ایون فیلڈ ریفرنس فیصلہ : آزاد قانونی حلقے اور غیر جانبدار تجزیہ نگار کتنے غیر جانبدار اور آزاد ہیں؟ – عامر حسینی

پاؤں پھنسا ہے یار کا زلف دراز میں

احتساب عدالت اسلام آباد کے جج بشیر احمد نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کیس میں میاں نواز شریف،مریم نواز اور کیپٹن صفدر نواز کو بالترتیب دس سال، آٹھ سال اور سات سال قید بامشقت اور جرمانے کی سزا سنائی ہے۔احتساب عدالت نے یہ سزا میاں نواز شریف کی جانب سے ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کے بارے میں تسلی بخش جواب فراہم نہ کرنے پہ احتساب ایکٹ کی ایک شق کے تحت سنائی گئی ہے۔ جب کہ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے جعلی ڈیڈ جماکرانے اور غلط بیانی کرنے پہ سزا سنائی ہے۔

جب سے سپریم کورٹ کے فیصلہ پہ پانامہ کیس میں نااہل ہونے والے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز اور ان کی بیٹی اور داماد کو سزا سنائی گئی ہے تب سے مین سٹریم اور سوشل میڈیا پہ مسلم لیگ نواز کو اینٹی اسٹبلشمنٹ اور میاں محمد نواز شریف کو کامریڈ نواز چی گیورا اور ذوالفقار علی بھٹو اور مریم کو بے نظیر بھٹو کے مماثل قرار دینے والوں نے احتساب عدالت کے اس فیصلے کو کسی نہ کسی انداز سے اسٹبلشمنٹ کی سازش قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ بحثیت میڈیا گروپ اس سے پہلے بڑی مشکل سے میاں نواز شریف کے معاملے میں اپنی ‘جانبداری’ کو چھپانے کی کوشش کررہا تھا مگر وہ اب وہ بالکل ہی کھل کر سامنے آگیا ہے۔ ڈان لیکس سے یہ معاملہ کھل کر سامنے آیا تھا اور لوگوں کو یہ اندازہ ہونے لگا تھا کہ یہ میڈیا گروپ اور اس سے وابستہ اکثر صحافی لبرل اور ترقی پسند نقاب کے ساتھ میاں محمد نواز شریف، شہباز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر سمیت مسلم لیگ نواز کی بطور اینٹی اسٹبلشمنٹ کرانتی کاری کے امیج بلڈنگ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ اندازے ڈان میڈیا گروپ کے مالکان کی میاں محمد نواز شریف کے انتہائی قریبی سرمایہ دار میاں منشاء سے رشتہ داری اور تعلق داری کی وجہ سے بھی لگائے جانا شروع ہوئے تھے۔پھر آہستہ آہستہ پول کھلتا چلا گیا۔کیونکہ ڈان میڈیا گروپ نے گزشتہ پانچ سالوں میں پنجاب میں شہباز شریف اور مرکز میں نواز شریف کی حکومتوں کی بدانتظامی، کرپشن، بے قاعدگیوں اور اس کی انتہا پسندی، دہشت گردی، فرقہ پرست جماعتوں اور گروپوں سے تعلق داری، نیشنل ایکشن پلان کی بے عملی، کالعدم جماعتوں کی مین سٹریمنگ ،سعودی عرب اور طالبان سے تعلق داری جیسے اہم معاملات پہ یا تو خاموشی اختیار کی یا ان کا تعلق صرف اور صرف آئی ایس آئی یا ملٹری جرنیلوں سے جڑنے اور نواز حکومت کو اس سے بری کرنے کا وتیرہ اپنائے رکھا۔

اس دوران ڈان میڈیا گروپ نے اپنے سٹاف رپورٹر و کالم نگاروں سیرل المیڈا، ندیم فاروق پراچہ ، لاہور کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر اشعر الرحمان،سابق ایڈیٹر اور اب مستقل مضمون نگار ناصر عباس، مضمون نگار عرفان حسین وغیرہ کے انتہائی یک طرفہ اور متنازعہ مضامیں شایع کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ڈان میڈیا گروپ نے پاکستان پیپلزپارٹی کے سابقہ دور میں افتخار چودھری-کیانی گٹھ جوڑ اور ان کی جانب سے پی پی پی کی حکومت کو مفلوج بنانے کو کرپشن، بدعنوانی کے خلاف جہاد بناکر پیش کیا تھا اور اس زمانے میں سرل المیڈا کی جانب سے صدر زرداری کے خلاف فوج کے سربراہ کو راست اقدام تک اٹھانے کا مشورہ اپنے مضمون میں دیا تو اسے بھی پورے اہتمام سے شامل کیا گیا۔

ڈان میڈیا گروپ کا ‘احتساب کا جنون’ بہت ہی یک رخا رہا ہے۔ اس نے ملک ریاض،بحریہ ٹاؤن سیکم میں فراڈ بارے تو اداریہ اور رپورٹس پہ رپورٹس شایع کیں لیکن اس دوران میاں منشا ، عارف حبیب سمیت کئی اہم بروکرز، سرمایہ داروں اور مسلم لیگ نواز کے ساتھ وابستہ رئیل اسٹیٹ مافیا کے کرتوت پہ کوئی ایک دو سطری خبر تک شایع نہ کی جبکہ انوسٹی گیشن رپورٹ اور اداریہ لکھنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

ڈان میڈیا گروپ مسلم لیگ نواز کی ایک طرف اسٹبلشمنٹ مخالف مصنوعی نعرے بازی کو لیکر نواز شریف کی امیج بلڈنگ کی مہم جاری رکھی تو دوسری جانب اس نے مسلم لیگ نواز کے موجودہ صدر اور سابق چیف منسٹر شہباز شریف کی اسٹبلشمنٹ کو رام کرنے کی کوشش، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے مبینہ خفیہ ملاقاتوں، طالبان اور فرقہ پرست، شیعہ نسل کشی سمیت کئی مذہبی برادریوں پہ حملے میں ملوث کالعدم سپاہ صحابہ/ اہلسنت والجماعت سے خفیہ ڈیل، انتخابی ایڈجسٹمنٹ، ان کے کئی رہنماؤں کو ٹکٹ کے اجراء اور نیشنل ایکشن پلان کی بربادی پہ چپ تانے رکھی اور شہباز شریف کو شفاف اور تبدیلی کا پہیہ تک قرار دینے سے گریز نہیں کیا۔

آج اس میڈیا گروپ کا اخبار روزنامہ ڈان کا اداریہ ‘ ناقابل تردید ثبوت؟’ کے عنوان سے ایون فیلڈ ریفرنس کیس پہ احتساب عدالت کے فیصلہ پہ فوری لکھا جاتا ہے۔یہ نواز شریف کے حق میں لکھے جانا والا تین دنوں میں تیسرا اداریہ ہے۔ روزنامہ ڈان نے ابتک اپنی اشاعت کے سالوں میں ‘جمہوریت پسندی’ کا ایسا غیر معمولی ثبوت کبھی نہ تو فاطمہ جناح کے حق میں پیش کیا تھا ( اس وقت اس گروپ کے مالک ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ کے ساتھ تھے) اور نہ کبھی ذوالفقار علی بھٹو کے حق میں پیش کیا تھا۔( اس وقت اس گروپ کے مالکان میں سے ایک سندھ میں ضیاء الحق کی جانب سے گورنر بنے ہوئے تھے) نہ کبھی بے نظیر بھٹو کے حق میں دیا تھا۔( اس زمانے میں اردشیر کاؤس جی سیرل المیڈا کی طرح بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف بدترین پروپیگنڈا کررہے تھے۔ ایک کتاب ہے ‘ پیپلزپارٹی کا میڈا ٹرائل’ اس میں ڈان سمیت پاکستان کے انگریزی پریس کی بشمول اردو پریس کی پیپلزپارٹی سے دشمنی کا ریکارڈ اکٹھا کردیا گیا ہے پڑھنے کے قابل ہے)۔

سات جولائی،2018ء کے اداریہ ‘ مسلم لیگ نواز کے لیے آگے کیا؟ کے عنوان سے اداریے میں آغاز میں لکھا:

The legal dimensions of the accountability court judgement will be pored over by independent analysts and can be assessed at a later date.

عدالتی فیصلے کی قانونی جہات تو آزاد تجزیہ نگار ہی دیں گے اور کسی اور تاریخ کو اسے دیکھا جاسکتا ہے،

لیکن آگے چل کر اسی اداریے میں اخبار نواز شریف کے خلاف آنے والے تمام فیصلوں کو

For Pakistan, there is a double disappointment. Notwithstanding all the dubious legal manoeuvres against Nawaz Sharif, his family and the PML-N in recent times, the Sharif family ought to have explained in a forthright and credible way the source of the family’s vast wealth.

پاکستان کے لیے دوہری مایوسی ہے۔ نواز شریف ، شریف خاندان اور مسلم لیگ نواز کے خلاف حال ہی میں تمام ‘مشکوک قانونی ہیرا پھیریوں کے’شریف خاندان کو اپنی وسیع و عریض دولت کے سیدھے اور قابل اعتبار زرایع آمدن کو پیش کردینا چاہئیے۔

اداریے کے آغاز میں قانونی جہات پہ ‘آزاد تجزیہ نگاروں’ کی بحث کا انتظار کرنے کا کہہ کر دوسرے پیرا گراف میں پاکستان کے لیے دوہری مایوسی کہہ کر نواز شریف، شریف خاندان اور مسلم لیگ نواز کے خلاف آنے والے تمام فیصلوں کو قانونی اعتبار سے ہیرا پھیری اور مشکوک قرار دے دیا گیا اور اپنے اس جملے سے گروپ کی جانبداری کا پول کھلنے سے بچنے کے لیے اگلے جملے میں شریف خاندان سے ان کی آمدن کے شفاف زرایع کی مانگ کی گئی لیکن اس اداریے کا سارا زور عدالتی فیصلوں کو مشکوک اور اس کے سیاسی مضمرات کو شریف خاندان کے حق میں کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا گیا۔

آٹھ جولائی 2018 بروز اتوار کا اداریہ ‘ ناقابل تردید ثبوت’ کے عنوان سے ان ‘ آزاد تجزیہ نگاروں’ کی رائے سے مزین کرلیا گیا ہے۔ اخبار کا اداریہ لکھتا ہے:

WHILE all are equal before the law, the quality of judgments and the judicial reasoning offered in important cases, especially in those that are precedent-setting, ought to be unimpeachable and of the highest order. A year since Nawaz Sharif was stripped of the prime ministership by the Supreme Court and nearly five months since he was barred from holding party office, the legal controversy over those two judgements, at least in independent legal circles, has not abated.

جبکہ تمام لوگ قانون کے آگے برابر ہیں تو ایسے مقدمات جو انتہائی اہم ہوں کے فیصلے جو نظیر بننے والے ہوں کے فیصلوں کا معیار اور قانونی استدلال ناقابل مواخذہ اور انتہائی بلند نظم کا حامل ہونا چاہیے۔اب جبکہ نواز شریف کو سپریم کورٹ کی جانب سے وزیراعظم کے عہدے سے اتارے ایک سال ہوگیا اور کسی بھی پارٹی عہدے کے لیے ممانعت کو 5 ماہ ہوگئے ہیں، ان دو فیصلوں قانونی تنازعہ کم از کم آزاد قانونی حلقوں میں تو ختم نہیں ہوا ہے۔

(ایسے اعلان اور مشورے پہ مشتمل اداریے رحمان ملک اور روحیل اصغر کے ایک جیسے کیسز میں دو مختلف فیصلے آنے پہ ڈان نے لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ اور نہ ہی اپریل 1999ء میں ملک قیوم کی احتساب عدالت کی جانب سے بے نظیر اور آصف علی زرداری کو سزا سنائے جانے پہ بھی سامنے نہیں آیا تھا۔)

گویا ڈان میڈیا گروپ کے نزدیک ‘آزاد قانونی’ حلقے وہی ہیں جو نواز شریف کی نااہلی کی سزا اور اس کے پارٹی عہدے پہ فائز رہنے کی ممانعت کے عدالتی فیصلے کو ‘متنازعہ’ کہیں۔ اور جو نہ کہیں وہ ‘ آزاد قانونی حلقے ‘ نہیں ہیں۔ کس قدر عجیب و غریب بات ہے کہ ایک طرف پاکستان میں کمرشل لبرل مافیا اور پٹواری صحافی و سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں نے یہ شور مچارکھا ہے کہ جو حلقے میاں نواز شریف کے سابقہ سیاسی ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے ان کی عوام کی بالادستی کے نعرے ، قانون کی حکمرانی کے شور کو مشکوک قرار دیں اور ان کے پاس مضبوط دلائل بھی ہوں تو ان کو اسٹبلشمنٹ کے ایجنٹ قرار دے دیا جائے اور اس میں پہلے زرداری شامل تھے اب تو بھٹو اور بے نظیر بھی شامل کردیے گئے ہیں،اب ڈان میڈیا گروپ کا اخبار اپنے اداریے میں نواز شریف کے خلاف آنے والے فیصلوں کو قانونی اعتبار سے متنازعہ نہ ماننے والوں کو آزاد قانونی حلقے ماننے سے انکار کردیا گیا ہے۔

ڈان اخبار کا اداریہ کے مطابق پراسیکوشن کی جانب سے کورٹ کے سامنے شریف خاندان کی مالیاتی معاملات میں کرپشن کے کے ناقبال تردید ثبوت نہ لاسکنا لمحہ فکریہ ہے۔ بالکل اس پہ بات ہونی چاہئیے لیکن یہ اداریہ ہمیں یہ قطعی نہیں بتاتا کہ احتساب عدالت نے یہ بھی اپنے فیصلے میں لکھا کہ نواز شریف کا خاندان اپارٹمنٹ کی خریداری میں استعمال ہونے والے پیسہ کی شفاف اور ایمانداری سے کمائے جانے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرپایا ہے۔ بلکہ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی ٹرسٹ ڈیڈ جعلی نکل آئی ہے۔یہ دونوں چیزیں احتساب ایکٹ کے مطابق قابل سزا جرائم ہیں جس پہ سزا نواز ،مریم اور کیپٹن صفدر کو سنائی گئی ہے۔ اداریہ ہمیں یہ بھی بتانے کی زحمت نہیں کرتا کہ جس شق کے تحت نواز شریف نے سزا پائی ہے اس شق کو پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت بدلنا چاہتی تھی جس پہ نواز شریف راضی نہ ہوئے تھے تو کیا روزنامہ ڈان نے اس وقت کوئی اداریہ لکھ کر اس شق کو ‘ ناقابل تردید ثبوت سے گریز’ کرتے ہوئے ‘مشکوک قانونی ہیرا پھیرا ‘پہ مبنی فیصلے سنانے والی شق قرار دیا تھا؟

ڈان میڈیا گروپ کے ‘ آزاد قانونی حلقے’ اور ‘ غیر جانبدار تجزیہ نگار’ اور سچے اور پکّے جمہوریت پسند اور اینٹی اسٹبلشمنٹ دانشور اور ایکٹوسٹ بھی وہی لگتے ہیں جو ‘جیو-جنگ’ میڈیا گروپ کے پاس ہیں۔ اور سب کے سب کسی نہ کسی طرح شریف فیملی اور مسلم لیگ نواز کی حکومت کے مراعات یافتہ ہیں۔

Comments

comments