نجم سیٹھی باقیات نواز شریف کیسے اور کیوں نوازشات لوٹ رہا ہے – عامر حسینی
پاکستان میں اس وقت لبرل صحافت کے اندر کمرشل ازم کی جڑیں مضبوط کرنے اور اسے نواز شریف کی خدمت پہ مامور کرنے کا سہرا اگر کسی شخص کے سر ہے تو اس کا نام نجم سیٹھی ہے۔اور یہ نجم سیٹھی کا لبرل صحافت میں کھڑا کردہ فرقہ نجمیہ سیٹھیہ ہے جس نے پاکستان کے رفیق حریری،پاکستان میں اموی سیاست کے مدارالمہام کے گرد امتیاز عالم، نصرت جاوید ، رضا رومی ، احمد نورانی ، منیب فاروق ، مرتضی شاہ اور دیگر کئی لبرل صحافیوں کو لاکھڑا کیا ہے۔اور پاکستان کے اندر لبرل لیفٹ صحافت کی جو درخشاں روایت تھی اسے داغدار کردیا ہے۔نجم سیٹھی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے کہ اس کے پھیلائے کمرشل ازم نے وجاہت مسعود جیسے صحافی کو بھی پورا پورا بددیانت اور موقعہ پرست بناڈالا ہے اور مین سٹریم ہونے کے چکر میں اس نے نجم سیٹھی کے ہاتھ پہ بیعت کرلی ہے۔
تعمیر پاکستان بلاگ ویب سائٹ کے بلاگرز سمیت راقم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے لبرل صحافت میں ‘کمرشل ازم ‘ اور ‘مافیا’ کے موجود ہونے اور ان کے جعلی لبرل ڈسکورس کو بے نقاب کرنے کا کام سب سے پہلے شروع کیا تھا۔حقیقی ترقی پسند بلاگرز نے نہ صرف ترقی پسند صحافتی روایت کو داغدار کرنے والے کمرشل لبرل صحافتی مافیا کو بے نقاب کیا بلکہ اس نے سول سوسائٹی کے اندر بھی اس لبرل کمرشل مافیا کے گروگھنٹال اور لاڈو رانیوں کو بے نقاب کیا۔آج عاصمہ جہانگیر پوری طرح سے بے نقاب ہوچکی ہے اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ عاصمہ جہانگیر جیسے کرداروں کے جعلی لبرل ازم، جعلی اینٹی اسٹبلشمنٹ چہروں کے خلاف سب سے بڑی گواہی پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری، سینٹ میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن سمیت کئی ایک بڑے رہنماء بھی دے رہے ہیں۔
نجم سیٹھی صحافتی حلقوں کے اندر سے نواز شریف کے لئے لبرل ماسک چڑھائے خدمتگار صحافیوں کی تلاش کا پورا پورا صلہ پارہے ہیں۔حال ہی میں ان کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا چئیرمین چن لیا گیا اور یہ پرکش عہدہ ان کو نواز شریف کے لئے بے مثال خدمات سرانجام دینے کی بنیاد پہ ہی ملا ہے۔
نجم سیٹھی جو اپنے آپ کو لبرل نقاب میں لپیٹے رہتے ہیں انھوں نے ضیاء الحق کی باقیات کا کیمپ جنرل ضیاء الحق کے طیارے میں پھٹ جانے کے بعد ہی اختیار کرلیا تھا۔باقیات ضیاء الحق کا یہ کیمپ اصل میں نواز شریف کی قیادت میں کام کرنا شروع ہوا تھا جس میں جنرل حمید گل،جاوید ہاشمی، راجا ظفر الحق، چوہدری نثار، جنرل اسلم بیگ، حسین حقانی اور دیگر کئی کردار شامل تھے۔
جنرل ضیاء الحق کی باقیات سیاست دانوں، جرنیلوں، بے وردی نوکر شاہی ، عدالتی ججوں، صحافیوں اور مولویوں پہ مشتمل تھی اس باقیات کا آج سب سے بڑا حصّہ نواز شریف کے کیمپ میں ہے۔ریاض ملک ٹھیک سوال اٹھاتے ہیں کہ نواز شریف اب جبکہ ‘کچرا کنڈی ‘ ہوچکا تو پھر اس کی باقیات جیسے نجم سیٹھی پرکشش کنٹریکٹ کیسے حاصل کررہی ہے؟ نجم سیٹھی کو کیسے پاکستان کرکٹ بورڈ کا چئیرمین بنادیا گیا ہے؟
نجم سیٹھی ہمیشہ سے مشکوک کردار کا حامل رہا ہے۔جب بلوچستان میں 74ء میں بلوچ قومی مزاحمتی تحریک شروع ہوئی اور فوج سے بلوچ قبائل تصادم میں آگئے تو لندن سے پڑھے چند ترقی پسند نوجوانوں کا گروپ بلوچ مسلح مزاحمت میں شریک کار ہوگیا اور نجم سیٹھی بھی انقلابی گوریلا جنگ لڑنے ان کے ساتھ شریک ہوگئے لیکن نجم سیٹھی کا پول اس وقت کھل گیا جب اس کا ‘لندن گروپ ‘ تو فوج کے عذاب و عتاب کا شکار تھے اور نجم سیٹھی ایک فوجی ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر فرار کروایا گیا۔
نجم سیٹھی نے اس کے بعد اپنے اوپر اینٹی اسٹبلشمنٹ لبرل لیفٹ نقاب چڑھا لیا جو اس وقت اترگیا جب یہ پتا چلا کہ 1996ء میں وہ بے نظیر بھٹو کی منتخب حکومت کے خلاف ہونے والے ایک گٹھ جوڑ اور سازشی ٹولے کا حصپہ بن گیا،اس نے بے نظیر بھٹو کے خلاف کینہ پروری کے ساتھ غلط الزامات لگائے۔نیم عوامی بیٹھکوں میں نجم سیٹھی بے نظیر بھٹو کے خلاف فحش جملے بازی کرتا اور عورت دشمن رویے اپناتا۔اس نے نواز شریف ، فاروق لغاری اور جنرل کرامت کی طرف سے بے نظیر بھٹو کی حکومت گرانے کی سازش میں شراکت داری کی۔اس زمانے میں فرائیڈے ٹائمز میں اس کے اور اس کے بچونگڑوں کی تحریریں اس کی اصل فطرت کا پتا دیتی ہيں۔نجم سیٹھی نے نواز شریف کے کیمپ کے ساتھ ملکر بین الاقوامی میڈیا میں بے نظیر بھٹو کا ٹرائل کروایا۔
نجم سیٹھی پاکستانی نژاد اس لبرل کمرشل صحافتی ٹولے کا سرغنہ ہے جس نے بین الاقوامی میڈیا میں اپنے روابط کو استعمال میں لاتے ہوئے نواز شریف کیمپ کا جعلی اینٹی اسٹبلشمنٹ اور جعلی لبرل امیج بنانے کی کمپئن جاری کی۔جن لبرل کمرشل نے امریکی تھنک ٹینک اور امریکی لبرل پریس میں نواز شریف کا اینٹی اسٹبلشمنٹ اور پرو لبرل امیج تعمیر کرنے کے لئے انتھک محنت کی ان میں نجم سیٹھی کا نام سرفہرست ہے۔اور اس بات کا غصّہ جنرل ضیاء الحق کی باقیات سے نواز مخالف دھڑے کو تھا جس کی بنا پہ نجم سیٹھی نواز شریف کے دور میں پراسرار طور پہ غائب کروائے گئے اور ان کی خوب حجامت کی گئی۔ایک طرح سے ان کی اس حجامت نے نجم سیٹھی کا بطور اینٹی اسٹبلشمنٹ ماسک اترنے سے بچا لیا۔
کیا یہ محض اتفاق تھا کہ دو ہزار دس سے دو ہزار بارہ کے دو سال کے دورانیہ میں نجم سیٹھی جو کہ اس وقت جنگ-جیو ميڈیا گروپ کے سب سے بلند آہنگ صحافی بنکر سامنے آئے تھے اچانک سے یہ دریافت کرلیا کہ پاکستان میں سعودی عرب کی تکفیری پراکسی،اور انتہا پسند تںظیم اہل سنت والجماعت کا سربراہ محمد احمد لدھیانوی سفیر امن ، اعتدال پسند ہے اور اس نے نہ صرف فرائیڈے ٹائمز میں لدھیانوی کا انٹرویو شایع کیا بلکہ اس کے بعد یکے بعد دیگرے احمد لدھیانوی جیو ٹی وی چینل کے پرائم ٹائم پروگراموں میں نمودار ہونے لگے۔
حامد میر ، طلعت حسین ، سلیم صافی سب نے لدھیانوی کی پروجیکشن میں ہاتھ بٹایا۔نجم سیٹھی نے سپاہ صحابہ کے بانی رکن ایک اور دیوبندی جہادی مولوی طاہر اشرفی کو بھی ایک ماڈریٹ مولوی کے طور پہ پیش کیا اور نجم سیٹھی کے ہی شاگرد رشید رضا رومی ایکسپریس ٹی وی چینل پہ طاہر اشرفی کے ساتھ ‘میں اور مولانا ‘ کے نام سے پروگرام کرنے لگے۔نجم سیٹھی کی جانب سے داعش و القاعدہ ، لشکر جھنگوی، جیش محمد سمیت جہادی تکفیری دیوبندی نیٹ ورک کی نظریہ ساز جماعت کے سربراہ کی پروجیکشن اور سافٹ امیج بناکر دکھانے کے عمل نے ایک بار پھر یہ حقیقت واشگاف کی کہ وہ نواز شریف کے کیمپ بیٹھا نجم سیٹھی نواز شریف کی حامی اسٹبلشمنٹ لابی کے لئے ہی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔
جیو پہ احمد لدھیانوی کے سافٹ امیج پہ مبنی انٹرویو کے سامنے آنے کے چند ماہ بعد نجم سیٹھی نے لدھیانوی کو اپنے ہفت روزہ جریدس فرائیڈے ٹائمز بلاگ میں سافٹ انٹرویو کا موقعہ فراہم کیا۔اس انٹرویو بلاگ میں کہیں بھی سیٹھی نے لدھیانوی کے موقف کو چیلنج نہیں کیا اور اس نے لدھیانوی کو اپنے ‘کافر ، کافر ۔۔۔۔۔شیعہ کافر ‘ کے نعرے کو معاشی حقوق کے سیاسی نعروں کے مساوی قرار دینے کی اجازت بھی دے ڈالی۔جب سوشل میڈیا پہ سیٹھی پہ تنقید ہوئی اور اسے کہا گیا کہ وہ القاعدہ کی فرقہ وارانہ نفرت کو فروغ دے رہا ہے لدھیانوی جیسوں کو پروموٹ کرکے تو اس نے جواب دیا:
“why don’t you do another interview (and leave me alone)” (refer to “Criticism on Ludhianvi’s interview in TFT: Najam Sethi & co shoot the messenger”)
دو ہزار تیرہ میں اس کی سربراہی میں قائم نگران حکومت نے کالعدم تنظیم اہلسنت والجماعت /سپاہ صحابہ پاکستان کے متعدد لوگوں کو رہا کردیا۔اور اس نے پنجاب کے اندر مسلم لیگ نواز اور اہلسنت والجماعت کے درمیان انتخابی اتحاد اور کم از کم 26 نشستوں پہ ایڈجسمنٹ کا راستا صاف کیا اور پنجاب کے اندر نواز شریف و شہباز شریف کی کامیابی کا راستا ہموار کیا۔نجم سیٹھی نگران وزیراعلی بننے میں اس لئے کامیاب ہوا کہ اس نے پاکستان پیپلزپارٹی کے اندر موجود لبرل کمرشل لابی کے زریعے سے پاکستان پیپلزپارٹی کو یہ باور کرایا کہ وہ پنجاب میں صاف شفاف انتخابات کی راہ ہموار کرے گا۔یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے جب نجم سیٹھی پنجاب کا نگران چیف منسٹر تھا تو اس وقت یہ سب ملکر افتخار چوہدری کے کیمپ میں براجمان تھے جس کے بھیجے گئے ریٹرننگ افسروں نے نواز شریف کی جیت ممکن بنائی۔اور جیو۔جنگ ميڈیا گروپ افتخار چوہدری کے بھونپو بنے ہوئے تھے۔
نجم سیٹھی نے پاکستان میں کرکٹ کی تباہی کی اور اس زریعے سے خوب مال کمایا۔کیا پاکستان کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں کبھی اس کے جرائم پہ اس کو احتساب کے کہٹرے میں لاپائیں گی؟
نوٹ : میں ریاض ملک کا شکر گزار ہوں کہ جن کی پوسٹ میں موجود مرکزی خیال نے مجھے یہ آرٹیکل لکھنے کی راہ سجھائی۔پاکستان میں لبرل کمرشل مافیا کے خلاف جنگ کوئی آسان کام نہیں ہے۔یہ لبرل کمرشل مافیا اپنے خلاف سرگرم ہونے والے لکھت کاروں کے خلاف بہت منظم طریقے سے کام کرتا ہے۔اس مافیا نے ہی خرم زکی کے خلاف ایک اشتعال انگیز مہم منظم کروانے میں اپنا کردار ادا کیا۔تعمیر پاکستان بلاگ کے خلاف تحریک طالبان پاکستان کو اکسانے کے لئے ایک مرتبہ اس نے اپنے پروگرام میں ‘طالبان خان ‘ کی اصطلاح کا موجد ‘تعمیر پاکستان بلاگ ‘ کو قرار دے ڈالا حالانکہ یہ اصطلاح بلاگ میں پہلی بار فیس بک سے لئے گئے میرے ایک آرٹیکل میں استعمال ہوئی تھی۔اس مافیا نے پاکستان میں شیعہ اور صوف سنّی نسل کشی کی ذمہ دار تکفیری فاشزم کے لئے اپالوجسٹ کے کردار کے طور پہ کام کرتے ہوئے غلط بائنری بنائی اور نسل کشی پہ پردہ ڈالا۔نجم سیٹھی کا ٹولہ بلوچ ایشو پہ اپنے آپ کو مزاحمت کار کے طور پہ پیش کرتا ہے لیکن اس کی جانب سے لدھیانوی ، رمضان مینگل ، ظہور شاہوانی جیسوں کی جماعت کی سافٹ امیجنگ بتاتی ہے کہ یہ اصل میں بلوچوں کی نسل کشی اور ان کے خلاف پراکسیز بننے والوں کے حامی ہیں۔لبرل کمرشل مافیا اور تکفیری ٹولے کا نظریہ ساز گروہ نواز شریف کیمپ کا ہراول دستہ ہے انھوں نے پنجاب میں جماعت دعوہ کو پنجاب حکومت کی جانب سے ملنے والی گرانٹس اور اس پہ لگی پابندی کو بے اثر بنائے جانے کے اقدام پہ آج تک ایک بھی تنقیدی سطر نہیں لکھی جس سے اس ٹولے کے اینٹی اسٹبلشمنٹ ہونے کی حقیقت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔