The Pink: She really loves You but you are coward
کاری کاری رینا ساری سان اندھیرے کیوں لائی
روشنی کے پاؤں میں یہ بیڑیاں سی کیوں آئی
بھجیا رے کیسے انگارے جیسے
چھاؤں اندھیری ، دھوپ میلی کیوں ہے رے
آپ اگر ایک فیمنسٹ ہیں اور آپ نے انرورادھو رائے چودھری اور سوہجیت سرکار کی فلم ” پنک” نہیں دیکھی تو پھر آپ کا فیمن ازم ابھی وجدان کی اس لہر سے عاری ہے جس کی اس کو ضرورت ہے-یہ ہے مرا پہلا تاثر جو اس فلم کو دیکھ کر مجھ پہ طاری ہوا-صبح کے تین بجے ہیں اور قرۃ العین بلوچ کی آواز میں ” کاری کاری رینا” گایا ہوا گیت مرے کانوں میں ابتک بج رہا ہے اور میں ابھی تک اس ٹرائل کے دوران بولے جانے والے مکالموں کی گونج اپنے کانوں میں سن رہا ہوں جو سہگل ( امیتابھ بچپن ) نے تین لڑکیوں کا مقدمہ لڑتے ہوئے دلائل کی شکل مین دئے جن پہ تین مردوں کو لبھانے ، ان سے پیسے بٹورنے اور ان کو “سے ڈیوس” کرنے کا الزام تو ہے ہی ساتھ ساتھ ان میں سے ایک لڑکی “منال” ( ٹپسی ٹپو ) پہ جان سے مارنے کا الزام بھی ہے-
یہ فلم خاص طور پہ ان تمام مردوں اور عورتوں کو تو ضرور دیکھنے کی ضرورت ہے جو صدیوں سے چلی آرہی فیوڈل مینٹلٹی کے زیر اثر عورتوں کے کردار بارے کوئی رائے قائم کرتے ہیں اور پھر اس کردار کے تعین کے ساتھ ان عورتوں کے ساتھ جو بھی ہو اس کا ان کو مستحق خیال کرتے ہیں-
کوئی لڑکی کسی راک شو میں ملے اور اس سے دوستی ہوجائے اور وہ مسکراکربات کرے، بات کے دوران اپنے مرد ساتھی کے ہاتھ پہ ہاتھ مارے اور اس کے بظاہر سیکس جوک کے مقابلے میں سیکس جوک سنادے تو اس کے ساتھ زبردستی جائز ہوجاتی ہے-
کوئی لڑکی کسی کی دعوت قبول کرلے ، اس کے ساتھ پرائیویٹ پارٹی میں جانا قبول کرلے، جینز یا اسکرٹ پہن کر اس ڈنر یا لنچ مين شریک ہو اور وہان پہ ڈرنک کرے تو وہ “اچھے کردار ” کی مالک نہیں ہے اور اس بنا پہ اس سے زبردستی کرنا جائز ہوجاتا ہے-
کوئی لڑکی اکیلے رہے ، رات کو دیر سے گھر لوٹے ، ورکنگ گرل ہو اور رات کو کوئی اس سے ملنے لڑکا آجائے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کسی کردار کی مالک نہیں ہے اور اس سے جو بھی ہو وہ ٹھیک ہے-
رات کو اگر کسی سڑک کے فٹ پاتھ پہ کوئی لڑکی چلتی نظر آئے تو گاڑیوں کے شیشے خودبخود نیچے ہونا شروع ہوجائیں اور دن میں ایسا کرنے کا خیال کسی کو نہ آئے-
اس فلم کے کئی مکالمے ایسے ہیں کہ وہ برسوں یاد رکھے جائیں گے-ویسے تو اس فلم میں تینوں لڑکیوں نے کمال کے مکالمے بولے اور ان پہ کمال کی اداکاری کی ہے-لیکن منال کی اداکاری بلاشبہ یادگار ہے-ٹپسی پنو جوکہ ساؤتھ انڈین اداکارہ ہے جس نے اپنے کرئیر کا آغاز ماڈلنگ سے کیا تھا اور پھر وہ اداکاری کی طرف آئی اور کئی تامل فلموں مین اس نے کمال کی اداکاری کی لیکن “پنک” میں اس کی اداکاری اس کی ابتک سب فلموں میں کی گئی اداکاری سے بہت باہر ہے-اس نے اپنے کردار کو خوب نبھایا بھی ہے-وہ راک شو، ڈالز شو کرتی ہے اور اپنی شخصیت کے اظہار کے لئے کسی سمجھوتے کی قائل نہیں ہے –
راتوں کو شوز سے وہ دیر سے فارغ ہوتی ہے تو قرول باغ دہلی میں اپنے ماں باپ کا گھر اس لئے چھوڑ آتی ہے کہ اس کے رات گئے گھر لوٹنے تک اس کے والدین جاگتے رہتے تھے-اس کے اس فیصلے کو اس ٹرائل کے دوران اس کی بے راہ روی کے ثبوت بنادیا جاتا ہے-منال کتنی ہی بولڈ کیوں نہ ہو اور کتنی ہی بہادر کیوں نہ ہو مگر جب اسے جیل میں رات گزارنا پڑتی ہے اور عدالت میں پیشی پہ وہ واپس جیل جانے کے لئے پولیس وین میں بٹھائی جارہی ہوتی ہے تو اس کی دونوں دوست فلک علی اور آدیرا پولیس وین کے پیچھے پیچھے بھاگتی ہیں تو منال کہتی ہے ، ” لاک اپ میں یورین کی بہت بو ہے-مجھے الٹی ہونے کو ہورہی ہے “-
اور جب فلک علی کا دوست جو اس سے عمر میں کافی بڑا ہے اور اس کی ایک بیٹی عالیہ ہوتی ہے کا سامان ان کے کرائے کے گھر کے دروازے پہ رکھ کر یہ کہہ کر چلا جاتا ہے ” میں اپنی بیٹی عالیہ کا اس معاملے ميں نام نہیں آنے دینا چاہتا ” تو جب وہ اپنی کار کا دروازہ کھول کر اس میں بیٹھنے لگتا ہے تو پیچھے سے ” منال ” بھاگتے ہوئے آتی ہے اور کہتی ہے :
Mr Javid! She really loves you but you are coward man.
میں نے جب یہ مکالمہ سنا تو دھل سا گیا اور مرے سامنے ایسے کئی حقیقی مناظر گھوم گئے جس میں ادھیڑ عمر مردوں نے بزدلی دکھائی اور مقابلے میں آنسو بھری دو آنکھیں ہی نظر آتی ہیں اور ان کی کوئی سہیلی ان بھیگی بھیگی پرشکوہ آنکھوں سے کہہ رہی ہوتی ہیں :
“چھوڑو بھی ، کمینہ بزدل تھا جو بھاگ گیا “
مری ایک دوست پاکستان کے ایک بڑے معروف ٹی وی چینل میں بہت ہی معروف سکرپٹ رائٹر ہیں اور ساتھ ساتھ وہ بڑی کمال کی اینکر بھی ہیں-ان سے میں نے ایک مرتبہ سوال کیا :
کیا آپ کو کبھی کسی مرد سے محبت نہیں ہوئی ؟
کہنے لگیں کہ نہیں ؟
مرا اگلا سوال تھا کیوں ؟
کہا ، ” کوئی بہادر مرد ہی نظر نہیں آیا “
اور پھر مجھے ایک واقعہ بتایا کہ اس کے ساتھ اسی ٹی وی چینل میں ایک لڑکا کولیگ تھا اور اس کا کہنا تھا کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے تو ایک دن میں نے اسے کہا کہ اگر ایسا ہے تو مرے گھر اپنے والدین کو لے آؤ-مگر اس کی ہمت نہ پڑی-
میں نے کہا تو کورٹ میرج کرلینی تھی- کہنے لگی کہ کورٹ میرج کا بھی سوچا جاسکتا تھا مگر وہ اپنے والدین کو مرے ہاں بھیجتا تو سہی پھر انکار ہوتا تو میں اس بارے کوئی خیال کرلیتی –اب بھلا ایسے بزدل مردوں کا ميں کیوں بوجھ اٹھاؤں –فلک علی پہ بھی اپنے ساتھی مرد کی بزدلی کا راز کورٹ میں کھلتا ہے اور وہ بے اختیار کہتی ہے کہ اسے اب اس پہ افسوس ہے ” کاش وہ اس کے پاس نہ گئی ہوتی “
پنک فلم ہندوستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی سوسائٹی میں روایتی عورتوں کے کردار سے ہٹ کر ابھرنے والے کرداروں کی بھرپور عکاسی کرنے والی فلم ہے جو بہت سے سٹیریو ٹائپس کو توڑتی ہے اور ہمیں سماج کے اندر ریلشن شپ کی نت نئی اشکال بارے اشارے دیتی ہے اور اس پہ معاشرے کے اندر سٹیٹس کو کے حامیوں فرسودگی اور نہایت سطحی سوچ کے اثر ابھرنے والی پست ذہنیت کے کئی کرداروں سے متعارف کرواتی ہے-دہلی ایک کاسموپولٹین سٹی ہے مگر اس سٹی کے اندر بیک وقت ترقی اور رجعت ساتھ ساتھ سفر کرتی ہیں اور عورتوں کے ورک اور ان کا معاشرے میں آزادانہ کردار کو محدود کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور یہ دہلی ہمیں اپنے آس پاس مل سکتا ہے-پاریچڈ کے بعد اس سال کی یہ دوسری ہندی فلم ہے جس نے عورتوں کی آزادی کے سوال کو اپنے اپنے انداز میں نمایاں کیا ہے اور ساتھ ساتھ ان کے سٹیریو ٹائپ کرداروں کے بت پاش پاش کرنے میں بہت مدد کی ہے-
اس فلم کے آخر میں سہگل اپنے کلوزنگ دلائل میں بس ” نو ” کہتا ہے اور یہ واضح کرتا ہے کہ جب کوئی عورت ” نو ” کہتی ہے تو بس پھر وہ “نو ” ہوتا ہے اور یہ “نو” کوئی بھی عورت کہے ، کوئی سیکس ورکر کہے ، کوئی بیوی کہے یا کوئی دوسری ورکنگ ویمن کہے –اس “نو” کے بعد بھی اگر کوئی پیش رفت کرے تو وہ جرم ہے-اور عورت کو اپنے ” سیلف ڈیفینس ” کا حق ہے
Source:
The Pink:She Really Loves You but You are Coward