حلب کی ناخوشگوار کہانی میں بتانے کو ایک سے زیادہ سچ ہیں – رابرٹ فسک – ترجمہ و تلخیص : ع-ح
اب جب بشار الاسد کی شامی افواج نے حلب کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرلیا ہے تو مغربی سیاست دان،تجزیہ کار اور صحافی آنے والے دنوں میں اپنی کہانیوں کو دوبارہ سے ترتیب دینے جارہے ہیں۔ہمیں اب یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا واقعی حلب میں ڈھائی لاکھ شہری پھنسے ہوئے تھے (اگرچہ یہ ٹھیک ہے کہ وہاں پھنسے ہوئے شہری کافی تعداد میں تھے)۔اب ہمیں اس حوالے سے بہت سی وضاحتیں سننے کو ملنے والی ہیں کہ جب شامی حکومت اور روس کی فضائیہ نے حلب کے مشرقی حصّے پہ اندھادھند بمباری کا پروگرام بنایا تھا تو یہ پھنسے ہوئے شہری وہاں سے نکل کیوں نہ پائے۔
اور ہمیں ان “باغیوں” بارے بھی بہت کچھ پتا چلنے جارہا ہے جن کو ہمارے ہاں مغرب میں امریکہ ،برطانیہ اور گلف میں ہمارے سر تن سے جدا کرنے والوں کی حمائت حاصل تھی۔
انہوں نے یہ مدد کی باوجود اس کے کہ یہ مدد القاعدہ ( جبھۃ النصرہ /فتح الشام ) ،مقامی-فوک جیسا کہ جارج بش واکر ان کو پکارا کرتا تھا کو شامل تھی جنھوں نے نیویارک، واشنگٹن، پنسلوانیا میں 11 ستمبر 2011ء کو انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔دہشت گردی کے خلاف جنگ ۔ القاعدہ “خالص برائی” ہے۔وہ ساری وارننگ جو ہماری برطانیہ میں ہماری محبوب سیکورٹی ایجنسیاں القاعدہ کے بارے میں یہ کہہ کر جاری کرتی رہیں کہ وہ اب بھی لندن میں دہشت گرد حملہ کرسکتی ہیں۔ان سب کو یاد کیا گیا؟
نہیں۔جب (نام نہاد ) باغی بشمول القاعدہ مشرقی حلب کا بہادری سے دفاع کررہے تھے تھے تو ہم نے ان سب باتوں کو یاد نہیں کیا۔کیونکہ ایک طاقتور ہیرو ازم ، جمہوریت اور مصائب سے گندھی ہوئی ایک کہانی ، اچھے بچے بمقابلہ برے بچے ، دھماکہ خیز اور بددیانت “بڑی تباہی پھیلانے والے ہتھیار کا بیانیہ ہمارے لئے تیار تھا اور ہم اس میں گم تھے۔
زرا صدام حسین کے زمانے میں واپس جائیں۔جب ہم میں سے کچھ نے ہی یہ کہا تھا کہ عراق پہ غیر قانونی حملہ تباہی اور ان دیکھے مصائب لیکر آئے گا جبکہ ٹونی بلئیر اورجارج بش تو ہمیں بس یلغار کرنے کے راستے پہ لیجانا چاہتے تھے۔ہمارا فرض (اس زمانے میں ) یہ تھا کہ ہم صدام حسین اور اس کے رجیم کے وحشی اور غیر انسانی ہونے بارے چرچا کریں۔ہمیں ان دنوں اپنے پڑھنے والوں کو مسلسل یہ یاد دہانی کراتے رہنا تھی کہ صدام حسین برائی کے تین محور میں سے ایک تھا۔
تو یہاں بھی ایک مرتبہ پھر وہی منتر یا وظیفہ سامنے آتا ہے جسے ہمیں دوہرانا لازم ہے اور ہمیں اسی کو اپنانا ہے تاکہ اس نفرت بھری میل اور دشنام سے بچا جاسکے جو کہ شام کے المیے پہ پہلے سے منظور شدہ رائے سے انحراف کرنے والے کو وصول کرنا پڑیں گی۔
یہ بات سچ ہے کہ بشار الاسد نے اپنے شہروں کے ایک بڑے حصوں کو اپنی حکومت گرانے کی کوشش کرنے والوں سے لڑائی کے دوران بری طرح سے تباہ کردیا ہے۔ہاں، اس حکومت کی گردن پہ کئی گناہ ہیں۔ٹارچر، پھانسی ، خفیہ قید ، شہروں کا قتل اور اکر ہم شامل کریں تو شامی ملیشیا اس رجیم کے نام کی حد تک کنٹرول میں جس نے نسلی صفائی تک کی وہ بھی
ہاں، ہمیں مشرقی حلب کے بہادر ڈاکٹرز کی جانوں کے جانے کا خوف لاحق ہونا چاہئیے اور ان کا بھی جن کی یہ ڈاکٹرز دیکھ بھال کررہے تھے۔جس آدمی نے بھی وہ فوٹیج دیکھا جس میں ایک نوجوان پناہ گزینوں کی لائن میں سے حلب سے فرار ہوتا دکھایا جارہا ہے اس کو ان سب کے جانوں کی فکر کرنی چاہئیے جن کو حکومتی لائن کو عبور کرنے کی اجازت نہ ملی۔اور آئیں ہم یہ بھی یاد کریں کہ 24 گھنٹوں میں کیسے 82 شہری اپنے گھروں میں زبح کردئے گئے جیسا کہ یو این نے بتایا۔
لیکن یہ دوسرا سچ بتانے کا وقت ہے۔یہ سچ کہ بہت سے “باغی ” جن کو ہم مغرب میں جو ہیں سپورٹ کررہے تھے اور جن کو ہماری احمق پرائم منسٹر نے بالواسطہ شاباشی دی جب وہ گزشتہ ہفتے سروں کو قلم کرنے والے ایک عرب سربراہ کے سامنے ڈھے گئیں تھیں-ایسے باغی ہیں جو مڈل ایسٹ میں سب سے ظالم اور سب سے زیادہ بے رحم لڑاکے شمار ہوتے ہیں۔جبکہ اس دوران موصل کے محاصرے کے دورکن داعش کے خوف بارے ٹر ٹر کررہے تھے۔اور یہ محاصرہ حلب کے محاصرے کی طرح تھا اگرچہ ہم اپنی کہانی کے بیانیہ کو پڑھیں تو ہم ایسا نہیں سوچیں گے) اور ہم نے مرضی و منشاء سے، جان بوجھ کر حلب کے باغیوں کے کردار کو نظر انداز کیا۔
کچھ ہفتوں پہلے میں نے فائربندی کے دوران حلب سے فرار ہونے والے اول مسلم خاندانوں میں سے ایک خاندان کا انٹرویو کیا۔اس خاندان کے سربراہ ،باپ نے بتایا کہ اس کے بھائی کو باغيوں نے قتل کردیا کیونکہ اس نے اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ فرنٹ لائن کو عبور کرلیا تھا۔وہ باغیوں کی جانب سے اسکول بند کرنے اور ہسپتالوں کے نزدیک ہتھیار جمع کرنے کی مذمت کررہا تھا۔وہ کوئی بشار الاسد کا حامی نہ تھا اس نے نے محاصرے کے ابتدائی دنوں میں داعش والوں کے اچھے سلوک کی تعریف کی تھی۔
اسی دوران، شامی فوجی نجی گفتگو میں مجھ سے کہہ رہے تھے کہ ان کو یقین ہے کہ امریکی داعش کو موصل سے فرار ہونے اور شام میں بشار پہ حملہ کرنے کی اجازت دے دیں گے۔اصل میں ایک امریکی جرنیل نے اپنے اس خدشہ کا بھی اظہار کیا تھا کہ عراقی شیعہ ملیشیا کے لوگ داعش کو عراقی سرحد عبور کرکے شام جانے سے روکیں گے۔
اور ایسا ہی ہوا ہے۔خودکش بمبار ٹرکوں کی تین وسیع قطار اور ہزاروں مسلح افراد کے ساتھ داعش موصل عراق سے صحرا عبور کرگئی ہے اور رقہ و دیر الزور سے مشرقی شام میں داعش نے ایک مرتبہ پھر پامیرا جیسے خوبصورت شہر پہ قبضہ کرلیا ہے۔
ان دو متوازی واقعات کی رپورٹنگ پہ نظر ڈالنا ازحد ضروری ہے۔آج تقریبا ہر ایک اخبار کی شہ سرخی “سقوط حلب “پہ مشتمل ہے۔جب اگر ہم دوسری طرح سے جائزہ لیں تو ہمیں یہ کہنا چاہئیے تھا کہ “شامی افواج نے حلب کو باغيوں سے دوبارہ آزاد کرالیا یا دوبارہ کنٹرول حاصل کرلیا”-جبکہ یہی اخبارات پامیرا پہ داعش کے قبضے بارے خبر یہ دے رہے ہیں “داعش نے پامیرا پہ دوبارہ قبضہ کرلیا”۔جبکہ ہمیں تو یہ داعش کے اس شہر پہ ڈھائے گئے مظالم کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ خبر دینی چاہئیے تھی کہ “رومن شہر ایک مرتبہ پھر ان کی بدترین حکمرانی کے زیر اثر چلا گیا۔
الفاظ اہمیت رکھتے ہیں۔اگر ہم موجودہ جہادی بیانیہ اپناتے ہیں تو ہمیں صاف کہنا چاہئیے کہ یہ ہماری آدمی ہیں۔جنھوں نے پامیرا شہر پہ جب پہلی بار قبضہ کیا تھا تو ایک 82 سالہ بوڑھے عالم کا سر اس لئے قلم کردیا تھا کہ اس نے رومن قدیم آثار کے خزانے کو بچانے کی کوشش کی تھی اور اس کے کٹے سر کے پیچھے اس کا چشمہ رکھ دیا تھا۔
وہ خود مانتے ہیں کہ روسی 64 بمبار طیارے پامیرا کے باہر داعش کے حملہ آوروں پہ بمباری کرنے اڑان بھرچکے ہیں۔لیکن وہ داعش کے قافلوں کی آمد کو چھپانے کے لئے وہ کالموں کی گرد اڑانا نہیں بھولے۔آخر امریکی فضائیہ اپنے عظیم ترین دشمن کے خلاف بمباری میں روس کے ساتھ شریک کیوں نہیں ہوجاتی؟بالکل بھی نہیں، وجہ وہی ہے کہ امریکی سٹیلائٹ ،ڈرونز اور انٹیلی نے ابھی ان کی آمد کا سراغ ہی نہیں پایا۔یہ تو اس وقت بھی سراغ نہ پاسکےجب داعش نے 2015ء میں پہلی بار اس شہر پہ قبضہ کیا تھا
اس میں شک نہیں ہے کہ روسیوں اور شامی فوج کے لئے پامیرا پہ داعش کا قبضہ ایک دھچکا ہے لیکن یہ علامتی سیٹ بیک ہے ناکہ اس کی کوئی فوجی اہمیت بنتی ہے۔اس سال کے شروع میں شامی فوجی افسران نے مجھے بتایا کہ داعش کو اس شہر میں لوٹنے کی کبھی اجازت نہیں دی جائے گی۔اس شہر میں روس کا ایک فوجی اڈا بھی ہے اور روسی جہاز وہاں سے اڑتے تھے اور ایک روسی آرکسٹرا نے پامیرا کی آزادی کی خوشی میں ایک میوزک کنسرٹ بھی کچھ عرصہ پہلے کیا تھا۔
تو کیا ہوا؟ زیادہ تر وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ شامی فوج کے پاس مشرقی حلب کا آپریشن مکمل کرتے ہوئے پامیرا کے لئے مطلوبہ افرادی قوت نہیں تھی۔
ان کو پامیرا کو فوری واپس لینا ہوگا۔لیکن بشار الاسد کے لئے حلب کے محاصرے کے خاتمے کا مطلب یہ ہے کہ داعش،نصرہ ،القاعدہ اور دوسرے سلفی گروہ اور ان کے اتحادیوں کا حلب میں کچھ بھی نہیں ہے یا یہاں شام کی ریڑھ کی ہڈی کہلانے والے اضلاع کے لئے ایک دارالحکومت بنانا ہوگا۔دمشق، حمص ،حماء اور حلب
حلب کی طرف واپس آتے ہیں۔مغربی سیاسی-صحافتی بیانیہ جو حلب پہ تھا اس میں اب تبدیلی کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔کچھ دنوں سے اس کے شواہد بھی صاف نظر آنے لگے ہیں۔کئی مہینوں تک شامی رجیم کی مذمت اور حلب کا نام نہاد دفاع کرنے والے باغیوں کے مظالم چھپانے والے صحافی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو باغیوں کی شکست کی بو جیسے ہی آنے لگی تو چند دن پہلے انہوں نے اپنی تنقید میں حلف کا نام نہاد دفاع کرنے والوں کو بھی شامل کرلیا
یو این ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کو لیں۔کئی ہفتوں مشرقی حلب میں شہری آبادی ، اپنے میڈیکل رضاکاروں ، حکومت کی رعایا اور دوسرے سینکڑوں افراد جو فرنٹ لائن کراسنگ کے بعد سے مسنگ ہیں بارے خدشات ظاہر کرنے کے بعد کچھ دوسرے خدشات کا تذکرہ یو این سے سننے کو مل رہا ہے۔
یو این کی جانب سے بیان آیا کہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران فتح الشام دوسرے لفظوں میں القاعدہ۔ ابوعمارہ بٹالین نے متعدد شہریوں کو اغواء کرنے کے بعد قتل کردیا جنھوں نے اپنے گردونواح میں مسلح گروپوں کو چلے جانے کو کہا تھا تاکہ معصوم شہریوں کی جان بچ سکے
“ہمیں ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ 30 نومبر سے یکم دسمبر کے دوران مسلح اپوزیشن گروپوں نے فرار کی کوشش کرتے ہوئے شہریوں پہ فائر کھول دیا۔” مزید حکومت کے زیر کنٹرول مغربی حلب کے شہری علاقوں بھاری حملے کئے گئے ہیں۔”
مجھے شک ہے کہ آنے والے دنوں میں ایسی خبریں سنیں گے۔اور اگلے مہینے اطالوی صحافی لوریٹا نپولینی کی شام میں جنگ کی فنڈنگ بارے نئی کتاب بھی ہم پڑھ رہے ہوں گے۔اس نے حکومت اور باغی افواج کی جانب سے اغواء برائے تاوان کی وارداتوں کی درجہ بندی کی ہے بلکہ اس نے ہمارے پیشہ صحافت بارے بھی انتہائی سخت الفاظ استعمال کئے ہیں۔
وہ لکھتی ہے، ” رپورٹر جو کہ مشرقی شام میں مسلح گروپوں کی جانب سے اغواء کئے گئے وہ ہمینگوئے سینڈروم کے ایک طرح سے متاثرہ بن گئے۔جنگی رپورٹر جوکہ بغاوت کی حمائت کررہے تھے انھوں نے باغیوں پہ اعتماد کیا اور اپنی جانیں ان کو سونپ دیں کیونکہ وہ ان کے ساتھ اشتراک میں تھے لیکن یہ انسرجنسی یا شورش تو اصل میں کریمنل جہاد ازم کا ہی دوسرا نام ہے اور یہ ایک جدید مظہر ہے جس کی صرف ایک ہی چیز سے وفاداری ہے اور وہ ہے زر۔پیسہ
کیا یہ مرے پیشہ پہ بہت سحۃ تنقید ہے ؟ کیا واقعی ہم باغیوں سے ملے ہوئے ہیں؟
یقینی بات ہے کہ ہمارے سیاسی آقا تو ملے ہوئے ہیں۔اور انہی وجوہات کی بنا پر باغی اپنے متاثرہ کو اغوا کرلیتے ہیں۔حلب کی فتح سے ان لوگوں کو بھی سخت مایوسی ہوئی جو گلف ریاستوں سے اربوں ڈالر کی اسلحے کی ڈیل کی آس لگائے بیٹھے تھے۔
http://www.independent.co.uk/…/aleppo-falls-to-syrian-regim…