ان دلدلوں کو صاف کرو جو خالد مسعود جیسے دہشت گرد پالتی ہیں – عامر حسینی
لندن دہشت گردانہ حملے کے حوالے سے میری ایک برٹش دوست سے بات چیت ہورہی تھی۔اس نے بہت ہی زبردست بات میرے سامنے رکھی۔میں مجبور ہوں کہ اس کی بات کو اپنے پڑھنے والے دوستوں تک پہنچاؤں۔اس کا کہنا یہ ہے: دہشت گرد جس نے یہ حملہ کیا اس کے بارے میں ہمیں یہ پتا چل گیا ہے کہ اس کا پہلے نام اڈرین اجاؤ تھا اور وہ دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہوئے جب مارا گیا تو اس کا نام خالد مسعود کے طور پہ سامنے آیا۔وہ کئی پرتشدد جرائم میں ملوث رہا اور اسے بارہا جیل جانا پڑا۔ہمیں یہ پتا نہیں ہے کہ وہ مسلمان کب ہوا؟ہمیں حملے کے وقت یا مجموعی طور پہ اس کی ذہنی حالت بارے علم نہیں ہے۔ہم یہ بھی یقین سے کہہ نہیں سکتے کہ اس کا یہ انفرادی فعل تھا یا اس کے پیچھے کوئی بین الاقوامی معروف دہشت گرد گروپ تھا۔ہم یہ بات تو یقینی جانتے ہیں کہ اس سارے واقعے میں وہ خود اور چار دوسرے لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے جبکہ 50 زخمی ہوگئے۔
جو معلومات اب تک سامنے آرہی ہیں ان سے اس واقعے کی 2013ء میں ہی رائل آرٹلری کی بیرکوں کے باہر فیوزلر لی رگبی کے دہشت گرد حملے سے مشابہت بہت ہے۔جیسے خالد مسعود نے اپنی گاڑی لوگوں پہ چڑھادی ایسے ہی رگبی نے اپنی کار چڑھادی تھی اور لوگوں کو خنجر مارکر موت کے گھاٹ اتارا۔رگبی کے کیس میں بھی یہی تھا کہ وہ نو مسلم تھا اور اس سے پہلے وہ ایک انتہائی عدم توازن کی زندگی گزار رہا تھا۔اور یہاں افسوسناک امر یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کو سکون و توازن کے لئے مذہب کے جس رنگ کو اختیار کیا وہ بھی زھر سے ہی بھرا ہوا تھا۔برطانیہ کے شہروں کی گلیوں میں اسلام کے نام پہ زیادہ تر جو مذہبی شناخت جڑ پکڑ رہی ہے وہ بہت گنجلگ جڑوں کی حامل ہے۔اس کی جو تھیالوجیکل /مذہبی ۔الہیاتی بنیادیں ہیں وہ دیوبندی ازم میں پیوست ہیں۔ برمنگھم، لیوٹن اور لندن کے کچھ اور علاقوں میں تارکین وطن کی دوسری نسل کے لئے اینٹی ماڈرن، اینٹی برٹش مذہبی نکتہ نظر ایک مخلوط ثقافتی شناخت کے ساتھ گھل مل گیا ہے اور اس ثقافتی شناخت کی جڑیں سفید فام برٹش اور بلیک ورکنگ کلاس شناختوں میں پیوست ہے۔
ہم لندنی لب و لہجے کے ساتھ آدمیوں کو جو کہ برصغیر کے لوگوں جیسے لباس پہنتے ہیں اور اپنی تقریر میں عربی کو لیکر آتے ہیں تو ان کا مقصد خود کو ایک مستند مسلمان ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ان کو ہم سوشل میڈیا اور گلی کے نکڑ پہ پاسکتے ہیں جب وہ دوسروں کی اخلاقیات ٹھیک کرانے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں اور ان کی رائے انتہائی جارحانہ جہادی پن سے لتھڑی ہوتی ہے۔وہ کمتر بنادئے گئے /مارجنلائزڈ، ناراض ، سابقہ سزا یافتہ مجرموں اور نشے کے عادی لوگوں کو اپنی طرف بلاتے ہیں۔بڑے شہروں کا کچرا بن جانے والے لوگوں اور ایک بڑی ہجرت کے نتیجے میں بڑے شہروں کا رخ کرنے والے پناہ گزینوں کو اپنی ریڈیکل فکر سے لبھاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ایسے ہی لوگوں کی طرح خالد مسعود بھی تھا۔
پہلے سے ہی مابعد کالونیل بے دخلی ،سماجی کمتری اور مذہبی طور پہ ابھارے گئے مسترد کرنے کی سوچ سے مغلوب آمیزے کے ساتھ جب ایسے لوگ وہابی ازم اور اس کے سپانسر سعودی عرب و دیگر گلب ریاستیں کی مداخلت کاری مل جاتی ہے تو پھر ایسے ہی حادثے رونما ہوا کرتے ہیں۔
گزشتہ چالیس سالوں میں گلف اور سعودی پیسہ برٹش دیوبندی انسٹی ٹیوٹس کے اندر آیا اور زیادہ سے زیادہ سخت گیر مولوی یہاں پہ تربیت پائےاور اس وجہ سے متحمل مزاج اور برداشت پہ مبنی رویوں کو جنھوں نے اور زیادہ دیوار سے لگایا۔ایک اندازے کے مطابق برطانیہ میں 40 فیصد مساجد دیوبندی ہیں اور جب تک سعودی فنڈنگ آرہی ہے اس وقت تک یہاں پہ اصلاح کی کوئی کوشش کارآمد نہیں ہوگی بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوگا۔
بی بی سی نے دیوبندی ازم سے پھیلنے والی انتہا پسندی پہ دستاویزی فلم بنائی ہیں۔لیکن برٹش حکومت کو اسلحہ پروگرام کے لئے سعودی رقم درکار ہوتی ہے تاکہ زندہ رہا جاسکے۔خالد مسعود ایک تربیت یافتہ دہشت گرد نہیں لگتا۔اور اس کا یہ عمل براہ راست کسی معروف تنظیم کا اقدام بھی نہیں لگتا۔لیکن یہ بھی نہیں ہے کہ وہ اس حوالے سے تنہا ہی تھا۔دہشت گرد گروپوں کی یہ حکمت عملی رہی ہے کہ وہ لوگوں کو آزادانہ طور پہ خود ہی دہشت گردانہ اقدام پہ اکساتے اور ابھارتے رہتے ہیں اور یہ کم خطرات ، کم قیمت کے زریعے بڑے پیمانے پہ خوف پیدا کرنے کا طریقہ ہے۔اس سے مسلمانوں کے خلاف سخت رد عمل ہوتا ہے اور خود مسلمانوں میں خوف کی فضا جنم لیتی ہے۔لیکن خالد مسعود جیسے لوگوں کو دہشت گردی پہ اکسانے کے لئے ان کی پہلے سے موجود جرم پسند ،متشدد فطرت کو اسلام کے نام پہ دہشت گردی کی طرف موڑنے کے لئے مسلسل ان کو تبلیغ کرنا پڑتی ہے۔
یہ تبلیغ اور بھاشن ان کو مسجد اور مسجد سے باہر ملتا رہتا ہے۔اور یہ تبلیغ دیوبندی ازم،وہابی ازم اور سلفی ازم کے عسکریت پسند مکسچر۔آمیزے کے ساتھ دی جاتی ہے جس کا اثر پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔اور اس کے پھیلاؤ کی بہت سی وجوہات ہیں۔سماجی کمتر بنایا جانا /سوشل مارجنلائزیشن،سعودی پیسہ اور برطانوی حکومت کا یہ ماننے سے انکار کہ اس کا سب سے قریبی اتحادی اور بہتر گاہگ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا سب سے بڑا سپانسر ہے جیسی چند ایک وجوہات ہیں۔لیکن سب سے بڑی وجہ مسلمانوں میں ایک نظام عقائد کے باب میں اس شکل کے بارے میں خاموشی اور بے حسی ہے جوکہ ہم سب کو ڈراتی اور عدم برداشت کے ساتھ ہم سے پیش آتی ہے۔
اگر ہم نے اس جھوٹے تفوق ، تعصب کے رویوں کے خلاف فیصلہ کن قدم نہ اٹھایا جوکہ مسلمان کمیونٹی میں عام ہوتی جارہی ہے تو وہ دلدلیں جو کہ خالد مسعود جیسے لوگ پیدا کرتی ہیں وہ ان کو جنم دینا جاری رکھیں گی اور یہ جمہور مسلمان ہوں گے جن کو اس سب کے خوفناک نتائج بھگتنے پڑیں گے