خاموشی سے مرتے رہو ورنہ ایران دفع ہو جاؤ – سید فرخ عباس حسینی
دنیا بھر میں انسانی بنیادوں پر یہ اصول رائج ہے کہ کسی بھی گھر میں فوتیدگی ہو جائے تو محلے والے اور جاننے والے آتے ہیں ، افسوس کرتے ہیں ، مرحوم کے لواحقین کو اپنی ہمدردی اور حمایت کا یقین دلاتے ہیں – اگر مرحوم کسی ناگہانی کا شکار ہوا تو ہمدردی کے جذبات بھی شدید ہوتے ہیں اور افسوس کے لئے الفاظ کا چناؤ بھی انتہائی محتاط انداز میں کیا جاتا ہے –
اور اگر مرحوم کو بے جرم و خطا نشانہ بنایا گیا ہو تو نا صرف اس کے لئے دعا کی جاتی ہے بلکہ قاتلوں کے لئے دنیاوی اور اخروی عذاب کی بد دعا بھی کی جاتی ہے –
پاکستان دنیا کا شاید وہ واحد ملک ہے جہاں ایک مخصوص مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کے قتل ہوتے ہی مختلف قسم کی تھیوریز گردش کرنے لگتی ہیں – ان میں سے سب سے پہلی یہ ہے کہ مرحوم کے لواحقین سے قاتلوں کی نامزدگی کا حق چھین کر قتل کو کسی دشمن ملک کی سازش یا بیرونی ہاتھ پر ڈال دیا جاتا ہے اور مرحوم کے لواحقین کو یہ مشورہ بھی دیا جاتا ہے کہ بجاے اپنے شہدا کے قتل کے خلاف آواز اٹھانے کے آپ بھی انہی طاقتوں پر الزام ڈالیں جن کا ہم کہہ رہے ہیں ورنہ آپ خود اپنے قتل کے ذمہ دار ہیں –
ان کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ان طاقتوں کے نام نا لیں جوسرکاری اور ریاستی سرپرستی میں شہر شہر” کافر کافر شیعہ کافر ” کے نعرے لگاتے پھرتے ہیں اور پھر شیعہ قتل ہونے پر سب سے پہلے مذمت کی ڈگڈگی بجانے آجاتے ہیں –
یہ سب کچھ نام نہاد حب الوطنی اور پاکستانیت کے نام پر کیا جاتا ہے – اور اگر مرحوم کے لواحقین اس قسم کی فضول اور بکواس سازشی تھیوریز پر یقین کرنے سے انکار کر دیں تو انھیں ایک نہایت ” مدبرانہ ” اور دانشوارانہ ” مشورہ نہایت ہمدردانہ انداز میں دیا جاتا ہے کہ ” ایران دفع ہو جاؤ ” –
ایسی محب الوطنی یقیناً انہی لوگوں کو مبارک ہے جن کی انسانیت بھی صرف برما اور فلسطین کے لئے جاگتی ہے – اگر کوئی غلطی سے پاکستان میں نسل کشی کا شکار شیعہ ، بلوچ یا پرسکیوشن کا شکار احمدیوں کا ذکر کر لے تو یہ ایسا منہ بناتے ہیں جیسے کسی نے ان کے منہ میں زہر انڈیل دیا ہو –