یمن دنیا کے سب سے بڑے انسانی المیہ کا شکار ہے۔دنیا تماشائی بنی ہوئی ہے – عامر حسینی

چھے سالہ سلام عبداللہ پورٹ سٹی حودیدہ یمن میں ہسپتال کے انتہائی نگہداشت سنٹربرائے مریضان کمی خوراک میں زیر علاج ہے۔۔۔فوٹو اے ایف پی

ریاض کانفرنس کے بعد سے اکثر تجزیہ نگار یہ سوال اٹھارہے تھے کہ سعودی عرب نے امریکی صدر ٹرمپ سمیت دنیا بھر کے ممالک سے لوگ ریاض اکٹھے کیوں کئے تھے؟ٹرمپ کو اربوں روپے کے تحائف دئے جانے اور اربوں ڈالر کی اسلحہ ڈیل کرنے کا مقصد کیا تھا؟امریکی صدر نے بھی ریاض میں سارا فوکس ایران پہ رکھا اور مین سٹریم میڈیا و سوشل میڈیا پہ بھی ایک دم سے بحث ایران۔سعودی فریم ورک میں ہی ہوتی رہی اور ابتک صورت حال یہی ہے۔لیکن اس دوران سعودی عرب کے یمن میں کئے جانے والے جنگی جرائم اور انسانیت کا جنازہ نکالے جانے کا جو ایشو ہے وہ سرے سے دب کے رہ گیا۔مڈل ایسٹ آئی سمیت دنیا بھر میں متبادل میڈیا کے طور پہ کام کرنے والی خبررساں ایجنسیوں نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا ہے کہ ایک کروڑ 70 لاکھ لوگ یمن میں خوراک کی شدید کمی کا شکار ہیں۔

اور اسی وجہ سے عمان کی حکومت نے کہا ہے کہ کسی بڑے انسانی المیہ سے بچنے کے لئے یمن میں ‘امن معاہدہ’ بہت ضروری ہے۔سعودی عرب اور اس کے اتحادی اپنی دولت کے بل بوتے پہ یمن میں ابھرنے والے انسانی المیے سے عالمی برادری کے بڑے اور طاقتور کھلاڑیوں کی نظریں ہٹانے میں کوشاں ہے۔عالمی مغربی طاقتور مین سٹریم میڈیا یمن کے انسانی المیہ کی نہ ہونے کے برابر کوریج کررہا ہے۔اور وہ اس المئے کے ماسٹر مائنڈ بارے بھی اپنی عوام کو بے خبر رکھے ہوئے ہے۔یمن پہ سعودی فوجی اتحاد کی جنگ ایک بہت بڑے انسانی بحران کا سبب بنی ہے۔یمن میں ہیضے کی وباء ،سب سے بڑے غذائی بحران کی پیدائش اور یمن کی بطور ریاست مکمل تباہی باقاعدہ منصوبہ بند اقدامات کا نتیجہ ہے۔

“یمن مکمل تباہی کے دہانے پہ کھڑا ہے، اس کے لوگ جنگ،قحط ، ہیضے کی ہلاکت خیز پھوٹ پڑنے والی وبا کا سامنا کررہے ہیں اور دنیا تماشا دیکھ رہی ہے”،یہ الفاظ یو این ایڈ چیف کے ہیں جو انہوں نے 29 مئی،2017ء کو یو این ایڈ چیف کے ہیں۔

یو این انڈر سیکرٹری فار ہیومنٹیرین افئیرز سٹیفن او برائن نے سیکورٹی کونسل میں خطاب کرتے ہوئے کہا:
” اب وقت آگیا ہے کہ “دنیا کی سب سے بڑی فوڈ ایمرجنسی کا خاتمہ ہو اور یمن کو واپس بقاء کی جانب لایا جائے۔بحران آنہیں رہا ،یہ منڈلا نہیں رہا ،بلکہ یہ آچکا ہے۔ہم تماشہ دیکھ رہے ہیں اور عام آدمی اس کی قیمت چکا رہے ہیں۔یمن کی عوام محرومی، بیماری اور موت کا شکار ہیں جبکہ دنیا تماشا دیکھ رہی ہے۔یہ بحران مکمل سماجی،معاشی اور انسٹی ٹیوشنل تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے۔”

اس کے یہ جملے سیکورٹی کونسل کی یمن میں جنگ لڑنے والوں کو امن پہ آمادہ کرنے اور جنگ سے روکنے میں ناکامی سے پیدا ہونے والی فرسٹریشن کا اظہار ہیں۔اب تک سیکورٹی کونسل فریقین کو بامقصد مذاکرات کی میز پہ بٹھانے میں ناکام رہی ہے۔کیونکہ سعودی عرب اور اس کے حمایت یافتہ یمنی گروپ سابق یمنی صدر کو ہر حال میں یمن کی حکومت سونپنے پہ مصر ہیں۔

ابتک آٹھ ہزار سے زائد یمنی باشندے سعودی اتحاد کی جانب سے فوجی مہم کے نتیجے میں مارے جاچکے ہیں۔سعودی عرب نے یمن میں حوثی قبائل اور سابق یمنی صدر صلح عبداللہ کے حامیوں کے خلاف فضائی ملے 2015ء میں شروع کئے تھے اور یمن کی فضائی و ساحلی ناکہ بندی بھی کردی گئی تھی۔سعودی عرب اور اس کے اتحادی یمن کے دارالحکومت صنعاء پہ قابض حوثی قبائل پہ ایران سے مدد لینے کا الزام عائد کرتے ہیں جبکہ زمینی ، سمندری و ہوائی ناکہ بندی یمن کی ہے۔اس جنگ نے ایک کروڑ 70 لاک لوگوں کو شدید خوراک کی کمی کا شکار کررکھا ہے۔جبکہ ان میں 70 لاکھ یمنی باشندے قحط کا شکار ہوچکے ہیں۔یمن ایک ایسا ملک ہے جس کا بہت بڑا انحصار امپورٹ فوڈ پہ ہے۔

اپریل 2017ء سے ہیضہ کی وبا پھوٹ پڑی ہے اور 1500 افراد اس سے ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ 55206 یمنی جن میں ایک تہائی بچے ہیں بیمار ہیں۔یہ اقوام متحدہ کے فراہم کردہ اعداد و شمار ہیں۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اگلے 6 ماہ میں ہیضے کے ڈیزھ لاکھ کیسز متوقع ہیں۔

او برائن کا کہنا ہے کہ جب سے سعودی حمایت یافتہ حکومت نے سنٹرل بینک کو صنعاء سے عدن منتقل کیا ہے تب سے دس لاکھ سے زیادہ سرکاری ملازمین کو تنخواہ نہیں ملی ہے،اور اس سے اور زیادہ خاندان بھوک کی جانب منتقل ہورہے ہیں۔

اس کا کہنا تھا کہ سعودی فوجی اتحاد نے باغیوں کے قبضے میں موجود حدیدہ بندرگاہ پہ جو فضائی حملے کئے ہیں جو کہ یمن میں امپورٹ کے لئے لائف لائن بندرگاہ کا درجہ رکھتی ہے اس سے ایک تو خوراک لیکر آنے والے جہازوں کی کلئیرنس میں دیر لگ رہی ہے تو دوسرا اس سے تاجروں کا اعتماد کمزور پڑا ہے۔

یو این ایڈ چیف کا کہنا ہے کہ لاگت میں اضافے کے سبب بڑی بحری جہاز کمپنیاں اب بحیرہ احمر کا رخ کرنے سے گریزاں ہیں اور اس طرح یمنی عوام کو انتہائی اشد ضرورت کی چیز یعنی فیول اور خوراک دونوں دستیاب نہیں ہیں۔

یو این ایلچی اسماعیل احمد کا کہنا ہے کہ متحارب فریقین میں مذاکرات کی بحالی اور کسی ڈیل پہ پہنچنے کے امکانات ابھی تک واضح نہیں ہیں اور نہ ہی حودیدا پورٹ کے زریعے سے خوراک اور تیل کی فراہمی کا معاملہ حل ہوسکا ہے۔

اسماعیل نے یو این سیکورٹی کونسل کو بتایا،”میں اس کونسل سے یہ چھپانا نہیں چاہوں گا کہ ہم اب تک کسی ٹھوس معاہدے کے قریب نہیں پہنچے ہیں۔

گزشتہ ہفتے 22 انٹرنیشنل اور یمنی انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے اور امدادی خدمات سرانجام دینے والے گروپوں بشمول سیو دی چلڈرن،دی انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی اور آکسفیم نے یمن بارے خطرے کا الارم بجایا تھا۔انہوں نے یو این سلامتی کونسل اور خاص طور پہ برطانیہ جوکہ یواین سیکورٹی کونسل میں یمن کے معاملے پہ سب سے زیادہ بول رہا ہے سے کہا تھا کہ وہ یمن پہ اپنی بے عملی اور خاموشی کا خاتمہ کرے۔اور فیصلہ کن اقدام اٹھائے کیونکہ یمن کا انسانی بحران اب دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران بن چکا ہے۔

اسی دوران یہ بات سامنے آئی کہ عمان یمنی صدر عبد ربہ منصور ہادی کی حکومت اور حوثی مخالفین کے درمیان یو این کے ایک منصوبے برائے بحالی مذاکرات در یمن کے لئے ثالثی کا کردار ادا کررہا ہے۔سرکاری عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ بتایا کہ سعودی حمایت یافتہ یمنی حکومت کے وزیر خارجہ عبدالمالک المخلافی مقسط میں عمان کی دعوت پہ تھے اور انہوں نے حوثی قبائل سے مذاکرات کی بحالی کے ممکنہ راستوں پہ غوروخوض کیا۔

یو این کا یمن میں امن کے لئے خصوصی منصوبہ یو این کے خصوصی ایلچی اسماعیل شیخ احمد نے گزشتہ ہفتے اپنے دورے کے دوران پیش کیا،اس منصوبے میں حودیدہ کی بندرگاہ ایک نیوٹرل تھرڈ پارٹی کے حوالے کئے جانے کی تجویز بھی شامل ہے۔جبکہ صنعاء ائرپورٹ کو سویلین ٹریفک کے لئے کھول دینے اور سول سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔

عمانی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے یمنی وزیرخارجہ کو بتادیا ہے کہ حوثی اس منصوبے کو قبول کرنے کو تیار ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ پہلے سول سرکاری ملازموں کو تنخواہیں ادا کی جائیں۔

سعودی حمایت یافتہ حکومت کے ایک سرکاری عہدے دار کا کہنا ہے کہ اختلاف حوددہ کو تیسری پارٹی کے حوالے کرنے پہ ہے کہ وہ کون ہوگا جسے تھرڈ پارٹی کے طور پہ دونوں کیمپ قبول کرلیں ۔

عمان حوثی قبائل سے اچھے تعلقات رکھتا ہے جنھوں نے 2014ء میں صنعاء پہ قبضہ کرلیا تھا اور ہادی کو سعودی عرب 2015ء میں فرار ہونے پہ مجبور کردیا تھا۔گلف عرب ریاست عمان نے اس سے پہلے ایران اور امریکہ کے درمیان بھی ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔

نے حودیدہ بندرگاہ پہ حملہ کرنے کی دھمکی دی تھی تاوقتیکہ حوثی قبائل اس بندرگاہ کو کسی تھرڈ پارٹی کے حوالے کرنے پہ رضامند نہیں ہوجاتے۔جواب میں حوثی قبائل نے مطالبہ کیا تھا کہ سعودی فوجی اتحاد جو اس وقت یمن کی فصائی حدود کنٹرول کررہا ہے وہ صنعاء ائرپورٹ کو دوبارہ کھولنے اور سنٹرل بینک کو دوبارہ کام کرنے کی اجازت دے جسے صدر ہادی صنعاء سے عدن لےجاچکا ہے۔اور سول ملازمین کو تنخواہیں دینے میں دقت کا سامنا ہے۔

(اس مضمون کی تیاری میں رائٹر،مڈل ایسٹ آئی، اے ایف پی سمیت کئی نیوز ایجنسیوں اور اخبارات کی آفیشل ویب سائٹس سے مدد لی گئی)

Comments

comments