جمیعتِ علمائے اسلام (ف) کے صوبائی وفد کی سہون آمد

 

 

جمیعتِ علمائے اسلام (ف) کے صوبائی وفد کی سہون آمد اور درگاہ حضرت لعل شہباز قلندر پر دعا کرنا ایک احسن اقدام ہے مگر موجودہ حالات ان سے زیادہ کا تقاضہ کرتے ہیں – ہم نے شکارپور دھماکے کے بعد اس جماعت کے نمائندگان کو امام بارگاہ میں بیٹھا تعزیت کرتے دیکھا مگر کچھ عرصے بعد یہ بھی مشاہدہ کیا کہ دھماکے میں ملوث افراد کا تعلق ایسے علاقوں سے نکلا جو اس جماعت یعنی جے یو آئی ایف کا گڑہ تھے اور اسی جماعت کے ایک ضلعی عہدیدار کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنی تحویل میں لیا، اسی طرح شہدادکوٹ میں شہید ہونے والے ایک مومن کے مبینہ قاتل کو ان ہی کی جماعت کے سیاسی اثر رسوخ پر نہ صرف آزاد بلکہ پھولوں کے ہار پہناکر باقائدہ جلوس کی صورت شہر میں گشت کرتے دیکھا گیا-

ان ہی کی جماعت کے مولانا صاحبان نمازِ جمعہ کے خطبات کا سیاسی استعمال کرکے اپنے حریف کی نسبت لوگوں کے مسلکی جذبات بھڑکا کر کہتے رہے کہ ان کافروں کو ووٹ دینا جہنم کی آگ خریدنا ہے، گو کہ اس مثبت موقعے پر ایسی تلخ باتیں کچھ اچھی نہیں لگتیں مگر جے یو آئی سندھ کی قیادت چونکہ متشدد اور مولیانہ سیاست سے قدرے دور ہو کرعوام میں اپنے تئیں مثبت تاثر قائم کرنے کیلئے کوشاں ہے جس کا یہ ثبوت ہے کہ کل تک تعزیہ دیکھنے سے نکاح ٹوٹ جانے کی باتیں کرنے والے دس محرم کو تعزیوں کے درمیان آ کھڑے ہوئےسو اسلئے مناسب سمجھا کہ ان کی توجہ ان تلخ اور منفی حقائق پر بھی دلوائی جائے تاکہ وہ اپنی صفوں سے ایسے افراد کو نکال باہر کریں جو دہشگردوں کے بالواسطہ یا بلاواسطہ سہولتکار ہیں اور ہر اس کالعدم تنظیم کا نام لیکر مذمت کریں جو کھلم کھلا ایسے واقعات کی ذمیداری قبول کرتی ہے تا کہ ان کی قیادت کی زحمات کسی طور سود مند ثابت ہوں۔

Comments

comments