The wretched of the earth: who were murdered in the darkest lanes – by Suleman Akhtar


اُفتادگانِ خاک: جو تاریک راہوں میں مارے گئے

دھرتی کے ایک اور سپُوت نے اپنی جاں پہ رکھا قرض چُکتا کر دیا اور بقول فیض وہ قرض جو واجب بھی نہ تھا۔ خون کی وہ لکیر جو تقسیمِ ھند کے وقت سے ہی گہری ہونے لگی تھی پھیل کر پورے قومی وجود کو رنگین کرنے لگی ہے۔ مزہب کے نام پہ اُفتادگانِ خاک کو اپنے ہی خون میں نہلانے کی جس رسم کا آغاز آج سے ساٹھ سال پہلے ہوا تھا، جوش و خروش سے ایک تہوار کی طرح منائ جانے لگی ہے۔ جا بجا مذہب کے خودساختہ محافظ دین کی قربان گاہیں سجاےء بیٹھے ہیں جہاں ہر اُس ذی روح کو زندہ رہنے کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے جو مذہب کی خودساختہ تشریح کے مطابق واجب القتل ہے۔ بنی نوع انسان کی تاریخ میں انسانی خون شاید کبھی بھی اتنا ارزاں نہیں ہوا جتنا بے وقعت مملکتِ اسلامیہ کی سرزمیں پہ ہے۔

لاہور ‘1953’  میں احمدی فرقے سے تعلق رکھنے والوں کے قتلِ عام ’’جس میں قریب دو ہزار بے گناہ انسانوں کو موت کی ابدی نیند سُلا دیا گیا‘‘ سے لے کر اقلیتی امور کے وزیر شہباز بھٹی کے وحشیانہ قتل تک پاکستان کی تاریخ اقلیتوں کے مسخ شدہ حقوق، مذہبی عدم رواداری، تشدد اور بنیاد پرستی سے عبارت ہے۔ انسانیت کی وہ اقدار جن کی بنیاد پر کوئ بھی معاشرہ وجود میں آتا ھے سرے سے ہی مفقود ہیں۔ گرچہ خرابی کہیں تعمیر میں ہی مضمر ہے مگر خاکی وردی اور عمامہ پوش عناصر کے باہمی گٹھ جوڑ نے زخم کو ناسور بنانے میں کوئ دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھا اور اب حالت یہ ہے کہ معاشرے کی دیمک زدہ عمارت کسی بھی لمحے منہدم ہونے کو ہے۔

معدودے چند مذہبی عناصر نے ریاست کی تشکیل کے فوراً بعد ہی ناصرف آئینی معاملات میں اپنا اثرورسوخ استعمال کرنا شروع کر دیا بلکہ دوسری طرف نظریاتی محاذ پہ بھی عوام کے ذہن میں شدت پسندی کا زہر بھرنے لگے۔ مئ 1953 کے فسادات کے نتیجے میں جماعتِ اسلامی کے مولانا ابولعلیٰ مودودی اور مولانا عبدالستار نیازی کو عوام کے مذہبی جذبات بھڑکانے کے جرم میں سزائے موت کا حکم سنایا گیا جو بعد ازاں عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔ عوام کی طاقت سے خوفزدہ اس طبقے نے ریاست کے انتظام و انصرام کو خودساختہ تشکیل کردہ مذہبی اصولوں کی بنیاد پر چلانے کے لئے آئین میں ‘قراردادِ مقاصد’ جیسی دفعات شامل کروائیں اور دوسری جانب انصاف کے ٹھیکیداروں کے ذریعے ‘نظریہ ضرورت’ جیسے بدنام زمانہ قوانین پاس کروائے جن کی بدولت ریاستی معاملات میں عوام کی شرکت کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا۔

نظریاتی محاذ پر عوام کے اذہان پر جدیدیت اور اعتدال پسندی کا آخری دروازہ بھی بند کرنے کے لیے جس طریقے سے قومی تاریخ کو مسخ کیا گیا ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ رنگین قصے کہانیوں سے مزیّن تاریخ نے مذہبی انتہاپسندی کو مہمیز دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہیرواِزم کا ایک تصور جس کی تخلیق اس طرح کی گئی جس نے جہاد کے جدید تصور کی بنیاد رکھی۔ تحریکِ پاکستان کی تاریخ کو کچھ اس طرح سے مرتب کیا گیا جس سے یہ تاثر عام ہوا کہ پاکستان کی تشکیل کا اصل مقصد محض مسلمانوں کے رہنے کے لیے ایک الگ خطہء زمین حاصل کرنا تھا جہاں اقلیتیں دوسرے درجے کی شہری بن کر رہ جائیں گی۔ قومی سطح پر اس نظریے کا پرچار کیا گیا کہ وادیء سندھ کی ہزاروں سال قدیم تہذیب جو ہمیشہ سے یہاں کے باسیوں کی محافظ رہی ہے سے پاکستان کا کوئ تعلق نہیں، بلکہ سینکڑوں میل دور بسنے والے عرب ہمارے آباواجداد ہیں۔

خاکی وردی میں ملبوس جرنیلوں نے 1958 میں پاکستان کی ‘نظریاتی سرحدوں’ کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا اور مذہب کے بیوپاریوں کے تعاون سے قوم کے اجتماعی شعور کو عدم دلیل کے اس خلا میں دھکیل دیا جہاں سے باہر آنا اب شاید ناممکنات میں سے ہے۔ گرچہ 69-1968 کی تحریک کے نتیجے میں اقتدار مجبوراّ عوامی نمائیندوں کے حوالے کیا گیا مگر دس سال کے عرصے کے اندر ذولفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد اقتدار پر جبراّ قبضہ کر لیا گیا اور جنرل ضیاءالحق کے بدنام زمانہ دورِ حکومت کا آغاز ہوا جس کے دوران معاشرے کی رگوں میں وہ زہر اتارا گیا جو ابھی تک لہو کی جگہ دوڑ رہا ہے۔ اقلیتوں اور سیاسی کارکنوں کے لیے پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دور جس نے عدم رواداری اور شدت پسندی کے تصورات کو مزید جِلا بخشی۔ ریاست کے ہر اس ادارے کو بنیاد پرستی کے تصور سے آلودہ کر دیا گیا جو رائے عامہ کی تشکیل میں تھوڑا سا کردار بھی ادا کر سکتے تھے اور آج یہ آلودگی دہشتناک شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔

ایک تارِ عنکبوت ہے جس کے تانے بانے خود ساختہ مادر پدر آزاد میڈیا، آزاد عدلیہ اور ملائیت کے نمائیندوں سے مل کر بنتے ہیں۔ تارِ عنکبوت کو تشکیل دینے والے خاکی وردی میں ملبوس جرنیل اب شاید چاہ کر بھی اس گھناؤنے کھیل سے رخ نہیں پھیر سکتے۔ وہ درندے جن کی افزائش نظریہء ضرورت کے تحت کی گئی تھی اب اپنے آقاؤں کے احکام کے تابع نہیں رہے بلکہ آقاؤں کی اپنی بقاء کی ضمانت بن چکے ہیں۔ افتادگانِ خاک اور اُن کے نمائیندوں کیلئے کل بھی یہ زمین تنگ تھی اور آج بھی جینا دوبھر ہے۔ پھر وہ آسیہ ہویا تاثیر، بھٹی ہو یا بھٹو؛ مٹی کے وہ قرض بھی اتارتے جائیں گے جو کبھی واجب ہی نہ تھے۔

شہرِ جاناں میں اب با صفا کون ہے
دستِ قاتل کے شایاں رہا کون ہے
رَختِ دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو

Comments

comments

Latest Comments
  1. amir suleman
    -
  2. Rizwan
    -
  3. Humza Ikram
    -
  4. AHMED BALOCH
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.