President Zardari, Sindh Saga and the tele-scholars – by Ali Arqam
صدر زرداری، سندھ ساگا اور ٹیلی دانشور
صدر زرداری کا حوالہ و تعارف چونکہ بھٹو لیگیسی کا تسلسل ہے اس لئے ان کی ذات سے جڑا ہر معاملہ اور ان کا کہا ہر لفظ متنازع بنا کر ان پر سنگ باری شروع ہو جاتی ہے۔پاکستان کی صحافتی تاریخ کے شاہدوں کے لئے شاید یہ بات زیادہ اچنبھے کا باعث نہ ہوکہ یہی ستم ظریفی اپنے اپنے ادوار میں شہید بھٹو ، بیگم نصرت بھٹو اور ان کی بیٹی بینظیر بھٹو کے ساتھ رھی ہے۔
پچھلے دنوں صدر زرداری نے خطہ سندھ کی تاریخی حیثیت کے حوالے سے اپنی تقریر میں کچھ تاریخی حقائق کا تذکرہ کیا اگرچہ اس تمام گفتگو میں کوئی بات ایسی نہ تھی جو صحافتی شاہینوں کے منظور نظر وکیل رہنما اور دانشور جناب اعتزاز احسن کی کتاب سندھ ساگا سے متعارض ہو
لیکن ٹی وی سکرین سے دانش اخذ کرنے والی اور سطحی جذباتیت کے حامل صحافتی مواد کو شیر مادر کی طرح ہضم کرکے پھر آن لائن جگا لیاں کرنے والے احباب ذرا نسیم حجازی کے ناولوںکے مطالعے سے طاری ہونے رومانوی فضا سے نکل کر تاریخ کے صفحے الٹیں اور پھر تاریخی اصطلاحات پر طبع آزمائی کریں۔
زیر نظر اقتباس سندھ کی معروف علمی شخصیت اور انقلابی مفکر عبیداللہ سندھی کے ایک سے لیا گیا ہو جس میں وہ سندھ کی تاریخی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہیں۔
ہماری تمام کوششوں کا مرجع یہ ہے کہ ہم اپنے وطن میں اعلی اصول ترقی پر ایک نیشنل پارٹی قائم کرنے کا راستہ صاف کریں۔
الف۔اس پارٹی کنام سندھ ساگر پارٹی ہوگا۔
ب۔ میدان نارتھ ویسٹ انڈیا ہے،جس کی مشرقی اور جنوبی حد اس خط سے متعین ہوتی ہے ،جو جھیل مانسرور سے شروع ہوکر الہ آباد سے گزرتا ہوا نربدا سے جا ملتا ہے اور اسی کے متواذی بحر عرب پر ختم ہوتا ہے۔
اس پارٹی کے میدان عمل کو ہم تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں
الف۔ پہلا حصہ آج کاصوبہ سندھ ہے، جس کا دارالصدر کراچی {جو کہ تاریخی شہر دیبل کا دوسرا نام ہے} اس پارٹی کا مرکز ہوگا۔
ب۔ دوسرا حصہ وہ ممالک ہیں جن کے سرچشموں کا پانی دریائے سندھ میں آتا ہے، ہزار سال پہلے یہ سارا علاقہ کشمیر و کابل و ضزنی سمیت سندھ کہلاتا تھا جس کا ثبوت عربی تاریخوں میں ملتا ہے۔ہم لاۃور کو اس حصہ کا مرکز مانتے ہیں۔
ج۔ تیسرا حصہ وہ متصلہ ممالک ہیں جن کا سندھ ساگر میں شامل رہنا اہم سیاسی مصالھ کے اعتبار سے ضروری ہے۔اسحصہ کا مرکز دہلی ہوگا۔دہلی تمام سندھ ساگر کی اقوام کا مرکز ہوگا۔
{سندھ ساگر پارٹی کے اصول اور پروگرام کا مسودہ از خطبات و مقالات مولانا سندھی ص202}
Here is an interesting excerpt from Maulana Obaidullah Sindhi’s Khutbaat:
Maulana Obaidullah Sindhi said that the only solution for the communal problems of India was complete independence for Sindh. The Maulana said:
“It is necessary to explain here that we want a permanent government of Sindhis in Sindh, We shall not permit any religious issue to arise here We regard Sindh as a permanent entity. We shall determine our relationship with the other countries of the sub-continent in our capacity as a separate country.” (Khutbaat-i-Obaidullah, p. 1 63)
At another place, the Maulana said:
“We shall create a dominion in Sindh and decide to be part of the British Commonwealth.” Khutbaat-i Obaidullah, p. 156).
Once again, the Maulana said:
“Our party, the Sindh Sagar Party, is willing to cooperate with any other party which is in agreement with our basic tenet which is that Sindh is for the Sindhis alone.” (Khutbaat-i-Obaidullah, p. 165).
http://www.sindhudesh.com/gmsyed/case/saeen-book1-part7.html