اسرائیل زادے تاریخ کی آنکھوں میں جوتوں سمیت گھستے ہیں – حیدر جاوید سید

اوریا مقبول جان ان سابق بیوروکریٹس میں شامل ہیں جنہیں ملازمت کے آخری چند سالوں کے دوران رجوع اسلام کا دورہ شدت سے پڑتا ہے۔ مناسب طبیب نہ ملنے یا اپنے رجوع کو کامل و افضل سمجھنے کی وجہ سے ہمارے محترم ڈاکٹر صفدر محمود کی طرح تاریخ کی آنکھوں میں جوتوں سمیت گھسنے کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ اوریا جھوٹ اس تواتر کےساتھ بولتے ہیں کہ آج اگر ہٹلر کے وزیر اطلاعات گوئبلز زندہ ہوتے تو انہیں اپنا مشیر خاص بنا لیتے۔ اس منصب کے لئے ان کے پاس ایک نہیں دو اہلیتیں ہیں۔ اولاََ یہ کہ دو واسطوں سے ان کا رشتہ بنی اسرائیل سے جا ملتا ہے۔

ثانیاََ یہ کہ موصوف تعلیم حاصل کرنے بلوچستان گئے پھر بلوچستان کے جعلی ڈومیسائل پر سرکار کے ملازم ہو گئے۔ پوری مدت ملازمت کے دوران بیوروکریسی کے وفادار کل پرزے کے طور پر “نوکری” کی۔ ان کا تفصیلی تعارف بمعہ شجرہ اور دو نمبریاں لکھا جاسکتا ہے مگر فی الوقت ہم ان کے اس کالم پر بات کرتے ہیں جو انہوں نے روزنامہ “92 نیوز” لاہور 28 اپریل کی اشاعت کے ادارتی صفحہ پر “کہ روح شوق بدن کی تلاش میں ہے ابھی” کے عنوان سے لکھا ہے۔ کالم انہوں نے ایران کے آئندہ صدارتی انتخابات کے حوالے سے لکھا مگر اسی کالم کو گھسیٹ کر وہ 33 سال پیچھے 5 جولائی 1986 کے سانحہ کوئٹہ تک لے گئے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ “5 جولائی 1986 کو کوئٹہ میں ایرانی انقلاب کے متاثرین نے اپنی مدد آپ کے تحت انقلاب کی آرزو میں تڑپتا ہوا جلوس نکالا۔ اس جلوس کا پولیس سے ٹکراؤ ہوا۔ مظاہرین اور پولیس کی لڑائی میں ایک حاضر سروس فوجی کپتان لودھی مظاہرین کی قیادت کر رہا تھا۔

مظاہرین نے 11 پولیس اہلکار قتل کیے پھر ان کے سر کاٹ کر بجلی کےکھمبوں پر لٹکا دیئے۔ بعد ازاں آرمی آئی جس نے آپریشن کیا۔ اس میں کپتان لودھی وغیرہ مارے گئے یوں پاکستان میں ایرانی انقلاب درآمد کرنے کی آرزو دم توڑ گئی”۔شیعہ مسلمانوں سے دشمنی اوریا کے خمیر میں شامل ہے۔ تاریخ کو وہ اپنے آباؤ اجداد کی طرح اس شوق سے مسخ فرماتے ہیں کہ شیطان بھی پریشان رہتا ہے۔

5 جولائی 1986 کے سانحہ کوئٹہ کے ذمہ دار مقامی شیعہ نہیں بلکہ انجمن سپاہ صحابہ کے وہ 9 کارکن تھے جو اپنے دو پولیس اہلکار ساتھیوں سمیت پولیس کی وردیاں پہن کر جلوس پر حملہ آور ہوئے۔ یہ سارے مسلح دہشت گرد جلوس کے راستے میں آنے والی عمارتوں کی چھتوں پر مورچے بنا کر گھات لگا ئے ہوئے تھے۔ ثانیاََ یہ کہ 5 جولائی 1986 کا جلوس ایران کے انقلاب کی حمایت یا پاکستان میں انقلاب کے لئے نہیں نکلا بلکہ جولائی 1980 میں اسلام آباد میں زکوٰۃ کے مسئلہ پر دیئے گئے دھرنے کے دوران شہید ہونے والے ایک کارکن کی برسی کے موقع پر نکالا گیا تھا۔ بعد ازاں تحقیقات کے دوران متعدد پولیس افسران نے تسلیم کیا تھا کہ پولیس کی وردی میں مرنے والے 11 افراد میں سے پولیس اہلکار صرف 2 ہیں۔ 9 افراد انجمن سپاہ صحابہ کے کارکنان تھے۔

مجھے نہیں معلوم کہ 33 سال قبل کے ایک سانحہ کو اپنی تربیت اور فطرت کے عین مطابق مسخ کر کے من گھڑت باتیں لکھنے سے انہیں کیا حاصل ہوا ہو گا البتہ دو واسطوں سے یہودیوں سے اپنی رشتہ داری کا حق ادا کرتے ہوئے وہ مسلم تاریخ کے چند یہودی زادوں کی طرح روایات گھڑ تے اور تاریخ کو مسخ کرتے ہیں۔ 5 جولائی 1986 کے برسی کے جلوس کی قیادت حجتہ السلام آقائے یعقوب توسلی اور حجتہ السلام آقائے محمد جمعہ اسدی کر رہے تھے۔ یہ دونوں بزرگ کتنے بڑے دہشت گرد ، عسکریت پسند اور قبضہ گیر ہیں کوئٹہ والے اچھی طرح جانتے ہیں۔ انجمن سپاہ صحابہ کے دہشت گردوں کو جو پولیس وردیاں پہنے ہوئے تھے اوریا مقبول جان کیوں پولیس والا ثابت کرنا چاہتے ہیں یہ وہ جانتے ہوں گے البتہ ایک صحافی کی حیثیت سے میں انہیں چیلنج کرتا ہوں کہ وہ کوئٹہ پولیس کے ریکارڈ سے 11 پولیس اہلکاروں کی دھرنے کے دوران اموات اور متاثرہ خاندان ثابت کریں۔

اوریا مقبول جان پاکستان میں وہابی دہشت گردی کی علامت داعش کے ترجمان بنے پاکستانی سماج کے دو بڑے طبقات سنی و شیعہ کے درمیان نفرتیں بونے میں مصروف ہیں تاکہ جب داعش کا پاکستان چیپٹر عملی کام شروع کرے تو وہ “شرعی اور روحانی وجد” حاصل کر سکیں۔ مسلم تاریخ کے کجوں سے آگاہ دوست اچھی طرح ان یہودی زادوں کو جانتے ہیں جنہوں نے اسلام میں اسرائیلیات کی ملاوٹ کر کے اسلامی تاریخ اور تعلیمات کو مسخ کیا۔اپنے پرکھوں کی روحوں کو خوش کرنے کے لئے اوریا جھوٹ کی فیکٹری چلا رہے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس کا جھوٹ اس اخبار میں شائع ہوا جس کے ایڈیٹر ایک معروف صوفی سنی خاندان کے ممتاز صحافی سید ارشاد احمد عارف ہیں۔ 92 نیوز میڈیا گروپ کے مالکان کا دعویٰ ہے کہ وہ خاندنی طور پر صوفی سنی اور اعتدال پسند ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ انہوں نے اوریا جیسے اسرائیل زادے کو تاریخ مسخ کرنےکے لئے بھرتی کر رکھا ہے۔

فقیر 92 میڈیا گروپ مالکان اور ایڈیٹر ارشاد احمد عارف سے توقع کرتا ہے کہ وہ اپنے میڈیا گروپ کو پاکستان میں داعش کا ترجمان اور اسرائیلیات کے احیا کا علمبردار بنانے والوں سے فاصلے پر رکھے گا۔ خود عالی جناب اسرائیل زادے اوریا مقبول جان کی خدمت میں عرض ہے کہ تاریخ کی آنکھ میں جوتوں سمیت گھسنے کی کوششیں انہیں رسوائیوں کے سوا کچھ نہیں دے پائے گی۔ پاکستان کسی نجدی ، تورانی یا مصری کے باپ کی جاگیر نہیں یہ پاکستانیوں کا مادر وطن ہے۔

Comments

comments