Will Pakistan wake up to it? Apprehensions of Pakistani Hindus

LUBP has always voiced concerns over the deteriorating situation of minorities in Pakistan. This state of affairs has further aggravated during the past few months. From two high profile assassinations in the federal capital for their bold opposition to discriminatory laws against the minorities, the situation is rapidly worsening for minorities throughout Pakistan.

The following article at BBC Urdu highlights the increasing concerns and grievances of Pakistani Hindus.

پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر حیدر آباد میں منعقدہ ایک کنونشن میں عہد کیا گیا ہے کہ آئندہ سندھ بھر میں ہندو برادری کے لوگوں کے اغواء، لڑکیوں کو مسلمان کرنے اور قتل کرنے کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی جائے گی۔

ینگ ہندو پنچائیت کے زیر اہتمام منعقدہ ’آل سندھ منارٹی آدم شماری کنونشن‘ کے شرکاء نے کہا کہ ہندووں کے خلاف زیادتی پر آواز اٹھائی جائے گی جب کہ پولیس اور دیگر ذمہ دار لوگوں کا گھیراو کیا جائے گا۔

جمعہ کو ہندو برادری کے نوجوانوں کی طرف سے بلائے گئے کنونشن میں سندھ کے تمام اضلاع کی نمائندگی کے علاوہ ممتاز ہندو شخصیات نے شرکت کی، جن میں مسلم لیگ قاف کے رکن قومی اسمبلی کشن چند پاروانی، معروف وکیل جھمٹ جھیٹانند، لیڈی ڈاکٹر روبی، اے ایس اہوجھا، صحافی سترام مہشوری اور اشوک شرما نمایاں تھے۔

ہندو برادری کی ممتاز شخصیات کے علاوہ سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر قادر مگسی، عوامی تحریک کے صدر ایاز لطیف پلیجو بھی کنونشن میں شریک تھے۔

نامہ نگار علی حسن کے مطابق سندھ میں سنہ انیس سو اٹھانوے کی مردم شماری کے مطابق چالیس لاکھ ہندو آباد تھے جو کنونشن کے شرکاء کے مطابق اب پچاس لاکھ ہو چکے ہیں۔

کنونشن کومردم شماری کے معاملے پر گفتگو کرنا تھی لیکن برادری کی نمایاں شخصیات طویل عرصے بعد ایک مقام پر اکھٹی ہوئی تھیں اس لیے سندھ میں ہندو برادری کو درپیش صورتحال پر سیر حاصل تقاریر کی گئیں۔

کنونشن میں ہندووں کی بھارت منتقلی پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مقررین نے برادری سے اپیل کی کہ وہ منتقلی کی بجائے اسی سر زمین پر رہتے ہوئے اپنے قانونی حقوق کی لڑائی لڑیں کیوں کہ ہم بھی سرزمین کی اولاد ہیں اور ہمیں آئین کے مطابق برابری کے حقوق حاصل ہیں۔

مقررین کا کہنا تھا کہ بھارت منتقلی تیز رفتاری کے ساتھ ہو رہی ہے لیکن حکومت اس کا نوٹس ہی نہیں لیتی ہے۔

نوجوان مقررین نے زیادہ غم اور غصے کا اظہار کیا اور ان کا کہنا تھا کہ’ تاوان کے لیے ہندو برادری کے معصوم بچوں اور تاجروں کااغواء معمول بن گیا ہے اور ہندو لڑکیوں کو اغواء کر کے مسلمان کیا جانا اور ان کے ساتھ ان کی رضامندی کے بغیر شادیاں کرنا روز مرہ کا معاملہ ہو گیا ہے جس پر حکومت کوئی قابل ذکر قدم اٹھانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔‘

مقررین نے برادری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہندو برادری میں بنیادی خامی یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اقلیت کہلاتے اور تصور کرتے ہیں حالانکہ وہ دھرتی کی اولاد ہیں اور اکثریت کے برابر حقوق رکھتے ہیں اور وسائل میں برابر کے حقدار ہیں۔

مردم شماری کے حوالے سے کنونشن کے شرکاء کا کہنا تھا کہ مردم شماری کے عملے میں ہندو برادری اور دیگر اقلیت کے نمائندے شامل کیے جائیں تاکہ مردم شماری میں کوئی خامی نہ رہ سکے۔

پاکستان کی قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی اور سینیٹ میں موجود ہندو اراکین اور حکومت سندھ کے تین ہندو وزیروں پر بھی تنقید کی گئی اور کہا گیا کہ ان لوگوں نے برادری کے عام لوگوں کے مسائل اور معاملات پر کبھی توجہ نہیں دی ہے۔

’برادری کا المیہ یہ ہے کہ مخصوص نششتوں پر منتخب ہونے والے ان کی برادری کے نمائندے مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے ہیں اور عام انتخابات میں ان کے ووٹ لے کر منتخب ہونے والےنمائندے انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ اپنی برادری کے نمائندوں کے پاس جا کر مسائل حل کرائیں۔‘

عام لوگ اس طرح چکی کے دونوں پاٹوں میں پس رہے ہیں اور ان کی سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ آخر وہ کس سے رجوع کریں۔

کنونشن میں مسلم لیگ قاف کے رکن قومی اسمبلی کشن چند پاروانی نے بھی تلخ لہجے میں تقریر کی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قیام کے بعد سے ہندو برادری کو تیسری درجے کا شہری تصور کیا جاتا ہے اور ان کے قانونی اور معاشی حقوق صلب کیے جاتے رہے ہیں لیکن حکومت میں شامل لوگ پاکستان میں موجود اقلیت کےمعاملات پر سنجیدگی سے کبھی غور کرتے ہیں اور نہ ہی توجہ دیتے ہیں اور اسی وجہ سے لوگ بھارت منتقل ہو رہے ہیں۔

Source: BBC

Comments

comments

Latest Comments
  1. Khalid Aziz
    -
  2. Khalid Aziz
    -
  3. Khalid Aziz
    -
  4. Humza Ikram
    -