Post-Osama bin Laden Pakistan – by Qais Anwar
پاکستان — اسا مہ بن لادن کے قتل کے بعد
=========================
پاکستانی ریاست
سرمایہ دارانہ جاگیردارانہ سیاست کبھی بھی عوام کے مسائل کا حل نہیں ہوتی لیکن جب تک پچھڑے ہوئے طبقات کی قیادت پر مشتمل پارٹی عوامی حمایت اور انقلابی جدوجہد کے ذریعے عوامی جمہوریت قائم نہیں کرتی فوجی آمریت ، مذہبی خلافت ، اور بادشاہت وغیرہ کے مقابلے میں صرف جمہوریت ہی عوام کو جدوجہد جاری رکھنے کے لیے مناسب تر ماحول فراہم کرتی ہے . پاکستان کا قیام یقینآ ایک انقلاب نہیں تھا لیکن مسلم اکثریت کے صوبوں کے لیے اپنے وقت میں ایک بہترین انتخاب تھا . یہی وجہ تھی کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے بھی انیس سو چالیس کی مسلم لیگ کی قرارداد لاہور کے مفہوم سے قریب تر ایک قرار داد انیس بیالیس میں منظور کی اور قیام پاکستان کے بنیادی تصور کی حمایت کی
پاکستان کے قیام کے بعد جاگیردار سیاسی قیادت نے اپنے طبقاتی مفادات کے تحت برصغیر کی کمیونسٹ قیادت کی طرف سے پاکستان کی حمایت کی وجہ سے تخلیق کردہ فضا سے فائدہ نہ اٹھاتے ہوئے سوویت یونین کی طرف سے بڑھایا جانے والا دوستی کا ہاتھ جھٹک دیا اور امریکی دورے سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان لمبے عرصے کی دوستی کا آغاز کیا. اسی دوران اسی سیاسی قیادت نے مذہبی قوتوں کے سامنے ہتھیار پھینکتے ہوئے قرار داد مقاصد منظور کی اور قرار داد لاہور اور محمد علی جناح کی دستور ساز اسمبلی میں پہلی تقریر میں طے کردہ اصولوں کی نفی کر دی . اس کے بعد جب افواج پاکستان نے پاکستان کی سیاسی قیادت کا فریضہ سنبھالا توبھارت پر مرکوز قومی سلامتی کے نظریے کو بنیاد بنا کرریاست کو امریکہ اور مذہبی گروہوں کے ہاتھ گروی رکھ دیا گیا
پاکستانی ریاست کا المیہ یہ ہے کہ آج یہ ریاست اپنے قیام کے مقاصد کی اصل روح مثلا جمہوریت ، قومیتوں کے حقوق ، اقلیتوں کے تحفظ آزاد خارجہ پالیسی وغیرہ سے کوسوں دور جا چکی ہے . بنگالی قومیت کے لسانی ، سیاسی اور معاشی حقوق سے انکار پر یہ ریاست پہلے ہی دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے . اس کے علیحدہ ہونے والے حصّے نے اپنے آئین میں ریاست اور مذہب کو علیحدہ کرکے اور مولانا مودوددی جیسے عالم کی کتا بوں کے عوامی کتب خانوں میں رکھنے پر پابندی لگا کر اپنے قیام کے اصل مقاصد کی طرف مراجعت کا آغاز کر دیا ہے تاہم اس کا مغربی حصّہ یعنی موجودہ پاکستان اپنی ہی فوج کے ہاتھوں یرغمال بن کر اس کے سیاسی اور معاشی مفادات کے حصول کا ذریعہ بن چکا ہے . اس گروہ نے اپنے مفادات کی حقانیت کے لیے “بھارت پر مرکوز” دفاع اور خارجہ تعلقات کا جو نظریہ تخلیق کیا ہوا ہے اس کی عوامی سطح پر پزیرائی کے لیے وہ نظریا تی سرحدوں کی حفاظت ، کافروں کے خلاف جنگ جیسے نعروں کو فروغ دینے والے مذہبی گروہوں کی تشکیل اور سرپرستی کرتا ہے
افواج پاکستان کے دفاعی نظریے نے پاکستان کی ریاست کو دولخت کرنے کے ساتھ ساتھ علاقے میں ابھرنے والی عوامی تحریکوں خصوصا کشمیری عوام اور سکھوں کی تحریک کو سخت نقصانات پہنچائے ہیں. ریاستی اقتدار پر براہ راست قبضے کے دوران اس گروہ کی خطے پر عمل داری کی خواہش نے پاکستان کی شمالی سرحد کے پار والے علاقوں کو غیر مستحکم اور پاکستان کو عالمی سازشوں کے مرکز میں تبدیل کر دیا ہے
پاکستان کی بڑی سیاسی پارٹیاں
افواج پاکستان (پاکستان آرمی پارٹی ) پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے جس نے اس ملک پر سب سے طویل عرصہ تک حکومت کی ہے . پاکستان کا موجودہ بین القوامی تشخص اسی سیاسی پارٹی کا تخلیق کردہ ہے یہ پارٹی میڈیا ، طفیلی سیاست دانوں اور عدلیہ جیسے زیلی گروہوں کے ذریعے اپنے مخالفین کو کمزور اور اپنے اقتدار کو دوام دیتی ہے . ا س پارٹی نے ہمیشہ امریکہ کے ساتھ مل کر پاکستان پر حکومت کی ہے تاہم مشرف کے دور میں اس پارٹی کے ایک حصے نے خطے میں نئی امریکی حکمت عملی کی حمایت کی بجائے انتہا پسند گروہوں کے ذریعے ملک اور خطے میں بالادستی حاصل کرنے پر اصرار جاری رکھا . مشرف کے دور میں اس گروپ کا اثر نچلے درجے کے حاضر سروس افسران اور ریٹائرڈ آرمی افسران تک محدود تھا مشرف کی رخصتی کے بعد اگرچہ یہ گروپ عددی طور پر کمزور ہوا ہے لیکن مشرف کیانی گروپ نے ضیاء الحق گروپ کے سیاسی نظریات کو بڑی حد تک اپنا لیا ہے
پاکستان کی تاریخ میں تین بار ایسا ہوا ہے کھ شدید ہزیمت اتھانے کے بعد پاکستان آرمی نے اقتدار پیپلز پارٹی کے حوالے کیا اور پھر جلد ہی یہ اقتدار جزوی یا مکمل طور پر واپس لے لیا ذولفقار علی بھٹو کے اقتدار کے ابتدائی سال اور نواز شریف کی پچھلی حکومت کے آخری سال وہ واحد عرصہ تھا جب سول حکومت کو اپنی مرضی کی پالیسیاں طے کرنے کا موقع ملا لیکن اس کی سزا کے طور ذولفقار علی بھٹو کو موت اور نواز شریف کو جلاوطنی کی سزا بھگتنا پڑی
پاکستان پیپلز پارٹی موجودہ پاکستان کی دوسری سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے عوام میں جڑیں رکھنے کی وجہ سے اپنے قیام سے لے کر آج تک یہ پارٹی پاکستان آرمی پارٹی کے نشانے پر رہی ہے . بھٹو خاندان کے افراد کی اب تک کی آخری غیر طبعی موت کے بعد بھی پاکستان آرمی پارٹی پیپلز پارٹی کے ہمیشہ کے لیے خاتمے کا خواب پورا نہیں کر سکی .پچھلے دو مارشل لاؤں میں اس پارٹی کے سرکردہ لوگوں کو توڑ کر پاکستان آرمی پارٹی نے پیپلز پارٹی کو ملک کے کئی حصوں سے یقینی نشستوں سے محروم کیا ہے لیکن یہ پارٹی مسلسل نئے سیاست دا نوں اور کارکنوں کو اپنی صفوں میں لا کر ابھی تک اپنے وجود اور سیاسی حیثیت کو قائم رکھے ہوئے ہے . تاہم پاکستان آرمی پارٹی کے مقابلے میں اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی کوششوں میں اس پارٹی کو جو سمجھوتے کرنے پڑے ان کی وجہ سے اس پارٹی کو اپنا پرانا تشخص برقرار رکھنے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے . اسی دوران اس پارٹی نے عالمی سامراج سے اپنے تعلقات کو مضبوط کیا ہے تا کھ خود کو فوجی حکمرانوں کے مقابلے میں زیادہ قا بل قبول بنا یا جا سکے
پاکستان مسلم لیگ نواز ملک کی تیسری بڑی سیاسی پارٹی ہے . اس پارٹی کے ووٹوں کا برّ ا حصّہ ان ووٹوں پر مشتمل ہے جنھیں پیپلز پارٹی مخا لف ووٹ قرار دیا جا تا تھا . لیکن اب اس پارٹی کے حامیوں کی حمایت کا محور میاں محمد نواز شریف کی ذات ہے یوں پیپلز پارٹی کے بعد اس پارٹی کے پاس پارٹی وفاداروں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے میاں محمد نواز شریف کی آزادانہ روش کی وجہ سے یہ سیاسی پارٹی پاکستان آرمی پارٹی کا دوسرا بڑا ہدف ہے اس پارٹی نے بھی پاکستان آرمی پارٹی کے خلاف “زندہ رہنے کی حکمت عملی ” کے تحت عالمی سامراج سے مضبوط تعلقات قائم کیے ہیں. اس پارٹی کی ایک حالیہ بڑی کامیابی یہ ہے کھ اس نے عدلیہ سے براہ راست تعلقات استوار کیے ہیں اور پاکستان آرمی پارٹی کے براہ راست انتقامی منصوبوں کے خلاف ایک تحفظ حاصل کیا ہے
کچھ تجزیوں میں پاکستان عدالت پارٹی پاکستان کی چوتھی بڑی پارٹی قرار پاتی ہے لیکن را قم کے خیال میں یہ پارٹی حسب روا یت پاکستان آرمی پارٹی کا ہی زیلی گروہ ہے. یہ زیلی گروہ بدلتے ہوئے حالات میں مزید طاقت کے لیے کوشاں ہے لیکن اپنی فطرت میں یہ پاکستان آرمی پارٹی کے ہی سیاسی مقا صد کے حصول کے لیے کوشاں ہے
مشرف کے بعد کا پاکستان
انتخابات میں جزوی کامیابی حاصل کرنے کے بعد آصف زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے مشرف کی حامی قوتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی بجایے مسلم لیگ نواز کو ساتھ ملا نے کا راستہ چنا . اس حکمت عملی سے پیپلز پارٹی کو نہ صرف چاروں صوبوں اور مرکز میں حکومت بنانے یا حکومت میں شامل ہونے کا موقع ملا بلکہ اس پارٹی نے مشرف کو ہٹا کر عہدہ صدارت بھی حاصل کر لیا . اس اتحاد نے مسلم لیگ نواز کو پنجاب میں حکومت بنانے کا موقع فراہم کیا . تاہم ججوں کی بحالی پر نکتہ نظر کے اختلاف نے اس اتحاد میں دراڑیں ڈال دیں پیپلز پارٹی کی ججوں کی بحالی کی مخالفت کی وجہ سے ججوں کی بحالی کے لیے بننے والے سیاسی اور پاکستان آرمی پارٹی ضیاء الحق اتحاد جس میں ابتدائی طور پر پیپلز پارٹی بھی شامل تھی کی مخلفت کا رخ پیپلز پارٹی کی طرف مڑ گیا اسی دوران پیپلز پارٹی کی حکومت کے ابتدائی دنوں میں ہی پاکستان آرمی پارٹی نے بمبئی حملوں کے ذریعے ملک کی سیاسی قیادت کی بالادستی پر پہلا بھرپور وار کیا اور سیاسی اور عوامی ماحول میں بھارت سے نفرت کے عنصر کو نئی جان دے دی پاکستان آرمی پارٹی نے میڈیا کی مدد سے دو ہزار نو کے دوسرے حصے میں پیپلز پارٹی کو اس موڑ پر لا کھڑا کیا جس کے بعد پیپلز پارٹی نے دفاع اور خارجہ امور دوبارہ پاکستان آرمی پارٹی کے حوالے کر دئیے . اس وقت جبکہ میڈیا اور عدالت مل کر پیپلز پارٹی کو فوج کے سامنے جھکا رہے تھے پاکستان مسلم لیگ میڈیا اور عدالتوں کے ساتھ کھڑی تھی . یہ وہ وقت تھا جب مسلم لیگ نواز اور اس کی قیادت مقبولیت کی انتہا پر پہنچ چکے تھے . تا ہم اس دوران پاکستان آرمی پارٹی ضیاء الحق کی طرف سے تمام تر نشتر زنی کے باوجود مسلم نواز نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو گرانے سے انکار کر رہی تھی پاکستان آرمی پارٹی نے مسلم لیگ نواز پر نفسیاتی دباؤ جاری رکھا اس عرصے میں جب مسلم لیگ نواز پیپلز پارٹی کے خلاف پاکستان آرمی پارٹی کی تشہیری مہم کا غیر مشروط حصّہ تھی وہ اس حقیقت سے بے خبر رہی کھ وہ خود کو تیزی سے دائیں بازو کی مذہبی سیاست کی طرف دھکیل کر اپنے ووٹروں کو ایک بار پھر دائیں بازو کے وسیع تر ووٹ کا حصّہ بنا رہی ہے اسی طرح اس سا رے ماحول میں مسلم لیگ نواز ایک بنیادی حقیقت کے متعلق شکوک کا شکار ہو گئی کھ مسلم لیگ نواز کا ووٹ اب نواز شریف کے جذباتی حامیوں کا ووٹ ہے جسے آسانی سے نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا .اس بے یقینی اور اپنے ووٹوں کے کھوئے جانے کے خوف نے مسلم لیگ نواز سے دو غلطیاں کروا دیں . مسلم لیگ نواز نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر مسلم لیگ قا ف کے ایک گروپ سے اتحاد کر لیا اور اس کے بعد ریمنڈ ڈیوس کیس میں دائیں بازو کے ووٹ کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش میں غیر مشروط طور پر آئ ایس آئ کی حکمت عملی کو عملی جامہ پہنا یا تاہم ریمنڈ دوس کی رہائی کے بعد مسلم لیگ نواز کو یہ اندازہ لگانے میں زیادہ دیر نہیں لگیا کھ وہ بری طرح سے اپنی ساکھ کھو رہی ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان آرمی پارٹی کو ایک کمزور اور لٹی پٹی پیپلز پارٹی کو دوسرے سیاسی کھلاڑیوں کو حکومت میں شامل کرکے اپنا اقتدار جاری رکھنے پر کوئی اعترض نہیں ہے . یہ وہ مقام تھا جب پاکستان مسلم لیگ نواز نے پاکستان آرمی پارٹی اور پیپلزپارٹی کے خلاف محاز کھول کر اپنی ساکھ کی بحالی کا فیصلہ کیا. لیکن اس وقت بھی بظاہر مسلم لیگ نواز اس خوف سے بہار نہیں نکل سکی کھ عمران خان کی تحریک انصاف اس کے ووٹ کو نقصان پہنچا رہی ہے
اسامہ کا قتل
اسامہ کو امریکہ نے خود تلاش کرکے قتل کیا یا پاکستان آرمی پارٹی نے خود امریکہ کے حوالے کیا یہ دونوں صورتیںپاکستان آرمی پارٹی کے لیے مشرقی پاکستان میں شکست جیسی رسوائی کا سامان ہیں .پچھلے تین سا لوں میں صرف سوات آپریشن کے دوران پاکستان آرمی پارٹی نے سنجیدگی کا مظا ہرہ کرتے ہوئے ملک کے اندر مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف صوفی نظریات رکھنے والی عوامی حمایت کو منظم کیا اور میڈیا کے بڑے حصے کو طالبان کے خلاف پرپیگنڈا کا حصّہ بنا یا لیکن پاکستان آرمی پارٹی زیادہ عرصے تک اپنے روایتی طریقہ کار سے دور نہ رہ سکی اور ایک نئی حکمت عملی کے تحت صوفی تصورات کے حامی افراد کو زید حامد جیسے افراد کے زریعے بھارت پر مرکوز دفاعی پالیسی کے فروغ کی ذمہ داری سونپ دی گئی . اسی طرح سویلین ایجنسیوں کی مدد سے طاہر القادری کے تیار کردہ ضخیم فتوے کو پس پشت ڈال دیا گیا.آسیہ بی بی اور ریمنڈ ڈیوس کیس میں صوفی نظریات کے حامی عوام کو متشدد بریلوی مولویوں کی مدد سے جنونی لہر کا حصّہ بنا دیا گیا پاکستان آرمی پارٹی نے پچھلے ایک سال میں ملک میں مذہبی جنونیت کی جو کیفیت پیدا کی تھی اس کی وجہ سے اسامہ کی موت پر مذہبی جنونی شدید صدمے کی کیفیت کا شکار ہیں اسا مہ کے مارے جانے اور پاکستان آرمی کی امریکی ہیلی کاپٹروں کو روکنے میں نا کامی نے پاکستان آرمی کے سیاسی نظریے کی بنیادوں کو ہلا دیا ہے . عام حالات میں اس قتل اور حملے کی سادہ توجیح کی جا سکتی تھی کھ دنیا کو اپنی مرضی سے چلانے کا دعوا رکھنے والے دو بین القوامی متحارب گروہ یعنی امریکہ اور القاعدہ پاکستان عرصے سے پاکستان کی سرزمین پر اپنی جنگ لڑ رہے ہیں اور ایک گروہ نے اپنے بڑ ے دشمن کو پاکستان میں تلاش کرکے ختم کر دیا ہے . لیکن اتنے دن گزر جانے کے بعد بھی پاکستان آرمی پارٹی نے یہ راستہ نہیں چنا پاکستان آرمی پارٹی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کھ اس نے سچائی کو تسلیم کرنے کی بجائے ہمیشہ عوام کو گمراہ کرنے کو ترجیح دی ہے . پینسٹھ کی جنگ کی شکست کو فتح میں بدلنا اور ہر شکست کو سیاست دا نوں کے کھاتے میں ڈال دینا پاکستان آرمی پارٹی کے لیے عام سی بات ہے . اسی روا یت کے پیش نظر اگر پاکستان آرمی پارٹی اسامہ کے قتل کو قومی غیرت کا مسلہ بنا کر سول قیادت کے کھاتے میں ڈال دے تو یہ کوئی انہونی بات نہیں ہو گی
مستقبل کا منظر نامہ
اسامہ کے قتل کے بعد ابتدائی طور پر پاکستان آرمی پارٹی بوکھلاہٹ کا شکار رہی ہے اس بوکھلاہٹ کی ایک بڑی وجہ پچھلے تین سال میں مشرف کیانی گروپ کی سوچ پر ضیاء الحق گروپ کی سوچ کا غالب آنا اور حکومت کا اسا مھ کے قتل کے معاملے پر محتاط رویہ ہے . حکومت کو مکمل طور پر بے دست و پا کرنے کے بعد پاکستان آرمی پارٹی یہ توقع کر رہی تھی کھ حکومت اس معاملے پر امریکہ کے سامنے آرمی کا تجویز کردہ رویہ ہی اپنائے گی ایسا نہ ہونے پر اس نے اپنی حامی قوتوں اور افراد کو حکومت کے خلاف صف آرائی پر مامور کر دیا ہے . اگرچہ پاکستان آرمی پارٹی کے ہی ایک اقلیتی گروہ نے مشرف کیانی گروپ کی اصلی سوچ کی طرف واپسی کا عندیہ دیا ہے جس کا اظہار کامران خان کے پروگراموں میں کیا جا رہا ہے لیکن بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کھ پاکستان آرمی پارٹی کا اس سوچ کی طرف لوٹنا خاصا مشکل ہے . ایسی صورت میں یہ پارٹی اپنے پرانے حامیوں سمیت نئے مہروں کی مدد سے حکومت کے خلاف نیا محاز کھولنے کی طرف مائل نظر آ رہی ہے . آئ ایس آئ کے متعلق پیدہ شدہ نئے شکوک نے پاکستان آرمی پارٹی کی اپنی مرضی کی حکومت بنانے کی صلاحیت کو متاثر کیا ہے .جسے صرف مسلم لیگ نواز کی حکمت عملی میں تبدیلی ہی سہارا دے سکتی ہے . آنے والے دنوں میں پیپلز پارٹی سے یہ توقع رکھناغیر حقیقت پسندانہ ہو گا کھ وہ کھل کر پاکستان آرمی پارٹی کی مخلفت کرے گی لیکن جب تک پاکستان آرمی پارٹی پیپلز پارٹی کو اقتدار سے محرومی کے خطرے سے دوچار نہیں کرنے گی پیپلز پارٹی پاکستان آرمی پارٹی کی راہ کو مکمل طور پر نہیں اپنا سکے گی . لیکن اگر مسلم لیگ نواز آئ ایس آئ اور حکومت کو بیک وقت نشانہ بنانے کی اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کر لیتی ہے اور صرف حکومت کو نشانہ بنانے پر آمادہ ہو جاتی ہے تو پاکستان آرمی پارٹی کے لیے سپریم کورٹ کو متحرک کر کے پیپلز پارٹی کو اپنی راہ پر لانا آسان ہو جائے گا. ماضی قریب میں پاکستان آرمی پارٹی نے تین نئے گروہوں کو متحرک اور منظم کرنے کی کوشش کی ہے. شاہ محمود قریشی کو صوفی سوچ کے حامل اکثریت کو ایک کلین شیو قیادت مہیا کرنے کا فریضہ سونپا گیا ہے ، صاحبزادہ فضل کریم جیسے لوگ صوفی سوچ کے لوگوں کی بریلوی قیادت کو ایک لڑی میں پرو رہے ہیں جبکہ تیسری طرف عمران خان کو طالبان سوچ کے حامل لوگوں کی قیادت کی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے . اس وقت جبکہ مسلم لیگ نواز شریف اپنی نئی حکمت عملی وضع نہیں کر سکی پاکستان آرمی پارٹی کے یہ تینوں زیلی گروہ حکومت کے خلاف محاز آرا ہو چکے ہیں . بظاہر یہ امر مشکل نظر آتا ہے کھ مسلم لیگ نواز عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی طرف سے اپنے ووٹوں کو نقصان پہنچنے کے خوف سے باہر نکل آئے . لیکن پا کستان آرمی پارٹی کی طرف سے مسلم لیگ کو بلاشرکت غیرے پاکستان پر حکمرانی کے حق کی ضمانت کے بغیر مسلم لیگ نواز حکومت کو گرانے کی حد تک نہیں جائے گی اسی منظر نامے میں ایک بڑی حقیقت یہ بھی ہے کھ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز ایک دوسرے کے متلعق شکوک کے اس درجے پر پہنچ چکے ہیں جہاں دونوں کا کسی متفقہ حکمت عملی پر پہنچنا تقریبا نہ ممکن ہے .بظاہر آنے والی دنوں میں پاکستانی ریاست اپنی تاریخ کے شدید ترین بحران کا شکا ر نظر آرہی ہے . یہ ریاست اپنے عوام کو موجودہ نظام کے اندر بنیادی سہولیات مہیا کرنے کی صلاحیت سے تو عر صہ پہلے محروم ہو چکی ہے لیکن اب یہ ریاست ان عناصر سے بھی تیزی سے محروم ہوتی جا رہی ہے جو اس کے وجود کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہیں . اس وقت بھی اگر پاکستان آرمی پارٹی خود کو سیاسی عمل سے علیحدہ کرکے سیاسی قوتوں کو پھلنے پھولنے کا موقع دے تو بھنور میں پھنسی ریاست کے بچ جانے کے ا مکانات پیدا ہو سکتے ہیں . دوسری صورت میں ایک ایٹمی قوت کے ناکام ریا ستوں کے انڈکس میں تیزی سے اوپر آنے پر عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے محافظ اس کے متعلق دور رس فیصلے کر سکتے ہیں جو پاکستانی عوام اور خطے کی صورتحال کو مزید مشکلات سے دو چار کر دیں گے
پاکستان آرمی پارٹی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کھ اس نے سچائی کو تسلیم کرنے کی بجائے ہمیشہ عوام کو گمراہ کرنے کو ترجیح دی ہے . پینسٹھ کی جنگ کی شکست کو فتح میں بدلنا اور ہر شکست کو سیاست دا نوں کے کھاتے میں ڈال دینا پاکستان آرمی پارٹی کے لیے عام سی بات ہے . اسی روا یت کے پیش نظر اگر پاکستان آرمی پارٹی اسامہ کے قتل کو قومی غیرت کا مسلہ بنا کر سول قیادت کے کھاتے میں ڈال دے تو یہ کوئی انہونی بات نہیں ہو گی
Excellent analysis, Qais sahib.
I recently wrote elsewhere that: What are the chances that in the current power equation (all powerful military establishment, extremely hostile judiciary and media, very substantive threat of terrorist attacks on political rallies and leadership, opportunist politicians including within PMLN and PPP), any attempt by Zardari to ‘go beyond his (unwritten) boundaries’ will not land him in Garhi Khuda Bux through any possible means?
The opportunity is real but so is the threat. I reiterate that misreading the historical and current power equation in Pakistan may deprive us even further of whatever civilian powers we have in the current arrangement.
حضور والا اپنی رام کتھا میں آپ یہ بتانا بھول گئے کہ اسامہ کو بنانے والا بھی امریکہ تھا اور مٹانے والا بھی. اگر پاک فوج نہ ہو تو یہ ملک بھارتی اور امریکی استعمار کے سامنے دو دن بھی نہ تک سکے . رہے نام الله کا
Excellent analysis of current and situation coming ahead. Beautifully described the dirty game of Na-PAK Army and its puppets both in media and politics.
کچھ نہ کچھ طے ہو گا…سویرے سویرے …نذیرناجی
ہم تو گھر کی مرغی ہیں۔ ہمیں قائل کیا جا سکتا ہے۔ سمجھایا جا سکتا ہے۔ اگر ہم یہ مان بھی جائیں کہ ہمیں اسامہ بن لادن کا پتہ نہیں تھا اور امریکی ہیلی کاپٹروں کے حملے کی خبر نہ ہونا‘ ایک معمولی بات ہے۔ ان سارے بیانات میں صداقت بھی ہو‘ تو مسئلہ ختم نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ مسئلہ ہمارے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے درمیان ہے۔ انہیں نہ ہم قائل کر سکتے ہیں نہ سمجھا سکتے ہیں نہ ڈراسکتے ہیں۔ ان کے ساتھ دلائل سے بات ہو گی۔ شواہد پر بات ہو گی۔ ثبوتوں پر بات ہو گی۔ جو اپنی سچائی ثابت کرے گا‘ اسے اخلاقی تقویت اور برتری حاصل ہو جائے گی اور جو نہیں کر سکے گا‘ اسے اخلاقی دباؤ میں آنا پڑے گا۔ قوموں کی برادری میں یہی ریت رواج ہے۔ پریکٹس یہ ہے کہ سچائی کا زیادہ تر انحصار طاقت پر ہوتا ہے۔ اگر طاقتور فریق اپنی بات ثابت نہ کر سکے‘ تو پھر اخلاقی دباؤ کو نہیں مانتا اور کمزور فریق سچائی ثابت بھی کر دے‘ تو اپنی بات نہیں منوا سکتا۔ مانی اسی کی جاتی ہے‘ جو طاقتور ہو۔
امریکہ کے ساتھ اب ہمارا مباحثہ شروع ہونے کو ہے۔ وہاں کانگرس کی طرف سے بھی یہ پابندی لگنے والی ہے کہ امریکی حکومت پاکستان کے اس موقف کی تصدیق کرے کہ اسے اسامہ کی ایبٹ آباد میں موجودگی کا علم نہیں تھا۔ ظاہر ہے امریکی حکومت اپنے ذرائع سے ہمارے موقف کی تائید نہیں کرے گی۔ یہ سوالات ہم سے کئے جائیں گے اور سوالات کی فہرست بڑی لمبی ہے۔ اسامہ کی ایک اہلیہ کا یہ بیان پاکستانی ایجنسی کے ذریعے سے سامنے آیا ہے کہ ان کا خاندان 5سال سے ایبٹ آباد کے کمپاؤنڈ میں مقیم تھا۔پوچھا جائے گا کہ فوجی اہمیت رکھنے والے اس شہر میں ایسا مشکوک کمپاؤنڈ پاکستانی ایجنسیوں کی نگاہوں سے اوجھل کیوں رہا؟ ایسا پراسرار گھر تو علاقے کے تھانے دار کی نظروں میں بھی آ جاتا ہے۔ وہ بھی تحقیق کرتا ہے کہ اس کے اندر کونسے لوگ رہتے ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ ان کا کاروبار کیا ہے؟ یہ کسی سے ملتے جلتے کیوں نہیں؟ یہاں قاتل‘ سمگلر اور مفرور تو روپوش نہیں ہیں؟ ایجنسیوں کی بات تو بعد میں آتی ہے۔ یہ سپیشل پولیس کا بھی کیس تھا۔ آئی بی کو بھی جائزہ لینا چاہیے تھا اور آئی ایس آئی کا تو فرض تھا۔ کیونکہ خیبر پختونخواہ میں دہشت گردوں کی سرگرمیاں زیادہ ہیں۔ وہاں سکیورٹی فورسز کے جوانوں پر حملے ہوئے ہیں۔ زیرتربیت فوجیوں پر حملے کئے بھی گئے ہیں۔ ان حملوں کے بعد کاکول جیسے ادارے کی حفاظت کے ازسرنو خصوصی انتظامات نہ کرناقابل فہم نہیں ہے۔ زیرتربیت فوجی جوانوں پر دہشت گرد حملوں کے بعد‘ کاکول کی سکیورٹی کے انتظامات پر یقینا نظرثانی کی گئی ہو گی۔ یہ نظرثانی کرتے وقت مذکورہ کمپاؤنڈ کی تلاشی کیوں نہیں لی گئی؟ اس کمپاؤنڈ کا نگران نگاہوں سے بچ رہنا‘ کسی بھی طرح سمجھ میں نہیں آتا اور نہ ہم سے اس کے جواب بن پڑیں گے۔ جنرل ضیا کے زمانے سے چیف آف آرمی سٹاف کی سکیورٹی کے انتظامات میں تبدیلی کی گئی ہے۔ ایک تبدیلی یہ تھی کہ چیف آف آرمی سٹاف جس راستے سے بھی گزریں گے‘ اس کے دونوں اطراف2 کلومیٹر تک کے علاقے میں حفاظتی چھان بین کی جائے گی اور اگر سکیورٹی حکام کو کسی گھر پہ بھی شک پڑے گا تو اس کی تلاشی لی جا سکتی ہے۔ ایبٹ آباد آپریشن سے صرف چند روز پہلے چیف آف آرمی سٹاف کاکول کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کے موقع پر وہاں گئے تھے۔ اس کمپاؤنڈ کی تلاشی ہر اعتبار سے ناگزیر تھی۔ آپ سکیورٹی کے کسی ادنیٰ سے طالب علم کے سامنے بھی اس کمپاؤنڈ کو نظرانداز کرنے کا جواز پیش نہیں کر سکتے۔
جنرل پرویزمشرف سے لے کر موجودہ حکومت کے ذمہ داروں تک‘ ہماری طرف سے ہر ایک نے ڈنکے کی چوٹ پر پورے اعتماد سے دعویٰ کر رکھا تھا کہ اسامہ پاکستان میں نہیں ہے۔ امریکیوں کی طرف سے یہ الزام لگایا جاتا تو ہم اسے پوری طاقت سے جھٹلایا کرتے تھے۔ اب انہوں نے ہمارے ہی گھر سے اسامہ کو برآمد کر لیا ہے۔مجھے سمجھ نہیں آتی ہم اس کا جواب کیا دیں گے؟ فوج اور ایئرفورس کی طرف سے کوتاہی کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ یہی بہترین راستہ تھا‘ جو اختیار کیا گیا۔ ایسے معاملات میں بہانے بازیاں پوزیشن کو زیادہ خراب کر دیتی ہیں۔ ایئرچیف مارشل راؤقمر سلیمان نے فضائی نگرانی میں ناکامی کی ذمہ داری کو لگی لپٹی رکھے بغیر قبول کیا اور صاف طور سے بتا دیا کہ انہیں ایک اتحادی کی طرف سے اپنے ملک کے شہری علاقوں میں کارروائی کا اندازہ نہیں تھا اور یہی سچ بھی ہے۔ ہم تو دہشت گردی کے خلاف مل کر ایک جنگ میں حصہ لے رہے ہیں۔ ہمارے دل میں کوئی میل یا شک ہوتا‘ تو ہم اس طرح بے فکر نہ رہتے۔ یہ بے فکری امریکہ پر ہمارے بھروسے کا ایک ثبوت بھی ہے۔ مگر اس کے ساتھ غفلت کا مظاہرہ بھی۔ کیونکہ جب اسامہ بن لادن ہمارے ملک میں موجود تھا‘ تو ہم کس طرح یہ سوچ سکتے تھے کہ امریکہ اسے برآمد کرنے نہیں آئے گا؟ اس کی ایک ہی وجہ ممکن ہے اور وہ یہ کہ ہمارے دفاعی اداروں میں قیادت کی سطح پر اسامہ کی موجودگی کا کسی کو علم نہیں تھا۔ اس کی موجودگی کا علم ہوتا‘ تو احتیاطی تدابیر بھی یقینا کر لی جاتیں۔ تو پھر ایک ہی صورت رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ قیادت کے علم کے بغیر‘ کچھ عناصر نے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرتے ہوئے‘ اسامہ کو پناہ دے رکھی تھی۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان اس معاملے پر شروع ہونے والی طویل بات چیت کے دوران‘ اس گتھی کو سلجھانا پڑے گا۔ میں نے اوپر بحث کرتے ہوئے جو آخری نتیجہ اخذ کیا ہے ‘ اگر بات اسی طرف آ گئی‘ تو پھر ذمہ داروں کا تعین کر کے انہیں قوانین کے حوالے کرنا پڑے گا۔ ذمہ دار افراد ‘دو قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے۔ پاکستانی اور امریکی۔ امریکہ نے ڈکلیئر کر رکھا ہے کہ وہ اسامہ اور اس کے مددگاروں کو خود سزا دے گا۔ ہمیں جرح کے تکلیف دہ مراحل سے گزرنا ہو گا اور اگر مذاکرات کے دوران امریکیوں نے خفیہ شہادتیں‘ ثبوت اور دستاویزات پیش کر دیں‘ جنہیں جھٹلانا ہمارے لئے ممکن نہ ہوا‘ تو صرف شرمندگی پر ہماری خلاصی مشکل ہو گی۔ ایسی صورت میں ہم پر کیا اور کیسا دباؤ ڈالا جائے گا؟ اس کا اندازہ کرنا دشوار ہے۔ اس امریکی دھمکی کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ اگر امریکی الزامات درست ثابت ہو گئے اور ہم اپنی سچائی ثابت نہ کر سکے‘ تو پھر ”پاکستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت بدل جائے گی۔“ اس جملے کی آسان تشریح یہ ہے کہ ہماری دوستی دشمنی میں بدل جائے گی۔ہم نے اس امکان کی کیا تیاری کی ہے؟ امریکہ سے مقابلے کے لئے نہ ہمارے ”ڈرون سیاستدان“ کسی کام آئیں گے۔ نہ میڈیا کے جہادی کچھ کر پائیں گے اور نہ چودھری نثار علی خان امریکیوں کے دانت کھٹے کر سکیں گے۔ کیونکہ امریکہ اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کے اقدام کو ہماری دہشت گردی قرار دینے پر تل جائے گا۔ اس کی سزا دینے کے لئے عالمی محاذ بنانے کی کوشش کرے گا۔ مجھے تو لگتا ہے کہ یہ کوشش شروع ہو چکی ہے۔ بھارت اس پاکستان دشمن محاذ کو معرض وجود میں لانے کے لئے پہلے سے بے تاب ہے۔ امریکہ اور بھارت کے رابطے کئی دنوں سے شروع ہیں۔ان میں تیزی آ رہی ہے۔ہم ایک ایسے مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ جس میں بھارت کی طرح امریکہ بھی ہم سے دشمنی کر رہا ہو گا۔ جماعت اسلامی والے تو جنرلوں کو بنگالی عوام اور بھارتی فوج سے متصادم کر کے روپوش ہو گئے تھے۔ یہاں بھی ہو جائیں گے۔ ہمارا کیا بنے گا؟
http://search.jang.com.pk/archive/details.asp?nid=527026
شرمندگی کا کوہِ گراں…ایازا میر
ایک ایسا ملک جس میں بدقسمتی اور مصائب پہلے ہی زائد از ضرورت ہوں،ہم اس مجاہداسلام اسامہ بن لادن اور اس کی عنایات سے محفوظ ہی رہتے تو اچھا تھا۔ جب تک وہ زندہ تھا تو ہمارے لیے ایک درد ِ سر تھا مگر اُس کی موت کسی طوفان سے کم نہیں ہے۔ جس طریقے سے وہ موت سے ہمکنار ہوا اُس نے ہمارے دفاعی نظام(اگر کوئی تھا) کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ یہ کہنا کہ ہماری سیکورٹی پر مامور شاہینوں کو ذرا اونگھ آگئی تھی، اس صدی کا ارفع ترین جھوٹ ہو گا۔ یہ واقعہ شرمندگی کا وہ کوہِ گراں ہے ، ہماری مختصر سی تاریخ کے اوراق پر پھیلا ہوا بحر اسود، ایک ایسی سیاہی جس کو سفیدی میں بدلنے کے لیے دن میں تارے نظر آجائیں گے۔ اس سانحے نے یا تو ہماری نا اہلی کو فاش کر دیا ہے۔۔۔ اس سے بدتر اور کیا ہو سکتا تھا کہ اسامہ پاک آرمی کی اکیڈمی سے چند سو گز کے فاصلے پر ایک وسیع و عریض احاطے میں رہائش پذیر تھا اور ، اگر ہم اس پر یقین کر لیں، ہمارے عقابی نظروں والے جوان اس سے لا علم رہے۔۔۔ یا، خدا نہ کرے کہ ایسا ہو، پھر ہم جان بوجھ کر اُس کو چھپائے ہوئے تھے۔
میں تو اسے نااہلی ہی کہوں گا کیونکہ دوسری بات اتنی خوفناک ہے کہ زبان پر نہیں لائی جا سکتی۔ امریکی آئے، پہاڑوں کے اوپر سے پرواز کرتے ، ٹھیک ایبٹ آباد کے اُس احاطے میں اترے اور آپریشن کرنے کے بعد تاریک رات میں اس طرح آئے اور واپس چلے گئے کہ ہم اُن کی آہٹ بھی نہ محسوس کر سکے، اگرچہ اُن کی کاروائی اچھا خاصا ”کھڑاک “ تھی۔ ہمارا مستعد دفاعی نظام دیکھتے کا دیکھتا رہ گیا۔اسامہ کے قتل سے بمشکل 24 گھنٹے قبل جنرل کیانی جی ایچ کیو میں منعقد ہونے والی ایک تقریب جو طالبان کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والے سپاہیوں کی یاد میں تھی، میں بیان فرما رہے تھے کہ فوج ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی محافظ ہے۔ ایک لمحے کے لیے میں نے سوچا کہ ہمیں اب صرف نظریاتی حفاظت پر ہی قناعت کرنی چاہیے کیونکہ ایبٹ آباد کے واقعے نے ہماری جغرافیائی حفاظت کی قلعی کھول دی ہے۔ دنیا کا ہر ملک خوش ہوتا ہے کہ اس کی مسلح افواج اس کی جغرافیائی سرحدوں کی محافظ ہے، مگر ہم اُن میں سے نہیں ہیں۔ ہم شاید دنیا کا واحد ملک ہیں جہاں نظریاتی سرحدوں پرورش اور حفاظت کی جاتی ہے۔ ہم اکیلے ہی اسلام کے قلعے کا لقب اپنے ماتھے پر سجائے ہوے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں ہمارے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کچھ تلخی آگئی تھی اور ہم نے اُن کو بتایا تھا کہ وہ پاکستان میں اپنی کاروائیاں محدود کرلیں۔ میں حیران ہوں کہ اب ہم اُن کو کیا بتائیں گے۔ یہ تصور کرنا کوئی دشوار نہیں کہ اب امریکیوں کے لبوں پر کتنی مسکراہٹ ہو گی جب ہم سی آئی اے کوسرگرمیاں محدود کرنے کا کہیں گے۔
قسمت نے جن کا مذاق اڑانا ہوتا ہے پہلے اُن سے حماقتیں کراتی ہے۔ اس سارے ڈرامے میں جو چیز سب سے زیادہ ناقابل ِ برداشت ہے وہ ہماری انا یاعزت نفس کا مجروح ہونا نہیں ہے بلکہ ہماری حماقتوں کا بیچ چوراہے بھانڈا پھوٹنا۔ اسامہ نے ہمیں زندگی میں بھی نقصان پہنچایا تھا اور اُس کے موت پر آج ہم احمقوں کی طرح اپنا سا منہ لیے کھڑے ہیں۔ کوہ و دشت سر اٹھائے، منہ پھاڑ کر ہمارا تمسخر اڑا رہے ہیں۔ تین مئی ،دفتر خارجہ کے بیان کو ملاحظہ فرمائیں: ”جہاں تک اُس احاطے کا تعلق ہے، آئی ایس آئی نے سی آئی اے سے معلومات کا تبادلہ کیا تھا اور ایسا 2009 سے ہو رہا تھا۔۔۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ جدید ترین آلات رکھتے ہوئے، سی آئی اے نے ہماری فراہم کردہ معلومات کا بہتر تجزیہ کیا اور اسامہ کو تلاش کر لیا۔“ یہ مضحکہ خیز ہے۔ اگر ہم اس احاطے کی اہمیت سے آگاہ ہوتے یا ہمیں اسکے مکینوں پر شک ہوتا تو اس میں داخل ہو کر تلاشی لینے میں کس تکنیکی مہارت و آلات کی ضرورت تھی ؟ لیکن اس پر مستزاد، یہ وارننگ ملاحظہ فرمائیں: ” یہ واقعہ جو بلااجازت یک طرفہ کاروائی پر مبنی ہے کو اصول نہ بنا لیا جائے۔ حکومت ِ پاکستان یقین ِ واثق سے کہتی ہے کہ اس مثال کو مستقبل میں کسی کو، بشمول امریکہ، دھرانے کی اجازت نہیں دیں گے۔“ اس سے سی آئی اے خوف سے لرز اٹھی ہو گی، پنٹاگان کے درو دیوار لرز اٹھے ہوں گے! میرا بیٹا یہ پڑھ کر ہنستے ہنستے دہرا ہو گیا۔ اگر امریکیوں کو ایمن الظواہری یا ملا عمر کی موجودگی کی بھنک پڑ گئی تو کیا وہ کاروائی کے لیے ”سیل “ کے ٹیم بھیجنے سے پہلے ہم سے اجازت کے طلب گار ہوں گے؟ سی آئی اے کے چیف لی اُن پنٹا نے ایک نکتہ اٹھایا ہے:” یہ طے کیا گیا تھا کہ اگر پاکستان کو اس کاروائی کے بارے میں خبر کرتے ہیں تو اس مشن کے ناکام ہونے کا خدشہ تھا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اسامہ کو خبردار کر دے۔“یہ ہے اعتماد کی فضا جو ہم نے قائم کر رکھی ہے۔ تاہم وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی کے اعتماد کا بھی کیا کہنا! فرماتے ہیں کہ اگر ہم اسامہ کو ڈھونڈنے میں ناکام رہے تو یہ دنیا بھر کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی ہے۔ خوش رہو، جیو پیارے! لیکن کیا دنیا ہماری بات مان لے گی اگر اسامہ ہماری ملٹری اکیڈمی سے چند گزدور سے برآمد ہو جائے؟
قومی خود مختاری کی بابت ہم کچھ احمقانہ تصورات رکھتے ہیں۔ پاکستان بھر میں سی آئی اے کی بلاروک ٹوک کاروئیاں ہماری خودمختاری کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ امریکی فوجیوں کی آمد، جیسا کہ ایبٹ آباد میں، کسی طور قابلِ قبول نہیں۔ درست، مگر جب القائدہ پاکستان کو اپنے اڈے کے طور پر استعمال کرتا ہے، سراج الدین حقانی اور دیگر طالبان شمالی وزیرستان اور کوئٹہ میں چھپے ہوئے ہمارے سینے پر مونگ دل رہے ہوں تو الله ہی جانتا ہے کہ خودمختاری کس چڑیا کا نام ہے؟ دینا کو ہماری نیت پر پہلے ہی شک تھا۔
مگر اب اسامہ کے واقعے کے بعد دنیا کو اپنی نیت پر یقین کرنے کا کہنا خاصا مشکل مرحلہ ہے۔ ایک مثالی دنیا میں یہ پاکستان کے لیے خواب غفلت سے جاگنے کے لیے ایک ٹھوکر ہونی چاہیے تھی، ایک موقع کہ ایمانداری سے اپنے آپ کا جائزہ لیں اور قومی سلامتی کی چھتری تلے پنپنے والے احمقانہ تصورات سے جان چھڑائیں۔ ہم دفاع پر اتنا خرچ کیوں کرتے ہیں؟ کیا دنیا ہم پر چڑھ دوڑنے کے لیے تلی ہوئی ہے یا تمام بروٹس خنجر لیے ہمارے پیچھے کھڑے ہیں؟ کیا جہادی عناصر کو نکیل ڈالنے کا وقت ابھی بھی نہیں آیا؟ کیا اب بھی ہم افغانستان سے جان چھڑا کر اپنے اندرونی مسائل پر توجہ نہیں دیں گے؟ کیا اب بھی ہم ترقی اور خوشحالی کی منزل کو اپنی قومی فکر سے ہم آہنگ نہیں کریں گے؟ لیکن افسوس! ہم ان کاموں کے لیے بنے ہی نہیں، یہ بیداری ہماری سرشت میں شامل ہی نہیں۔ خودفریبی میں نہ تو پہلے کوئی ہمارا ثانی تھا اور نہ آئندہ ہوگا، کسی کو غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ وقتی طور پر چاہے اسامہ آپریشن نے ہمیں چونکا دیا ہو مگر اس سے سبق سیکھنے کے لیے جس ڈی این اے کی ضرورت ہے وہ کم از کم ہمارے کروموسومز میں نہیں پایا جاتا۔ دفتر خارجہ کے بیانات نوشتہ دیوار ہیں۔ ہم کچھ بہانے ، کچھ غلط بیانی ، کچھ کج بحثی کا سہارا لے کر دنیا کو بے وقوف بنانے کی کوشش کریں گے اور اس عمل میں ساری دنیا میں ہمارا تمسخر اڑایا جائے گا۔
چنانچہ ہم بدستور اپنے اسٹرٹیجک اثاثوں کی باتیں دھراتے رہیں گے اور اچھے طالبان اور برے طالبان اور افغانستان میں اپنے مفادات کے تحفظ کے افسانے گھڑے جاتے رہیں گے۔ بھارت دشمنی کا بھی چرچا رہے گا اور یوں ہماری ، خوف و خدشات میں گھری ہوئی قومی سلامتی کے سبق کا اعادہ ہوتا رہے گا۔ اگر مشرقی پاکستان کا سانحہ ہمیں نہ جگا سکا، اگر مشرف کی کارگل حماقت ہمیں نہ جھنجھوڑ سکی تو بیچارے امریکیوں کے دو ہیلی کاپٹر کیا تیر مار لیں گے؟ یہ اسلامی ریاست ٹس سے مس ہونے کے لیے نہیں بنی۔ہمارا حکمران طبقہ اپنے طے شدہ راستوں پر گامزن ہے اور یہ راہیں قومی حماقتوں سے عبارت ہیں۔ مرجائیں اگر کوئی اس کوتاہی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے۔ نہیں، یہ پاکستانی راستہ نہیں ہے۔ مگر اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں ہے کہ اب ہمیں زیادہ محتاط ہونا پڑے گا۔ تمام شواہد اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ یہ واقعہ ہمارے لیے ایک خطرناک موڑ ، ایک نازک مرحلہ ہو گا۔ اب ہمارے دشمن تو ایک طرف، ہمارے دوست بھی ہمارے بیانات پر یقین نہیں کریں گے۔ ہر کوئی شک کرے گا کہ ہو نہ ہو، ہم کوئی دھرا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اب ہم سے کچھ مشکل سوالات پوچھے جائیں گے۔ انا کے مجروح ہونے اور غصہ دکھانے کا وقت شاید گزر گیا ہے۔
http://search.jang.com.pk/archive/details.asp?nid=527023
US National Taliban Azam Khan Swati (JUI) Condemns Osama Bin Laden. http://www.youtube.com/watch?v=_L74u09DFvA&feature=channel_video_title
میرے خیال سے توکمیونسٹوں کی طرف سے پاکستان کے قیام کی حمایت کا فیصلہ ، پھر اسے جناح کی ایک تقریر کے مندرجات کے ساتھ ملا کر پڑھنا خوشنما ضرور ہے لیکن حقائق سے دور ہے.
بلکہ یہ توکمیونسٹوں کی معروضی حقیقتوں کی مس ریڈنگ کے طویل باب کا عنوان ہے.
Please dont poison the minds of people against army. Had there been no pressure from army,Pakistan would have become bankrupt 2 years back. Army is the only institution in Pakistan which can save our country from internal and external threats.
PPP has done worst possible of Pakistan. May ALLAH perish criminal mafia PPP.
Pakistan Army has generated funds for themselves via war games aka military operations and handed over less significant terrorists of Al Qaeda and hiding Osama, a great step to khud inhisari!