بینظر بھٹو پاکستانی کی سعودایزیشن کی راہ میں ایک آہنی دیوار – عامر حسینی

benazir-bhutto

اللہ دتہ لونے والا سے سرائیکی خطے کا ہر ایک زی روح بخوبی واقف ہے ، میں رینڈم لی یونہی زرا سرائیکی فوک کی تلاش کررہا تها تو یہ ویڈیو مرے هاته آگئی ، یہ ایک شادی پہ کیا جانے والا میوزک کنسرٹ ہے اور اس میں سرائیکی خطے کے لوگوں کی بڑی تعداد کو وہاں پہ چارپائیوں پہ اور کرسیوں پہ بیٹهے دیکها جاسکتا ہے ، دولہا ہاته میں گانا اور بازو پہ امام ضامن باندهے بیٹها ہے اور خوشی کے اس موقعہ پہ اللہ دتہ لونے والا دولہے کا سہرا گانے سے پہلے جناب امیر علی مرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کا سہرا گارہا ہے 80ء کی دهائی سے پہلے ایسی محافل بے تحاشا سرائیکی خطے میں منعقد ہوتی تهیں ، اور شادیوں کی ایسی تقریبات میں کسی کو کوئی ڈر اور خوف نہیں ہوا کرتا تها –

مجهے یاد پڑتا ہے کہ محترمہ بے نظیر بهٹو جب 11 سال کی جبر و ستم والی یزیدیت کے فضاء میں پهٹ جانے کے بعد برسراقتدار آئیں تهیں اور جب انہوں نے اسلام آباد میں وزرات عظمی کا حلف اٹهایا تها تو ضیاء کی باقیات کے سامنے اور یزید وقت کے ساتهیوں کے سامنے جیالوں نے جذباتی ہوکر آنکهوں میں آنسو لیے ‘زندہ ہے بهٹو ،زندہ ہے ‘ کے نعرے بلند کیے تهےتوبهی جب بے نظیر بهٹو کے بازو پہ امام ضامن بندها دیکهکر مجه پہ بهی عجب رقت طاری تهی ایسے میں ایک جیالے نے نعرہ حیدری بلند کیا اور دم مست قلندر ،بے نظیر ، دم مست قلندر شاہ نواز وغیرہ کے نعرےبلند کیے تهے تو میں نے دیکها تها کی ضیاء الحق کی باقیات کی جرنیل شاہی ، بے وردی نوکر شاہی کے چہرے بگڑ گئےتهے اور 90ء میں جب بے نظیر بهٹو کی حکومت گرگئی تو جیالوں نے پهر ایک نعرہ بنایا

یااللہ ،یارسول -بے نظیر بے قصور

مجهے یہ سب یاد کیوں آرہا ہےنہیں جانتا ، لیاری کے گراونڈ میں بهی بے نظیر جب آصف علی زرداری کے ساته پرنیہ جارہی تهیں تب بهی امام ضامن ان کے بازو پہ بندها ہوا تها اور شوکت وہاں پہ گارہا تها ، سندهی ، سرائیکی ، بلوچ ملکر جهمر ڈال رہے تهے اس زمانے میں بهی سماج میں تکثریت کے حق میں بولنے والوں کو کافر ، ملحد ، بے دین قرار دینے کا سلسلہ زور و شور سے جاری تها 18 اکتوبر کو جب شہید بی بی نے کراچی ائرپورٹ پہ قدم رکها تو سبز سوٹ پہ کالے رنگ کا امام ضامن ان کے بازو کے ساته بندها ہوا تها، بهٹو صاحب جب 70ء کا الیکشن لڑ رہے تهے تو ان کی ایک تصویر بڑی بکی اور جگہ جگہ آویزاں نظر آئی جس میں وہ گهوڑے پہ سوار ہاته میں تلوار لیے ہوئے تهے اور تلوار زوالفقار کا بڑا تذکرہ تها ، شاہ نواز کی لاش لیکر بے نظیر بهٹو جب پاکستان آئی تهیں تو جنازے کے جلوس میں نعرہ حیدری وقفے وقفے سے لگ رہا تها اور نوجوان جیالے وقفے وقفے سے کہتے تهے

غم نہ کر بے نظیر -ہم ترے مرتضی ، ہم ترے شاہنواز

کسی کو کیا پتہ تها وہی مرتضی کلفٹن کی سڑک پہ جان دے دے گا اور ننگے پیر ایک مرتبہ پهر بے نظیر بهائی کی لاش لینے پہنچے گی ، لوگوں کو یاد ہوگا کہ اس موقعہ پہ بے نظیر بهٹو نے کہا تها کہ کربلاء کا سفر ختم نہیں ہوا ، جاری ہے ، پاکستان کی سیاست میں بهٹو خاندان سے زیادہ کسی نے مکتب علی شناس کے استعاروں کے ساته اپنی والہانہ وابستگی کو کبهی ظاہر نہیں کیا تها ،المرتضی پہ آج بهی فاطمہ بهٹو ، زوالفقار جونئیر نے علم عباس نہیں اتارا اور رتو ڈیرو اور 70 کلفٹن پہ بهی آج تک علم عباس نہیں اترا

الغرض کہ خوشی کا لمحہ تها یا دکه کی انتہا کا سمے علویت کا ثقافتی اظہار چهایا رہا ، سرائیکی خطے میں شادی کے موقعہ پہ جہاں اور گیت ، نغمے گائے جاتے ہیں وہاں پہ جناب علی المرتضی سے بهی والہانہ محبت کا اظہار کیا جاتا ہے ،

ان کی جناب فاطمہ زهرا سے شادی کا زکر بهی ضرور کیا جاتا ہے ، اس کا کٹرواد ، ملائیت ، قدامت پرستی سے کوئی تعلق نہیں ہے ، یہ ہماری ثقافت کا جزو لازم ہے اور کوئی مانے یا نہ مانے مگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ اس ثقافت کو دفن کرنے کی سازش اس وقت شروع ہوئی جب اس خطے میں سعودی فنڈڈ نام نہاد اسلام برآمد کیا جانے لگا اور ہر طرف کافر ، کافر شروع ہوگئی ، کسی کو یاد ہے کہ جب ملتان میں شازیہ خشک کا میوزک کنسرٹ ہورہا تها تو یہ اسلامی جمعیت طلباء زکریا یونیورسٹی کے دہشت گرد تهے جنهوں نے کلاشنکوف سے فائرنگ کرکے ٹرانسفارمر اڑایا اور میوزک شو درہم برہم کردیا تها ،

یہ پیپلزپارٹی تهی جس نے اسلام آباد میں میوزک شو کرایا تها اور بهٹو نے اپنے دور میں سچل سرمست ، شاہ لطیف بهٹائی ، داتا گنج بخش اور بری امام ، شہباز قلندر کےمزارات کی تزئین وآرائش کی اور پهر بے نظیر بهٹو نے مزارات پہ حاضری کا سلسلہ شروع رکها اور مقامی ثقافت سے اپنے والہانہ پن کو موقعہ بہ موقعہ اجاگر کیا ، جبکہ سعودی نواز سیاست دانوں نے مقامی ثقافت کو شرکت و بدعت سے جوڑدیا اور اسلام کے نام پہ سعودئزائشن شروع کی ، ہمیں اپنی ثقافت کے مقامی لوکائی کو گاہے بہ گاہے لوگوں کے سامنے لاتے رہنے کی اشد ضرورت ہے یہ ہمارے دکهوں اور خوشی کے اہم مواقع سے جڑی ہوئی ہے اور اس میں ہماری ہزاروں سال کی تاریخ چهپی ہوئی ہے اور ہم اسے اپنے ہاتهوں سے کسی سپاہ ، کسی لشکر کے کہنے پہ دفن نہیں کرسکتے ، یہ سب دوستوں کے نام یہ خوبصورت منقبت اور گیت ہے

Comments

comments