آسیہ بی بی اور مذھبی دایاں بازو – عامر حسینی
سپریم کورٹ نے ایک غریب مسیحی مزدور عورت آسیہ بی بی کو بلاسفیمی کے الزام سے بری کردیا اور اسے رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔
اس فیصلے کے سامنے آنے کے بعد اگر فیصلے میں کوئی سقم مدعی کو نظر آتا تھا تو اسے سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل کرنے کی ضرورت تھی۔
لیکن فیصلہ آنے کے فوری بعد احتجاج، دھمکیاں، جلاءو، گھیراءو، ہڑتال اور پورے ملک میں خوف و ہراس پھیلانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔
آج جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں تو اب تک پاکستان کی کم و بیش 14 مذھبی جماعتوں اور گروپوں اور اتحادوں نے ہڑتال، شٹ ڈاءون اور ملین مارچ کا اعلان کررکھا ہے۔ جبکہ پورے ملک میں چھوٹی چھوٹی ٹولیوں نے چوکوں اور چوراہوں پہ دھرنے دیے ہوئے ہیں۔
دو دن بعد آسیہ بی بی کے خلاف توھین کی درخواست کے مدعی ایک نواحی گاءوں کے مولوی قاری محمد سلام نے سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں فیصلے پہ نظر ثانی کرنے، نظرثانی میں شریعت کورٹ سے ایک جج بنچ میں شامل کرنے اور آسیہ بی بی کا نام ای سی ایل میں ڈالے جانے کی استدعا کی ہے۔
اصولی طور پہ تو اس اپیل کے گزارے جانے کے بعد ہر قسم کا احتجاج اور شٹر ڈاءون بند ہونا چاہئیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
پاکستان میں مذھبی دایاں بازو بتدریج انتہائی دائیں بازو کے نرغے میں جاتا نظر آرہا ہے۔
آسیہ بی بی کے معاملے میں جماعت اسلامی سے لیکر جے یو پی اور جے یو آئی سے لیکر جمعیت اہلحدیث تک اور اس سے آگے اسلامی تحریک/ نفاذ فقہ جعفریہ ۔۔۔۔ ( ملی یک جہتی کونسل کا حصہ ہے) ، تحریک لبیک، اہل سنت والجماعت/سپاہ صحابہ، سنی تحریک، سنی اتحاد کونسل، جماعت اہلسنت، تنظیم المدارس(بریلوی)، وفاق المدارس(دیوبندی) اور اتحاد تنظیمات المدارس ( تمام فرقوں کے مذھبی مدارس کی چھاتہ تنظیموں کا اتحاد۔صدر مفتی منیب ، جنرل سیکرٹری قاری حنیف جالندھری) ، جماعت دعوہ کے امیر حمزہ کی سربراہی میں قائم تحریک حرمت رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس میں جہادی و تکفیری جماعتیں بھی حصہ ہیں سب نے انتہا پسندانہ موقف اختیار کیا ہوا ہے۔
اس وقت صرف تحریک منھاج القرآن کی ماسوائے ڈاکٹر طاہر القادری کے مرکزی قیادت کے بیانات سامنے آئے ہیں جنھوں نے احتجاج اور دھرنے اور پرتشدد ردعمل کی مذمت کی ہے۔
مذھبی انتہاپسندی پہ متفق ہوجانے والا مذھبی دایاں بازو کی اس پالیسی کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور وزیراعظم نے سخت موقف اپنایا ہے اور پھر مذھبی دایاں بازو کے خلاف پی پی پی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کا واضح اور مذمتی بیان آیا ہے۔
بلکہ بلاول بھٹو زرداری نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو قابل تعریف قرار دیا ہے۔ یہ تعریف تو اب تک پی ٹی آئی کی حکومت کی طرف سے بھی سامنے نہیں آئی۔
مسلم لیگ نواز نے اگرچہ بطور جماعت اس فیصلے کے خلاف احتجاج کی کال نہیں دی لیکن اس جماعت کے سینٹ میں پارلیمانی قائد و قائد حزب اختلاف راجا ظفرالحق نے فضل الرحمان کی آسیہ کیس میں ملک گیر احتجاج کے اعلان پہ مبنی پریس کانفرنس میں شرکت کی اور اس جماعت کے اکثر ممبران پارلیمنٹ بشمول خواجہ سعد رفیق و خواجہ محمد آصف و احسن اقبال نے اسمبلی فلور سے ایسے بیانات داغے اور سوشل میڈیا پہ ٹوئٹ کیے جس سے مذھبی دایاں بازو کو تقویت مل رہی ہے اور اس سے مزید انتشار پھیل رہا ہے۔
مسلم لیگ نواز کی حکمت عملی یہ نظر آتی ہے کہ وہ مذھبی دایاں بازو کو پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف لڑوانا چاہتی ہے اور وہ بالکل اسی طرح کی حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہے جو اس نے سابق گورنر سلمان تاثیر کے خلاف اختیار کی تھی۔
پاکستان میں بظاہر لبرل یا لیفٹ چہرہ رکھنے والے ایسے برائے فروخت صحافی، تجزیہ نگار، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور سول سوسائٹی رضاکار موجود ہیں جو انتہاپسند دایاں بازو کی اس نئی لہر اور مذھبی دایاں بازو کی نئی پرتشدد موڈ پہ مبنی مہم جوئی کے حقیقی اور زمینی حقائق بیان کرنے کی بجائے اسے فرقوں میں بانٹ کر دیکھنے اور دکھانے میں مصروف ہیں۔
وہ مسلم لیگ نواز کی مذھبی دایاں بازو کے ساتھ وابستگی، سپاہ صحابہ سمیت کئی ایک مذھبی انتہاپسند گروپوں کی سرپرستی اور خود مسلم لیگ نواز کے اندر عابد رضا، رانا ثناء اللہ سمیت انتہائی دائیں بازو کے خیالات اور مجرموں کی سرپرستی کرنے والوں کے کردار پہ پردہ ڈالتے آئے ہیں۔
آج مسلم لیگ نواز ایک مذھبی انتہاپسندی کے ایشو پہ گندی سیاست کررہی ہے تو بھی وہ بجائے نواز لیگ پہ تنقید کرنے کے حکومت پہ چڑھائی کیے ہوئے ہیں۔اور اس طرح سے دائیں بازو کے ایک بے قصور عورت پہ انتہا پسندانہ چڑھائی کے خلاف عوامی رائے عامہ کی تعمیر کے وہ رائے کو تقسیم کرنے کا کام کررہے ہیں۔
پاکستان میں مذھبی دائیں بازو نے اپنا پورا وزن ریاست پاکستان کو عملی طور پہ ایک تھیاکریٹک ریاست بنانے والی آئینی ، قانونی شقوں کو مسخ شدہ حالت میں ان کے اقلیتوں کے خلاف ، ان ملاءوں سے اختلاف کرنے والے دانشوروں اور مفکرین کے خلاف اور یہاں تک کہ ان عالموں کے خلاف جو ان کی بددیانتی کا پول کھول کر رکھ دیں استعمال کرنے کے پلڑے میں ڈال رکھا ہے۔
مذھبی دایاں بازو لٹھ بردار، اسلحہ بردار اور فتوءوں سے لیس بریگیڈ کے ساتھ اور سب سے بڑھ کر مذھب کی توھین کے جھوٹے الزامات کے خوفناک ھتیار کے ساتھ اس ملک میں اپنے مخالفوں پہ حملہ آور ہوتا ہے۔ اور ہر بار ریاست و ریاستی اداروں کو بلیک میل کرتا ہے اور ملک میں اپنے اثر کو بڑھاتا جاتا ہے۔
اس ملک میں 80ء کی دہائی سے یہ کلچر شروع ہوا تھا کہ ریاستی اداروں کی مدد اور حمایت سے خاص فرقوں کی جہادی اور فرقہ پرست تنظیموں نے اس ملک کو اپنی جاگیر سمجھ لیا اور پھر دوسرے فرقوں کے اندر سے بھی ایسی تنظیموں کا ظہور ہوا۔
آج مذھبی دایاں بازو ‘بلوہ سیاست’ پہ عمل پیرا ہے۔اور سب مذھبی جماعتوں کا یقین بن گیا ہے کہ ریاست کو اپنے سامنے جھکانے اور اس ملک میں مذھبی اقلیتوں اور شہری آزادیوں کی علمبردار قوتوں کو دبانے کے لیے سب سے موثر ھتیار اور حکمت عملی ‘ بلوہ سیاست’ ہی ہے۔
Mob violence based politics
بلوہ تشدد پہ مبنی سیاست کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس نے پاکستان میں ہمیشہ اس وقت اپنے اہداف حاصل کیے جب اہداف ریاستی اداروں کے اندر بیٹھے کچھ کرداروں نے طے کیے ہوں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب مذھبی دائیں بازو کی بلیک میلنگ اور بلوہ سیاست’ کو مسترد کردیں اور اس کے خلاف ردعمل بھی دیں۔
کسے خبر تھی ہاتھ میں لیکر چراغ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی
پس نوشت : میں نے گل بخاری، محمد تقی اور خواجہ سعد رفیق کے بیانات و ٹوئٹ کے سکرین شاٹ کے ساتھ مشرقی پاکستان میں ھتیار ڈال دینے کی تصویر کو مسخ کرکے بنائی جانے والی تصویروں کے سکرین شاٹ بھی دیے ہیں۔ایسے کئی اور درجن بھر لوگ ہیں جو بے بنیاد الزامات اور پوائنٹ اسکورنگ کررہے ہیں۔وہ دایاں بازو کے مذھبی انتہاپسندوں کو جواز فراہم کررہے ہیں۔نواز لیگ اور اس کا حامی سوشل میڈیا گندی سیاست کررہا ہے۔ یہ انتہاپسندوں سے بھی ملا ہوا ہے اور مگرمچھ کے آنسو بھی بہا رہا ہے۔
مجھے تو لگتا ہے کہ شہباز شریف میں ممتاز دولتانہ کی روح سماگئی ہے وہ عمران خان کے خلاف مذھبی دائیں بازو سے وہی کام لینا چاہتے ہیں جو ممتاز دولتانہ نے پنجاب کے چیف منسٹر نواب افتخار ممدوٹ کے خلاف مجلس احرار والوں سے لیا تھا۔ اس زمانے میں تحریک مجلس احرار نے چلائی اور جماعت اسلامی سمیت سب مذھبی جماعتیں اس تحریک کا حصہ بن گئیں اور اس تحریک نے صرف ممدوٹ کو فارغ نہیں کیا بلکہ خواجہ ناظم الدین کو بھی مرکز سے چلتا کیا تھا اور ملک میں آخرکار مارشل لاء لگ گیا تھا۔