جب پاکستان پر فرقہ واریت کا سایہ تھا– علی سلمان

Originally Posted at: BBC URDU

وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کےدور میں کالعدم تنظیموں کو سختی سے کچلنے کا حکم جاری ہوا

کالعدم سپاہ صحابہ کے رہنما ملک اسحاق کی رہائی نے پاکستان کے اس دور کی یاد تازہ کر دی ہے جب پاکستان شدت پسندی کے خلاف امریکہ کی شروع کردہ کسی جنگ کا حصہ بھی نہیں تھا اور نہ ہی کوئی نائن الیون ہوا تھا لیکن اس کے باوجود قتل و غارت گری نے ملک کی چولیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔

یہ دور فرقہ وارانہ پرتشدد واقعات کے عروج کا دور تھا۔آج کل کی طرح اس زمانے میں بھی پاکستان میں ہونے والے پرتشدد واقعات کے ڈانڈے بیرون ملک جوڑے جاتے تھے لیکن زاویے ذرا مختلف تھے۔

مثال کے طور پر سرکاری طور پر نہ سہی لیکن پولیس حکام ایک طرف ایران اور دوسری طرف سے افغانستان اور عراق کا نام لیتے تھے اور ہمیشہ کی طرح ٹھوس ثبوت کوئی پیش نہیں کیا جاتا تھا۔

شعیہ اور سنی تنظیمیں ایک دوسرے فرقے کے لوگوں کو نیکی کا کام سمجھ کر چن چن کر قتل کررہی تھیں۔

کالعدم سپاہ صحابہ کے ایک عہدیدار نے بتایا تھا کہ ملک اسحاق کی گرفتاری کالعدم سپاہ صحابہ اور پولیس کے درمیان بہت بڑے تناؤ کا سبب بن گئی تھی کیونکہ اس عہدیدار کے مطابق ملک اسحاق کو پولیس نے مذاکرات کا جھانسہ دے کر بلوا کر گرفتار کرلیا تھا اور بعد میں انہیں سو افراد کے قتل کے الزام میں چالان کرنے کی کوشش کی تھی۔

۔یہ نوے کی دہائی کے آخری سال تھے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کےدور میں کالعدم تنظیموں کو سختی سے کچلنے کا حکم جاری ہوا۔کالعدم تنظیموں کے پہلے سے گرفتار کارکنوں کو مبینہ مقابلوں میں ہلاک کیا جانے لگا۔صرف ایک ڈی ایس پی طارق کمبوہ ساٹھ سے زیادہ کارکنوں کو مبینہ مقابلے میں مارچکے تھے۔

جواباً طارق کمبوہ تو قتل ہوئے ہی لیکن بھاری مینڈیٹ والے وزیر اعظم میاں نواز شریف پر ایک خوفناک قاتلانہ حملہ ہوچکا تھا۔وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔

لشکر جھنگوی کے سربراہ ریاض بسرا ایک ڈراؤنے خواب کی طرح پولیس حکام کے ہواس پر سوار تھے۔وہ ان کے لیے ایک ایسا چھلاوہ بن گئے تھے جو کبھی نواز شریف کی کھلی کچہری میں ان سے امداد وصول کر کے ان کا منہ چڑاتا تو کبھی اخبارات میں طویل ٹیلی فون کر کے اپنے بیانات لکھوا کر پولیس کے سینے پر مونگ دلتا۔

میڈیا پر ہر طرف ریاض بسرا کا نام چھایا ہوا تھا لیکن یہ مکمل حقیقت نہیں تھی۔

فرقہ وارایت کے خلاف کام کرنے والے سی آئی ڈی اور سی آئی اے کے افسران اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ تمام بڑے واقعات کا اصل منصوبہ ساز کوئی اور ہے اور وہ پولیس افسران براہ راست اس پر ہاتھ ڈالنا چاہ رہے تھے۔

کالعدم تنظیم کے عہدیداروں نے خود بتایا تھا کہ ملک اسحاق نے جیل سے مذاکرات شروع کیے اور پولیس افسران کو مشکل میں ڈال دیا گیا۔

وہ نام تھا ملک اسحاق۔ ۔میڈیا کو ملک اسحاق کے بارے میں اس وقت پتہ چلا جب پولیس نے ملک اسحاق کو گرفتار کرلیا۔

کالعدم سپاہ صحابہ کے ایک عہدیدار نے بتایا تھا کہ ملک اسحاق کی گرفتاری کالعدم سپاہ صحابہ اور پولیس کے درمیان بہت بڑے تناؤ کا سبب بن گئی تھی کیونکہ اس عہدیدارکے مطابق ملک اسحاق کو پولیس نے مذاکرات کا جھانسہ دے کر بلوا کر گرفتار کرلیا تھا اور بعد میں انہیں سو افراد کے قتل کے الزام میں چالان کرنے کی کوشش کی تھی۔

ویسے تو پولیس شدت پسندوں کو پکڑ بھی رہی تھی اور ’مقابلوں‘ میں ہلاک بھی کیا جارہا تھا لیکن دو باتیں ایسی تھیں جس کی وجہ سے کالعدم لشکر جھنگوی کے کارکنوں کا غصہ اپنے عروج پر تھا۔ایک تو یہ کہ ان کے حقیقی لیڈر پکڑا گیا اور دوسرے یہ کہ انہیں دھوکے سے گرفتار کیا گیا۔

کالعدم تنظیم کے عہدیداروں نے خود بتایا تھا کہ ملک اسحاق نے جیل سے مذاکرات شروع کیے اور پولیس افسران کو مشکل میں ڈال دیا۔

ملک اسحاق ایک ایسی شخصیت تھی جس کے مبینہ مقابلے کے بارے میں سوچ کر بھی جعلی مقابلے کرنے والے پولیس افسروں کے پسینے چھوٹ جاتے تھے کیونکہ ایک ڈی ایس پی طارق کمبوہ سمیت متعدد پولیس افسر انہیں تنظیموں کے کارکنوں کے ہاتھوں قتل ہوچکے تھے۔

اس دورمیں دو پولیس افسروں طارق پرویز اور شوکت جاوید کی ذاتی سکیورٹی میں کئی گنا اضافہ کر دیا گیا تھا۔ ملک اسحاق کے پیغامات نہ صرف پنجاب بلکہ پاکستان کی اعلیٰ ترین شخصیات کو پہنچائے گئے۔

کہانیاں تو بہت گردش کرتی رہیں لیکن تصدیق کرنا مشکل تھا۔ کالعدم سپاہ صحابہ کے ایک کارکن نے بتایا تھا کہ یہ دھمکی دی گئی تھی کہ اگر انہیں نہ چھوڑا گیا تو یکم اکتوبر کو چوبیس گھنٹوں کے اندر سو افراد مارے جائیں گے اور حکومت کا تختہ بھی الٹا جاسکتا ہے۔

اس سے آگے کی کہانی اس دور کے ڈی ایس پی عمر ورک نے سنائی۔ وہ ان دنوں لاہور میں سی آئی اے میں سپرنٹنڈنٹ پولیس ہیں اور انہوں نے کبھی اس کی تردید بھی نہیں کی۔

انہوں نے شدت پسندوں کے ایک گروہ کو پکڑا تھا جس سے ہونے والے تفتیش اور انکشافات انہوں نے مجھے بتائے۔

اس پولیس تفتیش کے مطابق اس دھمکی کے بعد ہوا یہ کہ ریاض بسرا کی سربراہی میں افغانستان کے شہر خوست میں کالعدم تنظیم کے ساٹھ پاکستانی شدت پسندکارکنوں کا ایک ا جلاس ہوا۔

ملک اسحاق کی رہائی کے بعد ایک نیا سوال بھی پیدا ہوا کہ کیا فرقہ وارانہ کالعدم تنظیموں کی خون بہانے کی اہلیت قصہ پارینہ بن چکی؟آج بھی باقی ہے؟ یا پہلے سے بڑھ چکی ہے؟افغانستان میں ان دنوں طالبان حکومت تھی اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی کہ اس حکومت کو آئی ایس آئی کی مکمل حمایت حاصل تھی۔

پولیس تفتیش کے مطابق ان ساٹھ افراد کو پانچ پانچ افراد کی ٹیموں میں تقسیم کیا گیا اور انہیں کراچی لاہور حیدرآباد ملتان سمیت پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں بھیجا گیا انہوں نے اپنا ہدف ایک دن میں تو نہیں البتہ دو تین روز میں پورا کرلیا۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف چیخ چیخ کر کہتے رہے کہ ان وارداتوں میں طالبان ملوث ہیں اب یہ بات کوئی راز نہیں رہی کہ طالبان کو آئی ایس آئی کی مکمل حمایت حاصل رہی ہے۔

بارہ اکتوبر سنہ انیس سو ننانوے کو نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا جاچکا تھا۔ فوجی حکمران پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا جس کے بعد فرقہ وارانہ تشدد میں حیرت انگیز کمی ہوگئی۔

فوجی حکمرانی کے فوری بعد فرقہ وارایت میں کمی نے اس سوال کو جنم دیا ہی ہے کہ فوجی حکومت کا شدت پسند تنظیموں پر زیادہ اثرورسوخ ہوتا ہے۔
ملک اسحاق کی رہائی کے بعد ایک نیا سوال بھی پیدا ہوا کہ کیا فرقہ وارانہ کالعدم تنظیموں کی خون بہانے کی اہلیت قصہ پارینہ بن چکی؟آج بھی باقی ہے؟ یا پہلے سے بڑھ چکی ہے؟

Comments

comments

Latest Comments
  1. Azhar ahmed
    -