Justice rushed for PCO judges, delayed for army generals


Related articles:

Will Pakistan’s FREE judiciary try army generals for treason?

Justice Jehanzeb Rahim of Peshawar High Court challenges contempt notice by the Supreme Court

Adalat ho gi ma kay jaisi – by Honest People

‘Generals can be served notices.’ Really? When?

فوج،دیگر اداروں کا فیصلہ چیف کریں‘

پرویز مشرف نے تین نومبر سنہ دوہزار سات کو ملک میں ایمرجنسی لگائی تھی

سپریم کورٹ نے اعلیٰ عدالتوں کے نو جج صاحبان کی طرف سے توہین عدالت کے نوٹسز کے خلاف دائر کی جانے والی درخواستیں مسترد کر دی ہیں۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ فوج اور دیگر اداروں نے تین نومبر دو ہزار سات کو جو اقدامات کیے تھے وہ سات رکنی بینچ کے فیصلے سے پہلے کیے تھے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس لیے اس روز کے حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان افراد کے خلاف کارروائی اس بینچ یا کسی اور بینچ کے سامنے کی جائے جس کا فیصلہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کریں۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ان جج صاحبان پر بائیس فروری کو فرد جُرم عائد کی جائے گی۔ ان جج صاحبان نے تین نومبر سنہ دو ہزار سات کو سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کے دوسرے عبوری آئینی حکمنامے کے تحت حلف اُٹھایا تھا۔

ہمارے نامہ نگار شہزاد ملک نے بتایا کہ اعلیٰ عدالتوں کے جن جج صاحبان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی اُن میں غیر آئینی قرار دیے جانے والے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگراور سپریم کورٹ کےجج زاہد حسین شامل ہیں۔ ان کے علاوہ لاہورہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار حسین، لاہور ہائی کورٹ کے جج صاحبان شبر رضا، حسنات احمد، خورشید انور، ظفر اقبال بھی شامل ہیں۔ جبکہ پشاور ہائی کورٹ کے جہانزیب رحیم اور سندھ ہائی کورٹ کی جج یاسمین عباسی بھی شامل ہیں۔

جسٹس ایم اے شاہد صدیقی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چار رکنی بینچ نے ان درخواستوں کا فیصلہ سُنایا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تین نومبر سنہ دوہزار سات کو سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ کا فیصلہ سب کے علم میں تھا جس میں صاف طور پر کہا گیا تھا کہ کوئی بھی اعلیٰ عدلیہ کا جج پی سی او کے تحت حلف نہیں اُٹھائے گا اور اس کے علاوہ آئین کےتحت کام کرنے والے سویلین اور فوجی ادارے ایمرجنسی کے نفاذ میں تعاون نہیں کریں گے۔

بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عدالت اس مقدمے کا فیصلہ کرنے سے پہلے فوجی جرنیلوں اور سول بیوروکریسی کے بارے میں بھی فیصلہ کرے گی جنہوں نے سابق فوجی آمر پرویز مشرف کو ایمرجنسی کے نفاذ میں مدد فراہم کی تھی۔
ان درخواستوں کی سماعت کے دوران غیر فعال کیے جانے والے لاہور ہائی کورٹ کے دو جج صاحبان جسٹس شبر رضا اور جسٹس حسنات احمد کے وکیل ڈاکٹر عبدالباسط نے ایک درخواست دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ جن ججوں نے سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے دوسرے عبوری آئینی حکمنامے کے تحت حلف اُٹھایا تھا اُنہیں تو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کیے گئے لیکن جنہوں نے ایمرجنسی کا نفاذ کیا تھا اور سول اور فوجی اداروں نے فوجی آمر کےحکم کو مانا تھا اُن کےخلاف بھی کارروائی کی جائے۔

یاد رہے کہ سابق فوجی آمر پرویز مشرف نے تین نومبر سنہ دوہزار سات کو ملک میں ایمرجنسی لگا کر سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت اعلیٰ عدالتوں کے متعدد جج صاحبان کو برطرف کرکے اُنہیں نظر بند کردیا تھا۔

ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد دوسرے عبوری آئینی حکمنامے کے تحت اعلیٰ عدالتوں کے کے تریسٹھ ججوں نے حلف اُٹھایا تھا۔ اکتیس جولائی سنہ دوہزار نو کو پرویز مشرف کے تین نومبر کے اقدامات کے خلاف سپریم کورٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے اُن جج صاحبان کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کیے تھے جنہوں نے اُس روز پی سی او کے تحت حلف اُٹھایا تھا۔

اس فیصلے میں عبدالحمید ڈوگر کو غیر آئینی چیف جسٹس قرار دیا گیا تھا تاہم اس فیصلے میں عبدالحمید ڈوگر کے انتظامی امور کو برقرار رکھا تھا۔

ان میں سےمتعدد جج صاحبان نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لی تھی جبکہ ان نو جج صاحبان نے ان نوٹسز کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان جج صاحبان کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری ہونے کے بعد غیر موثر کردیا گیا تھا۔

جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف دائر کیے گئے صدارتی ریفرنس کے فیصلے میں کہا تھا کہ کسی جج کو غیر موثر یا معطل نہیں کیا جاسکتا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عدالت کے اس فیصلے پر عمل نہیں ہو رہا۔
عاصمہ جہانگیر
آئندہ سماعت پران جج صاحبان کو عدالت میں پیش ہونا ہوگا اور اُن کی موجودگی میں اُن پر فرد جُرم عائد کی جائے گی۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر عاصمہ جہانگیر نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر جج صاحبان ایک دوسرے کو نوٹس جاری کریں گے تو پھر عدالتی نظام کیسے چلے گا۔

اُنہوں نے کہا کہ وہ جرنیلوں کی بات نہیں کر رہیں جنہیں توہین عدالت کے نوٹسز جاری ہوئے ہیں تاہم عدلیہ کے جج ایک دوسرے کو نوٹسز جاری کریں اس روش کو روکنا ہوگا۔ اُنہوں نے کہا کہ ججوں کےخلاف کارروائی کا طریقہ کار آئین میں درج ہے۔

عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف دائر کیے گئے صدارتی ریفرنس کے فیصلے میں کہا تھا کہ کسی جج کو غیر موثر یا معطل نہیں کیا جاسکتا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عدالت کے اس فیصلے پر عمل نہیں ہو رہا۔

Source: BBC Urdu

Pak SC to launch contempt proceedings against 9 judges
Rezaul H Laskar

Islamabad, Feb 2 (PTI) Pakistan”s Supreme Court today decided to initiate contempt of court proceedings against nine judges who endorsed the “illegal” emergency in 2007 and left it to Chief Justice Iftikhar Chaudhry to decide whether similar proceedings should be taken up against former military dictator Pervez Musharraf.
A four-judge bench headed by Justice Mahmood Akhtar Shahid Siddiqui said charges will be framed against the nine judges, including former apex court Chief Justice Abdul Hameed Dogar, on February 21.

The court left it to Chief Justice Chaudhry to decide whether the same bench or another one should take up contempt of court proceedings against Musharraf and former Prime Minister Shaukat Aziz for their actions during the emergency imposed in November 2007 by Musharraf.

The bench had been hearing a case to decide whether contempt of court proceedings should be launched against 11 top judges who swore an oath of allegiance to Musharraf after he imposed the emergency.
Hours after Musharraf imposed the emergency, a bench headed by Chief Justice Chaudhry had declared it illegal.

Musharraf then removed Chaudhry and replaced him with Dogar.

The case against the 11 judges was taken up after Chaudhry and other judges deposed during the emergency were restored following nationwide protests in March 2009.

In its verdict issued this morning, the bench decided not to initiate contempt of court proceedings against two of the 11 judges. The bench also considered whether it could issue notices to Musharraf and other Generals involved in the promulgation of emergency in 2007.

The verdict said the Constitution and law do not prohibit proceedings against judges of the Supreme Court and High Courts for committing contempt of court.

The nine judges will “be put to trial in accordance with the… law,” the verdict said.

Referring to the actions of Musharraf and Shaukat Aziz, the bench noted that they had proclaimed emergency and asked judges to swear an oath of allegiance to the President before the apex court struck down the imposition of emergency.

“Therefore, the case for contempt of court these persons (Musharraf and Aziz) will have to answer is materially different from the charge to be faced by the (judges)…

“The proceedings, therefore, against the aforesaid persons may proceed independently and on their own facts, either before this bench or before some other bench as may be determined by the Hon”ble Chief Justice of Pakistan,” the verdict said.

The Supreme Court had earlier declared the emergency imposed by Musharraf as “unconstitutional and illegal.”
Musharraf, who quit as President in 2008, has been living in self-exile in Britain for almost two years.

Source: MSN News

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdul Nishapuri
    -
  2. nasir
    -
  3. Dr. M. Ahmed Khan
    -
  4. Khalid Aziz
    -
  5. Khalid Aziz
    -
  6. nasir
    -
  7. nasir
    -
  8. Hoss
    -