میں تکفیری وہابیت کے خلاف کیوں لکھتا ہوں ؟

AAEAAQAAAAAAAAMpAAAAJDU2MzNhYmNkLTRmNmMtNDQzNy1hOTZmLTQyZjVmZmUwZTNiZQ

دارتی نوٹ : الیگزینڈر اےتھوز ایک آرتھوڈوکس کرسچن فری لانس صحافی ہیں اور پیشہ تجارت سے وابستہ ہیں –اور مغرب کے اندر جہاں یہ اسلامو فوبیا کے خلاف طاقتور آواز ہیں ، وہیں پہ یہ ان گنے چنے صحافیوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے  مڈل ایسٹ ، شمالی افریقہ ، مغرب ،جنوبی ایشیا میں ہونے والی مذہبی دہشت گردی اور انتہا پسندی کی جڑ تکفیری سلفی-دیوبندی وہابیت کا نام لیکر بہت واضح پوزیشن اختیار کی ہوئی ہے-حال ہی میں ان کا ایک مضمون کابل میں شیعہ ہزارہ نسل کشی پہ شایع ہوا جس کا عنوان ان کی نظریاتی شفافیت کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے-اس مضمون کا عنوان ہے :

Tears flow from Wahhabi Salafi Deobandi madness

وہابی سلفی دیوبندی پاگل پن سے پیدا آشوب

مغرب کے اندر اب ایسے تجزیے دکھائی دینے لگے ہيں جو کہ کم از کم اسلامو فوبیا سے خالی ہونے کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کی شناخت اور ان کی آئیڈیالوجی کے بارے میں کسی قسم کی غلط بائنریوں اور ابہام کا شکار نہيں ہیں –تعمیرپاکستان بلاگ نے بہت عرصہ پہلے اس حوالے سے بات شروع کی تھی تو اس وقت بہت ناموافق حالات تھے اور ابتک پاکستار میں ایسے کمرشل مافیا کی کمی نہیں ہے جو تکفیری فاشزم کی جڑیں دیوبندی ازم اور سلفی ازم میں تلاش کرنے کی بجائے اسے کبھی سنّی شدت پسندی تو کبھی اسلامی انتہا پسندی جیسے الفاظ میں بیان کرنے کا عادی ہے اور اس حوالے سے مغرب کے اسلامو فوبیا کے شکار لوگوں کے بیانیہ کو تقویت دیتے ہیں-الیگزینڈر اے تھوز کا آرٹیکل:

Why do I write about Wahhabi Salafi Takfiri

 آگست 2015ء میں سال پہلے شایع ہوا تھا –اور اس مضمون کے مندرجات فکر انگیز ہیں-اس کا ترجمہ وتلخیص یہاں شایع کیا جارہا ہے –اصل آرٹیکل کے لئے مندرجہ ذیل لنک پہ کلک کیا جائے:

https://www.linkedin.com/pulse/why-do-i-write-wahhabi-salafi-takfiri-alexander-athos

مجھے ان بدمعاش لوگوں کے ساتھ بحث میں اپنا وقت ضایع نہیں کرنا جو انسانوں کے سروں سے فٹبال کا کھیل کھیلتے ہیں-مرے پاس اس سے کہیں بہتر کرنے کی چیزیں ہیں –تاہم مجھے اس چھوٹے سے حلقوں کے الزامات کے رد کے لئے کچھ دیر رکنا ہے جو مجھ پہ کبھی تو “عرب مخالف ” ہونے اور  کبھی ” سنّی مخالف ” ہونے کا الزام لگاتے ہیں –مرے اس الزام کے رد کو اگر آزاد ذہن کے ساتھ پڑھا جائے گا اور تعصب بھرے جذبات سے ہٹ کر دیکھا جائے گا تو ان الزامات میں کوئی حقیقت نظر نہیں آئے گی –جیسے حال ہی میں ، میں نے ایک نقاد کو جواب دیا : نہ تو میں عرب مخالف ہوں اور نہ ہی سنّی مخالف ہوں-اگر آپ مرا سارا کام ملاحظہ کریں گے تو آپ مرے موقف کی تعریف کریں گے-حقیقت یہ ہے کہ وہابی سلفی فرقہ نے سعودی شیعہ کے ساتھ ساتھ جہاں مغرب والوں کا خون بہایا وہیں انہوں نے سنّیوں کا خون بھی بہایا ہے-جیسے حال میں ہی میں نے یوسف بن سلیمان بن عبداللہ السلیمان پہ اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے-

گزرے 15 سالوں میں مغربی یورپ ، ایشیا ،امریکہ اور کینڈا کے خلاف یا ان میں جو بھی دہشت گردی ہوئی وہ مری توجہ کا مرکز رہی ہے-کیوں ؟

مجھے کابل میں ہوئے قتل عام سے لیکر یونان میں ہوئے خون آشام واقعات کی تصویروں بارے بات نہیں کرنی کہ ان میں کیا دکھایا گیا ہے-میں اس انتہا پسند مذہبی آئیڈیالوجی سے کچھ نہیں لینا دینا جوکہ داعش وغیرہ کی جانب سے مرے وطن میں کی جانے والی خون ریزی کا جواز فراہم کرتی ہے-

میں 7/7/2005ء میں کچھ وقت کے لئے لندن میں تھا اور تھوڑے سے فرق سے میں نے ان ٹرینوں /بس کو کھودیا تھا جن کو کچھ ریڈیکل نوجوان مسلمانوں نے اڑادیا تھا –میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا تھا-

میں نے دریافت کیا کہ لندن بم دھماکے ہوں یا میڈرڈ کے بمبار ہوں 2004ء اور 9/11 کے دہشت گردوں کے درمیان تعلق دریافت کیا-یہ اسلام یا سعودی تعلق نہ تھا-اگرچہ 9/11 کے ہائی جیکروں کی اکثریت سعودی باشندوں کی تھی-بن لادن ان کا ماسٹر مائینڈ سعودی تھا اور ان کے مالی امداد کار غالب سعودی تھے-لیکن 7/7 /2005 بمبار عرب نہ تھے-وہ انگلش تھے اور ان کے خاندان کا علاقائی پس منظر برصغیر ہند کا تھا-بلکہ مری تحقیق نے مجھے یہ بتایا کہ ریڈیکلائزیشن کا سرچشمہ سعودی عرب ہے جبکہ حقائق نے یہ بھی بتایا کہ اس وہابی / دیوبندی-سلفی تکفیری ریڈیکل اسلام کے مرکز ثقل نہ صرف سعودی عرب میں ہیں بلکہ یہ مصر ، پاکستان اور لندن میں بھی ہیں –

میں نے 2001ء سے ابتک ہوئے ہر ایک بڑے دہشت گردی کے واقعے کا سراغ لگایا ، تحقیق کی اور تاریخ وار ان کو اکٹھا کیا اور پھر ان واقعات کو انجام دینے والوں کے فنڈنگ کا یا سپورٹ کا منبع تلاش کیا-اور ان کی نظریاتی بنیاد کو کھنگالا اور یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ لوگوں کے ذہن میں سمائے اس پاگل پن کی وجہ دریافت کی جائے-وہ کون سی آئیڈیالوجی ہے جس نے ان کو قتل بلکہ بڑے پیمانے پہ خون ریزی پر اکسایا اور خودکش دہشت گردی کا راستہ انہوں نے اللہ کے نام پہ اختیار کیا-

کیا ان میں کامن لنک یا مشترک کڑی اسلام تھی ؟ نہیں نہیں بالکل بھی نہیں –مرے مسلمان دوست اور کولیگ ہیں اور میں جانتا ہوں کہ وہ بہت اچھے ہیں جن کا مذہب ان کو اس راستے پہ نہیں لیکر جاتا جس تاریک راہوں کے وہ جنونی مسافر ہیں جو کہ اپنے عقیدے  خون خرابہ کرتے ہیں اور اسے اپنی خود ساختہ ناانصافیوں کا واحد راستہ خیال کرتے ہیں-حقیقت تو یہ ہے کہ یونیورسٹی میں ، میں اکثر مذہب کے بارے میں بہت بات کرتا اور مسلم طلباء سے بات کرتا –اور ہم ایک دوسرے کی صحبت کا لطف اٹھاتے تھے-

میں ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہوتا تھا  اور ہم جنونیوں کے حملوں پہ احتجاج کرتے تھے-حقیقت یہ تھی کہ مجھے بدترین سلوک کا سامنا مسلمانون سے نہیں بلکہ خود کرسچن سے ہوا جو کہ مجھ پہ کرسچن نہ ہونے کا الزام عائد کرتے تھے یا صہیونی کی جانب سے کیونکہ میں مسلمانوں کا عمومی دفاع کرتا تھا-اور کہتا تھا کہ مسئلہ جنونیت ہے-یہ بعض کو بہت اندر تک جاکر چوٹ لگاتی تھی –مجھ پہ ایسی تحریروں پہ کرسچن نے تنقید کی جبکہ مسلمانوں نے سراہا-مثال کے طور پہ جب مرا مضمون ” اسلام بطور مذہب بمقابلہ وہابی – دیوبندی سلفی تکفیری گروہ شایع ہوا تو وہ فوری طور پہ انٹرنیٹ وائرل ہوگیا –

مجھ پہ یہاں تک ملحدوں ، غیر مسیحیوں اور خاص طور پہ لیفٹ کے کچھ حصوں نے مرے مسیحی عقائد اور تناظر اپنانے کی وجہ  سے تنقید کی گئی –مجھے آرتھوڈوکس کرسچن روس والوں کی جانب سے چیلنج دیا گیا-کیونکہ میں نے روس کو بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرنے کا مشورہ دیا تھا-مرے امریکی دوست مجھ پہ الزام دیتے ہیں کہ میں روسیوں کے گرد کم دھول اڑاتا ہوں-آپ ہر کسی کو راضی نہیں رکھ سکتے-میں دیانت داری اپنے مذہبی ، ثقافتی اور انٹلیکچوئل تناظر سے جو محسوس کرتا ہوں اور جو سمجھ پاتا ہوں وہی لکھتا ہوں-میں کسی سرکار دربار کا ملازم نہیں ہوں-اور میں میں وہی چیز مستعار لیتا ہوں اور اسی کو آگے دھکیلتا ہوں جو مری اپنی ہوتی ہے-اور یہ ہر ایک لکھت کے حالات و واقعات اور تناظر کے ساتھ بدلتی رہتی ہے-

یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا مذہبی جنونیت جو عالمی دہشت گردی کی قوت متحرکہ ہے وہ صوفی مسلمانوں سے برآمد ہوتی ہے ؟ نہیں-

بہت سے قدامت پرست سنّی مسلمان سکالر ایسے ہیں جوکہ وہابی ازم کو رد کرتے ہیں اور مسلمانوں کو اس زھریلی آئیڈ؛الوجی سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہيں-اور میں امید کرتا ہوں کہ نوجوان مسلمان ان کی اس تلقین کو پلّے باندھ لیں گے اور اس ذھریلے کنویں کا پانی پینے سے انکار کردیں گے-

کیا یہ شیعہ مسلم ہیں ؟ نہیں شیعہ مسلمان نہیں –شیعہ مسلمانوں نے اس پیمانے پہ کبھی دہشت گردانہ حملے نہ کئے جتنے بڑے پیمانے پہ یا وسیع دائرے وہابی سلفی-دیوبندیوں نے کی ہے-

کیا مغرب کے خلاف دہشت گرد حملوں میں سنّی مسلمان ملوث ہیں ؟ نہیں ،سب نہیں –سنّی مسلمان ایک اعشاریہ چھے ارب مسلمان آبادی کا 90 فیصد ہیں-اگر وہ سب دہشت گرد ہوتے یا دہشت گردوں کے ہمدرد ہوتے تو تب ہم ویسٹ گیٹ مال پہ ہوئے مظالم یا 7/7 جیسے حملے ہر مغربی شہر میں ہر ہفتے ہوتے دیکھتے جہاں اچھی خاصی تعداد میں سنّی مسلم آبادی موجود ہے-

تو مطالعہ ، سفر جو میں نے مسلم ممالک کے کئے کے زریعے سے ، مسلمانوں سے دوستی کرکے اور مسلمانوں و غیر مسلموں سے تبادلہ خیال کرکے یہ باتیں سامنے آئیں :

نہ تو سب مسلمان ایک سے ہیں ؛

نہ سب مسلمان جنونی ہیں ؛

نہ ہی سب مسلمان مغرب سے نفرت کرتے ہیں؛

نہ سب مسلمان دہشت گرد ہیں نہ ہی دہشت گردوں کے حامی ہیں ؛

نہ ہی سب مسلمان دہشت گردی کو جواز دینے کے لئے اسے جہاد کہتے ہیں ؛

نہ ہی سب مسلمان جمہوریت مخالف ہیں اور نہ ہمارے مغربی طرز زندگی کے مخالف ہیں ؛

نہ ہی تمام مسلمان شام یا مڈل ایسٹ ریپ کرنے ،تباہی پھیلانے ، قتل کرنے یا کرسچن اور دوسری اقلیتوں کو بے دخل کرنے جاتے ہیں-نہ ہی سب مسلمان حزب التحریر کا حصّہ بنے ففتھ کالم کوئی جنونی ہیں اور نہ ہی وہ وہابی –سلفی –دیوبندی اثر کے تحت مغرب محآلف انتہا پسند ایجنڈا آگے بڑھاتے ہیں-

اگر مسلمانوں کی اکثریت یہ سب کچھ ہوتی تو ہر مغربی ملک میں روز ویسٹ گیٹ جیسے حملے ہر روز ہورہے ہوتے-اور عورتوں کے ختنے صرف افریقہ میں نہ ہورہے ہوتے بلکہ پوری دنیا میں ہوتے-عورتوں کے پاس کوئی حقوق نہ ہوتے-نہ تعلیم ہوتی- اور عورتوں پہ تیزاب پھینکے جانے یا ان کے ریپ یا قتل کے خلاف کوئی شکائت کنندہ نہ ملتا-

اسلام اور مسلمانوں کے نام سے جتنی بھی دہشت گردی اور انتہا پسندی کی اشکال سامنے آتی ہیں ان کو مسلمانوں کی اکثریت رد کرتی ہے کیونکہ مسلمانوں کی اکثریت کے نزدیک یہ ان کے اسلام کے فہم کے خلاف ہے –تو جو اس عظیم عقیدے کے سنّی کیمپ کے اسلامی کلمات ایسے کاموں کے لئے استعمال کرتا ہے وہ کیا سچا مسلمان ہوسکتا ہے ؟

عربی زبان ، کلچر اور قدیم اسلامی متون کا گہرا مطالعہ کرنے والے سکالرز کو پڑھیے –مثال کے طور پہ ” عظیم سرقہ ” کے مصنف خالد ابرالفضل جو کہ اسلام کے ممتاز سکالرز میں سے ایک ہیں کہتے ہیں کہ عصر حاضر میں اسلام اس انقلابی مرحلہ سے گزر رہا ہے جس مرحلے سے یورپ گزرا اور وہاں پہ ریفارمیشن کی بڑی تحریک اٹھی جس نے پورے یورپ کو بدل ڈالا تھا-اور اہم ترین دور میں اسلام کے اندر دو رجحانات ہیں جن کو ایک دوسرے سے سخت مقابلہ ہے- اور یہ مقابلہ اس عظیم مذہب کی دنیا کی تشریح و تعریف کا ہے-اتنی زیادہ چیزیں کبھی داؤ پہ نہیں لگیں تھیں –اور مسلمانوں کا مستقبل توازن میں ہے-

ابوالفضل اعتدال پسند اسلام کا ایک جاندار وژن تشکیل دیتا ہے-مسلمانوں کی اکثریت جوکہ انتہا پسندی کی مخالف ہے اس کے ہاں ایسی آواز کی شدید ضرورت ہے جو  اسلام کی عظیم اخلاقی روایت کو دوبارہ سے زندہ کرے-

تو جب مسلمانوں کی اکثریت امن پسند ہے تو لازمی بات ہے کہ یہ کوئی مذہبی فرقہ یا گروہ ہے جو خود کو اسلام سے وابستہ بتلاتا ہے جو یہ سب کررہا ہے-بعض داعش کی جانب اشارہ کرتے ہیں –تو وہ کون سا گروپ ہے اور تمام دہشت گرد حملوں اور آئیذیالوجیز ان دہشت گروپوں میں کون سے مشترک ہیں؟یہی مری تحقیق کی بنیاد رہی ہے –

What turns a person supposedly religious into such a monster?

ایک شخص کو جو مبینہ طور پہ مذھبی ہوتا ہے کیا چیز وحشی بنادیتی ہے؟ میں نے تحقیق میں جو بنیادی محرک پایا وہ نسل ، مذہب ، زھنی حالت یا مجرمانہ حالت سے آگے کی چیز ہے-یہ ایک ہی ریڈیکل آئیڈیالوجی کی دین ہے جو کہ مجھے سنّی ، شیعہ اور دیگر لکھاریوں سے پتہ چلی –اور اس آئیڈیالوجی کو سلفی-دیوبندی تکفیری جہادی آئیذیالوجی کہتے ہیں

Comments

comments