ہزار داستان ہزارو ں کے قتل کی – مستنصر حسین تارڑ

پاکستان میں خاص طور پر کوئٹہ میں اگر آپ گورے چٹے ایک منگول ناک والے ہزارہ قبیلے سے ہیں تو یوں جانیے آپ نشانہ پر ہیں ،آپ کی موت طے ہوچکی ہے اور اگر آج نہیں تو کل آپ ہلاک کردیے جائیں گے۔

زیادہ برس نہیں گزرے جب ملتان کی ایک ادبی محفل میں شرکت کے بعد اپنی ایک چاہنے والی کی دعوت پر وہاں سے ایک فوکر فرینڈ شپ جہاز میں سوار ڈیرہ اسماعیل خان جارہا تھا راستے میں کوہ سلمان کے دامن میں واقع ہموار چھتوں والےایک ویران سے شہر ژوب کے ائیر پورٹ پر اترے ،جسے فورٹ منڈیمان بھی کہا جاتا رہا ہے، یہ مارچ کے اوائل بہار کے دن تھے، اور سرد ہوا میں ایک مہک تیرتی تھی۔ میں نے دیکھا کہ ہمارے استقبال کے لیے پی آئی اے کی ایک باوردی ائیر ہوسٹس لاؤنج کی جانب چلی آرہی ہے۔ اس نے مجھے پہچان کر ٹھیٹھ اردو میں کہا ،تارڑ صاحب آپ یہاں فورٹ منڈیمان میں کہاں آگئے ،خؤش آمدید!

اور میں ٹھٹک گیا کہ وہ شکل سے چینی یا منگول لگتی تھی۔ میری حیرت بھانپ کر وہ ہنس دی اور کہنے لگی سر میں پاکستانی ہوں ۔ہزارہ قبیلے سے ہوں ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یہاں سرد ہوا میں یہ خمار سا کیا ہے۔ کیسی مہک ہے؟

کہنے لگی تارڑ صاحب ذرا دیکھیے ائیر پورٹ کے ساتھ جو ویرانہ شروع ہوتا ہے، وہاں کچھ خشک ٹہنیوں والے پستہ قد شجر ہیں ۔ غور کیجئے تو ان ٹہنیوں میں سے شگوفے پھوٹ رہے ہیں ، یہ مہک ان کی ہے، یہ نوروز کی آمد کی نشانی ہے۔ ہم ہزارہ لوگ نوروز کو ایک قدیم تہوار کے طور پر مناتے ہیں ، اگر آپ آج سے دس بیس روز بعد یہاں آتے تو یہ سب شجر سفید اور گلابی پھولوں سے بھر چکے ہوتے۔

میں نہیں جانتا وہ خوش اطوار ہزارہ لڑکی اب کہاں ہے، عین ممکن ہے کہ وہ بھی اپنے سینکڑوں ہم قبیلہ لوگوں کی مانند ہلاک ہوچکی ہو۔

ہم ایسے اخباروں اور کتابوں میں قلم گھسیٹنے والے کالم نگار اور ادیب دن رات نواز شریف ،عمران خان ،بلاول وار زرداری وغیرہ کے حق میں یاخلاف لکھتے ہیں ، کسی آئینی ترمیم کے حوالے سے صفحے کے صفحے سیاہ کردیتے ہیں ، کشمیر میں ہندوستانی فوج کے ہاتھوں ہونے والے مسلمانوں کے لیے ماتم کرتے ہیں ،روہنگیا کے مسلمانوں کے لیے بجا طور پر صرف کالموں میں سینہ سپر ہوتے ہیں، منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے کبھی کبھار امریکہ پر پل پڑتے ہیں ، لیکن اپنے ہی ملک کے پاکستانیوں کا اگر ان کے عقیدے اور شکل کی وجہ سے قتل عام کرتے ہیں تو ہم اُف تک نہیں کرتے۔ کوئی بھی احتجاج نہیں کرتا ، کوئی بھی سیاسی لیڈر بے شک یہ عمران خان ہو ،ہزارہ قبیلے کے لوگوں کے لیے ہمدردی کا ایک لفظ تک نہیں کہتا ،کہ اس میں مصلحتیں بہت ہیں ۔

اگر ستر ہزار سے زائد لوگ اپنے گھر ترک کرکے در بدر ہورہے ہیں ،کسی بھی پناہ گاہ میں پہنچنے کے لیے سمندروں میں ڈوب کر مچھلیوں کی خوراک بن رہے ہیں ،صرف ایک شامی بچے کی سمندر کنارے پڑی نعش نے کیسے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ دیا تھا۔ درجنوں ہزارہ بچے انڈونیشیا ،آسٹریلیا ، اور ملائشیا کے ساحلوں پر مردہ پڑے ہیں ، ابھی پچھلے دنوں چار ہزارہ خؤاتین ہلاک کردی گئیں ، بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ کوئٹہ کےہزارہ لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سکول نہ بھیجیں ، اور اگر گھر سے نکلیں تو سکیورٹی اہلکار کو باخبر کرکے نککلیں ، تنہا نہ جائیں ۔

شاید آپ کو یاد ہو کہ آج سے چار سال قبل سینکڑوں کی تعدد میں ہزارہ مرد عورتیں اور بچے مارے گئے ،تو ہزارہ لوگوں نے احتجاج کے طور پر انہیں دفن کرنے سے انکار کردیا ،کھلے آسمان تلے وہ سینکڑوں تابوتوں کے سرہانے بیٹھے اپنے مردہ بچوں کے چہرے دیکھتے رہے، کہ شاید انہیں انصاف مل جائے،

پاکستان کے کچھ شہروں میں ان کے حق میں مختصر جلوس نکلے اور سا کے بعد سوا خاموشی!

مجھے کوئی تو بتلا دے کہ اگر نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر مسلم نے حرم کی پاسبانی کے لیے ایک ہونا ہے تو کیا ہزارہ بھی ان میں شامل ہیں ؟مسلم امہ جس میں اگر کسی مسلمان کو ایک کانٹا چبھ جائے تو اس کا درد نیل سے کاشغر تک مسلمانوں کو محسوس ہو تا ہے تو کیا اس امہ میں ہزارے بھی شمار ہوتے ہیں؟ کہ نہیں ۔ انہیں تو کانٹوں کی بجائے خنجر چبھ رہے ہیں ، اگر برما اور اسرائیل میں ایک منصوبے کے تحت مسلمانوں کی نسل کو ملیا میٹ کیا جارہا ہے اور ہم دن رات ان کے غم میں آہ و بکا کرتے ہیں ، اور اپنے پاکستان میں پاکستانیوں کی ایک نسل کو اگر مٹایا جارہا ہے تو ہم کیوں چپ ہیں ؟ مری آباد ، اور ہزارہ ٹاؤن کے گھر اجڑ رہے ہیں ، اور کوئی ایک گھر ایسا نہیں ہے جس کے اکثر سب یا کم از کم دو تین افراد ہلاک ہوچکے ہیں ۔

پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک اداکار اور ڈاکومنٹری فلموں کے پروڈیوسر لیاقت علی چنگیزی کو منع کردیا گیا ہے کہ آپ ڈیوٹی پر نہ آئیں ، آپ کی وجہ سے ہماری جان بھی خطرے میں پڑ چکی ہے۔ چنگیزی کو بھی اپنا آبائی کوئٹہ چھوڑنا پڑا اور وہ دربدر ہورہاہے، اس کی بیٹی ملیحہ دیارِ غیر میں بے آسرا پڑی ہے ،اور کہتی ہے کہ میں جی سی اے کا امتحان دینے والی تھی، جب ہمیں وطن سے نکلنا پڑا ،اور یہ میری عمر ہے جس میں مجھے تعلیم حاصل کرنی چاہیے تھی اور میں کسی بھی ملک میں پناہ حاصل کرنے کے لیے دھکے کھا رہی ہوں ۔

ہزارہ کی نسبت قادیانی زیادہ خوش نصیب ہیں کہ شاہی داماد صفدر کی پارلیمنٹ میں نفرت انگیز تقریر کے باوجود قائداعظم یونیورسٹی کے فزکس ڈیپارٹمنٹ کا نام بدل دیتے ہیں ، وہاں سے پروفیسر عبدالسلام کی تصویر ہٹا دیتے ہیں ، تو وہاں کس کی تصویر آویزاں کردیں ،آپ کی یا آپ کی اہلیہ کی یا نا اہلیہ نواز شریف کی ۔تو اس تقریر کے باوجود کہ جو صرف اس گناہ پر پردہ ڈالنے کی ایک مکروہ کوشش تھی کہ جی وہ جو آئین میں معمولی سی ترمیم تھی جو جان بوجھ کرکی گئی ،ختم نبوت کی تقدیس کو جی ہاں جان بوجھ کر مجروح کیا گیا تو ہم یہ ثابت کریں کہ ہم تو آپ سب سے زیادہ قادیانیوں کے خلاف ہیں تو اس تقریر کے باوجو قادیانی،،ہزارہ لوگوں سے زیادہ خوش قسمت ہیں کہ کبھی کبھار کی یلغار کے علاوہ نسبتاً آرام سے ہیں ۔ یہاں تک کہ صفدر کے سسر صاحب نے بھی اپنے شاہی داماد کے بیان سے لاتعلقی اختیار کی اور پاک فوج کی جانب سے جو بیان آیا کہ پاک آرمی ایک نیشنل آرمی ہے جس میں ہندو سکھ عیسائی اور قادیانی برابر کا حق رکھتے ہیں ،اگر اس بیان میں ہزارہ قبیلے کو بھی شامل کرلیا جاتا تو کیا ہی اچھا ہوتا۔

ہزارہ کا ایک اور بھی گناہ ہے کہ وہ دور سے جانے پہچانے جاتے ہیں ،سفید رنگت ،خوش شکل اور منگول ناکوں والے آسانی سے نشانے میں آجاتے ہیں ۔ کاش کہ یہ اپنی شکلیں بدل سکتے ۔بلکہ کاش کہ یہ پاکستانی پیدا نہ ہوتے۔ جیسے ہٹلر نے یہودیوں کو نابود کرنے کے لیے فائنل سولوشن یعنی آخری حل تجویز کیا تھا تو ہمیں بھی فیصلہ کرہی لینا چاہیے تھا کہ آخر ایک مسلمان کی ڈیفی نیشن کیا ہے تاکہ بقیہ حضرات کے لیے کوئی “آخری حل”تجویز کیا جاسکے۔ ویسے اس سلسلے میں اگر ہم مفتی قوی قبدیل سے رجوع کریں تو کچھ مضائقہ نہیں ۔

کیا مجھے خوش آمدید کہنے والی پی آئی اے کی میزبان وہ ہزارہ لڑکی جس نے مجھے نوروز کی مہک کی نوید فورٹ منڈیمان میں دی تھی ،ابھی تک زندہ ہے یا شاید وہ بھی ان سینکڑوں کھلے آسمان تلے پڑے تابوتوں میں سے کسی ایک میں نوروز کی خوشبو کی منتظر مردہ پڑی تھی۔۔۔۔۔اور ایوب خان کے بعد ہمارے پہلے کمانڈر ان چیف ججنرل موسیٰ جو ہزارہ قبیلے کے تھے اگر آج ہوتے تو کب کے ہلاک ہوچکے ہوتے ،ان کا رنگ بھی گورا تھا اور ناک بھی منگول۔

اب بھی بہار کے اوائل میں خشک ٹہنیوں میں سے گلابی اور سفید شگوفے پھوٹتے ہیں لیکن اب ان کی مہک میں خونِ ناحق کی سرخ بُو شامل ہوتی ہے۔

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.