ضمیر کی مان لی – علی اسد رضوی
امریکہ میں اپنی پاک سر زمین سے دور رہنا چاہے تعلیم کی عرض سے ہو یا کسبِ معاش کی کسی بھی حب الوطن کے لیے آسان نہیں۔ پس کچھ یوں ہی ہوا اور دیارِ غیر میں تحصیلِ علم کے لیےجانا مہنگا پڑ گیا۔ہاں،پاکستان میں تو جان کے لالے تھے مگر کسے پتا تھا کہ اس چند روزہ ملک سے دوری شناخت کی گمشدگی لاد دے گی۔اب سوچتا ہوں کہ خود کو مہاجر کہو، اردو بولنے والا کہو، کراچی کا باشندہ کہو یا پھر کچھ اور؟ پھر دل ایکا دوکا لمحے کے لیے ڈوبتا ہے اور فریاد کرتا ہے کہ آیا اس روشن شہر کو کس حاصد کی بری نظر لگ گئی۔ اب خواب دیکھنا تو دور کی بات شہر کے قائم و دائم رہنے پر شبہہ سا ہوتا ہے مگر پھر اگلے ہی لمحے بیتے کٹھن حالات سے سرخرو نکلنا ایک نئی امنگ اجاگر کردیتا ہے۔
کراچی میں پیدا ہوا یہ بندہ حقیر اس زمانے کی پیداوار ہے جہاں پاکستان زندہ باد کہنا ناپید چکا ہے اور ماسوائے جشنِ آزاری اور یومِ دفاع کے کانوں میں سراحت کرنے سے محروم رہتا ہے۔ گزشتہ چند روز قبل خبروں کی زینت بننے والے بیانات نے شاید ان نعروں پر بندش سی عائد کردی ہے۔میں جو کہ خود کوفخریہ انداز میں مہاجر (ہندوستان کو پاکستان کے لیے چھوڑنے والے/ہندوستان سے ہجرت کرنے والے) کے نام سے اپنا تعارف کراتاتھا آج خود کو پاکستانی ثابت کرنے کے جتن کررہا ہوں۔ آیا ایسا کیا ہوا کہ جس نے آج محسنوں کو منوں مٹی تلے دبا دیا۔
کراچی سے متعلق بہت سے تاثرات سننے کو ملتے ہیں۔ لبوں کی زینت بننے والے خیالات میں ایک کہتا ہے کہ اس شہر پر کچھ مخصوص افراد کی اجارہ داری ہے۔ کراچی سے باہر رہنے والے کہتے ہے کہ بھائی شہرِ قائد جائو تو سمجھو روح قبض۔ تیسرا دل ہی دل میں گمان کرتا ہے کہ یہ شہر تو بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے۔ چوتھا سوچتا ہے کہ یہ شہرتو مشرقی پاکستان کی ڈگر پر چل رہا ہے۔ اور پھر سب سےزیادہ ڈرا سہما دھیمی سی آواز میں کہتا ہے کہ چندہ دو ورنہ بوری لو!عرفِ عام میں اکثر مشہور ہونے والے خیالات سے انسان مکمل تجزیہ کی بنا پر ایمان تو لے آتا ہے مگر کم علمی کی بنا پر مار کھا جاتا ہے۔
بے ساکھیوں پر چلتا پاکستان آج بھی کراچی شہر پر معاشی لحاظ سے بے حد منحصر ہے۔ سوال یہ اٹھا ہے کہ کراچی میں جہاں اب جا کر کسی قدر امن بہال ہوا تھا وہاں پھر اس نازک وقت میں یہ مسئلہ کیوں امڈ آیا؟کیا کل کے کچھ محسن آج مفسد ہوگئے یا پھر حقوق کی جنگ آج اس ڈگر پر لے آئی؟ اس کی وجوہات اور عوامل کی تفصیل کو ڈھونڈنا اہلِ دانش کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ مدعہ یہ ہے کہ آخر کس چیز نےے آج ہمیں پاکستان مخالف نعروں اور دشمنوں سے مدد لینے پر اکسا دیا۔ اب یہاں پر کچھ لوگ اسے حقوق نہ ملنے پر دھمکی سے تعبیر کریں گے، مصلحت پسند اسے خاموشی کی نظر کر دیں گے، مخصوص طبقہ اسے اندھی محبت کا دوش دیگا،
محتاط افراد اس مسئلہ کو پیچیدہ کہیں گے اور اس مسئلہ میں کودنے کو گڑھا کھودنے جیسا قرار دیں گے، قیامِ پاکستان کا مخالف مذہبی طبقہ چپی لگائے رکھے گا، سیکیولر اسے جمہور کی منشا کہیں گے، سیکیولر لبرلزم سے متاثر اسے سیاسی نظام کی کمزوری اور دین و سیاست کے گڈ مڈ ہونے کی وجہ کہیں گے، اہلِ دانش اسے آنے والے وقت کے لیے چھوڑ دیں گے، مخالفین اسے شخصیت پرستی اور نظریات کے پختہ نہ ہونے کا انجام کہیں گےاور باقی اسے پرانی پالیسی اور اشتعال انگیزی کہیں گے۔ لیکناسرائیل اور امریکہ سے مدد مانگے پر نام نہاد تنظیمیں جن کا نان و نفقہ ہی اس معاملے پر چلتا ہے وہ اب میدان میں کود پڑین گی۔
گزشتہ چند روز میں دیے گئے بیانات نے کراچی میں ایک عجیب سی کھلبلی مچا دی ہے۔ اہلیانِ کراچی کو اب یہ بات ستانے لگی ہے کہ ہمارے آبائ و اجداد نےپاکستان بنانے میں لاذوال قربانیاں دیں، بھوک و پیاسں میں پاکستان کی راہ تکی مگر کبھی بھی غیروں کے آگے نہ جھکے۔ تو پھر ایسا کیا ہوا کہ آج کراچی شہر کی ایک مشہور شخصیت نے پاکستان دشمن قوتوں کو اپنی مدد کے لیے مدعو کرلیا اور پاکستان کے قیام پر دشمن سے معذرت کر لی۔ ان افراد نے جنہوں نے مشکل ترین حالات میں اپنی غزتیں لٹا دیں مگر بیچیں نہیں آج ان کے والی وارثوں نے ان کے خلاف علمِ بغاوت بلند کردیا اور امریکہ، اسرائیل اور بھارت جیسے ناسور سے مک مکا کرنے کو عافیت اور نجات کا ذریعہ سمجھا ہے۔
یہ تحریر لکھنا بے حد مشکل تھا اور اس کو لکھنے کا عزم کرنا اس لیے کٹھن تھا کیونکہ وہ شخص جس نے کراچی کی سیاست کو جانچا ہو اور اس میں اہم کردار ادا کرنے والوں کو قریب سے دیکھا ہو اور انہیں کراچی کی ضرورت مانا ہو اور حقوق کی سب سے بڑی آواز کے طور پر سنا ہو وہ ہی اگر آج بیرون کے پشت پناہ نکلے ہوں اور ملک دشمن آواز اٹھا رہے ہو تو یہ بے حد تکلیف دہ تھا۔ کیا را، موساد، سی آئی اے وغیرہ ہمارے دشمن نہیں؟امریکہ میں ذاتی طور پر خطاب سننے کے بعد آج میں شک و شبہ سے عاری ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان تا صبحِ قیامت اپنے پورے وجود کے ساتھ انشائ الللہ قائم و دائم رہے گا