دفاع پاکستان اور دیوبندی علماء – عمران خان
آرمی پبلک سکول پشاور اور چارسدہ یونیورسٹی پر حملوں کا ماسٹر مائنڈمحمد منصور عرف عمر نارے عرف خلیفہ عمر ڈرون حملے میں ہلاک ہوگیا ہے۔ عمر منصور یا خلیفہ عمر چارسدہ، درہ آدم خیل، نوشہرہ اور ارد گرد کے علاقوں میں طالبان کا علاقائی سربراہ تصور کیا جاتا تھا، جو کہ ضرب عضب کے شروع ہونے کے بعد افغانستان منتقل ہوا۔ماضی میں عمر نارے کا شمار ٹی ٹی پی کے سابق امیر حکیم اللہ محسود کے قریبی ساتھیوں میں کیا جاتا تھا اور ٹی ٹی پی گیدڑ گروپ کا آپریشنل کمانڈر تھا۔ 16دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک سکول پر حملے میں خلیفہ عمر یا عمر منصور کی نگرانی میں 36 بچوں سمیت 144افراد کو شہید کیا گیاتھا۔
ایسے وقت میں جب پاکستانی قوم اس دلسوز سانحہ کے باعث شدید مغموم اور نوحہ کناں تھی، لال مسجد کے خطیب مولوی عبدالعزیز نے اس سانحہ عظیم کی مذمت سے انکار کرکے نہ صرف پوری قوم کے درمیان بلکہ عوام اور اداروں کے درمیان بھی نفرت کی ایک خلیج قائم کرنے کی قبیح کوشش کی تھی۔ دہشت گردوں سے الفت اور دہشت گردی کے جواز یا تاویل پر مبنی یہ کوئی پہلی کوشش نہیں تھی،بلکہ ایک مخصوص مکتب فکر(دیوبند) تسلسل کیساتھ دہشت گردی کے نظریات کی ترویج،حمایت، تائید اور دفاع میں ہمیشہ سے پیش پیش رہا ہے۔
یہاں تک کہ سندھ کے پسماندہ ضلع خیبر پور کی ایک دورافتادہ مسجد میں خودکش حملے سے لیکر مسجد نبوی کے دروازے تک ہونے والے خودکش حملے اور دہشت گردی کے واقعات اس مکتب فکر کی مذمت اور ردعمل کے ہمیشہ منتظر رہے۔ عیدالفطر کے موقع پر انٹرویو کے دوران جب خبر رساں ادارے کے نمائندے نے مولانا طارق جمیل سے سوال کیا کہ ”مسجد نبوی کے دروازے پر ہونے والے خودکش حملے کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔؟تو جواب میں مولانا طارق جمیل کا کہنا تھا کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے ، جس پر وہ بات نہیں کرنا چاہتے ۔
اسی طرح حکیم اللہ محسود کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا تھ اکہ امریکی حملے میں اگر کتا بھی مارا جائے گا تو وہ بھی شہید ہوگا۔ باالفاظ دیگر مولانانے ایک طرف حکیم اللہ محسود کو شہید اور دوسری جانب شہادت جیسے عظیم مرتبے کی دیدنی توہین کی ۔ پاکستانی حکومت کی جانب سے حکیم اللہ محسود کے سرپر پانچ کروڑ جبکہ امریکی حکومت نے پچاس کروڑ کا انعام مقرر کیا ہوا تھا او ر پاکستان میں سینکڑوں شہادتوں کی بالواسطہ یا بلاواسطہ ذمہ داری حکیم اللہ محسود پر عائد تھی۔ جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر منور حسن نے اسی حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دیا تھا ۔
علاوہ ازیں مولانا سمیع الحق اور ان کے مدرسے جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کو ٹی ٹی پی، لشکرجھنگوی، سپاہ صحابہ و دیگر گروہوں کے فکری و نظریاتی بزرگ کا درجہ حاصل رہا۔ جامعہ حقانیہ نے اسامہ بن لادن ، ملا عمر سے لیکر اختر منصور اور عمرنارے اور قاری سیف اللہ تک کی ہلاکت کا نہ صرف سوگ منایا بلکہ انہیں ہیرو اور نجات دہندہ کا درجہ دیا۔وسطی ایشیائی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے دہشت گردسنگدلی و سفاکی میں شہرہ رکھتے ہیں، ان ریاستوں سے نام نہاد مجاہدین پہلی مرتبہ اس جامعہ حقانیہ کے طفیل پاکستان و افغانستان میں وارد ہوئے۔
ان ازبک تاجک دہشت گردوں نے دونوں ملکوں میںاپنے کیمپ قائم کئے۔ پاک فوج نے جب دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا تو انہی ازبک دہشت گردوں نے سب سے پہلے پاکستانی فوجیوں کو ذبح کیا،جی ایچ کیو ، دفاعی تنصیات ،انٹیلی جنس مراکز ، ائیرپورٹس ، مساجد ،امام بارگاہیں کچھ بھی محفوظ نہیں رہا،یہاں تک کہ آرمی پبلک سکول پر حملے میں بھی انہی ازبک دہشت گردوں نے بچوں کے گلے کاٹے۔تحریک طالبان پاکستان، افغانستان،لشکر جھنگوی، پاکستانی فرقہ پرست گروہ کسی نہ کسی صورت میں جامعہ حقانیہ سے وابستہ رہے، پاکستان ، افغانستان سے لیکر مشرق وسطیٰ تک لڑنے والے دہشت گردوں کی جڑیں اسی جامعہ حقانیہ میں پیوست ہیں،یہاں تک کہ پاکستان کی دو مرتبہ منتخب وزیراعظم اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کے قاتلوں کا کھرا بھی اسی مدرسے کی جانب نکلتا ہے۔
مولانا سمیع الحق نے کئی مرتبہ ان دہشت گردوں کو نہ صرف اپنا شاگرد قرار دیا بلکہ ہر صورت ان کی مدد کرنے کا اعلان بھی کیا۔ مخصوص نظریات و عقائد کے مدارس و مراکزسے پاکستان اور پاکستانی عوام کے دشمنوں کی حمایت تو سامنے آتی رہی مگر دہشت گردی کا شکار عوام اورریاستی اداروں کیلئے کسی تسلی و تشفی یا افسوس کا اظہار کبھی سامنے نہی آیا۔ آن دی ریکارڈ ان حقائق کی موجودگی کے باوجود یہ کہنا کہ دہشت گردوں کا کسی مذہب ، مسلک سے کوئی تعلق نہیں،صریحاًدروغ گوئی پرمبنی ہے ۔
دہشت گردوں کا مذہب و مسلک وہی ہے جو ان کی تائید و حمایت کرنے والوں کا ہے، ان کے عمل کا جواز بیان کرنے والوں یا ان کے اس حرام عمل کی مذمت نہ کرنے والوں کا ہے، جس میں مولوی عبدالعزیز، منور حسن، سمیع الحق، فضل الرحمن اور دیگر دیوبندی علما شامل ہیں۔ مکمل طور پر ایک مسلک کا دہشت گردی سے منسلک ہونا، یا اس مسلک کی نمائندہ جماعتوں کا دہشت گردی کو جواز فراہم کرکے دہشت گردوں سے تعاون کرنا پاکستان کی سالمیت ، خودمختاری حتیٰ کہ اس کے وجود کیلئے بھی انتہائی خطرناک ہے۔
پاکستان شائد کہ دنیا کا اکلوتا ملک ہے کہ جس کی ایک طرف 3600کلومیٹر طویل متحرک جنگی سرحد ہے تو دوسری جانب بیک وقت تین خوفناک جنگی ڈاکٹرائنز کی زد میں ہے۔ پہلی کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن جس کے تحت ساٹھ فیصد سے زائد بھارتی فوج انتہائی تیزی سے صوبہ سندھ سے داخل ہو کر بلوچستان اور سندھ کو باقی پاکستان سے کاٹ دیگی، چونکہ یہ خالصتاً فوجی اور جنگی حکمت عملی ہے ، چنانچہ سمارٹ بم اور ٹیکٹیکل ہتھیاروں کی تیاری سے اس ڈاکٹرائن کا توڑ موجو د ہے۔ دوسری امریکن ایف پاک ڈاکٹرائن ہے، جس میں افغان جنگ کو بتدریج پاکستان کے اندر تک لانا ہے اور دہشت گردی و گوریلا حملوں کے ذریعے پاک فوج اور دیگر ریاستی اداروںکو مفلوج اور بے دست و پا کرنا ہے۔
درحقیقت یہی وہ ڈاکٹرائن ہے جس کی زد میں آکر پاکستان کی دولاکھ فوج مسلسل حالت جنگ میں ہے اور پاکستانی عوام و ادارے ساٹھ ہزار سے زائد جانی نقصان برداشت کرچکے ہیں۔ علاوہ ازیں اس جنگ میں پاک فوج کا جانی نقصان اب تک کی تمام جنگوں میں ہونے والے کل جانی نقصان سے زیادہ ہے۔ باالفاظ دیگر ملک بھر میں ہونے والی دہشتگردی اسی ڈاکٹرائن کا حصہ ہے۔ جسے نظریاتی و فکری اعتبار سے دیوبندی علماء کی حمایت و تائید حاصل ہے۔
تیسری جنگی ڈاکٹرائن کو فورتھ جنریشن وار کا نام دیا گیا ہے، جس کے تحت ملکی اداروں بالخصوص پاک فوج اور عوام کے درمیان مختلف طریقوں سے دوریا ں پیدا کرکے انہیں تصادم کی طرف لے جانا ہے۔ بدقسمتی سے اس ڈاکٹرائن میں بھی مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام بالعموم اور فقط دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے علماء کرام بالخصوص متحرک ہیں۔ جس کا اندازہ لگانے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ بعض دیوبندی علماء پاک فوج کو ناپاک، مشرک، ملحدیا کرائے کی فوج قرار دیتے ہیں، جبکہ خودکش حملہ آوروں ، دہشت گردوں ، یہاں تک مساجد میں نمازیوں کو شہید کرنے والے قاتلوں کو بھی شہیدکا درجہ دینے سے نہیں چوکتے۔
دوسری اور تیسری جنگی ڈاکٹرائنز جو پاکستان اور پاکستانیوں کیلئے ہر حوالے ہر لحاظ سے خطرناک ترین ہے، ان میں اس مخصوص مسلک یا اس مسلک کی نمائندگی کرنے والوں کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔پاکستانی عسکری ماہرین یا وفاقی وزیر داخلہ جب یہ بات کرتے ہیں کہ میدان میں جیتی ہوئی جنگ نفسیاتی اور نظریاتی اعتبار سے ہار رہے ہیں تو اس سے مراد یہی ہے کہ جنگ کے میدان میں تو پاکستان ، پاکستانی اداروں اور عوام کو شکست نہیں دی جاسکی مگر بدقسمتی سے ان تمام کو اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف ایک صفحہ پر بھی اکھٹا نہیں کیا جاسکا، یا دہشت گردوں کی مذموم کارروائیوں کے خلاف عوام کو بحیثیت قوم اکھٹا بھی نہیں کیا جاسکا۔
قوم کو ایک صفحہ پر لانا تو درکنار دہشت گردوں کی فکری و نظریاتی کمک کا راستہ تک نہیں روکا جاسکا۔ وطن عزیز کیلئے اس سے بڑھ کر کیا المیہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان کے دشمنوں یعنی تمام دہشت گردوں کی تدریس و تربیت کا دعویدار وفاقی دارالحکومت کے وسط میںکھڑے ہوکر دفاع پاکستان کے نام پر دہشت گردوں اور پاکستان دشمنوں کا دفاع کرے۔ پاکستان کی سلامتی، خودمختاری تحفظ کیلئے ضروری ہے کہ دوسری اور تیسری جنگی ڈاکٹرائنز کو کسی بھی طرح ناکام بنایا جائے جو کہ فقط ایک ریاستی ادارے یعنی فوج کے بس کی بات نہیں ہے۔ افغان جنگ کو پاکستان کے مزید اندر تک آنے سے روکنے اور پاکستانی اداروں و عوام کے خلاف جاری دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کیلئے دہشتگردوں کا نظریاتی دفاع کرنے ، ان کی ترجمانی کرنے یا ان کی کارروائیوں کی مذمت نہ کرنے کا سلسلہ کسی بھی قیمت پر بند کیا جائے۔
اس کیلئے ضروری ہے کہ دیوبندی علماء اپنے حصے کا کردار ادا کریں کیونکہ عصر حاضر میں صرف دیوبندی مسلک یا اس کی نمائندہ جماعتوں کے قول و کردار اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ وہ دہشت گردی کو سرے سے دہشت گردی تسلیم ہی نہیں کرتے۔ پاکستان میں اس فرقہ یا نظریہ سے عوام کی ایک بڑی تعداد منسلک ہے ۔ ایک طرف مولوی عبدالعزیز،سمیع الحق ، مولانا فضل الرحمن جیسے لوگ اعلانیہ دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں۔ا س کی ترویج کرتے ہیں۔دہشت گردوںکو بچانے میں اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں،یا پھر اسی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے مولانا طارق جمیل جیسے لوگ خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔
نتیجتاً جو پاکستانی نوجوان انہیں سنتے ہیں، ان کی پیروی کرتے ہیں، وہ اس خاموشی یا حمایت کی وجہ سے دہشت گردی کا ایندھن بن رہے ہیں ۔ ایسی صورت میں اہل تشیع، اہلسنت، بریلوی مسلک و مکتب سے تعلق رکھنے والے علماء دہشت گردی کے خلاف لاکھ فتوے دیں اس سے دہشت گردوں کو فرق نہیں پڑتا۔ فرق اس وقت پڑیگا جب دیوبندی علماء فتوے دیں، دہشت گردی کے خلاف بات کریں ، خطبات دیں۔
وطن عزیز پر مسلط دوسری اور تیسری جنگی ڈاکٹرائنز سے نمٹنے کیلئے بھی انتہائی ضروری ہے کہ دہشت گردوں کو تنہا کیا جائے اور پاکستانی عوام و اداروں کو ایک صفحہ پر لایا جائے، جس کیلئے ضروری ہے کہ ریاست دیوبندی علماء کو مجبور کرے کہ وہ دہشت گردوں کی فکری و نظریاتی مدد کا سلسلہ بند کریں ، چاہیے اس کیلئے ریاست کو طاقت کا استعمال ہی کیوں نہ کرنا پڑے،کیونکہ وطن عزیز کا دفاع و خودمختاری کا تحفظ تو بہرحال سب کیلئے مقدم ہے۔