاست”سے عوام کو جدا کرنے کا عملی شروعات کب کی ہو چکی تھی ۔جنریلوں کے جنگی منصوبے بلاشبہ و شوق چرند پرند سے دور انڈر گرائوئڈ بئرکوں میں ترتیب دیے جاتے ہوں پر سیاست کے راستے عوامی ہجوموں میں سے چشموں کی طرح پھوٹ کر عوام کی دلوں کو سیراب کرتے ہوئے اپنا سفر کرتے ہیں۔یںاس دیش میں اس خلق خدا سے مخاطب ہونا ہی جرم
ٹھہرا تھا۔ سیاسی جسلوں جلوسوں پر مارشل لائی لاک اپ ۔۔۔ لیکن یہ دو عورتیں عوام سے جڑے رشتے سے بندھی سیاست سے عہد تجدید نبھانے کو قذافی اسٹیڈیم آن پہنچتی ہیں۔ انکا استقبال نعروں سے اور تالیوں سے ہوتا ہے۔ عوام اور انکے رہنما کے درمیاں رشتے کی یہ تار جیسے ہی جڑتی ہے وردی والوں میں اک بھونچال سا آجاتا ہے۔پہلے آنسو گیس کے شیل۔۔۔مگر بھھٹو خواتین کے قدموں میں کسی طرح کی لرزش نہیں آتی ، نہ ہی وہ واپس مڑتے ہیں اور آخر کار لاٹھی چارج نصرت کے سر کا نشانہ خطا نہیں جانے دیتی ۔ خون کے فوارے اور لہو میں رنگے چہرے کے ساتھ وہ بیٹی کی نصحیت کو نظرانداز
کرتے ہوئےسیدھی خوں میں لہو لہاں چہرے سے وہ اس وقت کے لاہور کے مارسللا ایڈمنٹسٹریٹر کے گھر تک جا پہنچی۔ ” جنرل! آج کا دن یاد رکھنا۔ آج کے دن تم لوگوں نے ڈھاکہ میں ہندووستانی فوج کے آگے ہتھیار پیھک دیےتھے اور آج کے دن پر پر تم لوگوں نے مجھے خون میں رنگ کر شرمناک حرکت کی ہے۔ تم جنریل عزت لفظ کو نہیں جانتے تم صرف بیعزتی کا لفظ سمجھتے ہو۔”گا ایرانی خون و خمیر سے جڑی اس خاتون کا انداز تخطاطب جرنیلوں کو زیادہ پسند نہیں آیا وہ مزید آگ بگولہ ہو گۓ۔نصرت نے تو انہیں کھری کھری سنانے کے بعد ہسپتال جاکر اپنے سر پر بارہ ٹانکے لگوائے تھے اس نے
جرنیلوں کو شرمندگی والا دن یاد دلا کر دراصل اپنی یادادشت کے متسقبل کا فیصلہ کرلیاتھا۔ا ۔ اس نے ریاستی اداروں کی سیاست کے ساتھ دشمنی اور خلق خدا والی سیاست کے شجر ممنوعہ سے دوستی کے جر م میں وہ نصرت جس نے استقلال سے مقابلہ کیا ا ا دراصل پاکستان میں عوامی سیاست اور جرنیلی سیسات کے درمیاں حد امتیاز کھینچنے کا سہرا بھی نصرت کے ہی حصے میں آیا ،جب اس نے اپنی سیاسی دانش عقل و فراست سے سیاسی کلاس کوجرنیلوں کی صف سے باہر نکال لے آنے کی حکمت عملی تیار کی۔ ایم۔ آر۔ڈی اسی دانش کا نتیجہ تھی ۔ سیاست جرنیلوں کے بوٹوں کی نوک پر سے اٹھا کر
سیاسی کلاس کی میز تک لانا مقصود تھی۔اس کی جواں سالہ بیٹی تڑپ اٹھی تھی جب اس نے ستر کلفٹن کے ڈرائنگ روم میں انہی سیاستدانوں کو کافی کے کپوں میں سے سرکیاں بھرتے دیکھا جنہوں نے اسکے والد کو تختہء دار تک پہنچا کر دم لیا تھا۔ایم ۔آر۔ڈی اقتدار پہ قبضہ گیر قوتوں کیلیے پہلا چیلینج ثابت ہوئي تھی ۔ قومی اتحاد صرف بھٹو کا نہیں پر جمہوریت کا بھی قاتل اتحاد تھا ۔ مگر نصرت بھٹو بضد تھی کہ پیپلزپارٹی کی سینٹرل کمیٹی میں یہ بحث اٹھنی چاہیے کہ “سیاست اور فوج’ کی بیچ لکیر قائم رکھنےکیلیے فوج کو سیاستدانوں کی حمایت سے علحدہ کیا جائے۔ ۔ جاتنصرت کی یہ
داشمندی تھی کہ پاکستانی سیاست میں جمہوریت کے سفر کی اساس ہی ہتھی سکاست ار فوج کے مفاصلے کو برقرار رکھا جائے۔اگرچہ نصرت کی یہ سیاسی حکمت عملی پاکستان میں عوامی سیاست کو زندہ رکھنے کیلیے بہترین ثابت ہوئی ، مگر کون جانے کہ کہ سیاسی رہنمائوں کی کلاس میں شعور کے ایسے فقدان کے سبب مارشل لائوں کا رستہ ہنوز مکمل طور بند نہیںہوا اور نہ ہی جمہوری سفر پر گامزن ٹرین کو پٹریوں پر سے اتارنے والی سازشوں کا کوئی خامتہ ہوا ہے الیکن کون کہے گا کہ یہ نصرت کا خاندان تھا جس نے جہموریت کے راستے کی اپنے خون سے آبیاری نہیں کی ہے ، کون کہے گا کہ
پیپلزپارٹی اگر چار اپریل کے بعد بھی آجتک قائم و دائم ہے تو اس میں نصرت کی سیاسی جدوجہد کا ہاتھھ نہیں ہے۔ دارصل یہ پاکستان کے واحد سیاستبدان شہری ہے جس نے اس ریاست کے جمہوری تشحص کی شناخت میں اپنے تمام خاندان کو اپنے ہی زندگی میں ہی قبرستان کا حصہ بنتے دیکھا ۔ اس صورت میں ن اگر یہ ریاست اسے مادر جمہوریت کا لقب دیتی ہے تو یہ ریاست اپنا وہ احساس ندامت چھپا نہیں سکتی کہ اس ریاست نے اس خاتون سے چھینا زیادہ اور دیے تو اسکے دل پر دا‏غ اور روح پر زخموں کے سوا اس ریاست نے اسے کچھ نہیں ددیا – اور اب اگر یہ ریاست اسے مادر جہموریت قرارد دیکر
سرکاری اعزاز سے دفناتی ہے تب بھی دل پہ ہاتھ رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ یہ ریا ست آج بھی نصرت کی مقروض ہے ، اور اچ بھی اس ریاست پر نصرت کا قرض ادھار ہے۔ے

Comments

comments

Latest Comments
  1. Baqi Khan
    -