صادقین کی اماں کی تصویر – حکیم فاروق سومرو
صادقین کا عشق برش اور رنگوں سے کچھ یوں تھا کہ خواہ وہ کھانے کا وقفہ ہو یا دو گھڑی کسی سے بات کرنے میں انتظار طلب ہو جاتا تو ہاتھوں کی بے چینی ان کو چین سے بیٹھنے نہ دیتی اور اگر ایک بار کام شروع ہوجاتا تو بیچ میں وقفہ آنا انتہائی مشکل ہوتا تھا۔ ہاں اگر کبھی امّاں سے چھیڑ خانی کا موڈ ہو تب ہی کام تھوڑا رک پاتا تھا۔
ایسا ہی ایک دن تھا جب صادقین اپنی اماں کے پاس آئے لیکن انہیں نماز میں مشغول پا کر وہیں پاس پڑے موڑھے پر براجمان ہو گئے۔ہاتھوں کی گدگداہٹ چین نہیں لینے دیتی تھی۔ٹکٹکی باندھے اماں کو نماز پڑھتے دیکھتے رہے۔اچانک کاغذ پر لکیروں کی بوچھاڑ شروع کر دی۔
صادقین بھی مصروف ہو گئے، اماں تو تھیں ہی بارگاہِ الٰہی میں مشغول۔ جب تک اماں کے وظیفے ختم ہوئے اس وقت تک بیٹا بھی اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کر چکا تھا۔
اماں : (ٹانگوں کو سیدھا کرتے ہوئے جس میں جوڑوں کے درد نے بسیرا کررکھا تھا۔) کب سے بیٹھا ہے؟
صادقین : (اپنی انگلیوں کو چٹخاتے ہوئے) ارے خوب بیٹھا اماں ، آج اللہ میاں سے دوستی کاہے کو بڑھا لی؟ (انداز کچھ شوخ سا ہو چلا تھا)
اماں : (انکساری سے) ارے کہاں مجھ حقیر میں اتنی طاقت کہ دوستی بڑھا لوں اللہ سے، میری تو اس عبادت میں بھی غرض شامل ہے۔
صادقین : (مزید شوخ ہو کر) کیوں کیا جنت کی بکنگ کرا ڈالی ؟
اماں : (شرارت کو سمجھ گئیں تھیں، شرما کر بولتی ہیں) ائے ہٹ ! میں تو یوں لمبے وظیفے کھینچ رہی تھی کہ بیٹے کو دو گھڑی سکون کے مل جاویں۔ تُو یہاں بیٹھا رہا تو میں نے سوچا چین سے بیٹھا ہے کچھ گھڑی اور بیٹھ لے۔ ورنہ وہ تیرے اللہ مارے روغن۔ دیکھ کتنا کمزور ہو گیا ہے۔ ( اماں کی آواز میں اب فکر آگئی) رات کو جو دودھ جلیبی بھگو کر رکھی وہ کھائی یا نہیں؟ میں کیا جانوں نہ ہوں، نہ کھانے کا ہوش ہو گا نہ پینے کا۔ کیسی ہڈیاں نکل آئی ہیں۔
صادقین : (آواز میں شوخی ہے انداز میں شرارت) اماں مت پوچھو (پیرس میں) کیا مزے تھے۔ صبح کو چھ بجے سو کر اور دن کو چار پانچ کے درمیان اٹھ کر بیڈ کافی پیتے۔ میں بڑے اطمینان سے شاعری کرتا تھا اور یقین جانو کہ تمہیں اطمینان دلانے کو بس اتنا ہی رہ گیا تھا کہ جو ایک کاٹس نامی فرانسیسی دوست کراچی آیا تو یہ خیال آیا کہ سیر بھر گوشت روانہ کر دیا جائے تا کہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ وہاں گوشت کیسا ہوتا ہے۔مگر سوچا وہ ہنسے گا کہ یہ کیا بھیج رہا ہوں۔سچ پوچھو تو امروہہ میں روٹی بوٹی سے ایک یا دو دن بعد جو بُچّے پکا کرتے تھے وہ یاد آ جاتے تھے اور تو اور ترکاریاں بھی ایسی ہوتیں کہ بہترین بلور کے گلدان میں پھولوں کا گلدستہ لگانے کی بجائے اگر ان کو لگا دیا جاتا تو کچھ کم خوبصورت معلوم نہ ہوتیں۔سو بھلا میں کسی وقت بھی کھانے کا ناغہ کیوں کرتا؟
اماں کے چہرے پر یہ سن کر کچھ اطمینان کے تاثرات نمایاں ہوتے ہیں مگر بیٹے کی بات پر اعتبار نہیں۔
اماں : ائے ایسے کہے ہے جیسے میں کچھ ہی نہ جانتی۔ کچے گوشت کا کیا بتائے ہے، کیا بس بوٹیاں تاک کر ہی پیٹ بھر لیتا تھا؟
صادقین : (اماں کے چھوٹے اور بڑے کے گوشت کی اقسام پر گہری نظر جانتے ہوئے چھیڑنے کے انداز میں ) ہاں اگر تم سن اکتیس میں چھدا بھیا کے لائے گوشت سے موازنہ کرتیں تو شاید پسند نہ آتا۔ارے تو پیرس میں تھا امروہہ میں تھوڑی۔ مگر اماں تم ہی کہو چاہے گوشت بڑے دربار سے ہی کیوں نہ آتا تھا چھدا کے لائے گوشت کی کوالٹی ہر سال گرتی جا رہی تھی۔یاد ہے جو ایک دن یہ بھی آیا تھا کہ گوشت کی سِگ نہیں مڑی رہ گئی۔جب گوشت چھدا لایا تھا تو گلنا چاہیئے تھا! مگر نہیں! بالکل نہیں! سِگ نہیں مڑی!
اماں بہت سنجیدگی سے اس بات کا جواب دیتی ہیں اورصادقین فقط اماں سے لچھے دار باتیں کر کے بات برائے بات کر رہے ہیں۔
اماں : ائے نہ! وہ بیچارے چھدے کا قصور نہ تھا۔وہ تو اپنی طرف سے بہترین گوشت لا رہا تھا۔ساری وجہ تو اللہ ماری دوسری جنگ عظیم کی تھی۔ارے جب گئیاں ہی سوکھ گئی تھیں۔ چھدا تو ان کو تروتازہ گھاس کھلاتا تھا۔مگر جب ہندوستان میں گھاس ہی نہ چھوڑی اللہ مارے انگریزوں نے، تو بھلا چھدے کو کیا الزام دیں۔
صادقین : (ہنسی روکتے ہوئے) اماں صحیح کہتی ہو یہ بیچارے چھدا بھیا کا قصور نہیں بلکہ پورے ہندوستان کی انحطاط پذیر معیشت کی روداد ہے اور انگریز کے عقلمندانہ طور سے ہندوستان چھوڑ دینے کا راز بھی اس میں مضمر ہے۔ اس میں نہ گاندھی کی اہنسا کو دخل ہے نہ مولوؤف (یعنی پبلک اوپینین) نہ مسلم لیگ، کسی کو بھی نہیں۔چھدا بھیا کے لائے ہوئے گوشت میں سال بہ سال خرابی کی وجہ ہندوستان کی انحطاط پذیر معیشت تھی۔شاید یہی وجہ تھی کہ انگریز نے خوشی سے ہندوستان چھوڑ دیا۔
صادقین دوران گفتگو بارہا اپنے پاس پڑے کاغذ پر پین سے کچھ لکیریں مارتے اور پھر اماں کی طرف دیکھنے لگتے اور ساتھ ہی کاغذ کو اماں سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اماں کا رخ پاندان کی طرف تھا اور اس اہم ڈِسکشن کے دوران کئی مرتبہ تمباکو پھانک چکی تھیں کہ یکا یک نظر بیٹے کے ہاتھ میں پینسل پر پڑی اور کاغذ پہ کوئی تصویر جھانکتی دکھائی دی۔
اماں : ہائیں یہ کیا ہے؟ کیا بنا ڈالا اتنی دیر میں؟ میں سمجھی کہ تو چین سے بیٹھا ہے، تو نے اتنی دیر میں دوسرا کاغذ کالا کر ڈالا بابو۔ آئے کیا ہے یہ آخر؟
صادقین : (شرما کر) ارے اماں ! تمہاری تصویر بنائی ہے۔ دیکھو اماں برا مت مانیو! میں نے تو بس ایسے ہی جب کبھی تم سے دور اڑد کی کھچڑی اور شلجم کا اچار یاد آئے گا تو اسے دیکھ لیا کروں گا۔
اماں کو یکا یک بیٹے پر ایسا پیار آتا ہے کہ تخت سے اٹھ کھڑی ہوتی ہیں اور صادقین کا ماتھا چوم لیتی ہیں۔
اماں : (جذباتی ہو کر)
پروردگار چودہ معصومین کے صدقے میں تجھے کامیاب کرے!
لوگ یہ تصویر دیکھیں تو کہیں صادقین کی ماں کی تصویر ہے!
خوب نام روشن ہو میرے چاند کا!
اب بتا کیا کام تھا؟
صادقین : (بڑے ناز سے) ایک پیالی چائے پلا دو۔
اماں : ابھی لائی میرا چاند ابھی لائی۔
یوں اماں پاؤں میں چپل ڈال کے باورچی خانے میں برتنوں کی کھٹ پٹ میں بیٹے کی چائے کا بندوبست کرنے لگیں اور صادقین بیٹھے سوچتے رہے کہ اماں کی دعا کا کیا اثر ہو گا؟ کیا رہتی دنیا تک ان کا نام باقی رہے گا؟
( آج نامور مصور ، خطاط اور شاعر صادقین کا یومِ ولادت ہے۔ آپ 20 جون 1930ء کو امروہہ میں پیدا ہوئے۔آج ان کے یوم ولادت کے موقع پر میں نے سوچا کہ ان کی زندگی کی کوئی حسین یاد آپ دوستوں سے ذکر کروں۔امید ہے تحریر پڑھ کر آپ کے دل کے تار ایک انجانے کیف و سرور سے ہل ہل گئے ہوں گے۔ )