سوشل میڈیا پہ دباؤ بڑھانے کے پس پردہ کیا ایجنڈا کارفرما ہے ؟ – عامر حسینی
پاکستانی چند ایک پرائیویٹ ٹی وی چینلز جن کے مالکان کے درمیان پاکستان کے مین سٹریم میڈیا کی مارکیٹ پہ قبضے کی جنگ اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہی ہے اور وہ مارکیٹ پہ قبضے کی اس جنگ میں پاکستان کے اندر ہئیت غیر منتخب مقتدرہ اور ہئیت منتحب مقتدرہ کے اندر چلنے والی لڑائی میں میں متحارب کیمپوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہر ایک حربہ و ہتھکنڈا استعمال کیا جارہا ہے۔
یہ لڑائی پوری قوت کے ساتھ جنرل مشرف کے آخری دنوں میں بہت ہی شدت سے ابھر کر سامنے آئی تھی اور آج بہت سارے حلقوں کو یہ یقین ہے کہ اس دور میں بحالی عدلیہ کی تحریک اور اس کے ضمن میں پیدا ہونے والی آزادی صحافت کی لڑائی اقتدار کی غلام گردشوں میں جاری باہمی سر پھٹول کا نتیجہ تھی اور اس تحریک کے پیچھے پاکستان کی غیر منتخب ہئیت مقتدرہ ،صحافتی اسٹبلشمنٹ، عدالتی اسٹبلشمنٹ اور سیاسی اسٹبلشمنٹ کے اندر جنرل ضیاء الحق کی باقیات،جہاد ازم ، تکفیر ازم ، پنجابی سرمایہ کاروں کی ایک ٹولی موجود تھی اور اس زمانے میں ان سب نے باہم ملکر جنرل مشرف کی 80ء سے شروع ہونے والی پالسیوں کو واپس پھیرنے کی جو کوشش کی تھی ان کوششوں کو بے اثر بنانے کا منظم سلسلہ شروع ہوا۔ہم جانتے ہیں کہ کچھ اینکرز ، اور میڈیا مالکان اس زمانے میں آزادی صحافت کے مدار المہام بنکر ابھرے تھے۔
ان میں سے کئی ایک تو پاکستان میں کارپوریٹ کرونی کیپٹل ازم کے سب سے طاقتور گروپ کی نمائندگی کرنے والے میاں نواز شریف ،میاں منشاء اینڈ کمپنی کے ساتھ کھڑے تھے اور جنگ اینڈ جیو میڈیا گروپ بھی اس کے ساتھ کھڑا تھا اور آگے چل کر پاکستانی ڈان نیوز میڈیا گروپ بھی اسی اتحاد میں شامل ہوگیا۔اور یہ گروپ ایک طرف تو پاکستانی ملٹری اسٹبلشمنٹ اور اس سے جڑی سرمایہ کار لابی پہ اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے تھے۔
جبکہ ایک اور گروپ تھا چینلز کا جس کی نئی نئی اٹھان تھی اور کارپوریٹ سرمایہ بھی جڑا تھا اور اس معاملے میں وہ کرونی کیپٹل ازم کے طاقتور گروپ کا حریف تھا اس میں ہم اے آر وائی ، ایکسپریس میڈیا گروپ وغیرہ کو رکھ سکتے ہیں اور اسی میں ہم نئے ابھرنے والے 24 نیوز چینل اور اس کے دیگر چینلز کو بھی رکھ سکتے ہیں۔یہ پاکستان کی عدلیہ میں بہت واضح طور پہ ملٹری اسٹبلشمنٹ کے اندر مہم جو عناصر اور ضیاء الحقی طرف جھکے رہنے والی طاقتور لابی کے حامیوں کا گروپ تھا۔
سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے عدالتوں میں کئی ایک ایسے ججز کی تعیناتی کی جو انتہائی رجعت پسند خیالات کے مالک ہیں اور ساتھ ساتھ پاکستانی ملٹری اسٹبلشمنٹ سے بھی ان کے لنکس بہت طاقتور تھے اور اگر ہم پاکستان میں ماضی کی سیاسی تقسیم جسے بھٹو نواز اور اینٹی بھٹو کہا جاتا ہے کو مدنظر رکھیں تو ان کا تعلق اینٹی بھٹو کیمپ سے بتایا جاسکتا ہے۔
یہ ججز جج بننے سے پہلے وکالت کے دوران اور زمانہ طالب علمی میں پاکستان کی انتہائی رجعت پرست تنظیموں کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔بلکہ کئی ایک ججز کا تعلق پاکستان کی تکفیری انتہا سند جماعتوں کے ساتھ بھی رہا ہے۔عدالتی اسٹبلشمنٹ، سیاسی اسٹبلشمنٹ اور فوجی اسٹبلشمنٹ کے اندر باہمی متحارب لابیوں اور ان کے درمیان پاور گیم کے لئے اپنی خدمات پیش کرنے والی صحافتی اسٹبلشمنٹ اس ساری جنگ میں جس ہتھیار کو اپنے لئے موافق پایا اسے استعمال کیا۔
ان میں سے ایک ہتھیار ” مذہبی جنونیت اور اس سے پیدا ہونے والا بڑا عسکریت پسند نیٹ ورک ” ہے۔یہ بات کسی سے اب ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ایک طرف پاکستان کی فوجی اور عدالتی اسٹبلشمنٹ کے طاقتور حلقے سے اس نیٹ ورک میں اپنے “بندوں اور گروپوں ” کو تحفظ فراہم کرتے رہے بلکہ ان کی میڈیا میں پروجیکشن کا بھی خاطر خواہ انتظام کیا گیا۔پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف پانچ سالوں کے اندر مین سٹریم میڈیا کے طاقتور گروپوں نے فوجی اور عدالتی اسٹبلشمنٹ اور سیاسی اسٹبلشمنٹ میں نواز اینڈ کو کے ایما پہ گٹھ جوڑ کیا اور ایک طرف مذہبی جنونیوں ک پروموٹ کیا اور تکفیری عناصر کو کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں کو اعتدال پسند،لبرل اور ماڈریٹ بناکر دکھایا۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ یہی جیو اور جنگ اور ایکسپریس گروپ تھے جنھوں نے نواز شریف اینڈ کمپنی کی اتحادی اہلسنت والجماعت /سپاہ صحابہ ، پاکستان علماء کونسل،وفاق المدارس عربیہ پاکستان کی زبردست پروجیکشن نہیں کی۔نجم سیٹھی کے ہفت روزہ انگریزی جریدے نے طاہر اشرفی اور لدھیانوی کو لبرل اور اعتدال پسند بناکر نہیں دکھایا؟
اور یہ سلسلہ اب بھی جاری و ساری ہے۔پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ نے بھی مجلس وحدت المسلمین،سنّی اتحاد کونسل، جمعیت علمائے اسلام (سمیع الحق گروپ )، جمعیت علمائے اسلام نظریاتی ، جماعت دعوہ سمیت کئی ایک چھوٹے بڑے گروپوں کے زریعے سے اپنا ایجنڈا آگے بڑھائے رکھا۔اور فوجی اسٹبلشمنٹ نے پہلے آے آر وائی کو آگے بڑھایا ،اس کے بعد آج تک یہ ایک سربستہ راز ہے کہ “بول ” اصل میں پاکستان کے اندر ہے کن کا پروجیکٹ ؟
لیکن پابندی کے بعد بحالی سے لیکر ابتک کی اس کی پالیسی سے صاف پتا چل رہا ہے کہ اے آر وائی کے زریعے سے جس ایجنڈے کو حاصل کرنے کی کوشش تھی اسے بول کے زریعے سے بڑے پیمانے پہ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔پاکستانی فوجی اسٹبلشمنٹ اور اس کے عدالتی،صحافتی اور سیاسی اسٹبلشمنٹ میں طاقتور لابیوں اور ان کے اتحادی پاکستان میں بڑے پیمانے پہ اپنے ڈسکورس کی حمایت میں ایک بڑا حلقہ پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔یہ شاؤنسٹ پاکستانی نیشنلزم اور اس کے ساتھ مذہبی فاشزم کا تڑکا لگائے ایک بڑا بیانیہ اور ڈسکورس پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔
جبکہ دوسری جانب میاں نواز شریف اینڈ کمپنی ہے جن کی پاور اور جن کی جڑیں پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ کے اندر، عدالتی اسٹبلشمنٹ اور صحافتی اسٹبلشمنٹ کے اندر موجود ہیں اور یہ بھی اپنے ڈسکورس اور بیانیہ کے ساتھ موجود ہیں۔اگرچہ میاں نواز شریف اینڈ کمپنی کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو عدالتی اور فوجی اسٹبلشمنٹ کے اندر طاقتور گروپوں سے بار بار صلح اور سمجھوتے پہ زور دیکر کسی ان ہونی سے بچنا چاہتے ہیں۔فوجی اسٹبلشمنٹ ہو یا سیاسی اسٹبلشمٹ یا صحافتی اسٹبلشمنٹ اپنے بالادست کردار کو برقرار رکھنے کے لئے ایک ہمہ جہت قسم کی پریشر ٹیکٹس استعمال کررہی ہے۔
اور اسے وائبرینٹ ، متحرک اور اپنی آزادی کو استعمال کرنے والے سوشل میڈیا سے کافی خطرہ محسوس ہورہا ہے۔کیونکہ سوشل میڈیا پہ اگر دیکھا جائے تو اس وقت ایک بہت بڑا حلقہ ایسا جنم لے چکا ہے جو مذہبی جنونیت ، جہاد ازم ، تکفیر ازم، پراکسی جنگوں، سندھی، بلوچ، سرائیکی ، گلگت بلتستان، پشتونوں کے حوالے سے ریاست کے حکمران طبقات کی پالیسی اور ڈیزائن کو چیلنچ کرنے میں مصروف ہے۔ یہ تینوں اسٹبلشمنٹ اور ان کے دائیں جانب جھکے ہوئے رجحانات اور ان کی رجعتی پالسیوں کو سوشل میڈیا پہ زبردست چیلنج کا سامنا ہے۔پاکستان کی نئی نسل پہ اس کے بہت گہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
پاکستان کی فوجی ، سیاسی اور صحافتی اسٹبلشمنٹ میں رجعت پرست طاقتوں نے پہلے سوشل میڈیا کے اوپر کنٹرول کرنے کی کوشش سوشل میڈیا پہ پیجز، گروپس ، ٹوئٹ ہینڈلر بناکر کرنے کی کوشش کی لیکن ایسا نظر آتا ہے کہ اس میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔نواز شریف کی چھترچھایہ میں بیٹھ کر پاکستان کے مین سٹریم میڈیا کے ایک لبرل سیکشن نے بدترین سمجھوتوں ( تکفیر ازم ، جہاد ازم اور سعودی ازم سے نواز شریف کے لنکس نظر انداز کرکے اور عدالتی و عسکری اسٹبلشمنٹ میں اس کے ضیاء الحفی برادارانہ بھائی چارے کو پس پشت ڈال کے ) کے ساتھ ترقی پسندی،لبرل ازم اور روشن خیالی کا ایک محدود ایڈیشن آگے بڑھانے کی کوشش کی جوکہ اب ناکامی سے دوچار ہوتا نظر آرہا ہے۔بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اس لبرل سیکشن کے کمرشل ازم اور مافیا بن جانے کے جنون نے پاکستان کے اندر لبرل اقدار، تکثریت پسندی، اعتدال پسندی، ہمسایوں کے ساتھ امن سے رہنے کے مشن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور ملٹری اسٹبلشمنٹ سے ان کی لڑائی کو نورا کشتی ہی سمجھا جاتا رہا ہے۔
جنگ اینڈ جیو اور ڈان نیوز گروپ جیسے میڈیا گروپوں اور ان سے جڑے بعض بڑے ناموں کے کمرشل ازم اور پیسہ بنانے کی ہوس نے کئی مالی لحاظ سے کمزور میڈیا کے لبرل ناموں کو رجعت پرست کیمپ میں دھکیل دیا ہے۔بول پہ نذیر لغاری ،خاور ہاشمی سمیت کئی ایسے نام موجود ہیں جن کا وہاں ہونا محبت سے زیادہ بغض کا نتیجہ نظر آتا ہے۔امتیاز عالم، حامد میر، ابصار عالم، طلعت حسین،بینا سرور،نجم سیٹھی ،جگنو محسن۔نصرت جاوید اور کئی اور لوگ ایسے ہیں جن کا لبرل ازم،جمہوریت پسندی اور روشن خیالی کو کمرشل ازم چاٹ گیا اور یہ بے اعتبار اور غیر معتبر ہوگئے ہیں۔
اور ان کی کوششوں سے پاکستان میں رجعت پسندی اور مضبوط ہوگئی ہے۔اور المیہ یہ ہے کہ ان کے کمرشل ازم کی بھینٹ پاکستان کے بہت سے باصلاحیت ،ترقی پسند،روشن خیال اور لبرل دماغ چڑھ گئے ہیں اور وہ آسانی سے رجعت پسندی کے حملوں کا نشانہ بن گئے ہیں۔پاکستان کے اندر حقیقی ترقی پسند،جمہوریت پسند اور رجعت مخالف طبقہ اپنے چہرے اور اپنے موقف کو بہت دھندلا پاتا ہے۔یہ بہت مشکل صورت حال ہے جس کا آج ہمیں سامنا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے اندر حقیقی ترقی پسند ہوں،ان کے حامی ہوں، اے این پی کے اندر اور اس سے ہمدردی رکھنے والے ہوں اور ان سے باہر کھڑاحقیقی لیفٹ حلقہ ہو اس کے سامنے بہت مشکل ٹاسک ہے کیونکہ اس وقت سلطانی تو تھی ہی عیاری درویشی بھی ڈھونگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔