شام : مغرب و آل سعود کے حامی دہشت گرد شامی مسیحیوں کی نسل کشی میں ملوث ہیں ۔ یاسمین
انٹرویو : سارہ عبید
ترتیب و ترجمہ : مستجاب حیدر
سارہ عبید شامی نژاد امریکی صحافی اور سوشل ایکٹوسٹ ہیں،وہ گلوبل ریسرچ،منٹ پریس نیوز سمیت درجنوں نیوز ویب سائٹ پہ لکھتی ہیں۔حال ہی میں ان کی شام میں آرتھوڈوکس کتھولک کرسچن پہ بشار الاسد حکومت کے مخالف مغرب و سعودی عرب کی حمایت یافتہ دہشت گرد تنظیموں کے مظالم بارے ایک خصوصی رپورٹ مختلف جرائد میں جاری ہوئی۔
سارہ کا کہنا ہے
ہم سے بہت سے مقصد زندگی ،کسی چیز بارے ہماری تلاش کے جذبے بارے سوچ بچار کرتے اور اس کے مطابق عمل کرتے گزار دیتے ہیں۔کئی سالوں کے بعد مجھے بھی اپنی زندگی کا مقصد مل گیا۔شام کے لوگ اپنے اوپر مسلط کی جانے والی جنگ کے دنوں میں زندگی گزارتے اور اپنی بپتا سناتے ہیں اور اسی نے میرے اندر ایک آگ بھڑکادی ہے۔میں ایک شامی نژاد امریکی ہوں جو کہ شام میں پیدا ہوئی،میری ساری زندگی ان دونوں ملکوں میں بسر ہوئی ہے۔میں اپنے ثقافتی ورثے، اپنی جنم بھومی سے،اپنی ثقافت ،زبان ،رسوم و رواج ،قومیت اور اپنی تاریخ سے بہت مضبوط اور توانا ربط محسوس کرتی ہوں۔
اور وہ مزید کہتی ہیں
“جب مین سٹریم اور سوشل میڈیا میں جھوٹ اور پروپیگنڈے کا طومار باندھا جاتا ہے جس نے 6 سال سے جنگ کا الاؤ بھڑکا رکھا ہے تو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔اس جنگ کو جاری ہوئے 6 سال مکمل ہوگئے ہیں۔یہ ایک ایسی جنگ ہے جس کا امریکہ نے 1949ء ہی میں منصوبہ بنالیا تھا۔سی آئی آے تسلیم کرتی ہے کہ اس نے 1949ء میں شام میں ایک کودتا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔یہ شام کو غیر مستحکم کرنے کی امریکی کوششوں میں سے ایک کوشش تھی۔نیچے وڈیو لنک پہ کلک کریں
میں یہاں مغرب میں شام کی آواز بننا چاہتی ہوں۔مجھے خوشی ہے کہ یہاں بہت سے شامیوں نے مجھے رابطہ کیا اور وہ مجھ سے اپنی کہانیاں بیان کرنا چاہتے ہیں۔یہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔مجھے امید ہے کہ میں ان کے تجربات سے جنگ بارے اور زیادہ سیکھ پاؤں گی اور یہ شام میں گزشتہ چھے سالوں سے جو ہورہا ہے اس بارے سچ کو پھیلانے کا مجھے اور موقعہ ملے گا۔”
شامی حکومت کو شیطان حکومت ثابت کرنے کے لئے کیسے جھوٹ پھیلائے جاتے ہیں۔اسے جاننے کے لئے آپ نیچے دئے گئے وڈیو لنک پہ کلک کریں اور اس وڈیو میں ابو مازن یہ کہتا ہے کہ شامی حکومت نے حراستہ میں ان کے چرچ کو تباہ کردیا ہے۔یہ ایک اور بے بنیاد الزام ہے جو شامی حکومت کو بدنام کرنے کے لئے لگایا گیا ہے۔
شام میں دہشت گرد گروپ کئی ایک مذہبی اور نسلی گروہوں کی نسل کشی میں ملوث ہیں جن میں شامی مسیحی برادری بھی شامل ہے۔منٹ پریس نیوز ایجنسی نے یاسمین نامی ایک شامی مسیحی لڑکی سے بات کی ہے۔وہ جنگ کی شکار مسیحی کمیونٹی سے ہونے والی زیادتیوں بارے بتاتی ہے۔
یاسمین ایک انجینئر ہے جس نے ایم بی اے کیا اور وہ دمشق کے پرانے شہر میں رہتی ہے جو کہ بہت قدیم زمانوں سے آباد ہے اور 9000قبل مسیح میں اس کو بسایا گیا تھا۔یاسمین آرمیئنن آرتھوڈوکس شامی مسیحی عورت ہے جوکہ شام کے شمال مشرق میں واقع القمشلے سے تعلق رکھتی ہے اور اس نے پرورش دمشق میں پائی۔دمشق اصل میں یاسمین شہر کی عرفیت ہے۔
سارہ عبید سے یاسمین نے فیس بک پہ اس کے مضامین اور پوسٹ پڑھنے کے بعد رابطہ کیا۔ان دونوں نے جھوٹ پہ مبنی رپورٹنگ سے پیدا فرسٹریشن بارے بات چیت کی۔سارہ نے اس سے کہا کہ وہ اپنی کہانی بیان کرے جس پہ وہ رضامند ہوگئی۔فیس بک پہ اس کی گفتگو کے بعد سے اچانک یاسمین کا اکاؤنٹ بلاک کردیا گیا۔اور وہ فیس بک پہ تب سے سارہ عبید سے رابطہ کرنے کے قابل نہیں ہے۔اور مزید ستم یہ ہے کہ سارہ اب فیس بک میسنجر پہ ان کی بات چیت کے باکس میں صرف اپنے میسجز ہی دیکھ سکتی ہے۔کچھ روز پہلے یاسمین کی ایک دوست نے سارہ سے رابطہ کیا اور اس کا ای میل ایڈریس مانگا۔اور اسی ای میل ايڈریس پہ ” شامی لڑکی کی یادیں ” نام کی میل موصول ہوئی جس میں یاسمین نے دمشق میں جنگ سے پہلے اور بعد کی اپنی یادوں کا تذکرہ کیا ہے۔سارہ نے اس سے کہا کہ وہ اس بطور شامی مسیحی کے اس کے تجربات بارے انٹرویو کرنے کی آرزو مند ہے۔اس پہ وہ رضامند ہوگئی۔
سارہ عبید کا کہنا ہے کہ شامی مسیحی لڑکی یاسمین کے لئے سوالات مارک ٹالیانو نے تیار کئے جوکہ پیشہ کے اعتبار سے استاد ہیں اور انہوں نے گزشتہ سال شام کا دورہ بھی کیا تھا۔مارک بھی شام بارے سچ کو پھیلانے بارے پرچوش ہیں اور انہوں نے سارہ کے ساتھ ملکر گلوبل ریسرچ ڈاٹ کام کے لئے کئی آرٹیکلز بھی لکھے ہیں۔اور انہوں نے شام بارے اپنے تجربے پہ مشتمل شام بارے ایک ای بک بھی لکھی ہے۔
یاسمین نے جو جوابات دئے بقول سارہ کے ان کو موڈیفائی نہیں کیا گیا تاکہ ان کی ثقاہت باقی رہے۔سارہ کا کہنا ہے کہ حقیقی لوگوں کی آواز سننا کس قدر خوشی کی بات ہے جو لینا الشامی ،بنا العبد ،کریم عبدالکریم کی طرح کرائے پہ منگوائے نہیں گئے۔ان جیسے کرائے کے ٹٹوؤں بارے میں بھی سارہ نے ایک تفصیلی آرٹیکل لکھا ہے۔
یاسمین سے انٹرویو
س: جب مغرب کی دہشت گرد پراکسیز مقامی مسیحی آبادی کو قتل کرتی ہیں اور ان کی نسل کشی کی مرتکب ہوتی ہیں جیسے انہوں نے کیساب شام میں کیا تو کیا وہ تاریخ کو مٹانے کی درپے ہوتی ہیں؟
یاسمین: تاریخ اور آرتھوڈوکس مسیحیت کو مٹاتی ہیں
س: جب مغربی حمایت یافتہ دہشت گرد مالولہ شام جیسے قصبوں پہ قبضہ کرتے ہیں اور مسیحی مذہبی نشانیوں کو مٹاتے ہیں تو کیا یہ بھی تاریخ مٹانے کے برابر ہے؟
یاسمین: میری رائے میں یہ کوئی اتفاق یا حادثہ نہیں ہے کہ وہ تاریخی مقامات کو ہدف بناتے ہیں،کیونکہ مثال کے طور جب داعش نے آثار قدیمہ کو مٹانے کے لئے الیکٹرک اوزار استعمال کئے،تو اس سے اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ یہ فرض ان کو سونپا گیا تھا اور یہ محض نفرت میں اٹھایا گیا اقدام نہیں تھا۔
س: جب مغرب کے حمایت یافتہ دہشت گرد مسلمانوں یا مسیحیوں کو نشانہ بناتے ہیں تو وہ یا ان کے سامراجی آقا فرقہ وارانہ خانہ جنگی پیدا کرکے ملک تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟
یاسمین : اگر ہم کنڈولیزا رائس کے دور میں واپس جائیں،جب اس نے کہا تھا کہ نئے مڈل ایسٹ کے لئے کی جانے والی محنت ہے اور اس نے ایک نئے مڈل ایسٹ جیسی چیز کی بات کہی تھی۔تو یہ 2003ء میں ناکامی سے دوچار ہونے والے منصوبے کا دوسرا حصّہ ہے۔انہوں نے روڈ میپ شایع کیا،جس میں مڈل ایسٹ کو جھوٹے فرقہ وارانہ بنیادوں پہ استوار ممالک پہ مشتمل دکھایا گیا تھا۔ہر ایک مذہب کے لئے الگ ملک تھا سوائے مسیحیت کے لئے۔اور یہ بات بہت صاف ہوجاتی ہے اگر آپ اسے سرکوزی کے اس بیان کے ساتھ ملاکر دیکھیں جس میں اس نے لبنانی پریسٹ سے کہا کہ وہ مڈل ایسٹ کے تمام مسیحیوں کو یورپ روانہ کردیں۔
س: کیا سامراجی نسلی اور مذہبی بنیادوں پہ ایک دوسرے کے خلاف صف آراء مملکتیں پیدا کرنے کے منصوبے پہ کام کرہے ہیں؟
یاسمین: سامراجی مڈل ایسٹ کو ویسے ہی تباہ اور غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں جیسے انہوں نے افغانستان کو کیا تھا جو اتنا ہی ماڈرن و سیکولر تھا جتنا شام ہے۔وہ مذہب کو خاص طور پہ جہاد کو آڑ کے طور پہ استعمال کرتے ہیں۔میں یقین رکھتی ہوں کہ انہوں نے جہاد کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنے کے لئے پیدا کیا ہے۔ثبوت سعودیہ عرب ہے جہاں نہ تو کوئی انسانی حقوق ہیں،لوگوں پہ سخت جبر ہے اور کوئی بدی ایک لفظ نہیں کہتا ہے۔
س: شام میں سامراج کی تقسیم کرو اور حکومت کرو کے ہتھکنڈے کام کررہے ہیں؟ کیا شامی عوام کی اکثریت متحد ہے؟
یاسمین: جو منصوبہ سے باخبر ہیں وہ خوب تعلیم یافتہ اور متحد ہیں،لیکن وہ جن میں سے کچھ نے اپنے خاندان کے لوگ کھودئے ہیں،یا جن کی ہمدردیاں ریڈیکل مسلمانوں کے ساتھ ہیں،وہ جو اسد رجیم سے نفرت کرتے ہیں اور ان سے بھی نفرت کرتے ہیں جو حکومت کے حامی ہیں وہ اس ہتھکنڈے کا شکار بنے ہیں۔
س: مغرب اور اس کی پراکسیز آل سعود اور وہابی ازم کے نظریہ کی حمایت کرتے ہیں،وہ مسیحی کو مارنے اور ان کی نسل کشی کی بات کرتے ہیں۔تو اگر کینڈا کی آبادی اس سے واقف ہو تو کیا وہ سچ کو قبول کریں گے؟ کیا وہ اس پہ عمل کرتے ہوئے چرچ اور اپنی کمیونٹی کے نمائندوں سے رابطہ کریں گے؟
یاسمین: میں نے انٹرنیٹ پہ دیکھا ہے کہ اب ان میں بیداری آنا شروع ہوگئی ہے،وہ ہمارے ساتھ اظہار ہمدردی کررہے ہیں،لیکن کیا وہ اس حوالے سے عملی اقدام بھی اٹھائیں گے ؟کیا وہ یہ کرنے کے قابل ہیں ؟مجھے کچھ اندازہ نہیں ہے لیکن میں یہ جانتی ہوں کہ وہ اپنی حکومتوں کے برعکس اچھے ہیں۔
س: شام میں حکومت کی تبدیلی کے نام پہ 6 سال سے شامیوں کے خلاف جاری گندی لڑائی کے بعد سچ سے بے خبری کیا اب بھی ایک قابل برداشت عذر کے طور پہ موجود ہے؟
یاسمین: ایسا نہیں ہونا چاہئیے،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ شام میں ایسے لوگ ہیں جو اب بھی حقائق کو نہیں دیکھ سکتے ،اب بھی وہ ظلم کا سارا دوش حکومت پہ دھرتے ہیڑ،تو دوسرے ممالک پہ بے خبری کا الزام لگانے سے پہلے ہمیں اپنے بے خبر اور نادان لوگوں کی خبر لینا ہوگی۔
س: جب مغرب نے اپنے سفارت خانے شام میں بند کئے اور سفارتی تعلقات ختم کرڈالے تو کیا ایسا کرکے وہ اپنے جرائم پہ پردہ ڈال رہے تھے؟
یاسمین: وہ یہ شام پہ اور دباؤ بڑھانے کے لئے کررہے تھے،تو انہوں نے اسد کو اقتدار سے الگ ہوجانے کے لئے مجبور کرنے کے لئے یہ سب کیا۔انہوں نے صرف سفارت خانے بند نہیں کئے ،انہوں نے ہم پہ پابندیاں لگائیں،انہوں نے ہمیں دھمکایا اور ڈرایا،ہم نے سارا کھیل دیکھا،ہم دیکھ رہے تھے،یہ بہت تکلیف دہ ہے،کیسے ہم نے ہر بار سازشی مفروضوں کو رد کیا،لیکن اب سارے واقعات آپ کو ایک ہی سمت لے جاتے ہیں،جن کا نام اشرافیہ ہے وہ دنیا کو کنٹرول کرتی ہے،شام اور عراق میں اسارین کی جو تباہی ہے اس کا سبب تیل ،گیس جیسے وسائل ہیں۔اسی طرح ماضی بعید میں اسارین نے یہودیوں کے ساتھ جو برا سلوک کیا تھا وہ بھی ایک وجہ ہے اور آج یہودی اس کا بدلہ چاہتے ہیں۔ایسے ہی 1967ء میں شام اور اسرائیل میں ہوئی جنگ کی کہانی ہے،جب اسرائیل نے چند شامی لڑاکوں کو پکڑ لیا تھا۔جبکہ وہ جانتے تھے ان میں ایک اسارین مسیحی شامی بھی تھا اور اسے انہوں نے الگ سیل میں ڈال دیا تھا اور اسے الگ طریقوں سے اذیتیں دیتے اور اسے ایک بار اذیت دیتے تو کہتے یہ سارگون کے لئے ،دوسری بار دیتے تو کہتے کہ یہ نوبخت نصر کے لئے،صرف اس کی توہین کرنے کے لئے۔اگر مجھے کہا جائے کہ میری یہ بات مذکورہ موضوع سے کیسے ملتی ہے؟تو میں آپ کو بتاؤں گی کہ اردوگان ایک اخوانی ہے جو یہودیوں کے ساتھ اس سب کچھ کرنے کا انچارج ہے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے سارے صہیونی اس پائپ لاغن کو چاہتے ہیں اور سب کے سب ایک سی آئیڈیالوجی یا فکر رکھتے ہیں،وہ سب میزونک ہیں یا اس سے جڑے ہوئے ہیں۔
س: مغرب جب یہ کہتا ہے کہ شام میں رہنے والے مسیحی کے لئے خطرہ ہے (بشار الاسد سے ) تو کتنا جھوٹ ہوتا ہے اس میں ؟
یاسمین: ہماری عوام کا سب سے نمبرون دشمن مغرب ہے،اّپ جانتے ہیں کہ ہمارے خلاف ترکی کی نسل کشی یورپی اتحاد کی نگرانی میں ماضی میں کی کئی تو وہ ہمارے دشمن ہیں۔جب جنونی ترک قبضے کے دوران شام آئے تو انہوں نے ایک بھی مسلمان تک رسائی نہ کی ،وہ کرسچن کو ان کے آرتھوڈوکس کتھولک سے ہٹانا چاہتے تھے اور ایسا کرکے وہ چرچ کو کمزور کرنے کے آرزومند تھے۔
س: اگر مغرب القاعدہ/داعش جیسے پٹھو تنظیموں کی حکومت شام میں لانے میں کامیاب ہوگیا تو کیامسیحی شام سے بالکل ہی ختم کردئے جائیں گے؟
یاسمین : اگر منصوبہ کامیاب رہا تو ایک بھی مسیحی وہاں نہیں رہے گا، وہ یا تو مارے جائیں گے یا وہابی اسلام کو مان لیں گے یا پھر بھاگ جائیں گے ۔
سارہ کا خیال ہے کہ شام میں جنگ روکنے کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ اس تاریخ سے مالا مال ملک میں قدیم مقامی باشندوں کی مکمل نسلی صفائی ہوجائے۔یہ ایک ایسا خطرہ ہے جس پہ ہم سب کو تشویش ظاہر کرنے کی ضرورت ہے چاہے ہمارا مذہب کچھ بھی ہو ،اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے۔یہ نسل کشی اب روکی جانی چاہئیے ۔
نوٹ: یاسمین ایک فرضی نام ہے جو انٹرویو والی لڑکی کی حفاظت کے لئے اصلی نام کی جگہ اختیار کیا گیا ہے۔