تقسیم اور آزادی پہ بحث کا ایک اور زاویہ – عامر حسینی
“پاکستان کے ستر سال مکمل ہونے پہ لوگ مسٹر جناح کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے مینو کارڈ اور موسیقی کے پروگرام کی تصاویر شئیر کررہے ہیں جو کہ 14 اگست 1947ء کو ایک ایلیٹ کلب میں منعقد ہوا تھا۔انتہا پسند نیشنلسٹ اور لشکر جھنگوی کے حامی نام نہاد (نیو لبرل۔پوسٹ ماڈرنسٹ) اس واقعے کی تحسین یا مذمت میں اپنی اپنی بیان بازی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
جبکہ بحث کو اس سے بالکل مختلف ہونا چاہئیے ۔
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ برطانوی نوآبادکاروں نے ایک عظیم لیکن بکھری اور ٹوٹی پھوٹی تہذیب کو خون کی ہولی اور دہلادینے والی مہاجرت کے درمیان تقسیم کیا۔اس میں بھی کوئی شک نہیں یہ جنم تضادات سے بھرا ہوا تھا۔
تاہم 2017ء میں، پاکستان کے نام نہاد لبرل برطانیہ /امریکہ /سعودیہ کے کالونیل پروجیکٹ کو نواز شریف اور دوسرے نسل پرستانہ سیاست کے علمبرداروں کی شکل میں سپورٹ کررہے ہیں؟
وہ کیوں بالواسطہ پاکستان کی بلقانائزیشن کو سپورٹ کرنے میں لگے ہوئے ہیں جس کا نتیجہ 1947ء کے المناک واقعات کو دوہرانے کی صورت نکلے گا۔یہ وہی کام ہے جو امریکہ میں ٹی پارٹی نے کیا تھا۔
سنگین بات یہ ہے کہ 1947ء کی خون آشام تقسیم کے بعض تضادات کی ٹھیک طرح سے نشاندہی کرتے ہوئے نام نہاد لبرل برٹش نوآبادکاروں اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے ابھاری جانے والی فرقہ پرستانہ ‘اصلاحی تحریکوں’کے بارے میں یا تو بالکل غافل رہتے ہیں یا اس بارے میں بالکل اندھے ہوجاتے ہیں۔یہ تحریکیں مسلمانوں اور ہندؤں میں ایک دوسرے کی مذہبی اور تقدیس سے بھری مذہبی علامات کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے جو صدیوں سے تعلقات بنے تھے کو مصنوعی طریقے سے نقصان پہنچانے کے لئے بنائی گئی تھیں۔
ان اصلاحی تحریکوں نے نسل کشی ،نفرت اور دہشت گردی کو دل فریب بناکر دکھانے والوں کو بہت عظیم بناکر دکھایا۔یہ اصلاحی تحرکیں سید ان تقریبات کے خلاف خاص طور پہ تھیں جو سب کمیونٹیز کا مشترکہ ثقافتی ورثہ کہلاتی ہیں۔ان جیسی تحریکوں نے برٹش کالونیل ازم کے ساتھ ملکر کام کیا اور ان کا ٹاسک تہذیب کی تباہی اور لوگوں کو ان کے زرخیر کلچر و روایات سے الگ کرنا تھا۔پاکستان کے نام نہاد لبرل ایسی فرقہ وارانہ تحریکوں کے آلہ کار بننے کو تیار ہیں۔
انتہا پسند نیشنلسٹ ٹھیک اس لئے بھی کامیاب ہوئے کیونکہ نام نہاد لبرل کے ہاں ایک عام پاکستانی کی توہین و تذلیل کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔ان کی عوام میں فکری جڑیں تو ہے ہی نہیں تو یہی وجہ ہے کہ انتہا پسند نیشنلسٹ نے ساری عوامی جگہ پہ قبضہ جمارکھا ہے۔نام نہاد لبرل کے بیانیہ میں 1947ء کی تقسیم میں موجود تضادات کی نشاندہی درست ہے۔تاہم ان کی توہین و تحقیر کی عادت،فرقہ پرستی، بدیانتی سے لیکر منافقت تک اور کالونیل ازم کی غلامی ان کو مسائل کا حل نکالنے اور ان کو درست کرنے کے قابل نہیں رہنے دیتی”۔
یہ تحریر ریاض مالک کی ہے جن کے خیالات سے اختلاف کی نوبت کم کم ہی آتی ہے۔اس تحریر میں ریاض مالک نے یہ تو بالکل ٹھیک تجزیہ کیا ہے کہ پاکستان کے اندر نیولبرل/پوسٹ ماڈرنسٹ جو اس وقت پاکستان کی سول سوسائٹی کی غالب اشرافیہ ہے اور بدقسمتی سے پاکستان میں ترقی پسند کیمپ کے ترجمان خیال کئے جاتے ہیں وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد سے برصغیر کے اندر شروع ہونے والے کالونیل دور کی نام نہاد اصلاحی تحریکوں کو آئیڈیلائز کرتے ہیں اور ان تحریکوں کے بانیان کی فرقہ پرستی، تقسیم کرنے اور برصغیر کے کمپوزٹ کلچر و تہذیب کو توڑ پھوڑ کر،کانٹ چھانٹ الگ الگ کردکھانے کے لئے فکری اور عملی بشمول مسلح کاروائیوں کے جو کردار رہا اس سے پردہ پوشی کرتے ہیں۔
دیوبند کی مدرسہ تحریک ہو یا اس سے پہلے سید احمد اور شاہ اسماعیل کی تحریک جہاد ہو اس بارے اس پوسٹ ماڈرنسٹ/نیولبرل اشرافیہ کے خیالات یا تو مبہم ہیں یا وہ الٹا ان کو شاندار بناکر دکھاتے ہیں۔اور یہ کام ان میں سے بعض نیولبرل بالواسطہ طور پہ کرتے ہیں۔جیسے سید احمد بریلوی،شاہ اسماعیل،رشید احمد گنگوہی ،قاسم نانوتوی وغیرہ نے برصغیر کے کمپوزٹ کلچر اور ہند۔مسلم تہذیب کے اندر صدیوں کے باہمی میل جول سے ابھر کر سامنے آنے والے رسوم و رواج، شعائر مذہبی اور تہواروں کی جو شکل و صورت سامنے آئی اسے ہندؤانہ، شرکیہ ، بدعت یا اسلام کے اندر رافضی، مجوسی، نصرانی ملاوٹ کہہ کر رد کرنے اور اپنے تئیں ایک صاف، شفاف، سلفی اور اصل اسلامی تہذیب و ثقافت کا تصور پیش کرنے اور ان کے ماننے والوں نے اسے مسلح جدوجہد کے زریعے سے زبردستی نافذ کرنے کی کوشش کی بالکل ایسے ہی بالواسطہ طور پہ نیولبرل/پوسٹ ماڈرنسٹ یہ کوشش ریشنل ازم ، ارتقاء پرستی، عقلیت پسندی،الحاد ازم،سیکولر ازم، لبرل ازم کے نام پہ کرتے ہیں۔
ان کا سارا ریشنل ازم، ارتقاء پرستی، سیکولر ازم اور لبرل ازم عام پاکستانی کی تضحیک ، اس کے مذہبی ثقافتی ورثے کی توہین اور اس کی مذمت کرنے کا نام ہے۔بظاہر یہ حریت فکر، آزادی اظہار، عقل کی بالادستی اور روشن خیالی، خرد افروزی کی باتیں کرتے ہیں لیکن ان کا سارا حملہ اس کمپوزٹ کلچر کے کئی ایک اجزاء پہ حملہ آور ہوتا ہے جوکہ صدیوں کے ارتقاء سے ہمارے ہاں تشکیل پایا ہے۔
محرم کی ثقافت ہو یا میلاد و عرس کی ان کے ہاں یہ بہت ہی تضحیک اور تحقیر کا نشانہ بنتی ہے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان نیو لبرل کی بھاری اکثریت کبھی اس طرح کی تضحیک ہولی،دیوالی،بیساکھ کو نہیں بناتی۔اور یہ نیولبرل آج تک یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں جب یہ ریشنل ازم،روشن خیالی اور عقلیت پسندی کے ہتھیاروں سے لیس ہوکر محرم سے جڑے ثقافتی اظہار اور میلاد و عرس سے مربوط رسوم و رواج پہ حملہ آور ہوتے ہیں یا ٹریفک جیم،اصراف دولت وغیرہ کا بہانہ بناکر عاشور یا میلاد کے جلوسوں کو چار دیواری کے اندر محدود کرنے کی بات کرتے ہیں تو یہ اصل میں کمپوزٹ کلچر کو ہی نشانہ بنارہے ہوتے ہیں۔اور ایک دوسرے راستے سے یہ تکفیر ازم،جہاد ازم، پولیٹکل اسلام ازم کے ساتھ جڑے ریفارم ازم/اصلاح پسندی کے راستے سے جو اینٹی شیعہ ، اینٹی صوفی بیانیہ منظر عام پہ آتا ہے اور اس سے جڑی جو انتہا پسندی اور نسل کشی ہے اس کا جواز بھی فراہم کرتے ہیں۔
جب پاکستان کے اندر ہونے والی شیعہ نسل کشی کو شیعہ۔سنّی گمراہ کن بائنری اور سعودی۔ایران فیکٹر کو بنیادی عامل بناکر دکھایا جاتا ہے تو لبرل بالواسطہ طور پہ اس نسل کشی کا جواز فراہم کرتے ہیں۔اور ان کا یہ عمل بالواسطہ پاکستانی نیشنل ازم کے انتہا پسندانہ اور بنیاد پرستانہ علمبرداروں اور ‘دو قومی نظریہ’ کی اینٹی سیکولر تعبیر کرنے والوں کو ہی مدد اور تقویت فراہم کرتا ہے۔
میں ریاض مالک کی اس بات سے جزوی اتفاق کرتا ہوں کہ نیولبرل پاکستان کے بارے میں ایک ایسی انتہا پسندی کا شکار ہیں جو پاکستان کی بالقانائزیشن کرسکتا ہے۔پاکستانی ریاست کو زبردست انارکی اور خانہ جنگی میں مبتلا کرسکتا ہے۔لیکن ان کو مکمل اور غالب کردار نہیں کہا جاسکتا۔پاکستانی ریاست پہ اس وقت جو حکمران طبقات غالب ہیں اور ریاستی اداروں کی جو پالیسیاں ہیں وہ اس کا سب سے بڑا اور بنیادی سبب ہیں۔
اس وقت بلوچستان، اندرون سندھ،فاٹا اور گلگت بلتستان میں جو ہورہا ہے اور ایسے سندھ کی اردو بولنے والی مہاجر آبادی کے ساتھ جو کیا جارہا ہے انارکی کے پھیلنے کا خطرہ اس سے ہے۔ریاست بلوچ قومی تحریک کے مقابلے اور سندھ میں سندھ قومی تحریک کے مقابلے میں جس طرح سے جہادی اور فرقہ پرستوں کی سرپرستی کررہی ہے اور تکفیری/جہادی مذہبی پراکسیز کو جس طرح سے فروغ دیا جارہا ہے اور ان تکفیری و جہادی پراکسیز کو جیسے مدرسہ نیٹ ورک کو قائم کرنے دیا جارہا ہے اور پاکستان کے اندر اس بڑے جہادی/تکفیری نیٹ ورک کو ملنے والی سعودی و قطری و دیگر گلف ریاستوں سے آنے والی فنڈنگ پہ آج تک کوئی کنٹرول نہیں کیا جارہا اس سے بہرحال بڑے پیمانے پہ انارکی اور تقسیم کے آثار نظر آرہے ہیں۔
پاکستان کی اسٹبلشمنٹ ہو یا سیاسی قیادت ہو دونوں کے پاس بلوچ اور سندھی قومی تحریکوں سے معاملہ کرنے کی جو حکمت عملی اور پالیسی ہے وہ بھی تو کالونیل پالیسی کی آئینہ دار ہے۔اور اسی پالیسی نے معاملات کو بدترین رخ پہ لاکھڑا کیا ہے اور اس پالیسی نے بلقانائزیشن پروسس کی طرف لیجانے والی بیرونی مداخلت کو اور زیادہ دخیل ہونے کا موقعہ فراہم کیا ہے۔بلوچستان میں سب کچھ تو ملٹری کے حوالے کردیا گیا ہے اور ‘سیاست ‘ تو سرے سے غائب ہے۔بلوچ اور سندھیوں کو جبری ‘حب الوطنی’ کا لباس پہنانے کی پالیسی ایک بڑے سخت چیلنج کی طرف ریاست کو لیکر جارہی ہے۔