Bhutto retrial: Catharsis for PPP haters – by Danial Lakhnavi
حکمران جماعت پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے اتحادیوں کی مشاورت اور کابینہ کی منظوری سے ایک آئینی شق کے تحت طاقت اور اختیارات کی تقسیم کے موجودہ بندوبست کے ایک اہم ساجھے داریعنی جوڈیشری سے ذوالفقار علی بھٹو پر چلائے گئے مقدمےاور ان کےعدالتی قتل پر رائے طلب کی ہے
بقول شاعر
ہم کو شاہوں سے عدالت کی توقع تو نہیں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلادیتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
اب جسٹس پارٹی کے سربراہ افتخار چوہدری جو بھی رائے دیں اس سے بھٹو کے سیاسی قد میں کوئی اضافہ یا کمی تو نہیں ہوگی البتہ وہ اپنی ساکھ کو شاید کچھ بہتر کر سکیںگے گرچہ ان کے پرستاروں کی زیادہ تعدادتو اس معاملے میں بھی ان سے کچھ اورامید لگائے بیٹھے ہیں،البتہ صدر زرداری کو یہ تو ضرور اطمینان ہوگا کہ کم سے اس کیس میں ان کو ملوث نہ کیا جاسکے گا
مختلف سیاسی جماعتوں میں موجود قوالوں اور ان کے ٹی وی میزبانوں کی صورت میں موجود ہمنواؤں کی طرف سے ایک ہی بحرووزن میں راگ الاپنے کا سلسلہ جاری ہے، اگر ان تمام قوالوں اور ہمنواؤں کے پس منظر کا جائزہ لیا جائے تو ان کے سلسلے عسکرشاہی دور کے درباری آباؤ اجداد تک جا پہنچتا ہے جنہیں یحیی خان کے ہم پیالگی اور ہم نوالگی کے وقت اپنی فکر وعقل و شعور کی حسیات کےساتھ اپنی سونگھنے کی حس کو بھی ماؤف رکھنا پڑتا تھا مبادا مے نوشی کی عادت مکروہ کا پتہ چل جانے کے بعد سپاہ سالار اعلی سے خوش عقیدگی میں کمی نہ آجائے، رہی اوروں کی شہادت تو صالحین فساق کی باتوں میں آکر بدگماں نہیں ہواکرتے،آپ کہیں گےمیرا اشارہ کس طرف ہے تو میری مراد میاں طفیل مرحوم سے ہے
ع
حق مغفرت کرے عجب آزاد(؟) مرد تھا
اپنے میاں طفیل صاحب کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا اتنا شوق تھا کہ بھٹو شہید کے مقدمہ قتل میں دیگر ملزمان سے اعترافی بیان دلوانے کے لئے قرآن پر حلف لے کر ان کو بچانے کی یقین دہانیاں کروائیں، اور پھر جھوٹے حلف پر خود گناہگار تو ہوئے مگر قتل کے گناہ گاروں کو بچانے کا وعدہ ایفا نہ کیا۔ اوران کی جماعت کے رسائل بھٹّو صاحب کو میاں طفیل کےایک پیٹی بھائی مولوی مشتاق کی طرف سے پھانسی دیئے جانے پر عالمی رہنماوں کی طرف سے اپیلوں کا برا مناتے ہوئے انصاف کے تقاضوں کی تکمیل پر زور دیتے رہے
ایسے میں جب مبشّر لقمان بھتّو ری ٹرائل پر میاں طفیل کے جانشین قاضی حسین کی رائے طلب کرتے ہوئے ان کو ایک قابل احترام شخصیت اور مدبّرسیاست دان قرار دیتے ہیں تو مبشّرلقمان کی ستم ظریفی پر حیرت ہوتی ہے۔
ایک طرح سے بھٹو ہیٹرز کے لئے حکومت نے کیتھارسس کا ایسا موقع فراہم کردیا ہے کہ وہ کھل کے سب اگل رہے ہیں ہیں اور ہو لوگ جو بیک ہینڈڈ انداز میں بھٹو کی تعریف کرتے ہوئے آج کی پیپلز پارٹی کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ بھٹو کی پیپلز پارٹی نہیں ہے
چلیں جی آپ نے پیپلز پارٹی کو گالیاں دینی ہیں تو دیتے رہیں لیکن کم از کم اس کے لئے بھٹو صاحب کی جان تو چھوڑیں۔ ۔ ۔
اہل ذوق کے لئے میردرد مرحوم کا شعر حاظر ہے
میر درد نے اک بار کہا تھا کہ
ع
اپنی تو یہ صلاح ہے کہ سب زاہدان شہر
اے درد آکے بیعت دست سبو کریں
Comments
Latest Comments
excellent post
bhutto sb ko apni life me kafi controvercies dekhna pari or kafi opposition bardasht krna pari or unhe phansi dilwane wale aj unhe ek great leader kehte he or un k nare lagate he or BB shahed k sath bhi kuch isi tarah hua he lekin aj wo awam me zinda hai Q k unhe ne temporary VICTORY k liye nae bal k permanent HISTORY k liye kam kia tha is liye aj wo HISTORY mai ZINDA he is liye zardari sb ap ko bhi in great leaders k oper amal krna ho ga agar ap chahte he k ap history me ache name se yad rakhe jae
Zindha O javed Bhutto Awam kay dilo mai hamesha zindha Rahega !
عدالت نے اس ریفرنس کی سماعت کے لیے دس عدالتی معاونین بھی مقرر کیے ہیں ان میں بیرسٹر اعتزاز احسن، ایس ایم ظفر، عبدالحفیظ پیرزادہ، فخرالدین جی ابراہیم، خالد انور، مخدوم علی خان، لطیف آفریدی، علی احمد کُرد، جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود اور بیرسٹر ظہورالحق شامل ہیں۔ عدالت نے اٹارنی جنرل اور چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرل کو بھی نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جمعرات کو اس صدارتی ریفرنس کی ابتدائی سماعت کی۔
سرکاری وکیل بابر اعوان نے اس ریفرنس میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق پانچ سوالات پر سپریم کورٹ کی رائے طلب کی ہے۔
ان میں پوچھا گیا ہے کہ کیا سابق وزیر اعظم کے قتل کے مقدمے کا عدالتی ٹرائیل آئین میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق سے مطابقت رکھتا ہے۔
صدارتی ریفرنس میں یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو دی جانے والی پھانسی اسلامی قوانین سے مطابقت رکھتی ہے اور کیا وعدہ معاف گواہ کے بیان پر کسی کو پھانسی دی جاسکتی ہے اور کیا بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ کسی عدالت میں مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔
ان سوالات میں یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ جب ریکارڈ میں اس مقدمے کی سماعت کرنے والے ججوں کا رویہ جانب دارانہ ہو تو کیا ان حالات میں عدالتی کارروائی کو منصفانہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ عدالت عظمیٰ سے اس سوال پر بھی رائے لی گئی ہے کہ کیا اُس وقت کے حالات اور ریکارڈ کے مطابق بھٹو کو دی جانے والی سزا درست تھی۔
یاد رہے کہ اس ریفرنس کی گُزشتہ سماعت کے دوران عدالت نے بابر اعوان سے کہا تھا کہ اس صدارتی ریفرنس میں وہ قانونی نکات واضح نہیں ہیں جن سے متعلق سپریم کورٹ سے رائے مانگی گئی ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/04/110421_zab_reference_fz.shtml