saffaak masiha – by Sana Bucha


سفاک مسیحا
ثناء بچہ

جس دن شہباز بھٹی کو ابدی نیند سلایا گیا، اس دن میرے پروگرام میں مسیحی برادری سے بے شمار ایس ایم ایس موصول ہوئے۔ کسی نے لکھا ”ہم کرسچن بعد میں، پہلے پاکستانی ہیں!“ دوسرے نے انصاف کے لئے آواز بلند کی، تو تیسرے نے اپنے خوف کا اظہار کچھ یوں کیا، ”شہباز بھٹی کے قتل کے بعد مسیحی برادری اور غیر محفوظ ہو گئی ہے“۔ حکومت ہمیں تحفظ دینے میں ناکام ہو گئی ہے۔ہمیں حکومت سے نہیں، پاکستانی عوام سے شکایت ہے!

یہ دن اس لئے بھی مختلف تھا کیونکہ دو ماہ پہلے میں نے ایساہی ایک پروگرام کیا تھا اور ایس ایم ایس نہ ہونے کے برابر تھے۔ یہ عکاس تھا اس خوف اور تنگ نظری کا جس نے ہمیں ایک انسان کے قتل پر بھی خاموش رکھا۔ یہ تو حسّاس سمجھے جانے والے معاملات ہیں۔لیکن ہم تو بے حسی میں ایسے مست ہیں کہ بلوچستان میں آئے روز اموات پر بھی آواز بلند نہیں کرتے۔

بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ ٹارگٹ بھی ہوتے ہیں، غائب بھی کر دیے جاتے ہیں لیکن مظلوم اور محروم بلوچوں کی آہیں صرف سپریم کورٹ کی دہلیز تک ہی پہنچ پاتی ہیں۔

یہ کون سی اقلیت ہے؟ ہمارے ہاں تو اقلیتوں کو ہی دبانے کا رواج ہے۔پاکستان میں اقلیت کے معنی لغت سے یکسر مختلف ہیں۔یہاں اقلیت سے مراد وہ تمام طبقے اور فرقے ہیں جن کو با آسانی دبایا جاسکے ،اس حوالے سے خواتین بھی اقلیت ہی تو ہیں!

پھر چاہے جو بھی ہوجائے ہم صرف پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر واویلا مچائیں گے، ڈیوس کا معاملہ ہی گرم رہے گا، ہم پی ایم ایل ن کے دس نکاتی ایجنڈے کو ہی پیٹیں گے، ایم کیو ایم اپنی مانگیں پوری نہ ہونے پر اسمبلی سے واک آوٹ کرے گی اور ق لیگ اپنے بکھرتے وجود کو سمیٹنے میں ہی لگی رہے گی۔مانا کہ پاکستان میں بے تحاشہ ایشوز ہیں لیکن ترجیحات کا تعین بھی تو ضروری ہے۔

ہم حکومت کے خلاف چلنے کو اپنا وقار سمجھتے ہیں لیکن چلتے ہم حکومت ہی کی لائن پر ہیں۔ مائنڈ سیٹ تو ہمارا بھی وہی ہے اور آج وہ اینکرز جو شہباز بھٹی کی بلٹ پروف گاڑی نہ دیے جانے کا رونا رو رہے ہیں اور دعوے سے ان کو دی جانے والی دھمکیوں کی بات کر رہے ہیں، وہ آج تک خاموش کیوں تھے؟ ہمارے ہاں بعد از مرگ ہی واویلے کا رجحان کیوں ہے؟

اب شمعیں جلانے والوں کو آسرا،اینکرز کو ایک نیاایشو اور حکومت کو ایک اور شہید مل گیا۔ لیکن ، محرومیوں کا شکار بلوچستان ایک بار پھر توجہ حاصل کرنے سے محروم ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں گزشتہ چار ماہ میں کم از کم 90 اساتذہ، وکلا، صحافی اور سیاسی کارکن یا تو اغوا ہوئے یا مارے گئے۔ رپورٹ میں ان وارداتوں کا مرتکب ایف سی کو ٹھہرایا گیاہے۔ایمنسٹی کی اس طرح کی رپورٹس کو تو سازش اور پروپیگنڈا کہہ کر رد کردیا جاتا ہے۔لیکن اب تو ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے سپریم کورٹ میں آن ریکارڈ یہ کہا ہے کہ ایف سی کے اہلکار دن دہاڑے لوگوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں اور صوبائی حکومت ان کے سامنے بے بس ہے۔کیا اس کو بھی مسترد کر دیں، کیا اس کو بھی پروپیگنڈا سمجھا جائے؟ایسا نہیں ہے کہ اس حکومت نے بلوچستان پر کبھی توجہ نہیں دی۔آغاز ہی معافی سے کیا اور بلوچستان پیکیج کا اعلان کر کے تلافی کی کوشش بھی کی۔لیکن نہ تو حقوق دیے جانے کا آغاز ہوا اور نہ ہی محرومیوں کی تلافی۔ صرف لعشیں ملتی ہیں اور غائب ہونے والوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔بلوچستان میں حالیہ بارشوں نے رحمت کا کوئی در وا نہیں کیا اور گرتی برف نے پورے پاکستان کے برفانی جذبات کو بھی مات دے دی۔ بلوچ عوام کو برف کے گالوں نے نہیں ٹھٹھرایا، انہیں تو اہل پاکستان کی برفیلی سرد مہری نے کب کا سْن کر رکھا ہے۔ ایک شہباز بھٹی کی ماں ہے جس کے آنسو تھمنے میں نہیں آ رہے اور ایک بلوچستان کی وہ ہزاروں مائیں ہیں جن کے آنسو کب کے خشک ہو چکے۔

بھٹی صاحب کے لواحقین کو پرسا دینے والے تو بہت ہیں لیکن ان ماؤں کو تو ایسا کوئی کندھا میسر نہیں جِس پر وہ سر رکھ کر رو سکیں۔لیکن اِن سب ماؤں کاغم سانجھا ہے۔ جہاں ان ماؤں کا غم ایک ہے، وہیں لوگوں کا خوف بھی مشترک ہے۔بہت سے معاملات پر ہم اس لئے نہیں بولتے کہ ہم ڈرتے ہیں۔شہباز بھٹی پر ہم نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال نہ کئے کیونکہ معاملہ خوف کا ہے اور بلوچستان یہاں تو ڈر ایسا ہے جو بڑے بڑوں کو چپ کرا دیتا ہے اور وہ طاقت جو اس خوف کا منبع ہے وہ کبھی ہمیں مولوی حضرات سے لڑاتی ہے، کبھی طالبان سے بِھڑاتی ہے اور کبھی پراکسی وار کے نام پر بلوچستان کی آگ کو دہکاتی ہے۔

اس خفیہ ہاتھ نے ہمیشہ معاملات میں الجھاؤ رکھا اور سخت گیر پالیسیاں اپنائیں۔اسلام کے نام پر جہادی تنظیمیں وجود میں لائی گئیں ، انتہا پسندانہ نظریات کو فروغ دیا گیا اور بلوچستان میں من پسند افراد کو نوازا اور مسلط کیا گیا۔تو جب آج کوئی انتہا پسند کسی کو نشانہ بناتا ہے، جب کوئی جذبات میں آ کر قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے، جب کوئی مذہب کی بنیاد پر کسی کا گلا کاٹتا ہے تو پھر ہم حکومت کو کیوں مورد الزام ٹھہراتے ہیں؟

وہ حکومت جس کا سربراہ شہباز بھٹی کے قتل پر استعفیٰ دینے کی بات تو کرتا ہے لیکن سچ کہہ نہیں سکتا۔خوف تو اْس کو بھی ہے۔اور ہم عوام جو کسی کے کہنے پر نعرے بلند کرنے دوڑ پڑتے ہیں، زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے، جن کی نہ ہمیں سمجھ ہے نہ پہچان۔الیکشن میں جمہوری طاقتوں کو ووٹ تو دیتے ہیں لیکن جب کوئی اِنہیں بندوق کے زور پر نکال باہر کرتا ہے تو ہم ہی مٹھائیاں بھی بانٹتے ہیں۔ مہنگائی کے نام پر ہڑتال کرتے ہیں اور ٹیکس ادا کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔کسی کے ڈر سے حق بات نہیں کہتے۔کسی کے بہکاوے میں آکر بے بنیاد پروپیگنڈے کاحصہ بن جاتے ہیں اور کبھی یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اسلام اقلیتوں کے حقوق کا سب سے بڑا علم بردار ہے اور ہمارے پرچم میں سفید رنگ انہی اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔لیکن افسوس کہ یہ نمائندگی صرف جھنڈے تک ہی محدود رہ گئی ہے۔نمائندگی تو خیر ہمارا نقشہ بلوچستان کی بھی کرتا ہے لیکن مجھے یہ خوف ہے کہ یہ نمائندگی بھی بس نقشے تک ہی محدود نہ رہ جائے۔لیکن یہ سفاک مسیحا میرے قبضے میں نہیں ، اس جہاں کے کسی ذی روح کے قبضے میں نہیں۔ ہاں مگر، تیرے سوا، تیرے سوا، تیرے سوا۔

Source: Jang, 6 March 2011

Comments

comments

Latest Comments
  1. Ashaknaz Bhatti
    -
  2. Junaid Qaiser
    -