MQM, Politics of a Chameleon – by Danial Lakhnavi

ہندوستان میں اپنے آبائی علاقے چھوڑ کر سندہ کو گھر بنانے پر جب ہم ہندوستانی اور مہاجر کہلائےجانے لگے، اور ہمارے کچھ احباب نے اس اصطلاح کو اپنا بھی لیا اس وقت میرے والد محترم کو اس اصطلاح سے شدید اختلاف تھا، ایک تو اس اصطلاح کے مذہبی پس
منظر اور دوسرے اس کے غلط کانٹیکسٹ کے باعث ۔

وہ کہتے تھے کہ اس پورےخطے کا نام تو انڈیا یا ہند پڑاہی سندھو دریا یا انڈس کے توسط سے ہے بلکہ یہ تو پورے خطےکا تہذیبی مرکزتھا تو آج میرے اسی دریا کے ایک پار سے دوسرے پار،اس کنارے آ کرآباد ہونے پر میں مھاجر کیسے ھوا، میں تو اپنے ھی گھر
لوٹا ہوں تم نے خون کی لکیریں کھینچ دیں یا اسے سفید، ھرے، نیلے یا کسی اوررنگ میں رنگ دیا تواس سے میری حیثیت کیسے بدل گئی بھائی

وہ خود کو اتنا ہی سندہ کا بیٹااوراس کے تہذیبی سرچشموں کا وارث سمجھتے جتنا اس پار پہلے سے آباد لوگ، انہوں نےاس وقت جب ان کے دیگر رفقاء  کراچی میں جائیدادیں چھوڑ کر جانے والوں کی املاک پر کھینچا تانی کر رہے تھے سندھ کےایک چھوٹے شہر میں رہنا اسی لئے قبول کیا۔

بھٹو صاحب کے دور میں جب وسائل اور مراعات سے محروم دیہی علاقوں کے  سندھی مختلف سطحوں پر آگے آئے اور سندہ کے شہری علاقوں میں آکر بس جانے والے لوگوں نے شہری اور دیہی تضادات کو سیاسی مفادات کا وسیلہ بنانا چاہا اورعابد زبیری جیسے گماشتے اس طبقاتی تضاد پر استوار سیاسی موقع پرستی کی راہ پر عازم تھے، تو والد صاحب  اس کی مخالفت کرتے اور بھٹو کے اقدامات کی وکالت کرتے پھرتےتھے، وہ دیہی اور شہری کی اس تقسیم سے نالاں تھے،

وہ ون یونٹ کے دنوں میں معاشی سرگرمیوں اور صنعتی گہما گہمی کےباعث کراچی میں دوسرے صوبوں سے آکر آباد ہونے والوں کے بھی حق میں نہیں تھے، اور اسے آگے جاکے مزید پیچیدگیوں کا پیش خیمہ سمجھتے تھے، اس لئے وہ مہاجر شناخت اور اس کے نام پر سیاست اور مقتدرہ سے ساجھے داری کو سندہ کے شہری علاقوں بالخصوص کراچی میں دیگر اقوام کی طرف سے بھی  اپنے قومی تضادات اور اس بنیاد پر مطالبات کا اکھاڑہ بنتے دیکھتے تھے، لیکن جب اصطلا حات اور شناختیں معاشی مفادات اور مراعات کا
وسیلہ بن جائیں تو کسی مجذوب کی بڑ سننے میں کسے دلچسپی ہوگی،

والد سے یہی باتیں سنتے ہم بڑی ہوئے، اور ان کا بھٹو ازم ہمارا ورثہ ٹہرا، ہمارے زمانہ طالب علمی میں جب پورا ملک بھٹو مینیا اور بھٹو فوبیا میں تقسیم تھا تو ہم بھی اس سحر سے آزاد نہ تھے.

پھر کراچی یونیورسٹی میں حصول تعلیم کے دوران  مہاجرشناخت اور اس کے متوقع ثمرات کےحق میں دلائل سننے کے بعد اور عملی زندگی کے تجربات نے رفتہ رفتہ والد محترم کے دلائل کو ماند کردیا اور سماجی ضرورتوں نے ان کو فراموش ہی کروادیا.

مہاجر قومی مومنٹ کی ابتدائی دنوں مین سیداختر رضوی کو پڑھ اور سن کر یہ اطمینان تھا کہ مہاجر قومیت کا یہ تصور سندھ اور سندھیوں سے کبھی متصادم نہ ہوگا. لیکن یہ خیال خام ہی ٹہرااور آگے جاکے ہر زبان وقومیت کے حامل لوگ اس سیاسی آتش فشاں کا ایندھن بنے، اور اس پر مستژاد یہ کہ ریاستی تشدد نے اس نودریافت شدہ شناخت کو شاونزم میں بدل دیا، اور ہم جو بھٹو مینک ہونے کے باعث الطاف بھائی میں بھی بھٹو ڈھونڈتے پھرتے تھے میرپور واپس لوٹ آئے.

وقت کے تھپیڑوں اورسیاسی حقیقتوں نے مہاجر قومی موومنٹ کو متحدہ قومی موومنٹ میں بدل دیا، لیکن اس کی بنیادوں میں پڑا وہ تضاد آج بھی اسے متحدہ قوموں کی تحریک بننے سے روکے ہوئےہے، متوسط طبقے کی نمائندگی کے دعوے نے شاید اس کا مزاج مڈل کلاس کی اخلاقیات پر استوار کردیا ہے،اور پاکستانی معاشرے میں مڈل کلاس مقتدرہ کی آلہ کار بن کر اس کے مقاصد اور آئیڈیلز اپنا کر اپنا حصّہ وصول کرتی ہے،

یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کبھی فرقہ ورانہ پولرائزیشن میں فریق بن کے سامنے آتی ہے، کبھی الطاف بھائی کے ساتھی سندھی بن کر سامنے آتے ہیں، کبھی وہ روشن خیال اعتدال پسند ی اور عملیت پسندی کے گن گاتے ہیں اور آج وہ پنجاب کے سیاسی منظر پر نمودار ہونے کے لئے جماعت اسلامی اور عمران خان کے ہم رکابی کے لئے پر تول رہے ہیں، جبکہ کراچی کی سیاست پورے ملک میں پھیلی سیاسی، معاشی، فرقہ ورانہ اور قومیتی اور لسانی “ورٹیکل اور ہاری زنٹل ڈیوائڈ” کا نمونہ ہے۔ ۔

ایم کیو ایم کے احباب الطاف بھائی کی کتاب “اسٹیبلشمنٹ کی سہ جہتی حکمت عملی “ آج کل پڑھ کر کیا اخذ کرتے ہوں گے، یہ بات اب بھی میرے لئے معمّہ ہے۔ ۔ ۔

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdul Nishapuri
    -
  2. Shahzad Kakazai
    -
  3. Javaid Khan
    -
  4. Maula Bux Thadani
    -
  5. AHMED BALOCH
    -
  6. Saleem Ahmed
    -
  7. Saleem Ahmed
    -
  8. Saleem Ahmed
    -
  9. Saleem Ahmed
    -
  10. Saleem Ahmed
    -
  11. Saleem Ahmed
    -
  12. Saleem Ahmed
    -