Asma Jahangir vs Justice Ramday – by Khalid Wasti

ذہنی عدم بلوغت اور منافقت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افسوس کہ من حیث القوم ہم ابھی تک بالغ نظر کہلانے کے حقدار نہیں ہیں ۔ ہماری ذہنی سطح اس حد سے اوپر تو اٹھ ہی نہیں رہی کہ جو شخص سپریم کورٹ کے فیصلے کی تائید کرتا ہے اسے ہم زرداری کا دشمن قرار دیتے ہیں ۔ جو شخص سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید کرتا ہے اسے زرداری کا چمچہ قرار دیا جاتا ہے

اب اس ذہنی نابالغی کا کیا علاج جو مجموعی طور پر ہماری ملکی اور قومی عدم بلوغت کا غماز ہے ۔ یہ صورت حال تو ان ذہنی نابالغوں کی ہے جو بدنیت ہر گز نہیں ہیں بلکہ حالات و واقعات کو دیکھتے ہی اسی طرح سے ہیں اور اسی طرح بیان کر دیتے ہیں ۔

دوسرا رویہ ُاس طبقے کا ہے جو “سمجھدار،، اور “پڑھا لکھا،، گردانا جاتا ہے ۔ اس طبقے کے لوگوں کا طرز عمل یہ ہے کہ وہ حق و باطل کی پہچان تو رکھتے ہیں لیکن کوئی جھوٹ اگر ان کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے تو یہ جانتے بوجھتے ہوئے اس جھوٹ کو سچ قرار دیں گے اور اگر کوئی سچ ان کے مقاصد کی راہ میں رکاوٹ ہے تو اسے جھوٹ قرار دینے میں کوئی ندامت محسوس نہیں کریں گے – اسے منافقت کہتے ہیں ۔ گویا من حیث القوم ہماری دو خصوصیات ہیں ، ذہنی عدم بلوغت اور منافقت

عاصمہ جیلانی جیسے لوگ اس نابالغ اور منافق معاشرے کے اندھیروں میں روشنی کے مینار ہیں – آنے والی نسلیں ایسے لوگوں پر فخر کیا کریں گی کہ چار سو پھیلی جھوٹ اور جہالت کی تاریکیوں میں ان گنے چنے لوگوں نے سچائی اور علم و آگہی کی شمع روشن کیئے رکھی کہ جس کی بدولت ہم مکمل طور پر اپنی بینائی کھو دینے سے تو بچے رہے ۔

ہمارے ذہنی نابالغ اس گہری حقیقت تک پہنچ ہی نہیں سکتے کہ آج کی دہشت گردی کے ڈانڈے قرار داد مقاصد کی منظوری سے کیسے ملتے ہیں ؟ لیکن ہمارے دین و ایمان کے وہ محافظ اور ٹھیکیدار جنہوں نے یہ سارا کھیل کھیلا وہ اس کے مضمرات سے ضرور آگاہ ہیں – یہ کھیل انتہائی مکاری کے ساتھ مرحلہ وار کھیلا گیا ۔ لیاقت علی خان کے زمانے میں قرار داد مقاصد منظور کرائی گئی – بس جی یہ تو صرف ایک قرار داد ہے ، اس کے منظور کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے ، ملک کا اسلامی تشخص واضح ہو جائے گا، “ملک دشمن عناصر،، اور“اسلام کے دشمنوں،، کو منہ توڑجاب مل جائےگا جو یہ کہتے ہیں کہ قائداعظم پاکستان کو ایک جمہوری ، فلاحی ، سیکولر سٹیٹ بنانا چاہتے تھے ۔

بعد ازاں انیس سو چھپن میں چوہدری محمد علی کے ذریعے انہی رجعت پسندوں نے اسے آئین کا دیباچہ (پری ایمبل) بنوا دیا کہ جناب ، اسے محض پری ایمبل کے طور پر قبول کر لینے سے کیا فرق پڑتا ہے ؟
پھر دلیل و منطق ، علم و آگہی ، عقل و دانش اور ترقی پسندی کے تابوت میں آخری کیل مرد مومن مرد حق، جنرل ضیاءالحق کے ہاتھوں ٹھنکوا دیا اور اس نے اسے پری ایبمل سے اٹھا کر انیس سو تہتر کے متفقہ طور پر منظور شدہ آئیں کا حصہ بنا دیا – بظاہر سادہ اور سرسری نظر آنے والے ان اقدامات کا نتیجہ آج دہشت گردی ، انتہا پسندی ، عدم برداشت ، فرقہ واریت اور اسی نوع کی دیگر بیماریوں
کی صورت میں سامنے آ رہا ہے ۔

اب آئیے اس پوائنٹ کی جانب کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کا اس کہانی سے کیا تعلق ہے – تعلق اس طرح ہےکہ ذوالفقار علی بھٹو کو بظاہر سپریم کورٹ کے حکم پر ہی پھانسی دی گئی تھی لیکن آج انصاف کی دنیا میں بھٹو کیس کو عدالتی قتل (جوڈیشل مرڈر) کہا جاتا ہے ۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے یہ اصطلاح سری لنکا کے اس وقت کے چیف جسٹس نے استعمال کی تھی ۔ بہر حال ، سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی نطیر کسی بھی عدالت میں آج تک پیش نہیں کی گئی اس لیئے کہ منصفوں کی نظر میں اس فیصلے کی پیدائش کے عمل کو حلال نہیں بلکہ مشکوک سمجھا گیا ۔

میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اس دور کے فاسق اعظم نے اسلام ، خدا ، رسول اور شریعت کے نام پر بلیک میلنگ کر کے اپنے مذموم ارادوں کو پورا کرنے کے لیئے جو کھیل کھیلے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انیس سو تہتر کے آئین میں اس نے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کو گھسیڑ دیا ۔ عام مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیئے اپنے نام نہاد ریفرینڈم کے الفاظ کی طرح ان آرٹیکز کو بھی اس نے خوبصورت لفظوں کا جامہ پہنایا ۔ یعنی قوم کے نمائیدوں کے لیئے صادق اور امین ہونے کی شرط رکھ دی گئی ۔ مقصد یہ تھا کہ عوام کے منتخب کردہ کسی شخص سے چھٹکارا پانا ہے تو اسے صادق اور امین کی خود ساختہ سولی پر لٹکا دیا جائے ۔ اور کوئی عدالت اس شخص کو صادق اور امین قرار نہ دے سکے جس کے پاس ضیاءالحق کا سرٹیفکیٹ نہ ہو۔ مُلا جنت میں جانے کا سرٹیفکیٹ دے اور مرد مومن صادق اور امین ہونے کا

بھٹو کیس کی طرح ان آرٹیکلز کو بھی قانون اور انصاف کی نظروں میں اہمیت نہ ملی اور پاکستان کی تاریخ میں ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ہے کہ عدالت نے کسی شخص کو ان آرٹیکز کی بنیاد پر صادق اور امین نہ سمجھتے ہوئے نا اہل قرار دیا ہو ۔ سابق گورنر پنجاب اور سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کےبھائی چوہدری الطاف نے کامیاب ہونے والے اپنے مخالف امیدوار راجہ افضل کے خلاف آرٹیکل باسٹھ کے تحت رٹ پٹیشن دائر کی جسے سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا۔ چوہدری الطاف نے راجہ افضل کے خلاف شراب کا کاروبار کرنے اور دیگر خلاف شرع کاموں میں ملوث ہونے کے ثبوت عدالت میں پیش کیئے تھے لیکن سپریم کورٹ ان آرٹیکلز کی پیدائشی عمل کو جائز نہیں بلکہ بدنیتی پر محمول سمجھتی تھی لہذا پٹیشن مسترد کر دی گئی ۔

جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے ان آرٹیکلز کو پاکستان کےآئین کی جائز اولاد نہ ہونے کے باعث کسی عدالت نے بھی در خور اعتنا نہیں سمجھا ۔ لیکن آج کی سپریم کورٹ نے این آر او کو کالعد م قرار دینے کے لیئے اسے آئین کی جن شقوں سے متصادم قرار دیا ہے ان میں آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کو بھی شامل کر دیا ہے ۔ اس طرح گویا سپریم کورٹ نے ایک بدنام زمانہ ڈکٹیٹرکے بدنیتی پر مبنی آرٹیکز کو بھی تقدس کی سند عطا کر دی اور انہیں ویلڈ قرار دے دیا ۔

آئیندہ کے لیئے ملک کی تمام عدالتیں ان آرٹیکلز کو آئین کا لیجیٹمیٹ حصہ سمجھتے ہوئے لوگوں کے صادق اور امین ہونے کا فیصلہ دینے کی پابند ہوں گی ۔ اور ظاہر ہے کہ اس ضمن میں سپریم کورٹ آخری اتھارٹی ہو گی ۔ گویا پہلے مُلا جنت کا سرٹیفکیٹ دیا تھا اور امیرالؤمنین صادق اور امین ہونے کا اور اب یہ کام مُلا اور سپریم کورٹ کیا کریں گے ۔ ضیاء کے زمانے میں سپریم کورٹ نے امیرالؤمنین کی خواہش کے برعکس نہ کوئی فیصلہ دیا ، نہ دینا تھا ۔ بھٹو قتل کی مثال کے علاوہ مرد مومن کے صاحبزادے اعجازالحق کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ اگرمیرا باپ زندہ ہوتا تو میں دیکھتا کہ سپریم کورٹ اس کے خلاف کیسے فیصلہ کرتی ہے ۔

تو جناب جو سفر قرار داد مقاصد کے منظور ہونے سے شروع ہو کراس کے پری ایمبل اور آئین کا حصہ بننے اور آرٹیکلز باسٹھ اور تریسٹھ کے نفاذ تک پہنچا تھا ، اس نے اپنا اگلا مرحلہ سپریم کورٹ سے حلال زدگی (لیجیٹمیسی) کا سرٹیفکیٹ لے کر طے کر لیا ہے ۔ اور اس کے منطقی نتائج جلد یا بدیر ظاہر ہو کر رہیں گے تا آنکہ انیس سو تہتر کے آئین کو اس کی اصلی حالت میں بحال کرکے تمام تر خرافات سے چھٹکارا نہیں پایا جاتا –

آخر میں ایک بات بر سبیل تذکرہ (بائی دی وے)عرض کرتا چلوں ۔ سترہ ججوں کے علاوہ شاید کوئی شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ فیصلہ لکھنے کے دوران کس کس جج نے کیا کیا رائے دی – عین ممکن ہے کہ کوئی جج ریٹائرمینٹ کے بعد اپنی سوانح لکھتے ہوئے بعض امور کا انکشاف کردے یا کسی وقت سپریم کورٹ کے اس ریکارڈ کو کسی قانون کے تحت پبلک کے لیئے عام کر دیا جائے ۔ تاہم اگر پہیلی کے طور پر مجھ سے پوچھا جائے کہ جب این آراو کو صرف آرٹیکل پچیس کے تحت تحلیل کیا جا سکتا تھا تو پھر یہ آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کی درفنطنی کس ذرخیز ذہن کی پیدوار ہو سکتی ہے تو میرے سامنے جسٹس خلیل رمدے کے علاوہ اور کوئی نام نہیں آسکتا اس لیئے کہ ان کے علاوہ مجھے اور کوئی ایسا جج نظر نہیں آتا جس کے اندر ضیاءالحق کی روح اتنی شدت سے حلول کر چکی ہو ۔

شاید یہی وجہ ہو کہ قرار داد مقاصد سے لیکر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے تک جو روح کام دکھا رہی ہے اسی روح کی طاقت رمدے صاحب کی ریٹائرمینٹ کے بعد سپریم کورٹ میں ان کی بطور ایڈہاک جج تعیناتی کے لیئے چیف جسٹس صاحب کو تحریک کر رہی ہو کہ شاید ابھی رمدے صاحب سے لیا جانے والا کوئی ادھورا رہ گیا ہو

Source: pkpolitics

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdul Nishapuri
    -
  2. Aliarqam
    -
  3. Aamir Mughal
    -
  4. Aamir Mughal
    -
  5. Aamir Mughal
    -
  6. Aamir Mughal
    -
  7. Aamir Mughal
    -
  8. Aamir Mughal
    -
  9. Abdul Nishapuri
    -
  10. Aamir Mughal
    -
  11. Kamran
    -
  12. Kamran
    -
  13. Aamir Mughal
    -
  14. Aamir Mughal
    -
  15. Shoaib Mir
    -
  16. Aamir Mughal
    -