حیض، انسانی تاریخ اور مائتھالوجی – ڈاکٹر لبنیٰ مرزا

lubna-mirza

یونیورسٹٰی آف اوکلاہوما میں‌ جب میں ‌نے 2008 سے 2010 کے دوران اینڈوکرینالوجی میں‌ فیلوشپ کی تو مجھے ریپروڈکٹو اینڈوکرینالوجی کے اور پیڈیاٹرک اینڈوکرینالوجی کے ڈپارٹمنٹس میں‌ بھی کام کرنے اور سیکھنے کا موقع ملا۔ ایک سال کے لئے ہفتے میں‌ ایک کانفرس میں‌ جانا پروگرام کا لازمی حصہ تھا لیکن مجھے ان کی کانفرنس اتنی پسند تھیں‌ کہ ان میں‌ ایک دو بار خود بھی لیکچر دئیے اور دونوں‌ سال باقاعدگی سے جاتی رہی۔ اب ان پروفیسرز کے ساتھ اچھے کام والے تعلقات ہیں۔ اور جو لوگ اس وقت ریزیڈنسی کررہے تھے وہ اب اچھے کولیگ بن گئے۔

ری پروڈکشن کی اینڈوکرینالوجی خود ایک ایسا موضوع ہے جس میں‌ معلومات بے انتہا اور نہایت پیچیدہ ہیں‌۔ صرف اس ایک موضوع میں ‌ہی اگر کوئی ماہر ہو تو وہ کافی مصروف رہے گا کیونکہ اس کے کافی مریض ہیں۔ اگر کسی کو اس میں ‌دلچسپی ہے تو لیون سپیراف کی ٹیکسٹ بک پڑھیں۔ اس کتاب میں‌ حیض یا مینسٹرویشن پر پورا باب ہے جس میں‌ سے زیر نظر تحریر کے لئے معلومات لی گئی ہیں۔

جہاں ‌تک لکھی گئی انسانی تاریخ‌ کا تعلق ہے اس میں‌ حیض سے متعلق قدیم انسانوں‌کے جادو پسند خیالات کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان تحاریر میں‌ گائے سے دودھ حاصل کرنے، اور دیگر جانوروں‌ اور فصلوں‌ کے بارے میں‌ توہمات اور اعتقادات کا بھی ذکر ہے۔ تقریباً تمام دنیا میں‌ لوگ یہی سمجھتے تھے کہ ایک خاتون جن کو حیض آئے ہوں‌ ان پر شیطان کا قبضہ ہو گیا ہے۔

پلائنی23 صدی بعد مسیح ‌میں ‌پیدا ہوئے. انہوں‌ نے ڈاکٹروں‌ کی لکھی ہوئی تقریباً 2000 کتابوں‌ سے استفادہ کیا اور اپنی کتاب ہسٹوریا نیچرالس لکھی۔ پلائنی کی لکھی ہوئی کتاب یورپی تاریخ ‌کے سیاہ ادوار میں‌ کافی مشہور تھی اور اس موضوع سے متعلق معلومات کے لئے بہت لوگ اس کو پڑھتے تھے۔ اس کتاب کے اب بھی 100 سے زیادہ نسخے تمام 37 جلدوں کے ساتھ موجود ہیں‌۔ پلائنی تنقیدی سوچ سے نابلد تھے ان کی کتابوں‌ میں‌ لکھی گئی باتوں ‌پر اکثر لوگ یقین کرتے تھے اور ان کو اپنی زندگی اور کتابوں‌ میں دہراتے بھی تھے۔ تو اس طرح‌ ایک عالمی سوچ بنتی چلی گئی۔

پلائنی نے اپنی کتابوں‌میں‌ حیض کے بارے میں ‌لکھتے ہوئے کہا کہ “اگر اس خون سے چھو بھی جائے تو نئی شراب کھٹی ہو جائے، فصلیں ‌چھو لیں‌ تو بنجر ہو جائیں، درخت مر جائیں، باغوں‌ کے بیج سوکھ جائیں، درختوں‌ کے بیج گر پڑیں‌، فولاد کی دھار کندن ہو جائے اور ہاتھی کے دانتوں‌ کی چمک دھندلی پڑ جائے، شہد کی مکھیوں‌ کے چھتے کے چھتے مر جائیں، یہاں ‌تک کہ سونے اور کانسی ایک لمحے میں ‌زنگ کا شکار ہو جائیں، ایک نہایت خوفناک بدبو ہوا میں‌بھر جائے، اگر اس کو چکھ لیں‌ تو کتے پاگل ہو جائیں‌ اور ان کے لعاب میں جان لیوا‌ زہر بھر جائے۔ اگر ایک حیض زدہ خاتون اپنے کپڑے اتار کر برہنہ ایک گندم کے کھیت میں ‌سے گزر جائے تو کیڑے مکوڑے، تتلی کے انڈے سب ختم ہو جائیں‌ اور مکئی کے کانوں‌ سے کیڑے گر پڑیں اور سارے پودے زرد پڑ جائیں‌۔ شہد کی مکھیاں‌ اگر اس کو چھولیں‌تو اپنا چھتہ چھوڑ کر بھاگ جائیں کیونکہ ان کو چور اور حیض زدہ خاتون سے کراہیت ہے جس کی ایک نظر سے تمام مکھیاں‌ موت کے گھاٹ اتر جاتی ہیں”۔

ارسطو جیسے عقل مند شخص کا خیال تھا کہ حیض زدہ خاتون اگر ایک آئینہ دیکھ لیں ‌تو وہ دھندلا پڑ جائے اور اس کے بعد جو بھی اپنے آپ کو اس آئینے میں‌ دیکھے تواس پر جادو کا اثر ہو جائے۔ سندھ میں‌ اچار بنانے کے لئے مشہور قصبے شکار پور کا نام تو ہر کسی نے سن رکھا ہو گا۔ میں ‌نے بچپن میں‌ لوگوں ‌سے سنا تھا کہ اگر ایک خاتون مہینے سے ہوں اور ان کا سایہ اچار کے برتن پر پڑ جائے تو وہ سڑ جاتا ہے اور اس کو پھینکنا پڑ جاتا ہے۔ ہندو ازم کی متھالوجی میں‌ ایک ملا جلا رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ کچھ علاقوں ‌میں‌ آج بھی جب کسی بچی کو پہلی بار ماہواری ہو تو لوگ جشن مناتے ہیں ۔ پرانے جنوبی ایشیا کے جو حیرت انگیز اور خوبصورت مندر ہیں‌ ان میں‌ کئی دیویاں ‌ایسی ہیں‌ جن میں‌ ماہواری کو ظاہر کیا گیا ہے۔ لیکن کچھ جگہ منفی خیالات بھی ملتے ہیں۔

برٹش میڈیکل جرنل میں‌ 1878 میں‌ چھپنے والے ایک آرٹیکل کے مطابق اگر ایک خاتون حیض کے دوران بیکن کو چھوئیں‌ تو وہ سڑ جاتا ہے۔

کافی گھریلو کہانیاں‌بھی مشہور تھیں‌ کہ جیسے کسی خاتون کو حیض‌ آیا تو خود بخود چیزیں ٹوٹ گئیں‌، سوئیاں‌ ٹوٹ گئیں، شیشے کرچی کرچی ہو کر بکھر گئے اور گھڑیاں‌ ٹھہر گئیں۔ اسی لئے اس تاریخ ‌کو پڑھ کر قطعاً حیرت نہیں‌کہ ماہواری اور اس کے خون کے نارمل انسانی نظام کو عجیب طریقے سے دیکھا گیا اور اس سے جو بھی چیز چھو جائے اس کو گندہ یا ناپاک تصور کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کو اکیلے اور اپنے خاندان سے الگ رکھنے کے رواج نے پرورش پائی۔ تقریباً تمام دنیا میں‌ یہ خیالات پائے جاتے ہیں‌ کہ حیض زدہ خاتون ناپاک ہیں‌ اور ان کو حیض کے دوران برتن، مذہبی عمارات یا کتابیں ‌چھونے، پوجا پاٹ میں‌ حصہ لینے یا کھانا پکانے وغیرہ سے دور رکھا جاتا ہے۔

آج کل کے ماڈرن زمانے میں جب کہ سائنسی اور میڈیکل معلومات عام بھی ہیں‌ اور آسانی سے حاصل کی جا سکتی ہیں، پھر ‌بھی کئی ملکوں ‌میں‌عجیب و غریب روئیے ملتے ہیں‌ جیسا کہ نیپال میں‌ جب بچیوں‌ کو حیض ہوں ‌تو ان کو گھر سے باہر ایک جھونپڑی میں‌ بھیج دیتے ہیں‌ جہاں‌اکثر جنگلی جانور ان پر حملہ کرتے ہیں۔ ااب کھیت میں ‌سے برہنہ گزر جائیں گی تو فصل کو تو کچھ نہیں‌ ہونا ہے لیکن گاؤں‌ کی ان غریب خواتین کی بپتا افسوس ناک ہے جن کے گھروں‌ میں‌ باتھ روم نہیں‌ ہوتے اور وہ کھیتوں‌ میں‌ جاتی ہیں‌ جہاں‌ کئی کے ریپ ہو چکے ہیں۔ یہ لوگوں ‌کے سوچنے کی بات ہے کہ کیا خیالی ہے اور کیا اصلی مسائل ہیں۔ کچھ لوگ یہ تک سمجھتے ہیں ‌کہ اس ناپاکی کی وجہ سے خواتین کا نیکیوں‌ میں‌ آگے ہو جانا ناممکن ہے۔ کافی سارے لوگ آج بھی اس دنیا میں‌ ان دقیانوسی باتوں ‌پر یقین رکھتے ہیں۔

آج کل کے زمانے میں‌ کچھ تعلیم اور شعور کی بیداری سے خیالات میں‌ تبدیلی آئی ہے لیکن پھر بھی ایک ناپسندیدگی موجود ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ناپسندیدگی سے کیا فرق پڑتا ہے؟ فرق پڑتا ہے۔ ایسی تہذیب، روایات اور تاریخ‌ کی وجہ سے حیض پر کی جانے والی سائنسی اور سماجی تحقیق پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

اس بات کی ایک مثال جو ہم سب کے سامنے ہے وہ یہ ہے کہ جب دل کی بیماریوں‌ پر ریسرچ شروع ہوئی تو زیادہ تر ریسرچر خود بھی مرد تھے اور ان کی ریسرچ میں‌ شامل سب مریض بھی تو اس لئے جب ہم لوگ اسٹوڈنٹس تھے تو یہی سمجھا جاتا تھا کہ دل کے دورے خواتین کو نہیں ‌پڑتے۔ یہ کافی ساری خواتین کے مرنے کے بعد سمجھا گیا کہ مینو پاز (سن یاس) کے بعد ایسٹروجن لیول کے گرنے سے خواتین میں ‌بھی دل کے دورے پڑنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اب فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن جب کسی دوا پر کی گئی ریسرچ کو دیکھتی ہے تو وہ اس بات پر خصوصی دھیان دیتی ہے ‌کہ جن افراد پر یہ دوا آزمائی گئ کیا وہ ساری آبادی کے نمائندے ہیں‌۔ اس کا مطلب ہے کہ دوا کے ٹیسٹ جن افراد پر کئیے گئے کیا ان میں ہر نسل، عمر اور جنس کے افراد شامل ہیں‌ یا نہیں۔ کیونکہ جس ریسرچ میں‌ آپ کے جیسے لوگ نہ ہوں ‌اس کے نتائج آپ پر لاگو نہیں ‌کیے جا سکتے۔

یہ سوال اکثر مریض پوچھتے ہیں‌کہ ماہواری کے دوران ملنا (جنسی سرگرمی) ٹھیک ہے یا نہیں۔ تو اس کا جواب ہے کہ ماہواری کے دوران چونکہ خواتین میں‌ انفکشن کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں‌ تو ان کو صفائی کا دھیان رکھنا چاہئیے اس کے علاوہ دونوں‌ پارٹنرز کو خیالی مسائل شاید ہو سکتے ہوں لیکن طبی نقطہ نگاہ سے کوئی پرابلم نہیں‌ ہوتا۔

تقریباً تمام دنیا کے انسانوں کے ذہن ‌میں ‌حیض سے متعلق عجیب و غریب خیالات ثبت ہیں۔ اگر اس موضوع سے متعلق بات چیت ہو گی، شعور میں‌ اضافہ ہو گا اور معلومات بڑھیں‌ گی تو پھر ان سے متعلق ہائی جین پروڈکٹس میں ‌بھی اضافہ ہو گا، حیض سے متعلق بہتر دوائیاں ‌بن سکیں ‌گی۔ لوگوں‌ کے لئے نارمل انسانی نظام کو سمجھنا ضروری ہے۔ اگر معلومات میں‌اضافہ ہو تو ان کو پتہ چلے گا کہ ہر مہینے حیض ہونے سے انیمیا کی بیماری، پیٹ اور کمر میں‌ درد اور تھکن کی شکایت عام ہے۔ مناسب دوائیں‌ کھانے سے حیض‌ ہر مہینے سے تبدیل کر کے سال میں‌ ایک یا دو دفعہ کر دینا ممکن ہے اور محفوظ بھی۔ یہ سجمھیں‌ کہ مہینے کے کون سے دنوں‌ میں ‌حمل ٹھہر جاتا ہے اور اس نالج کو ایسی جگہوں ‌پر استعمال کریں‌ جہاں‌ برتھ کنٹرول باآسانی دستیاب نہیں۔ مدر ٹریسا چونکہ کیتھولک تھیں‌ وہ گولیوں‌اور ٹیکوں کی بجائے کیلنڈر میتھڈ ہی انڈیا میں‌ اپنے مریضوں ‌کو بتاتی تھیں‌۔

سمجھیں ‌کہ سفر پر جائیں‌ تو کیسے مہینہ آنے سے روک دیں۔ اور خواتین کے دل و دماغ میں‌ جو ہزاروں برس سے اچھوت اور کمتر ہونے کے خیالات بٹھائے گئے ہیں‌ ان سے باہر نکل کر وہ زیادہ اعتماد کے ساتھ کسی بھی جاب کے لئے برابری سے مقابلہ کر سکیں گی۔ اب جسمانی طاقت کا تو زمانہ ہے نہیں۔ یہ وقت آج ان لوگوں‌کے فائدے میں ‌کام کرے گا جو عقل کے میدان میں‌ ترقی کریں۔

آخر میں‌ اس تحریر کے مرکزی خیال کو ایک ڈاکٹر ذرا واضح‌ طور پر اس طرح‌ ہی سمجھا سکتا ہے کہ بہہ گیا تو حیض کہلایا اور ٹھہر گیا تو ہم سب اس سے بن گئے۔

Source:

http://humsub.com.pk/12029/lubna-mirza-3/

Comments

comments