کرم ایجنسی کے گرد ڈیورنڈ لائن ہماری خون سے کھنچی ہوئی لکیر ہے۔ شفیق طوری

 
 پاکستان آرمی کے سپاہ سالار جناب جنرل قمر باجوہ نے پاراچنار کا دورہ کیا ہے۔ شہدا کے غم میں شریک ہوئے ہیں اور زخمیوں کی عیادت کی ہے۔ بہت اچھی بات اور ہم سراہتے ہیں آرمی چیف کے دورے کو جو ہمارے غم میں شریک ہوئے۔ آرمی چیف نے پاراچنار میں آرمی پبلک سکول کے قیام کا اعلان بھی کیا ہے جسے خوش آمدید کہتے ہیں اور کرم ایجنسی میں موجود علمی فضا میں ایک خوشگوار جھونکا نہیں بلکہ سنگ میل ثابت ہوگا انشااللہ۔ جنرل راحیل صاحب نے بھی میرے خیال میں ایک کیڈٹ کالج کے قیام کا اعلان کیا تھا جو قابل عمل نہ ہوسکا اُمید ہے آرمی پبلک سکول کیساتھ وہ حشر نہیں ہوگا کیونکہ میرے معلومات کیمطابق آرمی پبلک سکول کی فیزیبیلٹی بھی تیار ہے۔
کرم ایجنسی کی تاریخ طوری بنگش اقوام نے اپنے خون سے لکھی ہے اور ہم ہر قیمت پر اسکا دفاع کریں گے۔ یہ ہم پر فرض ہے۔
کرم ایجنسی سمیت اورکزئی ایجنسی اور کوہاٹ تک صرف شیعہ آبادی کو غیر مسلح کیا جا رہا ہے۔ اس پر ہمارے تحفظات ہیں جو دور کیئے جائیں۔
ہم نے کھبی اسلحہ حکومت کے خلاف یا کسی پر حملہ آور ہونے کیلئے استعمال نہیں کیا ہے۔ اور ہم ہر قسم کی ضمانت دینے کیلئے تیار ہیں کہ آئیندہ بھی استعمال نہیں ہوگا۔
میرے دوست سلمان حیدر کا شعر ہے کہ،
“حُر” ہو تو آؤ، ورنہ پلٹ جاؤ، دیکھ کر
ریتی پہ ذوالفقار سے کھنچی ہوئی لکیر
دشمن چاہے اندرونی ہو یا بیرونی، طالبان، داعش یا لشکر جھنگوی، افغانستان ہو یا ہندوستان کرم ایجنسی کے گرد ڈیورڈ لائن کو ذوالفقار سے کھنچی ہوئی لکیر ہی سمجھیں۔
پاکستان کا دشمن ہمارا بھی دشمن ہے، طالبان، لشکر جھنگوی اور داعش جیسے سفاک دشمنوں کے ہاتھوں ہمارے بچے صبح و شام مار جا رہے ہیں۔ پاکستان کو اس وقت خیال آیا جب آرمی پبلک سکول میں آرمی والوں اور دیگر بچے ان سفاک درندوں کے ہاتھوں بے دردی سے شہید ہوئے۔ ہم پاراچنار کرم ایجنسی میں تین سو سال سے زیادہ عرصہ سے رہ رہے ہیں۔ ہماری مجبوریوں کو حکومت سمجھنے کوشش کرے۔
کرم ایجنسی پچھلے تین دھائیوں میں تین بڑی جنگیں لڑی گئی ہیں 1982, 1987, 1996 اور 2007 اور میں میرا مشاہدہ ہے کہ پاکستان آرمی یا ریاست پاکستان نے ہماری کوئی مدد نہیں کی ہے۔ حتی کرم ملیشیا کے ایک کرنل جسکا نام کرنل مجید تھا کے سرپرستی میں پشاور سے پاراچنار آنی والی کانوائے کو صدہ میں روک کر جلایا گیا۔ ہمارے بچوں اور جوانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے پاراچنار بھیجے گئے۔
تُو اِدھر اُدھر کی نہ بات کر
یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا !
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں
تیری رہبری کا سوال ہے
دو سال پہلے شلوزان کے علاقے خیواص پر حملہ ہوا۔ سینکڑوں جانیں ضائع ہوئیں۔ کیا ریاست پاکستان یا پاک آرمی مجھے بتا سکتی ہے کہ کتنے پاک آرمی یا ملیشیا یا لیویز کے اہلکار ان جنگوں میں ہلاک ہوئے؟ ایک بھی نہیں۔ ہم خود لڑے ہیں اور آئیندہ بھی لڑتے رہیں گے۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ ہم تین سو سال سے زیادہ عرصہ ہوا کرم ایجنسی میں رہ رہے ہیں۔ کرم ایجنسی کی اہمیت سب کو پتہ ہے طوری بنگش قبایئل کو پاکستان افغانستان اور ہندوستان و ایران و سعودی عرب کے درمیان سینڈویچ نہ بنایا جائے۔ ہمارے مسائل صرف انتظامی ہیں۔ پہاڑ کے جھگڑے، زمینوں کے جھگڑے، پانی کے جھگڑے اور مذہبی جنونیوں کے جھگڑے! یہ ریاست کاکام ہے کہ اپنے نظام کو اپڈیٹ کریں جو دو صدیوں پرانا ہے اور ان میں مسائل کے حل کی سکت نہیں۔ پولیٹیکل ایجنٹ اور انتظامیہ پر مسائل کا بہت بڑا بوجھ ہے جو وہ بے چارے اُٹھانے کے قابل بھی ہو تو بھی پوری نہیں کر سکتا۔ انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ سب کام ایک پولیٹیکل ایجنٹ اور ڈپٹی کو کرنے ہوتے ہیں۔
پچھلے آٹھ سال میں آٹھ دھماکے ہوئے ہیں مجھے بتائیں کتنے آدمی پکڑے گئے تھے اور کتنوں کو عدالت میں پیش کرکے سزا دی گئی؟
ہر سال کی ابتداء پاراچنار میں دھماکے سے ہوتی ہے اور دشمن چھپا نہیں ہے سامنے کھڑا ہے۔ “ذمہ واری” بھی قبول کرتا ہے اور اپنے حملہ آوروں کی تصاویر بھی شائع کرتا ہے۔ ان کے خلاف ریاست بھی لڑ رہی ہے اور ہم بھی لڑ رہے ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ قربانیاں ہم نے دی ہیں۔ ہمارے پچھلے آٹھ سال میں ساڑھے تین ہزار بندے شہید ہوئے ہیں۔ میں دعوے سے اعداد و شمار کیساتھ بتا سکتا ہوں کہ کرم ایجنسی میں طوری بنگش قبیلوں سے زیادہ قربانیاں کسی نے نہیں دی ہیں اور آئیندہ بھی دیتے رہیں گے۔ اپنی وطن کی خاطر اور اپنے مٹی کی خاطر۔ مادر وطن کی حفاظت کی خاطر۔
کرم ایجنسی سمیت پورے فاٹا میں نظام کے اپ گریڈ یشن کی ضرورت ہے۔ اگر نظام درست ہو تو غیر ریاستی عناصر اور تخریب کار و دہشتگرد خودکار نظام کے تحت فلٹر ہوکر اپنے انجام کو پہنچتے رہیں گے۔ پھر ہمیں اسلحے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ پھر ہمیں تنظیموں کی ضرورت نہیں ہوگی۔ پھر ہمیں بھی آواز اُٹھانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ہم پاکستانی ہیں اور تا قیامت پاکستانی رہیں گے۔ کرم ایجنسی کے گرد ڈیورنڈ لائن ہماری خون سے کھنچی ہوئی لکیر ہے۔ جس کی گواہ ہمارے قبرستان ہیں جہاں ہزاروں شہداء کے قبروں پر سُرخ جھنڈے لہرا رہے ہیں۔ اور یہ لیکر تاقیامت پاکستان کی گواہی دے گا۔ اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
پاکستان آرمی زندہ باد۔ پاکستان پائیندہ باد

Comments

comments