کیا منٹو بهی ‘نعرے بازی کے نشے ‘ میں گرفتار تها ؟ – عامر حسینی

13407290_10209869038550990_5081569871483419785_n

نندتا داس سعادت حسن منٹو پہ فلم ڈائریکٹ کرنے جارہی ہیں ، انڈین ایکسپریس ڈاٹ کوم پہ پوجا کهاٹی کا اس حوالے سے کیا گیا ایک انٹرویو موجود ہے ، مجهے اس گفتگو کا ترجمہ کرنے کی تحریک اس لیے ہوئی کہ اس میں پوجا کهاٹی نے پہلا سوال ہی نندتا داس سے یہ کیا ہے کہ آٹه سال بعد وہ ڈائریکشن کی طرف لوٹ رہی ہیں تو انہوں نے منٹو کو ہی فلم کے موضوع کے لیے کیوں چنا؟ تو نندتا داس نے ایک ایسی بات کہی ہے جو مجهے کم از کم ان سب دیسی لبرلز کو کهرا جواب لگتی ہے جو سید خرم زکی کی بے باکی ، بلند ہمتی اور جرآت اظہار کو ‘نعرے بازی کا نشہ ‘ یا ‘مرنے مارنے ‘ کا فلسفہ زندگی قرار دے رہے ہیں نندتا داس نے کہا

“جس چیز نے مجهے منٹو کی طرف کهینچا وہ ان کی آزاد روح اور حوصلے کے ساته ہر طرح کی آرتهوڈوکسی کے خلاف اٹه کهڑے ہوجانا تها ، انہوں نے نایاب قسم کی حساسیت اور ہمدردی کے ساته اپنے کرداروں بارے لکها ، جتنا میں منٹو کی زندگی کی گہرائی میں ڈوبی ، مجهے احساس ہوا کہ جیسے میں اپنے باپ کے بارے میں جوکہ ایک آرٹسٹ تهے پڑه رہی ہوں -مجهے لگتا ہے کہ منٹو ہمارے زمانے کے لیے سب سے زیادہ متعلقہ Relevant ہے “

کمرشل لبرلیان یا نواز یافتہ لبرلز کو آرتهوڈوکسی کی ہر ایک قسم جس میں تکفیری فاشزم بدرجہ اتم شامل ہے ‘نعرہ بازی ‘لگتی ہے اور ‘خطرناک لفاظی ‘ لگتی ہے اور وہ اسے ایک نشہ اور عادت بد قرار دیتے ہیں اور ان کو وہ ‘نایاب حساسیت اور ہمدردی ‘ بیوقوفی لگتی ہے جو منٹو جیسے لوگ اپنے کرداروں کے لیے محسوس کیا کرتے تهے

نندتا داس نے لکها ہے کہ سعادت حسن منٹو ہوتے تو آج کے زمانے پہ بہت کچه ہوتا ان کے پاس کہنے کو جو لوگ آج کے آشوب پہ نایاب حساسیت کے ساته لکهنے اور کہنے والے کے قتل کا سبب اس کی نایاب حساسیت کو ٹهہرادیتے ہوں ان کے نزدیک نندتا داس بهی نعرے بازی کے نشے میں گرفتار ہوگی

پوجا کهاٹی : آپ آٹه سالوں بعد ڈائریکشن کی طرف لوٹ رہی ہیں – منٹو پہ فلم کو ہی کیوں چنا آپ نے ؟

این -داس : میں نے کئی سالوں تک منٹو پی فلم بنانے کے آئیڈیے کو پالا ہے یہاں تک کہ یہ خیال مرے دل میں ‘فراق ‘ فلم بنانے سے بهی پہلے تها-اب ، میں جذباتیناور تخلیقئ اعتبار سے اس کہانی کو بتلانے کے پوری طرح سے تیار یوں جسے بتلانے کی اشد ضرورت بهی ہے-جس چیز نے مجهے منٹو کی اور کهینچا وہ ان کی ‘آزاد روح ‘ اور حوصلے کے ساته ہر قسم کی آرتهوڈوکسی کے خلاف اٹه کهڑے ہوجانا تهی- انہوں نے نایاب حساسیت اور ہمدردی کے ساته اپمے کرداروں کے لیے لکها-میں جتنا منٹو کی زندگی کی گہرائی میں جهانکتی گئی مجهے اتنا ہی زیادہ احساس ہوا کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے میں اپنے والد کے بارے میں پڑه رہی ہوں جوکہ ایک آرٹسٹ تهے – مجهے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہمارے آج کے زمانے سے بہت زیادہ متعلقہ ہیں

پوجا کهاٹی : منٹو کے کام سے آپ کا پہلی بار سابقہ کیسے ہوا ؟ اور ان میں آپ کا سب سے فیورٹ کون ہے ؟

این-داس : میں نے منٹو کو پہلی مرتبہ تب پڑها جب میں کالج میں تهی اور اس کے سادہ مگر مضبوط بیانیے سے ششدر رہ گئی ، منٹو کی کئی چیزیں مری فیورٹ ہی ، براہ کرام مجهے ان میں انتخاب کا مت کہیں – منٹو نے ایک مرتبہ کہا تها ، ‘ میں معاشرے کی چولی کیوں اتارنے لگا جوکہ پہلے ہی اتری ہوئی ہے ؟ یہ درست ہے کہ میں اسے ڈهانپنے کی کوشش نہیں کرتا کیونکہ وہ مرا کام نہیں ہے …مرا کام ایک سفید چاک سے لکهنا ہے تاکہ میں بورڈ کی سیاہی کی طرف توجہ کراسکوں ‘ منٹو نے جیسا دیکها اور جو محسوس کیا بغیر اسے تحلیل کیے اس نے ویسا لکه ڈالا

پوجا کهاٹی : آپ نے اپنی فلم کا فوکس منٹو کے نان-فکشن کام پہ ہی کیوں رکهنا پسند کیا ؟

این -داس : فلم منٹو کی زندگی کے سب سے دلچسپ سات سالوں – 1946ء سے لیکر 1952ء تک – اور ان دو شہروں-لاہور اور ممبئی – جہاں وہ ان سالوں میں رہا کے گرد گهومتی ہے – اور یہ بیانیہ اس کے سب سے طاقتور افسانوں کے ساته بهی جڑا یوا ہے اور جہاں ہم اس کے کام اور اس کی زندگی دونوں کو ایک دوسرے کے ساته گهلے ملے دیکهتے ہیں -تو بس یہ فلم نہ تو اس کی کسی ایک کتاب پہ ہے نہ ہی کسی خاص کام پہ- اس کہانی کو بننے اور بتلانے میں مجهے اپنی فلم کے لکهاری علی میر کے ساته تحقیق میں تین سال لگ گئے -ایسی کہانی جو ہمارے زمانے اور مرے سے بہت زیادہ تعلق رکهتی ہے ، منٹو کی روح ہی اس فلم کی روح ہے

پوجا کهاٹی : آپ نے مرکزی کردار کے لیے نواز الدین صدیقی کو چنا ہے
این – داس : منٹو ایک چیلنجنگ رول ہے اور چند ہی اداکار منٹو کے کردار کو نبهانے کی اہلیت رکهتے ہیں -مجهے خوشینہے کہ میں نے نواز کو اس کردار کے لیے پایا ، ایسا کردار جوکہ جذبات کا ایک وسیع دائرہ دریافت کرتا ہے اور تضادات سے بهرا ہوا ہے – میں نے راسیکا دوگل کو منٹو کی بیوی صفیہ کے کردار کے لیے فائنل کیا ہے -نواز اور رادیکا یقینی بات ہے طاقتور ادکاری کے جوہر دکهائیں گے

پوجا کهاٹی : آج کے ہندوستان میں منٹو اور اس کی تخلیقی آزادی کیسے بچ پائے گی ؟

جتنا گہرائی کے ساته میں اس پروجیکٹ کے ساته جڑی ، مجهے زیادہ یقین ہوتا گیا کہ منٹو کے آج کے زمانے کے حوالے سے ‘بامعنی اور متعلقہ ‘ہونے کا – کچه زیادہ بدلاو نہیں ہوا-قریب قریب 70 سال بعد ہم ابهی تک بهی آزادی اظہار جیسے مسائل اور شناخت کی جدوجہد سے نبردآزما ہیں-یہاں تک کہ آج بهی ہماری شناختیں جات پات ، طبقہ اور مذهب کے ساته برخلاف انسانی تجربے کی عالمگیریت میں دیکهے جانے کے جوڑ کر ہی دیکهی جارہی ہیں -چیزوں پہ پابندی اور تخلیقئ اظہار کو خاموش کرائے جانے کا چلن عام ہوگیا ہے- ان زمانوں کے متعلق منٹو کے پاس کہنے کے لیے بہت کچه ہونا تها

پوجا کهاٹی : آپ منٹو کو کیسے جوڑتی ہیں ؟

این-داس : یہ اس کی بے خوفی اور انسانی حالات کار بارے گہری دلچسپی ہے جس نے مجهے ہمیشہ اس کے گہرائی سے جڑے ہونے کا احساس دلایا – انسانی زندگی کا کوئی گوشہ اس کے ہاں نہ تو ‘ان چهوا’ رہا اور نہ ہی ٹیبو قرار پایا – اس کے لیے جو شناخت کوئی معنی و قدر رکهتی تهی وہ انسان ہونا تهی-منٹو کے ہاں مشکل ترین اوقات میں لکهے ہوئے لفظوں کی بے مثال طاقت مجهے اپنے کہانی سنانے کے جذبے کی باز گشت لگتی ہے – اس کے زریعے میں نے محسوس کیا کہ میں ایک رودار اور پرجوش دنیا کے ساته اپنی لگن برقرار رکهنے کے قابل ہوئی ہوں- مجهے لگتا ہے کہ ہم سب کے اندر ‘منٹویت’ ہے – وہ گوشہ جو ہم سے روح آزاد اور بے باک متکلم ہونے کا تقاضا کرتا ہے

پوجا کهاٹی : منٹو کی تحریروں نے کئی تنازعے جنم دیے اور اسٹبلشمنٹ کو بے چین کیا- آپ ان کے کام کو کیسے دیکهتی ہو؟

منٹو تقریبا ترقی پسند ادب کے مترادف تها اگرچہ اس کے انجمن ترقی پسند ایسوسی ایشن سے تعلق تناو کا شکار تهے -تاہم اگر کوئی منٹو پہ کوئی لیبل چسپاں کرے تو ایسا کرنا محال ہے کیونکہ وہ اپنی شرائط پہ جیتا تها اور اسے سماجی تحکمات کی پرواہ نہ تهی ، وہ غیر متزلزل تها اور اس نے اسٹبلشمنٹ کی آنکهوں میں آنکهیں ڈال کر اور اکثر لطیف طنز و مزاح کے ساته بات کرنے کی خواہش کو کبهی نہ دبایا-بهارت اور پاکستان دونوں میں چهے بار اس پہ فحاشی کے الزام میں اس کی بے باک کہانیوں کی وجہ سے مقدمہ چلا- عورتیں اس کی کہانیوں پیچیدہ اور بہت زیادہ بالغ کرداروں میں سامنے آئیں بلکہ اس نے اپنی زیادہ توجہناور ہمدردانہ نظر سیکس ورکرز پہ رکهی – جب کبهی اس سے اس کی کہانیوں کے موضوع کے انتخاب پہ سوال ہوتا تو منٹو کا ردعمل یوں ہوتا:
‘اگر آپ مری کہانیوں کو برداشت نہیں کرپاتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ زمانہ اور حالات کار ہی ناقابل برداشت ہیں “

پوجا کهاٹی : آپ کے آگے کیا ارادے ہیں ؟

این-داس: منٹو ابهی شروع ہونے والی ہے اور مری توجہ فی الحال اسی پہ مرکوز ہے

Comments

comments