Post-Osama bin Laden Pakistan – by Qais Anwar

پاکستان — اسا مہ بن لادن کے قتل کے بعد

=========================

پاکستانی ریاست

سرمایہ دارانہ جاگیردارانہ سیاست کبھی بھی عوام کے مسائل کا حل نہیں ہوتی لیکن جب  تک پچھڑے ہوئے طبقات کی قیادت پر مشتمل  پارٹی عوامی حمایت اور  انقلابی جدوجہد کے ذریعے عوامی جمہوریت قائم نہیں کرتی فوجی آمریت ، مذہبی خلافت ، اور  بادشاہت وغیرہ کے مقابلے میں صرف جمہوریت ہی عوام کو جدوجہد جاری رکھنے کے لیے مناسب تر ماحول فراہم کرتی ہے . پاکستان کا قیام یقینآ ایک انقلاب نہیں تھا لیکن مسلم اکثریت کے صوبوں کے لیے اپنے وقت میں ایک بہترین انتخاب تھا . یہی وجہ تھی کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے بھی انیس سو چالیس کی مسلم لیگ کی قرارداد لاہور کے مفہوم سے قریب تر ایک قرار داد انیس بیالیس میں منظور کی اور قیام پاکستان کے بنیادی تصور کی حمایت کی

پاکستان کے قیام کے بعد جاگیردار سیاسی قیادت نے اپنے طبقاتی مفادات کے تحت برصغیر کی کمیونسٹ قیادت کی طرف سے پاکستان کی حمایت کی وجہ سے تخلیق کردہ فضا سے فائدہ نہ اٹھاتے ہوئے سوویت یونین کی طرف سے بڑھایا جانے والا دوستی کا ہاتھ جھٹک دیا اور امریکی دورے سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان لمبے عرصے کی دوستی کا آغاز کیا. اسی دوران اسی سیاسی قیادت نے مذہبی قوتوں کے سامنے ہتھیار پھینکتے ہوئے قرار داد مقاصد منظور کی اور قرار داد لاہور اور محمد علی جناح کی دستور ساز اسمبلی میں پہلی تقریر  میں طے کردہ اصولوں کی نفی کر دی . اس کے بعد جب افواج پاکستان نے پاکستان کی سیاسی قیادت کا فریضہ سنبھالا توبھارت پر مرکوز قومی سلامتی کے نظریے کو بنیاد بنا کرریاست کو امریکہ اور مذہبی گروہوں کے ہاتھ گروی رکھ دیا  گیا

پاکستانی ریاست کا المیہ یہ ہے کہ آج یہ ریاست اپنے قیام کے مقاصد  کی اصل روح مثلا جمہوریت ، قومیتوں کے حقوق ، اقلیتوں کے تحفظ آزاد خارجہ پالیسی وغیرہ سے کوسوں دور جا چکی ہے . بنگالی قومیت کے لسانی ، سیاسی اور معاشی حقوق سے انکار پر یہ ریاست پہلے ہی دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے . اس کے علیحدہ ہونے والے حصّے نے اپنے آئین میں ریاست اور مذہب کو علیحدہ کرکے اور مولانا مودوددی جیسے عالم کی کتا بوں کے عوامی کتب خانوں میں رکھنے پر پابندی لگا کر اپنے قیام کے اصل مقاصد کی طرف مراجعت کا آغاز کر دیا ہے تاہم اس کا مغربی حصّہ یعنی موجودہ پاکستان اپنی ہی فوج کے ہاتھوں یرغمال بن کر اس کے سیاسی اور معاشی مفادات کے حصول کا ذریعہ بن چکا ہے . اس  گروہ نے اپنے مفادات کی حقانیت کے لیے “بھارت پر مرکوز” دفاع اور خارجہ تعلقات کا جو نظریہ تخلیق کیا ہوا ہے اس کی عوامی سطح پر پزیرائی کے لیے وہ  نظریا تی سرحدوں کی حفاظت ، کافروں کے خلاف جنگ جیسے نعروں کو فروغ دینے والے مذہبی گروہوں کی تشکیل اور سرپرستی کرتا ہے

افواج پاکستان کے دفاعی نظریے نے پاکستان کی ریاست کو دولخت کرنے کے ساتھ ساتھ علاقے میں ابھرنے والی عوامی  تحریکوں خصوصا کشمیری عوام اور سکھوں کی تحریک کو سخت نقصانات پہنچائے ہیں. ریاستی اقتدار پر براہ راست قبضے کے دوران اس گروہ کی خطے پر عمل داری کی خواہش نے پاکستان کی شمالی سرحد کے پار والے علاقوں کو غیر مستحکم  اور پاکستان کو عالمی سازشوں کے مرکز میں تبدیل کر دیا ہے

پاکستان کی بڑی سیاسی پارٹیاں

افواج پاکستان (پاکستان آرمی پارٹی ) پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے  جس نے اس ملک پر سب سے طویل عرصہ تک حکومت کی ہے . پاکستان کا موجودہ بین القوامی تشخص اسی سیاسی پارٹی کا تخلیق کردہ ہے  یہ پارٹی میڈیا ، طفیلی سیاست دانوں اور عدلیہ جیسے زیلی گروہوں کے ذریعے اپنے مخالفین کو کمزور اور اپنے  اقتدار کو دوام دیتی ہے . ا س پارٹی نے ہمیشہ امریکہ کے ساتھ مل کر پاکستان پر حکومت کی ہے  تاہم مشرف کے دور میں اس پارٹی کے ایک حصے نے خطے میں نئی امریکی حکمت عملی کی حمایت کی بجائے انتہا پسند گروہوں کے ذریعے ملک اور خطے میں بالادستی حاصل کرنے پر اصرار جاری رکھا . مشرف کے دور میں اس گروپ کا اثر نچلے درجے کے حاضر سروس افسران اور ریٹائرڈ آرمی افسران تک محدود تھا مشرف کی رخصتی کے بعد اگرچہ یہ گروپ عددی طور پر کمزور ہوا ہے لیکن مشرف کیانی گروپ نے ضیاء الحق گروپ کے سیاسی نظریات کو بڑی حد تک اپنا لیا ہے

پاکستان کی تاریخ میں تین بار ایسا ہوا ہے کھ شدید ہزیمت اتھانے کے بعد پاکستان آرمی نے اقتدار پیپلز پارٹی کے حوالے کیا اور پھر جلد ہی یہ اقتدار جزوی یا  مکمل طور پر واپس لے لیا ذولفقار علی بھٹو کے اقتدار کے ابتدائی سال اور نواز شریف کی پچھلی حکومت کے آخری سال وہ واحد عرصہ تھا جب سول حکومت کو اپنی مرضی کی پالیسیاں طے کرنے کا موقع ملا لیکن اس کی سزا کے طور ذولفقار علی بھٹو کو موت اور نواز شریف کو جلاوطنی کی سزا بھگتنا پڑی

پاکستان پیپلز پارٹی موجودہ پاکستان کی دوسری سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے عوام میں جڑیں رکھنے کی وجہ سے اپنے قیام سے لے کر آج تک یہ پارٹی پاکستان آرمی پارٹی کے نشانے پر رہی ہے . بھٹو خاندان کے افراد کی اب تک کی آخری غیر طبعی موت کے بعد بھی پاکستان آرمی پارٹی پیپلز پارٹی کے ہمیشہ کے لیے خاتمے کا خواب پورا نہیں کر سکی .پچھلے دو مارشل لاؤں میں اس پارٹی کے سرکردہ لوگوں کو توڑ کر پاکستان آرمی پارٹی نے پیپلز پارٹی کو ملک کے کئی حصوں سے یقینی نشستوں سے محروم کیا ہے لیکن یہ پارٹی مسلسل نئے سیاست دا نوں اور کارکنوں کو اپنی صفوں میں لا کر ابھی تک اپنے وجود اور سیاسی حیثیت کو قائم رکھے ہوئے ہے . تاہم پاکستان آرمی پارٹی کے مقابلے میں اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی کوششوں میں اس پارٹی کو جو سمجھوتے کرنے پڑے ان کی وجہ سے اس پارٹی کو اپنا پرانا تشخص برقرار رکھنے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے  . اسی دوران اس پارٹی نے عالمی سامراج سے اپنے تعلقات کو مضبوط کیا ہے تا کھ خود کو فوجی حکمرانوں کے مقابلے میں زیادہ قا بل قبول بنا یا جا سکے

پاکستان مسلم لیگ نواز ملک کی تیسری بڑی سیاسی پارٹی ہے . اس پارٹی کے ووٹوں کا برّ ا حصّہ ان ووٹوں پر مشتمل ہے جنھیں پیپلز پارٹی مخا لف ووٹ قرار دیا جا تا تھا . لیکن اب اس پارٹی کے حامیوں کی حمایت کا محور میاں محمد نواز شریف کی ذات ہے یوں پیپلز پارٹی کے بعد اس پارٹی کے پاس پارٹی وفاداروں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے   میاں محمد نواز شریف کی آزادانہ روش کی وجہ سے یہ سیاسی پارٹی پاکستان آرمی پارٹی کا دوسرا بڑا  ہدف ہے  اس پارٹی نے بھی پاکستان آرمی پارٹی کے خلاف “زندہ رہنے کی حکمت عملی ” کے تحت عالمی سامراج سے مضبوط تعلقات قائم کیے ہیں. اس پارٹی کی ایک حالیہ بڑی کامیابی یہ ہے کھ اس نے عدلیہ سے براہ راست تعلقات استوار کیے ہیں اور پاکستان آرمی پارٹی کے براہ راست انتقامی منصوبوں کے خلاف ایک تحفظ حاصل کیا ہے

کچھ تجزیوں میں پاکستان عدالت پارٹی پاکستان کی چوتھی بڑی پارٹی قرار پاتی ہے لیکن را قم کے خیال میں یہ پارٹی حسب روا یت پاکستان آرمی پارٹی کا ہی زیلی گروہ ہے. یہ زیلی گروہ بدلتے ہوئے حالات میں مزید طاقت کے لیے کوشاں ہے لیکن اپنی فطرت میں یہ پاکستان آرمی پارٹی کے ہی سیاسی مقا صد کے حصول کے لیے کوشاں ہے

مشرف کے بعد کا پاکستان

انتخابات میں جزوی کامیابی حاصل کرنے کے بعد آصف زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے مشرف کی حامی قوتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی بجایے مسلم لیگ نواز کو ساتھ ملا نے کا راستہ چنا . اس حکمت عملی سے پیپلز پارٹی کو نہ صرف چاروں صوبوں اور مرکز میں حکومت بنانے یا  حکومت میں شامل ہونے کا موقع ملا بلکہ اس پارٹی نے مشرف کو ہٹا کر عہدہ صدارت بھی حاصل کر لیا . اس اتحاد نے مسلم لیگ نواز کو پنجاب میں حکومت بنانے کا موقع فراہم کیا . تاہم ججوں کی بحالی پر نکتہ نظر کے اختلاف نے اس اتحاد میں دراڑیں ڈال دیں پیپلز پارٹی کی ججوں کی بحالی کی مخالفت کی وجہ سے ججوں کی بحالی کے لیے بننے والے سیاسی اور پاکستان آرمی پارٹی ضیاء الحق اتحاد جس میں ابتدائی طور پر پیپلز پارٹی بھی شامل تھی کی مخلفت کا رخ پیپلز پارٹی کی طرف مڑ گیا  اسی دوران پیپلز پارٹی کی حکومت کے ابتدائی دنوں میں ہی پاکستان آرمی پارٹی نے بمبئی حملوں کے ذریعے ملک کی سیاسی قیادت کی بالادستی پر پہلا بھرپور وار کیا اور سیاسی اور عوامی ماحول میں بھارت سے نفرت کے عنصر کو نئی جان دے دی پاکستان آرمی پارٹی نے میڈیا کی  مدد سے  دو ہزار نو کے دوسرے حصے میں پیپلز پارٹی کو اس موڑ پر لا کھڑا کیا جس کے بعد پیپلز پارٹی نے دفاع اور خارجہ امور دوبارہ پاکستان آرمی پارٹی کے حوالے کر دئیے . اس وقت جبکہ میڈیا اور عدالت مل کر پیپلز پارٹی کو فوج کے سامنے  جھکا رہے تھے پاکستان مسلم لیگ میڈیا اور عدالتوں کے ساتھ کھڑی تھی . یہ وہ وقت تھا جب مسلم لیگ نواز اور اس کی قیادت مقبولیت کی انتہا پر پہنچ چکے تھے . تا ہم اس دوران پاکستان آرمی پارٹی ضیاء الحق کی طرف سے تمام تر نشتر زنی کے باوجود مسلم نواز نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو گرانے سے انکار کر رہی تھی  پاکستان آرمی پارٹی نے مسلم لیگ نواز پر نفسیاتی دباؤ جاری رکھا اس عرصے میں جب مسلم لیگ نواز پیپلز پارٹی کے خلاف پاکستان آرمی پارٹی کی تشہیری مہم کا غیر مشروط حصّہ تھی وہ اس حقیقت سے بے خبر رہی  کھ وہ خود کو تیزی سے دائیں بازو کی مذہبی سیاست کی طرف دھکیل کر  اپنے ووٹروں کو ایک بار پھر دائیں بازو کے وسیع تر ووٹ کا حصّہ بنا رہی ہے اسی طرح اس سا رے ماحول میں مسلم لیگ نواز ایک بنیادی  حقیقت کے متعلق شکوک کا شکار ہو گئی کھ مسلم لیگ نواز کا ووٹ اب نواز شریف کے جذباتی حامیوں کا ووٹ ہے جسے آسانی سے نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا .اس بے یقینی اور اپنے ووٹوں کے کھوئے جانے کے خوف نے مسلم لیگ نواز سے دو غلطیاں کروا دیں . مسلم لیگ نواز نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر مسلم لیگ قا ف کے ایک گروپ سے اتحاد کر لیا اور اس کے بعد ریمنڈ ڈیوس کیس میں دائیں بازو کے ووٹ کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش میں غیر مشروط طور  پر آئ ایس آئ کی حکمت عملی کو عملی جامہ پہنا یا تاہم ریمنڈ دوس کی رہائی کے بعد مسلم لیگ نواز کو یہ اندازہ لگانے میں زیادہ دیر نہیں لگیا کھ وہ بری طرح سے اپنی ساکھ  کھو رہی ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان آرمی پارٹی کو ایک کمزور اور لٹی پٹی پیپلز پارٹی کو دوسرے سیاسی کھلاڑیوں کو حکومت میں شامل کرکے اپنا اقتدار جاری رکھنے پر کوئی اعترض نہیں ہے . یہ وہ مقام تھا جب پاکستان مسلم لیگ نواز نے پاکستان آرمی پارٹی اور پیپلزپارٹی کے خلاف محاز کھول کر اپنی ساکھ  کی بحالی کا فیصلہ کیا. لیکن اس وقت بھی بظاہر مسلم لیگ نواز اس خوف سے بہار نہیں نکل سکی کھ عمران خان کی تحریک انصاف اس کے ووٹ کو نقصان پہنچا رہی ہے

اسامہ کا قتل

اسامہ کو امریکہ نے خود تلاش کرکے قتل کیا یا پاکستان آرمی پارٹی نے خود امریکہ کے حوالے کیا یہ دونوں صورتیںپاکستان آرمی پارٹی کے لیے مشرقی پاکستان میں شکست جیسی رسوائی کا سامان ہیں .پچھلے تین سا لوں میں صرف سوات آپریشن کے دوران پاکستان آرمی پارٹی نے سنجیدگی کا مظا ہرہ کرتے ہوئے ملک کے اندر مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف صوفی نظریات رکھنے والی عوامی حمایت کو منظم کیا اور میڈیا کے بڑے حصے کو طالبان کے خلاف پرپیگنڈا کا حصّہ بنا یا لیکن پاکستان آرمی پارٹی زیادہ عرصے تک اپنے روایتی طریقہ کار سے دور نہ رہ سکی اور ایک نئی حکمت عملی کے تحت صوفی تصورات کے حامی افراد کو زید حامد جیسے افراد کے زریعے بھارت پر مرکوز دفاعی پالیسی کے فروغ کی ذمہ داری سونپ دی گئی . اسی طرح سویلین ایجنسیوں کی مدد سے طاہر القادری کے تیار کردہ ضخیم فتوے کو پس پشت ڈال دیا گیا.آسیہ بی بی اور ریمنڈ ڈیوس کیس میں صوفی نظریات کے حامی عوام کو متشدد بریلوی مولویوں کی مدد سے جنونی لہر کا حصّہ بنا دیا گیا   پاکستان آرمی پارٹی نے پچھلے ایک سال میں ملک میں مذہبی جنونیت کی جو کیفیت پیدا کی تھی اس کی وجہ سے اسامہ کی موت پر مذہبی جنونی شدید صدمے کی کیفیت کا شکار ہیں اسا مہ کے مارے جانے اور پاکستان آرمی کی امریکی ہیلی کاپٹروں کو روکنے میں نا کامی نے پاکستان آرمی کے سیاسی  نظریے کی بنیادوں کو ہلا دیا ہے . عام حالات میں اس قتل اور حملے کی سادہ توجیح کی جا سکتی تھی کھ دنیا کو اپنی مرضی سے چلانے کا دعوا رکھنے والے دو بین  القوامی  متحارب گروہ یعنی امریکہ اور القاعدہ پاکستان عرصے سے پاکستان کی سرزمین پر اپنی جنگ لڑ رہے ہیں اور ایک گروہ نے اپنے بڑ ے دشمن کو پاکستان میں تلاش کرکے ختم کر دیا ہے . لیکن اتنے دن گزر جانے کے بعد بھی پاکستان آرمی پارٹی نے یہ راستہ نہیں چنا پاکستان آرمی پارٹی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کھ اس نے سچائی کو تسلیم کرنے کی بجائے ہمیشہ عوام کو گمراہ کرنے کو ترجیح دی ہے . پینسٹھ کی جنگ کی شکست کو فتح میں بدلنا اور ہر شکست کو سیاست دا نوں کے کھاتے میں ڈال دینا پاکستان آرمی پارٹی کے لیے عام سی بات ہے . اسی روا یت کے پیش نظر اگر پاکستان آرمی پارٹی اسامہ کے قتل کو قومی غیرت کا مسلہ بنا کر سول قیادت کے کھاتے میں ڈال دے تو یہ کوئی انہونی بات نہیں ہو گی

مستقبل کا منظر نامہ

اسامہ کے قتل کے بعد ابتدائی طور پر پاکستان آرمی پارٹی بوکھلاہٹ کا شکار رہی ہے اس بوکھلاہٹ کی ایک بڑی وجہ پچھلے تین سال میں مشرف کیانی گروپ کی سوچ پر ضیاء الحق گروپ کی سوچ کا غالب آنا اور حکومت کا اسا مھ کے قتل کے  معاملے پر محتاط رویہ ہے . حکومت کو مکمل طور پر بے دست و پا کرنے کے بعد پاکستان آرمی پارٹی یہ توقع کر رہی تھی کھ حکومت اس معاملے پر امریکہ کے سامنے آرمی کا تجویز کردہ رویہ ہی اپنائے گی ایسا نہ ہونے پر اس نے اپنی حامی قوتوں اور افراد کو حکومت کے خلاف صف آرائی  پر مامور کر دیا ہے . اگرچہ پاکستان آرمی پارٹی کے ہی ایک اقلیتی گروہ نے مشرف کیانی گروپ کی اصلی سوچ کی طرف واپسی کا عندیہ دیا ہے جس کا اظہار کامران خان کے پروگراموں میں کیا جا رہا ہے لیکن بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کھ پاکستان آرمی پارٹی کا اس سوچ کی طرف لوٹنا خاصا مشکل ہے . ایسی صورت میں یہ پارٹی اپنے پرانے  حامیوں سمیت نئے مہروں کی مدد سے  حکومت کے خلاف نیا محاز کھولنے کی طرف مائل نظر آ رہی ہے .  آئ ایس آئ کے متعلق پیدہ شدہ نئے شکوک نے پاکستان آرمی پارٹی کی اپنی مرضی کی حکومت بنانے کی صلاحیت کو متاثر کیا ہے .جسے صرف مسلم لیگ نواز کی حکمت عملی میں تبدیلی ہی سہارا  دے سکتی ہے . آنے والے دنوں میں پیپلز پارٹی سے یہ توقع رکھناغیر حقیقت پسندانہ ہو گا  کھ وہ کھل کر پاکستان آرمی پارٹی کی مخلفت کرے گی لیکن جب تک پاکستان آرمی پارٹی پیپلز پارٹی کو اقتدار سے محرومی کے خطرے سے دوچار نہیں کرنے گی پیپلز پارٹی پاکستان آرمی پارٹی کی راہ کو مکمل طور پر نہیں اپنا سکے  گی . لیکن اگر مسلم لیگ نواز آئ ایس آئ اور حکومت کو بیک وقت نشانہ بنانے کی اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کر لیتی ہے  اور صرف حکومت کو نشانہ بنانے پر آمادہ ہو جاتی ہے تو پاکستان آرمی پارٹی کے لیے سپریم کورٹ کو متحرک کر کے پیپلز پارٹی کو اپنی راہ پر لانا آسان ہو جائے گا. ماضی قریب میں پاکستان آرمی پارٹی نے تین نئے گروہوں کو متحرک اور منظم کرنے کی کوشش کی ہے. شاہ محمود قریشی کو صوفی سوچ کے حامل اکثریت کو ایک کلین شیو قیادت مہیا کرنے کا فریضہ سونپا گیا ہے ، صاحبزادہ فضل کریم جیسے لوگ صوفی سوچ کے لوگوں کی بریلوی قیادت کو ایک لڑی میں پرو رہے ہیں جبکہ تیسری طرف عمران خان کو طالبان سوچ کے حامل لوگوں کی قیادت کی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے . اس وقت جبکہ مسلم لیگ نواز شریف اپنی نئی حکمت عملی وضع نہیں کر سکی پاکستان آرمی پارٹی کے یہ تینوں زیلی گروہ حکومت کے خلاف محاز آرا ہو چکے ہیں . بظاہر یہ امر مشکل نظر آتا ہے کھ مسلم لیگ نواز عمران خان  اور شاہ محمود قریشی کی طرف سے اپنے ووٹوں کو نقصان پہنچنے کے خوف سے باہر نکل آئے . لیکن پا کستان آرمی پارٹی کی طرف سے مسلم لیگ کو بلاشرکت غیرے پاکستان پر حکمرانی کے حق کی ضمانت کے بغیر مسلم لیگ نواز حکومت کو گرانے کی حد تک نہیں جائے گی اسی منظر نامے میں ایک بڑی حقیقت یہ بھی ہے کھ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز ایک دوسرے کے متلعق شکوک کے اس درجے پر پہنچ چکے ہیں جہاں دونوں کا کسی متفقہ حکمت عملی پر پہنچنا تقریبا نہ ممکن ہے .بظاہر آنے والی دنوں میں پاکستانی ریاست اپنی تاریخ کے شدید ترین بحران کا شکا ر نظر آرہی ہے . یہ ریاست اپنے عوام کو موجودہ نظام کے اندر  بنیادی سہولیات مہیا کرنے کی صلاحیت سے تو عر صہ پہلے محروم ہو چکی ہے لیکن اب یہ ریاست ان عناصر سے بھی تیزی سے محروم ہوتی جا رہی ہے جو اس کے وجود کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہیں . اس وقت بھی اگر پاکستان آرمی پارٹی خود کو سیاسی عمل سے علیحدہ کرکے سیاسی قوتوں کو پھلنے پھولنے کا موقع دے تو بھنور میں پھنسی ریاست کے بچ جانے کے ا مکانات پیدا ہو سکتے ہیں . دوسری صورت میں ایک ایٹمی قوت کے ناکام ریا ستوں کے انڈکس میں تیزی سے اوپر آنے پر عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے محافظ اس کے متعلق دور رس فیصلے کر سکتے ہیں جو پاکستانی عوام اور خطے کی صورتحال کو مزید مشکلات سے دو چار کر دیں گے

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdul Nishapuri
    -
  2. Mussalman
    -
  3. Abid khan
    -
  4. Usman Ghani
    -
  5. Usman Ghani
    -
  6. Saleem Ahmed
    -
  7. دانیال
    -
  8. Dr.Tahir
    -
  9. دانیال
    -