Pakistan minister faces US court
A provincial health minister in northern Pakistan is facing 30 law suits in the United States in connection with the largest known outbreak there of Hepatitis C infection.
The health minister of Punjab, Dr Tahir Ali Javed, who practiced in America from 1989 to 2002, has been formally accused by the state of Nebraska in connection with the Hepatitis outbreak which has been linked to his former clinic.
Vowing to defend himself in the US court, he told the BBC that he did not receive any legal notice while he was in the United States and that the cases date back some four years.
Dr Javed said the matter has received undue attention in Pakistan for political reasons relating to his determination to regulate private medical practice in Punjab.
گزشتہ صبح وزیراعلیٰ شہبازشریف اور چند صحافی دوستوں کے ساتھ‘ ناشتے کی میز پر اکٹھے ہونے کا موقع ملا۔ میں تو کافی عرصے بعد شہبازشریف کی محفل میں گیا تھا اور اس تبدیلی سے بے خبر تھا کہ برسوں سے پنجاب کے حاکم اعلیٰ یا خادم اعلیٰ کی کسی تقریب میں شعیب بن عزیز دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ یا شاید اسی دن کسی وجہ سے غیرحاضر تھے۔ میرا خیال ہے محکمہ اطلاعات کی نمائندگی بھی پرویزرشید کر رہے تھے۔ شہبازشریف حسب عادت‘ چند رسمی جملے نہیں بلکہ لفظ بول کر اصل مقصد پر آ گئے۔ وہ بطور خاص ریمنڈ ڈیوس کیس اور لوٹوں کے معاملات پر بات کرنا چاہتے تھے۔ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں انہوں نے وہی کچھ بتایا‘ جو میڈیا میں آ چکا ہے۔ انہوں نے ایسی متعدد افواہوں کی تردید کی‘ جو میڈیا پھیلائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جیل کے اندر اسے کوئی خصوصی رعایت نہیں دی جا رہی۔ حوالاتیوں کو باہر سے کھانا منگوانے کی اجازت ہوتی ہے۔ یہ اجازت ریمنڈکو بھی دی جا سکتی تھی۔ مگر اس کی زندگی کی حفاظت کے لئے ہم نے احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کر رکھی ہیں۔ جیسی خوراک وہ چاہتا ہے‘ وہ اسے سرکاری نگرانی میں مہیا کر دی جاتی ہے۔ البتہ جو امریکی سفارتکارملاقات کے لئے آتے ہیں‘ وہ چاکلیٹ وغیرہ لے آئیں تو حوالاتی کو دے سکتے ہیں۔ ریمنڈ کے مستقبل کے بارے میں انہوں نے وہی موقف دہرایا‘ جو وفاقی حکومت کا ہے کہ ریمنڈ کے استثنیٰ اور جرم‘ دونوں کا فیصلہ عدالت کرے گی اور جو بھی فیصلہ آئے گا‘ ہم اس کا احترام کریں گے۔
ریمنڈ ڈیوس کے حوالے سے خود امریکی میڈیا میں بھی اتنی تفصیل شائع ہو چکی ہے کہ مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وہ امریکی دفترخارجہ کا ملازم نہیں ہے۔ وہ ایک نجی کمپنی کا ملازم ہے‘ جو ٹھیکے پر امریکی محکموں کو‘ بیرون ملک خدمات انجام دینے کے لئے افرادی قوت فراہم کرتی ہے۔ یہ حقیقت بھی سامنے آ چکی ہے کہ جب اسے پاکستان میں گرفتار کیا گیا‘ تو امریکی حکومت کی طرف سے وہاں کے اخباروں سے یہ درخواست کی گئی کہ وہ ریمنڈ کے بارے میں فی الحال حقائق شائع کرنے سے گریز کریں۔ خود متعلقہ اخباروں نے اس کا انکشاف کر دیا ہے اور اب وہاں یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ قومی فرائض کے حوالے سے میڈیا کے فرائض کیا ہیں؟ کیا میڈیا اس بات کا بھی پابند ہے کہ حکومت کے فریب‘ دھوکے اور جھوٹ کے معاملے میں اس کی مدد کرے اور پردہ ڈالے؟ قومی مفادات کا فیصلہ کرنے کی اجارہ داری صرف حکومت کے پاس نہیں ہوتی‘ میڈیا کی بھی ذمہ داریاں ہیں اور وہ اپنی ذمہ داریوں کو خوب پہچانتا ہے۔ میڈیا یہ بھی جانتا ہے کہ عوام تک سچائی پہنچانا‘ اس کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ جن اخباروں نے حکومتی درخواست پر ریمنڈ کے بارے میں ایک ہفتے کے لئے حقائق کی پردہ پوشی کی‘ اب وہ کڑی تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں اور ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ ان کے لئے حکومتی درخواست اہم تھی‘ یا اپنے قارئین تک سچائی کو پہنچانا لازم تھا؟ جو کچھ ہماری طرف سے ابتدا میں کہا گیا‘ اب امریکی میڈیا نہ صرف اس کی تصدیق کر رہا ہے بلکہ اپنی طرف سے مزید حقائق کے انکشافات بھی کر رہا ہے۔ شہبازشریف کو یقینا اس بات کا علم تھا۔ اسی لئے انہوں نے ریمنڈ کے معاملے میں اپنی پوزیشن کا زیادہ دفاع کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ضرورت بھی کیا ہے؟ پولیس نے صرف ایک قاتل کو پکڑا ہے۔ کسی سفارتکار یا جاسوس کو نہیں پکڑا اور عدلیہ میں بھی ایک قاتل کا کیس زیرسماعت ہے۔ اس سے زیادہ جو کچھ بھی ہے‘ اس سے عدلیہ اور پولیس کو کوئی سروکار نہیں ہے۔
دوسرے موضوع پر بات شروع کرتے ہوئے صاف لگ رہا تھا کہ شہبازشریف شش و پنج میں ہیں۔ وہ لوٹوں کے معاملے میں اپنی پوزیشن کی وضاحت کرنا چاہتے تھے‘ مگر لفظوں کے انتخاب میں انہیں مشکل پیش آ رہی تھی۔ بڑی مشکل سے اور قدرشرمندگی کے ساتھ وہ اس موضوع کی طرف آئے اور بڑی محنت کے بعد جو دلیل انہوں نے پیش کی‘ وہ یہ تھی کہ بلوچستان میں بھی تو یہی کچھ ہوا تھا۔ وہاں تو ساری کی ساری اسمبلی جس پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئی تھی‘ اسے چھوڑ کر دوسری پارٹی کے وزیراعلیٰ کی حمایت میں چلی گئی تھی۔ پھر انہوں نے اپنے لوٹوں کے دفاع کی کوشش کی۔ لگ رہا تھا کہ وہ اس میں مشکل محسوس کر رہے ہیں۔ یہ بات شہبازشریف سمیت سارے حاضرین جانتے تھے کہ موجودہ دور کی سیاست میں لوٹے کی ٹرم خودنوازشریف نے دوبارہ متعارف کرائی تھی۔ ورنہ تقسیم کے بعد لوگ اسے بھول چکے تھے اور نوازشریف نے جس زورشور سے لوٹوں کے خلاف نفرت پھیلائی اور سماجی طور پر انہیں اچھوت بنا کے رکھ دیا‘ اس کے اثرات سے ایک دم نکلنا بہت مشکل ہے۔ اب مسلم لیگ (ن) یہ چاہتی ہے کہ عوام اس کے کہنے پر یہ کڑوی گولی ہضم کر لیں۔ ظاہر ہے عوام کو اس میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ اندر کی بات یہ ہے کہ شریف برادران کو بھی مشکل پیش آ رہی ہے۔ نوازشریف نے جب بھری پریس کانفرنس میں ایک لوٹے کو سٹیج پر بلا کر بٹھایا‘ تو شائع شدہ رپورٹوں کے مطابق وہ شدید تناؤ کی حالت میں نظر آ رہے تھے اور اپنے اس فیصلے کے حق میں وہ خاص دلیل بھی پیش نہیں کر سکے۔ گزشتہ دور میں نوازشریف کی اپنی جماعت کے ممبروں نے لوٹا بن کر‘ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی حکومت بنوا دی تھی۔اس وقت انہیں دکھ تھا کہ ان کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والوں نے ذاتی مفاد کی خاطر‘ اپنی پارٹی کو چھوڑا اور دوسری پارٹی کی حمات کر کے‘ اس کی حکومت بنوا دی۔ اس کی مثال میں گزشتہ کالم میں دے چکا ہوں کہ جب وہی لوٹے نوازشریف کے پاس واپس آ کر‘ ان کی حکومت بنوانے کے لئے حاضر ہونا چاہتے تھے‘ تو نوازشریف نے اس موقع سے فائدہ اٹھانا مناسب نہیں سمجھا۔ لوٹے بکھر گئے۔ نوازشریف کی حکومت بننے کا چانس ختم ہو گیااور اس کے بعد کسی نے نوازشریف کو اس بات پر پچھتاتے ہوئے نہیں دیکھا کہ انہوں نے لوٹوں کی آفر کیوں ٹھکرائی تھی؟
ظاہر ہے کہ جس موقف پر مسلم لیگ (ن)نے عوام کی نظروں میں اپنی عزت بڑھائی تھی اور انہیں قائل کیا تھا کہ لوٹے قومی سیاست کے لئے باعث ننگ ہیں‘ اب اسی مسلم لیگ (ن) کے تھڑے پر کثرت سے رکھے ہوئے لوٹوں کو دیکھ کر لوگ کس طرح خوش ہو سکتے ہیں؟ حسب توقع لوٹوں پر ہر طرف سے تنقید ہو رہی ہے اور ان کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے اور دونوں بھائی مخمصے میں ہیں کہ وہ کیا کر بیٹھے؟ جو ہونا تھا ہو گیا۔ اگلا مرحلہ لوٹوں کو ساتھ چلانے کا ہے۔ میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) نے لوٹوں کی مدد لے کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ جیسے ہی لوٹوں کو یقین ہوا کہ ن لیگ مخلوط حکومت سے‘ پیپلزپارٹی کو باہر کرچکی ہے اور لوٹوں کے ووٹوں کی محتاج ہو گئی ہے‘ تو پھر ان کو خوش رکھنا محال ہو جائے گا۔ چار دن بھی نہیں گزرے کہ اکتالیس کے اکتالیس لوٹے وزارتوں کے امیدوار بن گئے۔ شہبازشریف نے تنگ آ کر ساری وزارتیں اپنے پاس رکھ لیں۔ مگر بات یہاں ختم نہیں ہو گی۔ لوٹے ہر روز نئے جلوے اور نئے رنگ دکھائیں گے۔
Dear Mr.Ashan,
Do you think defection of Q-league members in Balochistan Assembly was justified ?? if so then why not in Punjab .
Dr Tahir Ali Javed (Unification/Bloc PML N) is wanted in USA (Dunya TV 28 Feb 2011) http://www.youtube.com/watch?v=r14k9LsDOUY
Pakistan minister faces US court Last Updated: Tuesday, 16 September, 2003, 05:13 GMT 06:13 UK http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/3111978.stm
Pakistan minister faces US court
A provincial health minister in northern Pakistan is facing 30 law suits in the United States in connection with the largest known outbreak there of Hepatitis C infection.
The health minister of Punjab, Dr Tahir Ali Javed, who practiced in America from 1989 to 2002, has been formally accused by the state of Nebraska in connection with the Hepatitis outbreak which has been linked to his former clinic.
Vowing to defend himself in the US court, he told the BBC that he did not receive any legal notice while he was in the United States and that the cases date back some four years.
Dr Javed said the matter has received undue attention in Pakistan for political reasons relating to his determination to regulate private medical practice in Punjab.
From the newsroom of the BBC World Service
Lol – I like the cartoon
Nawaz Sharif – Pakistan [House in London]
http://www.youtube.com/watch?v=bTE_r0JZhfc
Democracy On The Brink – Pakistan
http://www.youtube.com/watch?v=00AVqVriz30&feature=relmfu
Share
ریمنڈ اور لوٹے… سویرے سویرے …نذیرناجی
گزشتہ صبح وزیراعلیٰ شہبازشریف اور چند صحافی دوستوں کے ساتھ‘ ناشتے کی میز پر اکٹھے ہونے کا موقع ملا۔ میں تو کافی عرصے بعد شہبازشریف کی محفل میں گیا تھا اور اس تبدیلی سے بے خبر تھا کہ برسوں سے پنجاب کے حاکم اعلیٰ یا خادم اعلیٰ کی کسی تقریب میں شعیب بن عزیز دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ یا شاید اسی دن کسی وجہ سے غیرحاضر تھے۔ میرا خیال ہے محکمہ اطلاعات کی نمائندگی بھی پرویزرشید کر رہے تھے۔ شہبازشریف حسب عادت‘ چند رسمی جملے نہیں بلکہ لفظ بول کر اصل مقصد پر آ گئے۔ وہ بطور خاص ریمنڈ ڈیوس کیس اور لوٹوں کے معاملات پر بات کرنا چاہتے تھے۔ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں انہوں نے وہی کچھ بتایا‘ جو میڈیا میں آ چکا ہے۔ انہوں نے ایسی متعدد افواہوں کی تردید کی‘ جو میڈیا پھیلائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جیل کے اندر اسے کوئی خصوصی رعایت نہیں دی جا رہی۔ حوالاتیوں کو باہر سے کھانا منگوانے کی اجازت ہوتی ہے۔ یہ اجازت ریمنڈکو بھی دی جا سکتی تھی۔ مگر اس کی زندگی کی حفاظت کے لئے ہم نے احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کر رکھی ہیں۔ جیسی خوراک وہ چاہتا ہے‘ وہ اسے سرکاری نگرانی میں مہیا کر دی جاتی ہے۔ البتہ جو امریکی سفارتکارملاقات کے لئے آتے ہیں‘ وہ چاکلیٹ وغیرہ لے آئیں تو حوالاتی کو دے سکتے ہیں۔ ریمنڈ کے مستقبل کے بارے میں انہوں نے وہی موقف دہرایا‘ جو وفاقی حکومت کا ہے کہ ریمنڈ کے استثنیٰ اور جرم‘ دونوں کا فیصلہ عدالت کرے گی اور جو بھی فیصلہ آئے گا‘ ہم اس کا احترام کریں گے۔
ریمنڈ ڈیوس کے حوالے سے خود امریکی میڈیا میں بھی اتنی تفصیل شائع ہو چکی ہے کہ مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وہ امریکی دفترخارجہ کا ملازم نہیں ہے۔ وہ ایک نجی کمپنی کا ملازم ہے‘ جو ٹھیکے پر امریکی محکموں کو‘ بیرون ملک خدمات انجام دینے کے لئے افرادی قوت فراہم کرتی ہے۔ یہ حقیقت بھی سامنے آ چکی ہے کہ جب اسے پاکستان میں گرفتار کیا گیا‘ تو امریکی حکومت کی طرف سے وہاں کے اخباروں سے یہ درخواست کی گئی کہ وہ ریمنڈ کے بارے میں فی الحال حقائق شائع کرنے سے گریز کریں۔ خود متعلقہ اخباروں نے اس کا انکشاف کر دیا ہے اور اب وہاں یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ قومی فرائض کے حوالے سے میڈیا کے فرائض کیا ہیں؟ کیا میڈیا اس بات کا بھی پابند ہے کہ حکومت کے فریب‘ دھوکے اور جھوٹ کے معاملے میں اس کی مدد کرے اور پردہ ڈالے؟ قومی مفادات کا فیصلہ کرنے کی اجارہ داری صرف حکومت کے پاس نہیں ہوتی‘ میڈیا کی بھی ذمہ داریاں ہیں اور وہ اپنی ذمہ داریوں کو خوب پہچانتا ہے۔ میڈیا یہ بھی جانتا ہے کہ عوام تک سچائی پہنچانا‘ اس کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ جن اخباروں نے حکومتی درخواست پر ریمنڈ کے بارے میں ایک ہفتے کے لئے حقائق کی پردہ پوشی کی‘ اب وہ کڑی تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں اور ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ ان کے لئے حکومتی درخواست اہم تھی‘ یا اپنے قارئین تک سچائی کو پہنچانا لازم تھا؟ جو کچھ ہماری طرف سے ابتدا میں کہا گیا‘ اب امریکی میڈیا نہ صرف اس کی تصدیق کر رہا ہے بلکہ اپنی طرف سے مزید حقائق کے انکشافات بھی کر رہا ہے۔ شہبازشریف کو یقینا اس بات کا علم تھا۔ اسی لئے انہوں نے ریمنڈ کے معاملے میں اپنی پوزیشن کا زیادہ دفاع کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ضرورت بھی کیا ہے؟ پولیس نے صرف ایک قاتل کو پکڑا ہے۔ کسی سفارتکار یا جاسوس کو نہیں پکڑا اور عدلیہ میں بھی ایک قاتل کا کیس زیرسماعت ہے۔ اس سے زیادہ جو کچھ بھی ہے‘ اس سے عدلیہ اور پولیس کو کوئی سروکار نہیں ہے۔
دوسرے موضوع پر بات شروع کرتے ہوئے صاف لگ رہا تھا کہ شہبازشریف شش و پنج میں ہیں۔ وہ لوٹوں کے معاملے میں اپنی پوزیشن کی وضاحت کرنا چاہتے تھے‘ مگر لفظوں کے انتخاب میں انہیں مشکل پیش آ رہی تھی۔ بڑی مشکل سے اور قدرشرمندگی کے ساتھ وہ اس موضوع کی طرف آئے اور بڑی محنت کے بعد جو دلیل انہوں نے پیش کی‘ وہ یہ تھی کہ بلوچستان میں بھی تو یہی کچھ ہوا تھا۔ وہاں تو ساری کی ساری اسمبلی جس پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئی تھی‘ اسے چھوڑ کر دوسری پارٹی کے وزیراعلیٰ کی حمایت میں چلی گئی تھی۔ پھر انہوں نے اپنے لوٹوں کے دفاع کی کوشش کی۔ لگ رہا تھا کہ وہ اس میں مشکل محسوس کر رہے ہیں۔ یہ بات شہبازشریف سمیت سارے حاضرین جانتے تھے کہ موجودہ دور کی سیاست میں لوٹے کی ٹرم خودنوازشریف نے دوبارہ متعارف کرائی تھی۔ ورنہ تقسیم کے بعد لوگ اسے بھول چکے تھے اور نوازشریف نے جس زورشور سے لوٹوں کے خلاف نفرت پھیلائی اور سماجی طور پر انہیں اچھوت بنا کے رکھ دیا‘ اس کے اثرات سے ایک دم نکلنا بہت مشکل ہے۔ اب مسلم لیگ (ن) یہ چاہتی ہے کہ عوام اس کے کہنے پر یہ کڑوی گولی ہضم کر لیں۔ ظاہر ہے عوام کو اس میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ اندر کی بات یہ ہے کہ شریف برادران کو بھی مشکل پیش آ رہی ہے۔ نوازشریف نے جب بھری پریس کانفرنس میں ایک لوٹے کو سٹیج پر بلا کر بٹھایا‘ تو شائع شدہ رپورٹوں کے مطابق وہ شدید تناؤ کی حالت میں نظر آ رہے تھے اور اپنے اس فیصلے کے حق میں وہ خاص دلیل بھی پیش نہیں کر سکے۔ گزشتہ دور میں نوازشریف کی اپنی جماعت کے ممبروں نے لوٹا بن کر‘ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی حکومت بنوا دی تھی۔اس وقت انہیں دکھ تھا کہ ان کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والوں نے ذاتی مفاد کی خاطر‘ اپنی پارٹی کو چھوڑا اور دوسری پارٹی کی حمات کر کے‘ اس کی حکومت بنوا دی۔ اس کی مثال میں گزشتہ کالم میں دے چکا ہوں کہ جب وہی لوٹے نوازشریف کے پاس واپس آ کر‘ ان کی حکومت بنوانے کے لئے حاضر ہونا چاہتے تھے‘ تو نوازشریف نے اس موقع سے فائدہ اٹھانا مناسب نہیں سمجھا۔ لوٹے بکھر گئے۔ نوازشریف کی حکومت بننے کا چانس ختم ہو گیااور اس کے بعد کسی نے نوازشریف کو اس بات پر پچھتاتے ہوئے نہیں دیکھا کہ انہوں نے لوٹوں کی آفر کیوں ٹھکرائی تھی؟
ظاہر ہے کہ جس موقف پر مسلم لیگ (ن)نے عوام کی نظروں میں اپنی عزت بڑھائی تھی اور انہیں قائل کیا تھا کہ لوٹے قومی سیاست کے لئے باعث ننگ ہیں‘ اب اسی مسلم لیگ (ن) کے تھڑے پر کثرت سے رکھے ہوئے لوٹوں کو دیکھ کر لوگ کس طرح خوش ہو سکتے ہیں؟ حسب توقع لوٹوں پر ہر طرف سے تنقید ہو رہی ہے اور ان کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے اور دونوں بھائی مخمصے میں ہیں کہ وہ کیا کر بیٹھے؟ جو ہونا تھا ہو گیا۔ اگلا مرحلہ لوٹوں کو ساتھ چلانے کا ہے۔ میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) نے لوٹوں کی مدد لے کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ جیسے ہی لوٹوں کو یقین ہوا کہ ن لیگ مخلوط حکومت سے‘ پیپلزپارٹی کو باہر کرچکی ہے اور لوٹوں کے ووٹوں کی محتاج ہو گئی ہے‘ تو پھر ان کو خوش رکھنا محال ہو جائے گا۔ چار دن بھی نہیں گزرے کہ اکتالیس کے اکتالیس لوٹے وزارتوں کے امیدوار بن گئے۔ شہبازشریف نے تنگ آ کر ساری وزارتیں اپنے پاس رکھ لیں۔ مگر بات یہاں ختم نہیں ہو گی۔ لوٹے ہر روز نئے جلوے اور نئے رنگ دکھائیں گے۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=510641