پارہ چنار میں دھماکے کیوں ہوتے ہیں؟ – محمد عامر حسینی
جون کی 23 تاریخ اور رمضان المبارک کا آخری جمعہ۔ پارہ چنار کے مصروف ترین بازار طوری مارکیٹ میں عید اور روزمرہ کی خریداری کرنے والوں کا رش بازار میں تھا۔پانچ منٹ پہلے اہل تشیع کے زیر اہتمام فلسطین کے عوام سے یک جہتی کے لئے بہت بڑا جلوس پارہ چنار کے بازاروں سے ہوتا ہوا یہاں سے گزرا تھا کہ ایک زوردار دھماکا ہوا،جس کے بعد چیخ و پکار مچ گئی اور لوگ زخمیوں کی امداد کو دوڑے تو 10 منٹ کے اندر دوسرا اس سے بھی زیادہ شدت کا بم دھماکا ہوا اور پھر بازار میں آگ لگ گئی۔دھویں کے بادل دور دور سے اڑتے دکھائی دیے۔
دھماکا اتنا شدید تھا کہ اس کا اثر 12 کلو میٹر کے دائرے تک محسوس کیا گیا۔اس دھماکے میں اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد بارے مختلف بیانات سامنے آئے ہیں۔فیس بک پہ بنے پارہ چنار کے ایک پیج پہ جاں بحق ہونے والوں کی جو لسٹ اپلوڈ کی گئی ہے اس کے مطابق( اس مضمون کو پوسٹ کیے جانے تک) 50 سے زائد لوگ جاں بحق ہوئے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد 250 بتائی جارہی ہے۔شیعہ اکثریت کی قبائلی ایجنسی کرم ایجنسی میں یہ بم دھماکے ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب اقوام متحدہ کے جنرل کونسل اجلاس میں پاکستان کی مقرر کردہ مندوب نے عالمی برادری کو یہ کہا ’دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے افغانستان کے باہر نہیں بلکہ اندر ہی ہیں‘۔اس دھماکے کے فوری بعد پاکستان فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ ٹویٹ میں کہا گیا کہ پارہ چنار اور کوئٹہ میں بم دھماکے سرحد پار سے آئے دشمنوں کی کارروائی ہیں اور عید پہ سکیورٹی انتظامات مزید سخت کئے جانے کا اعلان کیا گیا۔
پارہ چنار جوکہ کرم ایجنسی کا صدر مقام ہے اور اس شہر کی 99 فیصد آبادی شیعہ ہے جبکہ یہاں پہ بنگش اور طوری قبائل آباد ہیں۔ طوری سب شیعہ جبکہ بنگش قبیلے میں اکثریت سنی اور شیعہ تھوڑے سے کم ہیں۔پارہ چنار شہر خاص طور پہ شیعہ اکثریت کے علاقوں کو ٹارگٹ کرنے کے واقعات میں 2016ء کے وسط سے اضافہ ہونا شروع ہوا۔
اس علاقے کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ سال قبل اس شہر کے داخلی و خارجی راستوں کی سکیورٹی طوری اور بنگش قبائل سے بھرتی کیے جانے والے لوگوں پہ مشتمل کرم ملیشیا کے لوگوں کے پاس ہوتی تھی لیکن پھر کرم ملیشیا سے یہ سکیورٹی واپس لے لی گئی اور حفاظتی انتظام ایف سی کے حوالے کردیا گیا۔پارہ چنار سے ایم این اے ساجد طوری اور سینٹر سمیت پارہ چنار سے تعلق رکھنے والے طوری و بنگش قبائل کے اہم عمائدین و صحافی و سوشل ایکٹوسٹس کا کہنا ہے کہ کرم ایجنسی میں طوری اور بنگش قبائل سے اسلحہ واپس لے لیا گیا، جبکہ کوہاٹ ضلع کے علاقے کسئی جو کہ شیعہ آبادی کا علاقہ ہے ان کو بھی زبردستی غیر مسلح کیا گیا۔اسلحہ واپس لینے کی ایسی مہم کسی اور قبائلی ایجنسی میں دیکھنے میں نہیں آئی۔
پشتون سکالر اور پشتون قومی سوال پر حال ہی میں نئی کتاب لکھنے والی دانشور ڈاکٹر فرحت تاج نے مجھے بتایا کہ کوہاٹ انتظامیہ اور کرم ایجنسی کی پولیٹکل ایجنسی کے اہلکار اور ایف سی نے ان علاقوں میں ایسی جگہوں پر لوگوں کو غیر مسلح کرنے کی کوشش کی جو ایک طرف تو شیعہ آبادی کی اکثریت کے علاقے تھے تو دوسری طرف ان علاقوں پہ طالبان نے مسلسل حملے کیے تھے تاکہ ان علاقوں پہ طالبان کنٹرول کرسکیں۔’ایف سی، پولیٹکل ایجنسی اور کوہاٹ انتظامیہ کے اندر ایسے عناصر موجود ہیں جو اس علاقے میں شیعہ نسل کشی کی راہ ہموار کرنے میں ملوث ہیں اور اس کا براہ راست تعلق اس علاقے کی سٹریٹجک پوزیشن سے ہے‘۔
ڈاکٹر فرحت تاج نے ایک ای میل کے جواب میں مجھے بتایا کہ کرم ایجنسی سے براستہ جلال آباد تا کابل سب سے مختصر راستہ موجود ہے اور اس راستے پہ طالبان نے کنٹرول کی پوری کوشش کی ہے لیکن یہ کبھی ان کے کنٹرول میں نہیں آسکا۔ اس کی وجہ طوری و بنگش قبائل کی کامیاب مزاحمت ہے۔فرحت تاج نے اس بات کو اپنی نئی کتاب
‘The Real Pashtun Question: How To Control Religious Extremism, Misogyny And Pedophilia’
میں بہت تفصیل سے بیان کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ پارہ چنار کرم ایجنسی میں شیعہ نسل کشی کی تازہ لہر کا تعلق ان روابط سے ہے جو پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ، کئی ایک سیاسی اشراف زادوں اور ریڈیکل جہادیوں کے درمیان کافی عرصے سے مضبوط ہوئے ہیں۔’پارہ چنار میں ریڈیکل انتہا پسندی دیوبندی تنظیموں کی خون آشام کاروائیوں کا کامیابی سے ہوتے چلے جانا سکیورٹی آپریٹس میں ان کے سہولت کاروں کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے‘۔ان کی کتاب کا ایک باب
“Kurram: Resistance to Forced Sunnification”
ہے جس میں ڈاکٹر فرحت تاج کا فوکس کرم ایجنسی کو خطے کی مذہبی اور سوشیو پولیٹکل حرکیات کی متعدد پہلوؤں اور پیچیدگیوں پر ہے۔تاج بتاتی ہیں کہ کرم ایجنسی کی آبادی کے تین بڑے مذہبی حصّے ہیں:شیعہ، سنّی قبائل اور چھوٹی سی غیر مسلم آبادی۔’دوسری جنگ عظیم کے بعد پراسیکیوشن سے بچنے کے لئے اس ایجنسی میں شیعوں کی بڑی تعداد افغانستان سے فرار ہوکر یہاں آئی اور نام نہاد افغان جہاد کے دوران کئی سنّی افغان (زیادہ تر دیوبندی ریڈیکل ) بھی شیعہ اکثریت کے اس علاقے میں آباد ہوئے جنہوں نے یہاں پہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن کو خراب کرنے میں مدد دی‘۔
فرحت تاج کا کہنا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد اس علاقے میں شیعہ اور سنّی قبائل کے درمیان جو ہم آہنگی تھی، خاص طور پہ افغان جہاد کے دوران اس کا بتدریج خاتمہ ہوگیا اور تناؤ بڑھتا چلا گیا۔’پاکستانی ریاست کے اس وقت کے ذمہ داران نے جان بوجھ کر نہ صرف فرقہ وارانہ تناؤ کو نظر انداز کیا بلکہ اس کو بڑھاوا دینے میں سہولت کار کا کردار ادا کیا۔اس کا سبب افغانستان میں اپنے تزویراتی /اسٹریٹجک مقاصد کو پورا کرنا تھا ( کرم ایجنسی کا صدر مقام شہر پارہ چنار افغان دارالحکومت کے لیے اس سے مختصر ترین راستہ ہے)‘۔فرحت تاج الزام عائد کرتی ہیں کہ آئی ایس آئی نے خاص طور پہ کرم ایجنسی کو افغانستان میں سوویت افواج پہ حملوں کے لئے چنا۔’
سعودی عرب کی جانب سے بے تحاشا فنڈنگ کے ساتھ افغان جہاد مشن ( جس کی کرم ایجنسی کی اکثریت شیعہ آبادی نے مخالفت کی تھی ) نے ضیاء الحق کی قیادت میں ایسے آپریشن کو جنم دیا جس نے پرتشدد اور جبری طور پر تزویراتی مقاصد کی خاطر شیعوں کو بے دخل اور ان علاقوں میں دیوبندی سنی مہاجرین کی آبادکاری کو ممکن بنانے کا عمل شروع کیا۔‘فرحت تاج کا کہنا ہے کہ شیعہ رکاوٹ کو نکال باہر کرنے کی اس ڈیموگرافک تبدیلی ’تزویراتی گہرائی‘ کی پالیسی کے لیے تیار کیے جانے والا گراؤنڈ ورک تھا۔’مقامی تنازعات کو بتدریج فرقہ وارانہ تصادم میں بدل دیا گیا جو کہ اب تک جاری ہیں‘۔
فرحت تاج کہتی ہیں کہ کرم ایجنسی کے لوگوں میں اس بات پہ اتفاق ہے کہ فرقہ وارنہ تشدد تزویراتی گہرائی کے مقاصد اور طالبان کے لیے ایجنسی میں محفوظ ٹھکانوں کے قیام کا براہ راست نیتجہ ہیں جبکہ پاکستان آرمی نے پرتشدد تصادموں کے دوران طالبان کی کھل کر سپورٹ کی تاکہ آئی ایس آئی کی سب سے خطرناک ہلاکت خیز پراکسی ’حقانی طالبان نیٹ ورک‘ جس نے سنی اکثریت کے علاقوں ميں شیعوں کی نسلی صفائی کا کام سرانجام دیا تھا کے لیے رستہ آسان کیا جاسکے۔’حقانی کا خاندان پشاور اور راولپنڈی کے علاقوں میں آزادی سے رہ رہا ہے اور وہ کرم ایجنسی میں شیعہ نسل کشی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے‘۔
فرحت تاج کا کہنا ہے کہ ماضی میں کرم ایجنسی کے شیعہ قبائل نے علاقے کو زبردستی ’تکفیری جہادی دیوبندیائے‘ جانے کے خلاف بہادرانہ مزاحمت دکھائی ہے اور اب بھی وہ ان علاقوں میں حقانی نیٹ ورک سمیت طالبان کو بسائے جانے کے منصوبے کے سخت خلاف ہیں اور حالیہ دہشت گردی کی لہر اور حملوں کا اس مزاحمت سے براہ راست تعلق بنتا ہے۔’سخت حفاظتی انتظامات‘ کے باوجود پارہ چنار طوری بازار میں پے درپے ہوئے دو بم دھماکوں کے بعد ایک بار پھر پارہ چنار کے رہنے والے عوام و خواص کی جانب سے سکیورٹی کے ذمہ دار اداروں کی کارکردگی پہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔لوگوں کا کہنا ہے کہ انتہائی سخت سکیورٹی کے باوجود بھرے بازار تک دہشت گردوں کا 25 کلوگرام بارودی مواد کے ساتھ گھس جانا اور بم دھماکے کرنے میں کامیاب ہوجانا کیسے ممکن ہوا؟
مجھے پارہ چنار کے رہائشی تعلیم یافتہ نوجوان شفاعت طوری نے بتایا کہ 31 مارچ 2017ء کو خواتین کی امام بارگاہ کے سامنے ہوئے بم دھماکے کے بعد ایف سی اور پاکستان آرمی نے شہر کے باہر شہر میں داخلے کو آسان بنانے والے راستوں پہ خندقیں کھود دی تھیں اور شہر تک رسائی کی آسان اور ہر ممکن جگہ کو مکمل طور پہ بند کردیا تھاجبکہ کل 12 چیک پوسٹیں قائم کی گئیں جن میں 10 شہر کے داخلی و خارجی راستوں پر اور دو شہر کے اندر موجودہیں۔اس انتظام کے بعد پورا شہر محاصرے کی کیفیت میں نظر آتا ہے۔پارہ چنار کے شہریوں کا کہنا ہے کہ شہر میں داخلے کے لیے کم از کم 20 جگہوں پر جامہ تلاشی دینا ہوتی ہے اور جدید ترین آلات سے ہر گاڑی کو چیک کیا جاتا ہے۔
جمعہ کی شب پارہ چنار شہر میں انٹری 12 بجے مکمل طور پہ بند کردی گئی تھی لیکن اس سب کے باوجود بارودی مواد پارہ چنار تک نہ صرف سمگل ہوا بلکہ اسے پھاڑنے میں بھی کامیابی حاصل ہوئی۔پارہ چنار میں پاکستان پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، عمائدین طوری و بنگش قبائل، ایم این اے و سینٹر حضرات کا موقف ہے کہ ان کی جانب سے بارہا دھرنوں، احتجاج اور کئی بار ایف سی کمانڈنٹ، پولیٹکل ایجنٹ سے مذاکرات کے دوران یہ مطالبہ کیا گیا کہ کرم ملیشیا کو چیک پوسٹوں پہ واپس تعینات کیا جائے اور ایف سی کی طرف سے ان چیک پوسٹوں پہ ڈیوٹی دینے والے اہلکاروں کا تعلق بھی کرم ایجنسی کے طوری و بنگش قبائل سے ہی ہونا چاہئیے لیکن یہ مطالبہ تاحال نہیں مانا گیا۔
بقول ان کے ایف سی کے غیر مقامی افسران و اہلکاروں کا پارہ چنار کے لوگوں سے رویہ بھی انتہائی معاندانہ ہے۔عائشہ بنگش جو کہ پولیٹکل سائنس کی استاد ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ان سمیت کرم ایجنسی کا ہر باسی یہ سمجھتا ہے کہ کرم ایجنسی میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں اضافے کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق کرم ملیشیا کو پارہ چنار کے داخلی و خارجی راستوں پہ بنی چیک پوسٹوں سے ہٹانے اور طوری و بنگش قبائل سے اسلحہ واپس لینے سے بنتا ہے کیونکہ اس کے بعد ہی ان حملوں میں شدت پیدا ہوئی ہے۔