کیا مجرم صرف بشار الاسد ہی ہے؟ – عدنان خان کاکڑ
ایڈیٹر نوٹ : مشرق واسطی خصوصاً شامی بحران کے حوالے سے عدنان کاکڑ صاحب کی یہ تحریر ایک متوازن اور کافی حد تک غیر جانب دار تحریر معلوم ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود اس تحریر میں کچھ مغالطوں کو پھر سے جلا بخشی گیی ہے جن کی نشاندہی کرنا ہم ضروری سمجھتے ہیں – عدنان کاکڑ صاحب نے جہاں ایک جانب جماعتی منافقت کا پردہ بہت خوبصورتی سے چاک کیا ہے وہیں انہوں نے شامی بحران سے پہلے کے معروضی حالت کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے – اور عدنان کاکڑ صاحب کے مطابق شام میں دونوں جانب سے کمائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا ہے جبکہ یہ بات اقوام متحدہ کی آزادانہ تحقیقات میں ثابت ہو چکی ہے کہ کمائی ہتھیاروں کا استعمال صرف دہشت گردوں کی جانب سے کیا گیا -ہم عدنان کاکڑ صاحب کے اس مطالبے بھی سے مکمل اتفاق کرتے ہیں کہ شام کے مستقبل کا فیصلہ صرف شامی عوام کو کرنے کا حق ہے – کوئی بیرونی ملک یا بیرونی حمایت یافتہ مسلحہ گروہ یا دہشت گرد شام کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں رکھتے- اس سب کے باوجود ہم عدنان کاکڑ صاحب کو ایک جرات مندانہ تحریر لکھنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں وہ آیندہ بھی ایسے نازک موضاعت پر لکھتے رہیں گے –
مشرق وسطی میں آمریت کے علاوہ کچھ اور نہیں رہا ہے۔ مصر، شام، تیونس اور ایران وغیرہ وغیرہ میں جمہوریت کا نام تو لیا جاتا ہے، مگر عملاً وہاں آمریت ہی نافذ ہے اور حکمران اسی طرح تقریباً سو فیصد ووٹ لے جاتا ہے جیسے جنرل ضیا اور مشرف نے اپنے اپنے ریفرینڈم میں پائے تھے۔ باقی برادر اسلام ممالک اس نام نہاد جمہوریت کا تکلف بھی نہیں کرتے اور وہاں بادشاہت ہی کا چلن ہے۔ عراق میں شیعہ اکثریت اور سنی اقلیت ہیں تو وہاں سیکولر بعث پارٹی کی آمرانہ حکومت کا سربراہ صدام حسین تھا۔ بحرین میں بھی اقلیتی سنی حکمران ایک شیعہ اکثریت پر حاکم ہیں۔ شام میں علوی اقلیت ہیں اور وہاں سنی اکثریت پر ان کا حافظ الاسد اور اس کے بعد بشار الاسد حکمران بنے۔ تیونس سے لے کر سعودی عرب اور ایران تک خطے کی ہر آمرانہ حکومت، اپنے مخالفین کو شدید ریاستی جبر کا نشانہ بنا کر رکھتی ہے۔
ایسے میں جب عرب سپرنگ چلی تو اس کی باد سموم نے تیونس اور مصر کے بعد شام کو بھی زہر آلود کرنا شروع کر دیا۔ مارچ 2011 میں چند لڑکوں نے دیواروں پر حکومت مخالف نعرے لکھ دیے تو بشار کی ایجنسیاں ان کو اٹھا کر لے گئیں۔ عوامی مظاہرے شروع ہوئے اور بشار الاسد نے ان کو طاقت کے زور پر دبانے کی کوشش کی۔ مگر مظاہرے بڑھتے گئے اور باغیوں نے ہتھیار بھی اٹھا لیے۔ مختلف علاقے حکومت کے کنٹرول سے نکلنے لگے۔
خانہ جنگی کی یہ آگ ایسی پھیلی کہ دو کروڑ سے زیادہ آبادی والے شام کے سینتالیس لاکھ افراد ملک چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ پچھتر لاکھ کے قریب شام میں رہتے ہوئے بے گھر ہیں۔ اب پانچ سال بعد ملک کی آبادی کا اندازہ ایک کروڑ ستر لاکھ لگایا جاتا ہے۔ جنگ میں تباہ کن موڑ اس وقت آیا جب فرقہ وارانہ بنیادوں پر سعودی عرب، قطر اور ترکی نے باغیوں کی مدد شروع کر دی اور ایران اور حزب اللہ نے بشار کو کمک پہنچانی شروع کی۔
اب یہ جنگ ایک شیعہ سنی فرقہ وارانہ لڑائی کا روپ دھار چکی تھی۔ دونوں اطراف جنگی جرائم کی مرتکب ہوئیں۔ دونوں نے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے۔ بشار نے ہیلی کاپٹر سے بیرل بم پھینکے جو کہ بہت سے شہریوں کی ہلاکت کا باعث بنے۔ دوسری طرف باغیوں اور داعش وغیرہ نے خود کش حملوں کے ذریعے شہری اموات میں اپنا حصہ ڈالا اور ان کو لونڈی غلام بنا کر بیچنے لگے۔ دونوں اطراف نے نہتے شہریوں کو مارا اور قتل و غارت اور زنا بالجبر کے مرتکب ہوئے۔ شام میں تین سے پانچ لاکھ افراد مارے جا چکے ہیں۔ کل آبادی میں سے ساڑھے گیارہ فیصد افراد اس جنگ میں ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔ مستقبل قریب میں جنگ رکنے کا امکان نظر نہیں آتا ہے۔ ایران اور حزب اللہ کے جنگجو ملنے اور روس کی فضائی اور فوجی امداد پانے کے بعد اب بشار حکومت کے قدم جمنے لگے ہیں اور داعش پسپا ہوتی نظر آ رہی ہے مگر کسی بھی فریق کا پلڑا فیصلہ کن انداز میں بھاری نہیں ہے۔
ہم یہاں پاکستان میں امن اور سکون سے بیٹھے ہیں۔ ہماری غالب اکثریت یہی کہتی سنائی دیتی ہے کہ یہ ساری قتل و غارت بشار کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ دوسری طرف اہل تشیع کو یہ یقین ہے کہ بشار بالکل معصوم ہے، اور اصل مجرم سعودی عرب کے حکمران ہیں۔
ہر جابر حکمران، ہر ڈکٹیٹر اپنی حکومت بچانے کے لیے ظلم کرتا ہی ہے۔ جیسے مظالم کی داستان اسد خاندان نے رقم کی تھی، ویسی ہی عراق میں صدام کے عہد میں دکھائی دیتی ہے۔ لیکن صدام ہمارا ہیرو ہے، اور بشار ایک ظالم شخص۔ یہی سب کچھ برادر اسلامی ممالک میں بھی ہو رہا ہے۔ لیکن وہ نیک اور خدا ترس حکمران قرار پاتے ہیں اور غلطی صرف بشار میں نظر آتی ہے۔ اگر بشار اور شامی عوام لڑ جھگڑ کر آپس میں ہی فیصلہ کرتے تو آج بشار بھی شاہ ایران کی مانند ملک سے فرار ہوتا دکھائی دیتا۔
جب سعودی عرب اور قطر کی جانب سے القاعدہ اور داعش کی مدد بھی کی جانے لگی تاکہ بشار کا تختہ الٹا جائے تو وہ ہمیں حق بجانب لگتے ہیں، مگر ایران اور لبنانی حزب اللہ کی علوی شیعہ بشار کی مدد ہمیں غلط نظر آتی ہے۔ یمن میں حوثی اگر مصری صدر جمال عبدالناصر کی حامی حکومت کے خلاف لڑیں تو وہ ہمیں بھائی لگتے ہیں کیونکہ وہ سعودیوں کے اتحادی ہیں، مگر وہی حوثی جب سعودیہ کی حامی حکومت کے خلاف لڑیں تو وہ دشمن قرار پاتے ہیں اور ہم ان کے خلاف لڑنے کو تیار ہیں اور وہاں لڑائی کے لیے پاکستانی فوج بھیجنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر بحرین کے عوام اپنے ڈکٹیٹر کو ہٹانے کے لیے بغاوت کریں اور وہ اپنی اور سعودی فوج کی مدد سے ان کو طاقت سے دبا دے، تو وہ حق بجانب ہے، لیکن اگر شامی صدر بشار الاسد یہی کام کرے، تو مجرم صرف بشار ہے۔
اگر بشار دشمنی میں القاعدہ اور داعش تک کی مدد سعودی عرب، ترکی اور قطر کریں تو وہ ہمیں جائز نظر آتی ہے، مگر جب ان ظالموں کے خلاف بشار کی مدد ایران اور روس کریں تو ہمیں لگتا ہے کہ مجرم صرف بشار ہے۔ اب یہی داعش جس کی بشار کے خلاف یہ سب مدد کرتے رہے ہیں، مسجد نبوی کی دیوار تلے خودکش حملہ کرتی ہے تو کیا پھر بھی مجرم صرف بشار ہی ہے؟
اگر ہم اصول کا ساتھ نہیں دیں گے، اور صرف اپنے فرقے کی سطح پر ہی رہ کر سوچیں گے، تو مجرم صرف بشار نہیں ہے۔ پھر مجرم ہم سارے مسلمان ہیں۔ ہم اپنے مسلک کے ظالم کو برا نہیں کہیں گے، اور صرف مخالف مسلک والا ہی مجرم ٹھہرے گا، تو پھر مجرم ہم سارے مسلمان ہیں۔
صحیح بخاری میں درج ہے کہ رسول پاکؐ نے فرمایا کہ ’اپنے ظالم یا مظلوم بھائی کی مدد کرو، ایک شخص نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ میں تو جب کوئی مظلوم ہوتا ہے اس کی مدد کرتا ہوں تو فرمائیے کہ ظالم کی مدد کس طرح کروں، آپ نے فرمایا کہ تو اسے ظلم کرنے سے روک دے یہی اس کی مدد ہے‘۔
ہم نے اس فرمان مقدس پر عمل کرتے ہوئے ظالم کی مدد نہیں کی اور نتیجہ یہ ہے کہ اب مسجد نبوی بھی ظالم کے خود کش حملوں سے لرزنے لگی ہے۔
Source:
http://www.humsub.com.pk/20488/adnan-khan-kakar-156/
Brilliant kakar sb