Why do they love Polygamy? – by Danial Lakhnavi

پاکستان کے مذہبی حلقوں میں ایک سے زائد شادیوں کی اجازت اور اولاد کی تعداد کا معاملہ ہمیشہ سے دلچسپی کا موضوع رہا ہے. یہی وجہ ہے کہ ہر مذہبی تبصرہ نگار نے اپنے تحریری معرکہ آرائیوں میں اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے، یا خود ایک سے زائد شادیوں کے عملی ارتکاب سے اس کے جواز کو عملی قبولیت کی سند بخشی ہے.

ہمارے قومی مفکرومایہ ناز مذہبی تبصرہ نگار مودودی صاحب نے تو تعدد ازدواج کے حق میں اور ضبط ولادت کے خلاف اپنی صحافتی تحریروں میں دلائل پر دلائل دے مارے ہیں.

مسلمان تاریخ نگاروں نے بھی‎ ‎اپنی کتابوں میں بادشاہوں اور شہزادوں کی بیویوں، کنیزوں اور لونڈیوں کی تعداد، ان کی نرینہ و زنانہ اولادوں اور ان کے بیچ تاج وتخت کی کشمکش کو بڑی عرق ریزی کے ساتھ تاریخ اسلام کے عنوان سے مرتب کیا ہے

پاکستان آرمی کے جہادی پراجیکٹ کی سب سے بڑی شراکت دار جماعت اسلامی والے تو پرچون شاپس اور نائی کی دکانوں میں آویزاں آئینوں پر شعبہ جوانان کا جاری کردہ وہ اسٹیکر بھی چھپکا دیتے تھے جس پر فیملی پلاننگ والے اشتہار “چھوٹا خاندان، زندگی آسان” کے خلاف “بڑا خاندان، جہاد آسان” کی تحریر ہواکرتی تھی

وقت گزرنے کے ساتھ ایک سے زائد بیویوں کا شوق نودولتیوں اورعہد گزشتہ کی نشانیوں یعنی پیروں اور مولویوں تک ہی محدود ہوتا جارہا ہے خصوصا بھلاہو ہمارے مولوی احباب کا کہ انہوں نے اس دم توڑتی تہذیبی روایت کو زندہ رکھا ہوا ہے

ہمارے شاہی مہمان اور مہربان اسامہ بن لادن بھی مجاہد کی زندگی گزارتے گزارتے اس شرعی اجازت سے متمتع ہونا نہیں بھولے اور گیریزن ٹاؤن کے مورچے میں تین بیویوں اور درجن بچوں کے ساتھ قاعدے سے وقت گزارتے رہے بلکہ احمد قریشی کے بقول وہ تو ہندوستان کے کسی حکیم سے کوئلہ فلم کے راجہ(امریش پوری) کی طرح قوت باہ کے نسخے بھی منگواکر کھاتے رہے. اگرچہ ان کے اس محبوب مشغلے کی توجیہ ہم نہیں کر پارہے کیوں کہ حیرت انگیز طور پر انہوں نے اپنی وصیت میں اپنے بچوں کو جہاد القائدہ میں شمولیت سے روکا ہے اب کوئی ان سے پوچھے کہ بھائی صاحب! آپ نے جھادنہیں کروانا تھا تو کیا پریمیئر لیگ کی ٹیم بنانی تھی

ادھر اسامہ کے پرستار اور عرب شیخوں کے وظیفہ خوار پاکستانی ملاؤں نے بھی اس معاملے میں بھی اپنے پیش روؤں کے نقش قدم کو فالو کیا ہے. اور اکثر اوقات موقع اور وسائل پیدا کرکے ایک سے دو شادیاں کی ہیں. اس شوق کی تکمیل کے لئے عمومااپنے اردگرد ایسے عقیدت مندوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جن کو مذہبی تقدیس کے جھانسے میں لاکر ان کی بہنوں، بیٹیوں سے نکاح ثانی رچایا جاسکے

دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے استاد اور امام المجاہدین مولانا شیر علی شاہ ساٹھ کے پیٹے میں تھے کہ بونیر کے ایک ارادت مند کی کم عمر بیٹی سے نکاح کرلیا

سوشل نیٹ ورک فیس بک پر ایک بلاگر دوست نے حالیہ دنوں ایسی ہی ایک اور مولویانہ واردات یعنی دوسرے نکاح کا تذکرہ کیا۔

مولوی اسلم شیخوپوری جو کراچی کے بنوری ٹاؤن کے دیوبندی مدرسے میں استاد، کئی کتابوں کے مصنف اور انٹر نیٹ پر معروف دینی ویب سائٹ درس قرآن ڈاٹ کام کی روح رواں ہیں اور شہد اور مسواک کی ایکسپورٹ کا کاروبار کرتے ہیں. ‏

مولانا چلنے سے معذور اور وہیل چیئر پر بیٹھتے ہیں فراغت کے بعداپنی جسمانی حالت ،اچھے مقرر اور مصنف ہونے کے باعث جلد مقبول ہوگئے. کسی مذہبی عقیدت مند نے اپنی بیٹی بھی ان کے نکاح میں دے دی. پندرہ بیس سالہ رفاقت میں اس نے مولانا کی خدمت بھی کی اور ان کی اولاد بھی ہوئی. مولانا بھی ترقی کرتے کرتے بنوری ٹاؤن کے اساتذہ کے لئے مخصوص کوارٹر سے ترقی کرتے کرتے گلشن معمار پہنچ گئے ایک حیدرآبادی سندھی دوست کے بقول مولانا مسجد ومدرسہ کے عنوان سے قیمتی زمین کے مالک ہیں. اور حالیہ تعمیرات میں مسجد کے مؤذن کو بھی شاندار گھر بنا کے دیا ہے، پھر پتا چلا کہ مولانا نے اس بڑھاپے اور معذوری میں بھی کمال پھرتی سے مؤذن کو اس کی جواں سال بہن حضرت مولانا کے نکا ح ثانی میں پیش کرنے پر آمادہ کر لیا ہے تب کہیں جاکے مؤذن پر ان کی عنایات بے بہا کا مفہوم سمجھ میں آیا

اب مولانا صاحب کے اس عمل کی جتنی شرعی دلیلیں تراشی جائیں، کسی کامن سینس رکھنے والے آدمی کو قائل کرنا شاید آساں نہ ہوگا

Comments

comments

Latest Comments
  1. Zalaan
    -